Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 7
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب الْحَكِيْمِ : حکمت والی
الر یہ آئتیں ہیں حکمت والی کتاب کی
نام اور کوائف : اس سورة کا نام سورة یونس ہے۔ اس کے آخری سے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کی نافرمانی اور ایمان لانے کا مختصر تذکرہ کیا ہے ، اسی نسبت سے اس کا نام سورة یونس ہے۔ اس سورة کا ایک نام الربھی ہے جو کہ سورة کے پہلے لفظ سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ سورة مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی ، لہٰذا مکی سورة کہلاتی ہے۔ اس کی ایک سو نو آیات اور گیارہ رکوع ہیں۔ یہ سورة 1082 الفاظ اور 6567 حروف پر مشتمل ہے۔ مضامین سورة : اس سورة کے مضامین پہلی سورة توبہ کے مضامین سے خاصی مناسب رکھتے ہیں۔ گذشتہ سورة کے آخر میں توحیدورسالت کا ذکر تھا تو اس سورة میں یہی مضمون ابتداء میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ گذشتہ سورة میں زیادہ ترجہاد بالسیف کا تذکرہ تھا اور اسی سلسلہ میں غزوہ تبوک کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں مگر اس سورة میں زیادہ تر جہاد باللسان کا ذکر ہے۔ بہرحال ان دونوں سورتوں میں جہاد بھی قدرمشترک ہے۔ پچھلی سورة میں کفار کے تین گروہ یعنی کافر ، اہل کتاب اور منافق لوگوں کا رد کیا گیا تھا جب کہ اس سورة میں مشرکین کے ساتھ بحث مباحثہ ، ان کا رد اور ان کو اسلام کی دعوت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ تو گویا سورة یونس میں ایک تو توحید اور شرک کا مسئلہ بالوضاحت بیان کیا گیا ہے اور دوسرا مسئلہ حضور خاتم النبین ﷺ اور دیگر انبیاء کی نبوت و رسالت پر شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والوں کے اعترضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ پھر تیسرا مسئلہ معاد یعنی قیامت کا ہے کہ یہ بھی اجزائے ایمان میں سے ایک اہم جزو ہے۔ تو اس سورة میں قیامت کا ذکر بھی تفصیل کے ساتھ ملے گا ، اس کے علاوہ اس سورة میں سابقہ قوموں کے حالات انبیاء کی دعوت اور ان کی اقوام کا ردعمل اور پھر ان کا انجام بیان کرکے اللہ تعالیٰ نے عبرت حاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔ ان واقعات میں فرعون اور اس کی قوم کا واقعہ خاص طور پر بیان ہوا ہے۔ اس سورة کا سب سے اہم موضوع دعوت الی القرآن ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی صداقت وحقانیت کو واضح کر کے اس کے پروگرام کی طرف دعوت دی ہے۔ اس مضمون کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ نیز توحید کے عقلی اور نقلی دلائل پیش کر کے شرک کا رد کیا گیا ہے۔ نیز توحید کے عقلی اور نقلی دلائل پیش کر کے شرک کا رد کیا گیا ہے۔ بہرحال قرآن کے اسلوب بیان کے مطابق مکی سورتوں میں زیادہ تر بنیادی عقائد کا ذکر کر کے ان کی اصلاح کا سبق دیا جاتا ہے۔ مکی سورة ہونے کے ناطے سورة یونس کا بھی یہی طرہ امتیاز ہے۔ حروف مقطعات : اس سورة کی ابتداء حروف مقطعات الر سے ہوئی ہے جن کے متعلق مفسرین کرام کی مختلف آراء ہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں آنے والے اس قسم کے مفرد حروف یا تو اللہ تعالیٰ کے کسی اسم پاک کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا ان میں قرآن پاک کی کسی خاص بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ البتہ بعض مفسرین مختلف حروف کی مختلف تشریح کرتے ہیں مثلا یہ کہ ال سے اللہ مراد ہے اور را سے اللہ کی رافت اور رحمت کا اظہار ہوتا ہے۔ تو گویا ” الر ‘ ‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا کہ اے میرے بندو ! دیکھو ، میں نے تمہاری ہدایت اور راہنمائی کے لیے اپنی رافت اور رحمت کے ساتھ کتنا اچھا کلام نازل فرمایا ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں ” را “ کا اشارہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان کی طرف ہے اور پورا مطلب یہ ہے کہ ” انا اللہ الرحمن “ میں تمہارا اللہ ہون جو رحمان بھی ہوں اور یہ میری رحمت کے کرشمے ہیں کہ تمہاری ہدایت کے لیے ایک رسول برحق کو بھیجا ، ایک کتاب بھی نازل فرمائی اور تمہارے لیے تمام ظاہری اور باطنی لوازماتِ زندگی مہیا فرمائے۔ اس سورة میں آگے آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کتنے عظیم انعامات سے نوازا ہے۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں ” را “ سے روئیت مراد ہے۔ اور اس طرح معنی یہ بنتا ہے ” انا اللہ اری “ یعنی میں تمہارا اللہ ہوں جو تمہاری ہر حرکت کو دیکھ رہا ہوں۔ شاہ ولی اللہ کا نظریہ : شاہ ولی اللہ محدث (1۔ الفوز الکبیر ، ص 108 ، 109) دہلوی (رح) بذریعہ کشف یا ذوق ان حروف کے معانی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہر سورة کی ابتداء میں آنے والے حروف مقطعات اس سورة کے مضمون کا خلاسہ ہوتے ہیں اور ان حروف کو دیکھ کر سورة کی اندرونی حقیقت سمجھ آجاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہم لفظ قاضی کا استعمال کرتے ہیں ، تو اس کا پورا مفہوم فورا سمجھ آجاتا ہے کہ یہ ایک ایسی شخصیت کا ذکر ہے جس کی یہ اہلیت ہوتی ہے اور وہ فلاں کام انجام دیتا ہے۔ اسی طرح ہم بی اے ، ایم اے یا پی ایچ ڈی کا لفظ بولتے ہیں تو ان الفاظ کے معانی ومفہوم کی پوری حقیقت ہمارے ذہن میں ہوتی ہے۔ اسی طرح شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ حروف مقطعات سے بھی مخفی حقائق کی نشاندہی ہوتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) اپنی کتاب الخیر الکثیر میں لکھتے ہیں کہ ” الر “ میں مقامات انبیاء کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کے نبی اس دنیا میں آکر ہمیشہ شرور کے ساتھ متصادم رہتے ہیں۔ مشرک ، کافر ، منافق ، دہریے اور دیگر باطل عقیدے والے اور بےدین لوگ دین ِ حق کی مخالفت پر کمر بستہ رہتے ہیں اور انبیاء (علیہ السلام) ان کے مقابلے میں اللہ کے سچے دین کو پیش کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ” الر “ میں حق و باطل کے اسی تصادم کی طرف اشارہ ہے۔ چنانہ سورة ہذا میں حق و باطل کے اسی تصادم کی طرف اشارہ ہے۔ چناچہ سورة ہذا میں اس نظریہ کی جگہ جگہ تفسیر نظر آئیگی کہ اللہ نے نبیوں نے اور بالخصوص حضور خاتم النبین ﷺ نے دنیا میں کس طرح شرور وفتن کا مقابلہ کیا۔ حرف آخر : علامہ جلال الدین سیوطی (رح) اس ضمن میں آخری بات یہ فرماتے (2۔ جلالین ، ص 4 ، ج 1) ہیں کہ حروف مقطعات کا یہ نظریہ ہونا چاہیے ” اللہ اعلم بمرادہ بذلک “ یعنی ان حروف کا حقیقی معنی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ، لہٰذا ہمارا عقیدہ یہی چاہیے امنا بہ یعنی ہم اس پر ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان حروف کی جو بھی مراد ہے وہ برحق ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہی راستہ سلامتی والا ہے۔ اس معاملہ میں زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ ان الفاظ کی تعبیر وتشریح حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کے اشارات میں بھی ملتی ہے مگر بعد کے زمانے میں لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے لگے تو مفسرین نے ان حروف کے معانی کو انسانی ذہنوں کے قریب تر لانے کے لیے بعض توجیہات بھی کیں۔ مگر حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لہٰذا محتاط اور سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ اس معاملہ کو اللہ کے سپرد کردیا جائے اور یہ نظریہ رکھا جائے کہ ان حروف سے جو بھی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے ، وہی برحق ہے اور اسی پر ہمارا ایمان ہے۔ اللہ کے تمام رموز کو جاننا نہ ممکن ہے اور نہ ہی ہمارے لیے ضروری ہے۔ محکمات اور متشابہات : قرآن پاک میں بعض چیزیں حکم ہیں اور بعض متشابہ ، متشابہات پر صرف ایمان لانا ضروری ہے جب کہ محکمات پر ایمان لانے کے علاوہ ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر جہاں کہیں شک وشبہ پڑجائے تو ایسی باتوں کو محکمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر محض متشابہات کے پیچھے ہی پڑے رہے اور ان کو کریدنے کی فضول کوشش کرتے رہے تو گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔ بعض لوگ متشابہات کو غلط معانی پہنا کر ہی گمراہ ہوئے۔ قرآن پاک کی آیات اور الفاظ کو غلط معانی دینے والے لوگ پہلے زمانے میں بھی موجود تھے۔ اور ہمارے زمانے میں بھی پرویزی ، چکڑالوی اور قادیانی وغیرہ گمراہ فرقے موجود ہیں جو قرآن کی تاویلیں کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہدایت پانے کے بجائے گمراہی کی کھائیوں میں جا گرتے ہیں۔ ہماری عقلیں چونکہ ناقص ہیں لہٰذا ہمیں متشابہ آیات میں الٹی سیدھی تاویلیں کر نیکی بجائے ان محکم آیات کی روشنی میں راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ پھر بھی جو بات سمجھ میں نہ آئے تو اس پر محض ایمان لا کر اسے اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ جب کوئی بات اللہ کے نبی سے قطعی طور پر پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو اس پر عمل کرنا چاہیے خواہ وہ چیز ہماری عقل میں آئے یا نہ آئے ، ہمارا فرض اس پر ایمان لانا ہے۔ کتاب حکیم : ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” تلک ایت الکتب الحکیم “ یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔ قرآن پاک کی طوال یعنی لمبی سورتوں والا حصہ پچھلی سورة پر ختم ہوچکا ہے اور اب اس سورة مبارکہ سے دوسرا حصہ مثانی شروع ہو رہا ہے۔ یہ حصہ قرآن چودھویں پارے میں سورة نحل تک جائے گا اور اس کے بعد مئین سورتیں شروع ہوجائیں گی۔ بہرحال آیت مبارکہ میں لفظ آیات سے مراد اس سورة کی آیتیں بھی ہو سکتا ہے ، اور قرآن پاک کی مطلق آیات بھی مراد لی جاسکتی ہیں۔ فرمایا یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں جو حکیم ہے۔ حکیم کا مطلب محکم بھی ہو سکتی ہیں۔ یعنی وہ کتاب جو محکم ، مضبوط اور پکی ہے۔ سورة بینہ کے الفاظ (آیت) ” کتب قیمۃ “ کا بھی یہی معنی ہے کہ یہ بہت مضبوط اور واقعہ کے مطابق کتاب ہے جس میں تغیر وتبدل کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے تمام واقعات ، اوامر ونواہی تحریف سے بالکل پاک ہیں۔ یہ عقل سلیم اور فطرت کے عین مطابق ہیں اور ان میں غلطی کا کوئی امکان نہیں۔ یہ آیات انسان کی فلاح کے لیے بہترین پروگرام پیش کرتی ہیں ، اس کے تمام احکامات قیامت تک کے لیے کار آمد ہیں ، اب کوئی پیغمبر یا کوئی ایسی کتاب نہیں آئے گی جو ان احکام کو منسوخ کرسکے ، گویا یہ محکم کتاب کی اٹل آیتیں ہیں۔ کتاب حکیم کا مطلب حکمت والی کتاب بھی ہو سکتا ہے۔ اس کتاب کی ساری تعلیم حکمت سے لبریز ہے۔ قرآن پاک نے حکمت و دانائی کا مکمل کورس فراہم کردیا ہے۔ سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا “ جسے حکمت عطا کردی گئی اسے بہت بڑی بھلائی عطا کردی گئی۔ حکمت کا معنی فہم اور دانش کی باتیں ہوتا ہے۔ گویا یہ کتاب حکمت و دانائی کی نہایت عمیق اور دقیق باتوں پر مشتمل ہے۔ اس میں جہالت ، کمزوری یا غلطی والی کوئی بات نہیں۔ یہ ایسی کتاب ہے جس کی صداقت کا حتمی اعلان ہوچکا ہے۔ اس سورة میں قرآن حکیم کی حقانیت اور صداقت کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔ آگے دوسری آیت میں رسالت کی طرف بھی اشارات ملتے ہیں اور پھر تیسری آیت سے توحید کی حقیقت کو آشکارا کیا گیا ہے۔ آگے دیگر متفرق مضامین بھی آئیں گے ان کو مختلف دلائل کی روشنی میں بتکرار ذکر کیا گیا ہے۔ معیار رسالت قرآن پاک کی حقانیت کے بیان کے بعد اب دوسری آیت میں رسالت کے لیے تعجب انگیز ہے (آیت) ” ان اوحینا الی رجل منھم “ کہ ہم نے ان میں سے ایک مرد کی طرف وحی بھیجی ہے۔ استفہامیہ انداز میں فرمایا ، کیا یہ کوئی قابل اعتراض بات ہے ؟ روایات میں آتا ہے کہ مشرکین حضور کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ کوئی شاعر کہتا کوئی کاہن کہتا ، کسی نے دیوانگی اور افتراء کا الزام لگایا ( نعوذ باللہ) مشرکین کا نظریہ یہ تھا کہ اگر نبوت ملنی تھی تو مکہ کے کسی بڑے آدمی کو ملتی۔ ابو الحکم ( ابو جہل) بڑا آدمی ہے ، مغیرہ بڑا دولت مند ہے۔ لاکھوں اشرفیوں کی تجارت ہے ، بڑے جانوروں کا مالک ہے اور بڑے لونڈی غلام رکھتا ہے۔ نبوت کا حقدار تو وہ ہے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ طائف کی بستی میں سردار مسعود ، عبدایا لیل (1۔ سیرۃ البنی ، ص 250 ، ج 1) اور حبیب جیسے باغوں کے مالک بڑے بڑے سردار ہیں جن کی مالی حالت بڑی اچھی ہے ، نبوت تو ان کو ملنی چاہیے تھی ، بھلا محمد جیسے غریب آدمی کو یہ شرف کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ تو اس اعتراض کا جواب اللہ نے قرآن پاک میں مختلف انداز سے دیا ہے (آیت) ” اھم یقسمون رحمۃ ربک “ کیا تیرے رب کی رحمت کے تقسیم کنندہ یہ مشرک ہیں۔ فرمایا یہ لوگ مال و دولت اور جاہ واقتدار کو معیار رسالت قرار دے رہے ہیں ، حالانکہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس منصب جلیلہ کا مستحق کون ہے ؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ اس نے فرائض نبوت سے عہدہ برا ہونے کے یے صلاحیت و استعداد کس شخصیت میں ودیعت کر رکھی ہے ، اخلاق کی بلندی ، علم کا کمال اور باطنی کیفیات کا عروج جو نبی کی ذات میں ہوتا ہے وہ کسی دوسری شخصیت میں نہیں ہوتا ، لہٰذا نبوت کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی اعلیٰ وارفع ہوتا ہے۔ مردوزن کا دائرہ کار : نبوت کے ساتھ رجل کا لفظ قرآن پاک میں کثرت سے آیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کا تاج ہمیشہ مردوں کے سر پر رکھا ہے ، کسی عورت کو نبوت کا منصب عطا نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ عورتوں کے ذمے ہمیشہ آسان کام لگائے جاتے ہیں جب کہ کار نبوت بڑا مشقت طلب کام ہے۔ البتہ نبوت کے بعد دوسرا بڑا درجہ صدیقیت کا ہے جو بعض عورتوں کو بھی نصیب ہوا ہے۔ عورت کی منصب نبوت سے محرومی کو اس کی توہین پر محمول نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ تقسیم کار مردوزن کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے عین مطابق ہے۔ اللہ نے عورت میں مشقت برداشت کرنے کا مادہ مرد کی نسبت کم رکھا ہے ، اسی لیے ان کے فرائض نسبتا کم محنت طلب ہیں ، محنت مزدوری ، کھیتی باڑی ، جہاد وغیرہ مردوں کے ذمہ ہیں جب کہ عورتوں کو امور خانہ داری کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اسی طرح نماز باجماعت ، نماز جمعہ ، نماز عیدین جیسے اجتماعی امور میں عورت کا استثناء حاصل ہے۔ عنان حکومت جیسا کھٹن کام بھی مردوں کے ذمہ ہے۔ نظامِ حکومت میں عورتوں کو گھسیٹ کرلے جانا انگریز کی سنت ہے یا دہریوں کا خاصہ ہے۔ جب کی دین حق اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کہتا ہے (آیت) ” وقرن بی بیوتکن “ تم گھر میں بیٹھ کر اپنی ذمہ داری کے کام انجام دو ۔ عورتیں اپنے گھروں میں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرسکتی ہیں۔ امہات المومنین نے مخلوق کے لیے تعلیم کا فریضہ نہایت احسن طریقے سے انجام دیا مگر کسی ام المئومنین نے امور حکومت میں کبھی کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔ نہ ہی یہ مثال صحابیات میں کہیں ملتی ہے۔ عورت کو ممبری ، وزارت اور امارت تک لے جانا یورپ کی تعلیم کا اثر ہے۔ نبی کے فرائض منصبی : اس آیت میں آمدہ منھم سے مراد مخاطبین قرآن کا خاندانہ اور ان کی جنس یعنی انسانیت ہے۔ چونکہ اللہ کا نبی انسانوں کی طرف مبعوث ہوتا ہے لہٰذا نبی کا ان کی جنس میں سے ہونا بھی ضروری ہے تا کہ وہ متوحش نہ ہوں اور اس سے بآسانی استفادہ کرسکیں۔ اور نبی کے فرائض میں یہ چیز شامل فرمائی (آیت) ” ان انذر الناس “ کہ وہ لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ انذار اور بشارت ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔ جہاں ڈرانے کی بات ہے وہاں بشارت کی بات بھی کی ہے۔ اس مقام پر انذار کو مقدم رکھا ہے کہ لوگوں کو کفر ، شرک ، نفاق اور ان کی غلط کاریوں سے ڈرایا جائے۔ اللہ نے انذار کا حکم اپنے نبی کو جگہ جگہ فرمایا ہے۔ سورة مدثر میں فرمایا (آیت) ” قم فانذر “ آپ کھڑے ہوجائیں اور ان کو معصیت سے ڈرائیں۔ برائیں سے ڈرانے کے بعد اہل ایمان کو بشارت دینے کا حکم بھی ساتھ ہی دیدیا (آیت) ” وبشر الذین امنوا “ آپ ایمان لانے والوں کو خوشخبری بھی سنا دیں کی حقیقی کامیابی انہی کو حاصل ہوگی چناچہ اس سورة مبارکہ میں فلاح کے بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں بھی فرمایا کہ اے پیغمبر (علیہ السلام) آپ اہل ایمان کو خوشخبری دے دیں (آیت) ” ان لھم قدم صدق عند ربھم “ کہ ان کے لیے ان کے رب کے ہاں سچائی کا پایہ ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ (آیت) ” قدم صدق “ کا ترجمہ ” درجۃ رفیعۃ “ کرتے ہیں کہ ایمان والوں کے لیے اللہ کے ہاں بڑا اونچا درجہ ہے۔ اس میں کمال ، عروج اور ترقی کی ساری حقیتیں آجاتی ہیں جو اللہ نے ایمان والوں کے لیے مقرر کی ہیں۔ کفار کی الزام تراشی : فرمایا اللہ کا نبی تو انذار اور بشارت کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ برے عقیدے ، برے اخلاق اور برے اعمال والوں کو ڈرا رہا ہے اور اچھے عقیدے ، اچھے اخلاق اور اچھے اعمال والوں کو جنت کی بشارت دے رہا ہے ، مگر کافروں کی حالت یہ ہے (آیت) ” قال الکفرون ان ھذا لسحر مبین “ وہ نبی کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ تو کھلا جادوگر ہے ( معاذ اللہ) قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے کہ اللہ کے نبی کو کبھی شاعر کہا گیا اور کبھی کاہن ، حلان کہ اللہ کا بنی نہ کاہن ہے اور نہ شاعر۔ وہ تو وحی کے ذریعے موصول ہونے والا اللہ کا پیغام سناتا ہے۔ یہ اللہ کا وہی کلام ہے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اور اس میں ایسی عجیب اور مستحکم باتیں ہیں جو لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور مشرکوں کے پاس اس کا کوئی توڑ نہیں۔ بہرحال کافروں اور مشرکوں نے اللہ کے کلام کو جادو کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی جو کہ صریح جھوٹ ہے۔ نہ اللہ کا کلام جادو ہے اور نہ اللہ کا نبی جادوگر ہے۔ آگے موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات میں جادوگروں کا ذکر بھی آئے گا کہ ان کے اخلاق نہایت ہی پست ہوتے ہیں۔ وہ غرض کے بندے ہوتے ہیں جو جادو کے ذریعے کمائی کرتے ہیں مگر اللہ کا نبی ان باتوں سے پاک ہے اور جو کتاب وہ پیش کرتا ہے وہ اللہ کی توحیدکا درس دیتی ہے۔ چناچہ آگے توحید باری تعالیٰ کے متعلق ذکر ہوگا۔
Top