Mazhar-ul-Quran - An-Naba : 37
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا یَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًاۚ
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ : جو رب ہے آسمانوں کا وَالْاَرْضِ : اور زمین کا وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ : اور جو ان دونوں کے درمیان ہے رحمن لَا يَمْلِكُوْنَ : نہ مالک ہوں گے مِنْهُ خِطَابًا : اس سے بات کرنے کے
وہ جو (ف 1) پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور خدا کا کرم کرنے والا کہ اس کے رعب و جلال سے بات نہ کرسکیں گے
شفاعت کا ذکر اور وقوع قیامت کا عقلی تقاضا۔ (ف 1) اوپر ذکر تھا جس شخص کو نیک عملوں کے بدلہ میں جنت ملے گی وہ محض عطائے الٰہی کے طور پر ملے گی ان آیتوں میں اس بیشمار عطا کی صراحت یوں فرمائی ہے کہ زمین وآسمان جنت اور نیکی کے ثواب کے درجہ کو بڑھانا سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے وہ جس کو چاہے عطا کے طور پردے اس کی بارگاہ میں کچھ کمی نہیں۔ وہ رحمن ہے اس کی رحمت بندوں پر عام ہے پھر فرمایا باوجود اس عام رحمت کے اس کا جلال بھی ایسا ہے کہ قیامت کو جب اس سے آمناسامنا ہوگا، تو بغیر اس کے حکم کے اس سے کوئی بات نہ کرسکے گا، اور اس دن بنی آدم اور ملائکہ اللہ کے روبرو وصف باندھ کر کھڑے ہوں گے یہ ذکر اس وقت کا ہے، جب اللہ تعالیٰ نیک وبد کے فیصلہ کے لیے آسمان سے زمین پر میدان محشر میں نزول فرمائے گا، اور لوگ سورج کی گرمی اور پسینہ سے گھبرائیں گے اور حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک سب انبیاء کے پاس حساب کتاب شروع ہوجانے کے لیے جائیں گے اور کسی نبی پر جرات اور طاقت نہ ہوگی کہ اللہ سے بات کرے ، آخر خاتم النبین محمدرسول اللہ کو بات کرنے کا حکم ہوگا، اور آپ کی شفاعت سے سب لوگوں کا حساب کتاب شروع ہوجائے گا، پھر فرمایا جس دن کے حساب کتاب اور عذاب سے ان لوگوں کو ڈرایاجاتا ہے اس دن کا پیش آنا ایسا یقینی ہے کہ اور اس کی صداقت ایسی ایک حق بات ہے کہ جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا، کس لیے کہ جن آیات قرآنی میں قیامت کے آنے کا ذکر ہے ان آیتوں کو یہ قیامت کے منکر لوگ محض ہٹ دھرمی سے جھٹلا رہے ہیں اگر اس ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر اپنی آنکھوں کے سامنے کے انتظام دنیا پر بھی یہ لوگ ذراغور کریں تو ان کی سمجھ میں اچھی طرح یہ بات آسکتی ہے کہ کود موجود انتظام اس کا مقتضی ہے کہ دنیا کے ختم ہونے کے بعد قیامت جیسے ایک دن کی سخت ضرورت ہے کیونکہ دنیا میں بہت سے نیک لوگ ایسے ہیں کہ عمر بھر دنیا کی اکثر راحتوں سے محروم رہے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ دنیا کی ہر طرح کی راحت میں ان کی ساری زندگی بسر ہوئی ، اب دنیا کے چھوٹے چھوٹے حاکم وآقا تو اس بات کو بڑی ناانصافی کہتے ہیں کہ نیک وبد نوکر یا غلام کو ہمیشہ ایک حالت میں رکھاجائے اس حاکم، اس حاکم احکم الحاکمین کے انصاف پر یہ دھبہ کون لگاسکتا ہے۔ کہ اس کی بارگاہ میں نہ نیکی کا کچھ ثمرہ ، نہ بدی کی کچھ پرسش ، پھر فرمایا جب قیامت کا آنا یقین ہے تو آدمی کو چاہے کہ اس دن خدا کو اچھی طرح منہ دکھانے کے ارادہ سے جہاں تک ہوسکے نیکی کرے اور جس عذاب سے اس کو ڈرایا گیا ہے اس سے ڈر کر برے کاموں سے پرہیز کرے اور یہ خوب جان لو کہ یہ دنیا میں نیک وبد جو کچھ کرے گا، اس دن وہ سب اس کے سامنے آنے والا ہے، دورز نامچہ نویس خدا کی طرف سے ہر ایک شخص پر مقرر ہیں۔ رات دن انسان کے ہر قول فعل کو لکھ لینا یہی ان کا کام ہے۔ پھر فرمایا جو کوئی اس فہمائش کے بعد بھی عقبی کے انکار پر اڑے گا تو اس کو وہاں ایسا پچھتاوا ہوگا کہ وہ عذاب کی سختی کے خیال سے یہ آروز کرے گا کاش وہ خاک ہوجائے تو اچھا ہوتا۔ صحیح مسلم ترمذی، مسند امام احمد میں جو حضرت ابوہریرہ سے روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن یہاں تک انصاف ہوگا، کہ اگر کوئی سینگ والاجانور بغیر سینگ والے جانور کو مار بیٹھے گا تو اس سے بدلہ لیاجائے گا۔ بہیقی تفسیر ابن جریر ابن ابی ھاتم کی روایتوں میں اتنا اور زیادہ ہے کہ اس بدلہ کے بعد سب جانوروں کو خاک ہوجانے کا حکم ہوگا، اور وہ خاک ہوجائیں گے جانوروں کی یہ حالت دیکھ کر حشر کے منکر لوگ یہ آرزو کریں گے کہ وہ بھی اسی طرح خاک ہوجاتے تو اللہ کے عذاب سے بچ جاتے۔
Top