Mazhar-ul-Quran - An-Nisaa : 50
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ یَتَوَفَّى الَّذِیْنَ كَفَرُوا١ۙ الْمَلٰٓئِكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْ١ۚ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
وَلَوْ : اور اگر تَرٰٓي : تو دیکھے اِذْ : جب يَتَوَفَّى : جان نکالتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے يَضْرِبُوْنَ : مارتے ہیں وُجُوْهَهُمْ : ان کے چہرے وَاَدْبَارَهُمْ : اور ان کی پیٹھ (جمع) وَذُوْقُوْا : اور چکھو عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : بھڑکتا ہوا (دوزخ)
اور (اے مخاطب ! ) تعجب کرے تبھی تو دیکھے جب فرشتے (ان) کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں ان کے چہروں اور پیٹھوں پر (آگ میں لال کئے ہوئے لوہے کے گرز) مارتے ہیں اور کہتے ہیں :” چکھو آگ کا عذاب “
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب جنگ بدر میں مشرکین مسلمانوں کی طرف (مونہہ) کرتے تھے تو سامنے سے مسلمانوں کی تلوار پڑتی تھی اور جب پیٹھ پھیرتے تھے تو فرشتے پیچھے سے مارتے تھے۔ بدر کی لڑائی میں جو مشرک مارے گئے یہ تو ان پر فرشتوں کی مار پڑنے کا حال ہے۔ عام مشرکوں کا بھی یہی حال ہے کہ اللہ کے فرشتے جن ان کی روحیں قبض کرنے آتے ہیں تو ان کو مارتے پیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب عذاب الہی کا مزہ چکھو پھر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ دنیا میں جو کچھ یہ لوگ کرتے تھے یہ اسی کا عوض اور خمیازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی ظلم ان پر نہیں کیا۔ کیونکہ اس کی عادت ظلم کی نہیں ہے۔ وہ ظلم سے بالکل پاک ہے حضور اکرم نور مجسم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام کرلیا ہے اور تمہارے واسطے بھی اس کو حرام کردیا ہے۔ اس لئے تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔
Top