Tafseer-al-Kitaab - Al-Baqara : 178
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَاۤ١ۙ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیات قَالُوْا : وہ کہتے ہیں قَدْ سَمِعْنَا : البتہ ہم نے سن لیا لَوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہیں لَقُلْنَا : کہ ہم کہہ لیں مِثْلَ : مثل هٰذَآ : اس اِنْ : نہیں هٰذَآ : یہ اِلَّآ : مگر (صرف) اَسَاطِيْرُ : قصے کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (اگلے)
اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں بس سن لیا اگر ہم چاہیں ہم بھی ایسا کلام پیش کردیں یہ تو بس اگلوں کی کہانیاں ہیں
وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَآ لا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ۔ (الانفال : 31) (اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں بس سن لیا اگر ہم چاہیں ہم بھی ایسا کلام پیش کردیں یہ تو بس اگلوں کی کہانیاں ہیں۔ ) قریش کا اسلام سے متعلق عام رویہ گزشتہ آیت کریمہ میں کافروں نے جس طرح آنحضرت ﷺ کی جان لینے اور اسلامی دعوت کو فنا کرنے کی تدبیر کی اور اللہ نے جس طرح اسے ناکام بنایا اس کا تذکرہ ہم نے پڑھا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں یہ بتایا جارہا ہے کہ قریش نے اس آخری منصوبہ بندی سے پہلے بھی کوئی تدبیر ایسی نہیں چھوڑی جس سے اسلامی دعوت کو ناکام کیا جاسکتا ہو اور قریش نے اسے بروئے کار لانے کی کوشش نہ کی ہو۔ آنحضرت ﷺ جب اپنی دعوت کے مبادی کا ذکر اور بنیادی عقائد کی وضاحت فرماتے تو اس کی تائید میں جستہ جستہ انبیائے کرام کی دعوت کا ذکر بھی ضرور فرماتے۔ اسی طرح جب قریش کو ان کے انجام سے باخبر کرنے کے لیے تنبیہ فرماتے تو سابقہ انبیائے کرام کی امتوں پر آئے ہوئے عذابوں کا ذکر بھی کرتے۔ مقصود صرف یہ ہو تاکہ قریش آنحضرت ﷺ کی دعوت کو کوئی نئی بات یا اجنبی خیال نہ کریں اور جب سابقہ امتوں پر عذاب کا ذکر کرتے تو مقصد یہ تھا کہ انھیں اس بات کا یقین آجائے کہ ہم کوئی سابقہ امتوں سے کوئی مختلف امت نہیں ہیں اگر ہم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اللہ کا عذاب ہم پر بھی اتر سکتا ہے۔ لیکن قریش کے بگڑے ہوئے سردار بجائے اس سے اثر قبول کرنے کے مذاق اڑاتے انبیائے کرام کی عبرت آموز اور پر از حکمت دعوت اور حالاتِ زندگی کو گزشتہ لوگوں کے قصے کہانیوں سے تعبیر کرتے اور لوگوں کو یہ تصور دیتے کہ کہانیاں تو ہمیشہ دل بہلانے کے لیے ہوتی ہیں ہم تمہیں اس سے بہتر کہانیاں سنا سکتے ہیں۔ قریش کا ایک سربرآوردہ آدمی نضر بن حارث جو اپنی تجارت کے سلسلے میں ملکوں ملکوں گھومتا اور مختلف قوموں کے حالات سے آشنا تھا وہ وہاں سے بطور خاص ایسی دلچسپ کہانیاں خرید کر لاتا تاکہ قرآن کریم کے مقابلے میں انھیں لوگوں کو سنایا جاسکے۔ اس لیے جب کبھی اس کے سامنے قرآن پڑھا جاتا تو وہ اپنی لائی ہوئی کہانیوں کو سنانا شروع کردیتا اور قرآن کریم کو بھی کہانیوں پر مشتمل کتاب قرار دیتا اور یہ دعویٰ کرتا کہ میں اگر چاہوں تو اس سے بہتر کہانیاں لکھ سکتا ہوں۔ اندازہ کیجئے کہ اللہ کی آخری کتاب جس کی نظیر روئے زمین پر کہیں نہیں اور عرب اپنی ساری کاوشوں کے باوجود اس کی ایک سورة کا جواب نہ لاسکے اور اس کتاب کے پیش کرنے والے کی دلآویز شخصیت اور اس کا ہر عیب سے پاک کردار جس پر قریش کبھی کوئی چھینٹا نہ اڑاسکے ان کو دیکھتے ہوئے بھی جو شخص یا قریش کے سربرآوردہ لوگ اس طرح کی باتیں کریں تو ان کے بارے میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ وہ اللہ کے بارے میں انتہائی جسارتوں کا ارتکاب کررہے ہیں اور اس کے دین کے بارے میں اس حد تک دلیر ہوچکے ہیں کہ انھیں کوئی بات کہتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے نہ اللہ کے عذاب کا خوف لاحق ہوتا ہے۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں ان کی ایسی ہی حد سے بڑھی ہوئی جسارت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ وَاِذْ قَالُوا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآئِ اَوِائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ۔ ( الانفال : 32 ) (اور یاد کرو ! جب انھوں نے کہا کہ اے اللہ ! اگر یہی حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لا۔ ) جسارت کی انتہا کفار کے اس مطالبے کو دیکھئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کفر میں ہر حد سے گزر چکے تھے اور ان کی جسارت کا عالم یہ تھا کہ وہ اللہ کو چیلنج کرنے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ انھوں نے سالوں تک اللہ کے دین کا مذاق اڑایا رسول اللہ ﷺ کی توہین کی اور صحابہ کرام کو انتہائی ایذا رسانی کانشانہ بنایا لیکن پروردگار نے بار بار ان کو مہلت دی، باربار انھیں سنبھلنے کا موقعہ دیا، کبھی ترغیب سے کام لیا کبھی ترہیب سے، اس سے انھوں نے یہ سمجھا کہ یہ عذاب کی باتیں محض ڈراوے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں اگر عذاب کو آنا ہوتا تو کبھی کا آچکا ہوتا یہ ایسا جہاز ہے جو کہیں بھی لنگر انداز ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اسی تصور کے تحت انھوں نے یہ انتہائی مطالبہ کرڈالا۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں پروردگار نے اس عقدہ سے نقاب اٹھایا ہے کہ ہم نے آج تک قریش پر عذاب کیوں نہیں نازل کیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی ان پر واضح کی ہے کہ جس ذات عزیز کی تم توہین کی جرأت کر گزرتے ہو تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ ان کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور پروردگار کو وہ کس حد تک عزیز ہیں۔
Top