Mualim-ul-Irfan - Yunus : 5
هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ١ؕ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّ١ۚ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
ھُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے جَعَلَ : بنایا الشَّمْسَ : سورج ضِيَآءً : جگمگاتا وَّالْقَمَرَ : اور چاند نُوْرًا : نور (چمکتا) وَّقَدَّرَهٗ : اور مقرر کردیں اس کی مَنَازِلَ : منزلیں لِتَعْلَمُوْا : تاکہ تم جان لو عَدَدَ : گنتی السِّنِيْنَ : برس (جمع) وَالْحِسَابَ : اور حساب مَا خَلَقَ : نہیں پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ ذٰلِكَ : یہ اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق (درست تدبیر) ہے يُفَصِّلُ : وہ کھول کر بیان کرتا ہے الْاٰيٰتِ : نشانیاں لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : علم والوں کے لیے
وہی (اللہ) ہے جس نے بنایا ہے سورج کو اور چاند کو روشنی اور مقرر کی ہیں اس کے لیے منزلیں تا کہ تم جان لو گنتی سالوں کی اور حساب۔ نہیں پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے اس کو مگر حق کے ساتھ۔ وہ تفصیل سے بیان کرتا ہے آیتیں ان لوگوں کے لیے جو سمجھ رکھتے ہیں
ربط آیات : اس سورة کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حقانیت کو واضح کیا پھر نبوت پر اعتراض کرنے والوں کا رد فرمایا اور توحید کے دلائل بیان فرمائے زمین وآسمان کی پیدائش ، اللہ کی صفات ربوبیت ، خالقیت ، تدبیر اور اختیار اور اس کی عبادت کی طرف دعوت دی۔ پھر قیامت کا ذکر فرمایا اور واضح کیا کہ ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو کر اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہے۔ پھر ایمان والوں کے انعامات اور کفار کے برے حشر کا تذکرہ کیا اور بتلایا کہ ارض وسما کی پیدائش دارصل توحید کی دلیل ہے کیونکہ ان تمام چیزوں کا خالق اللہ وحدہ لا شریک ہے۔ سورج اور چاند۔ آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کے سلسلے میں عقلی دلیل پیش کی اگر انسان اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ جوہر عقل کو صحیح طور پر استعمال کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر آسانی سے ایمان لاسکتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ھو الذی جعل الشمس ضیآئ “ اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے سورج کو چمکدار بنایا (آیت) ” والقمر نوار “ اور چاند کو روشن بنایا۔ اس کائنات میں نہ صرف انسان بلکہ ہر جاندار سورج اور چاند سے مستفید ہو رہا ہے جانداروں کے علاوہ نباتات ، پوردے ، درخت اور کیڑے مکوڑے تک سورج کی ضیاء اور چاند کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ نظام شمسی میں سب سے بڑا سیارہ سورج ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی روشنی اور حرارت رکھ دی ہے جو پورے نظام کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح چاند کی دھیمی اور ٹھنڈی روشنی ایک طرف انسانوں کے لیے روشنی مہیا کرتی ہے تو دوسری طرف پھلوں میں مٹھاس پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں ایسی خاصیت رکھی ہے کہ یہ انسان کی خدمت پر مامور ہیں۔ اللہ نے سورج کے لیے ضیاء کا لفظ استعمال کیا ہے جس کی روشنی تیز اور گرم ہوتی ہے اور چاند کو نور فرمایا ہے کہ اس کی روشنی مدہم اور میٹھی ہوتی ہے۔ اس نظام شمسی میں اللہ نے سورج کی روشنی کو مستقل حیثیت دی ہے جب کہ باقی سیاروں کی روشنی سورج سے مستعار ہوتی ہے۔ چاند اور دیگر سیارے بذات خود روشن نہیں ہیں بلکہ جب سورج کی روشنی ان پر پڑتی ہے تو وہ بھی روشن ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے چاند کا مشاہدہ ہم ہر روز کرتے ہیں جب سورج کی روشنی چاند پر پڑتی ہے تو پھر منعکس ہو کر اس کی شعائیں زمین تک بھی پہنچتی ہیں۔ اب سائنس نے اس حد تک ترقی کرلی ہے کہ سورج کی حرارت SolAr energy سولر انرجی) کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے جس طرح آجکل سوئی گیس عام گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح کچھ عرصہ بعد سورج کی حرارت بھی خاص آلات کے ذریعے استعمال ہونے لگے گی۔ جب گیس کے ذخائر ختم ہوجائیں گے تو اس کی جگہ شمسی توانائی لے لے گی اور پھر اس سے نہ صرف گھروں کے چولھے جلیں گے بلکہ بڑے بڑے کارخانے اور بھٹیاں بھی یہ توانائی استعمال کرسکیں گے۔ اللہ نے سورج میں جلنے کا جو مادہ رکھا ہوا ہے۔ یہ جب تک اللہ کو منظور ہے اسی طرح جلتا رہیگا اور نظام شمسی کی حدود میں روشنی اور حرارت پہنچاتا رہے گا۔ چاند بھی زمین کی طرح ایک ٹھوس کرہ ہے۔ چاند پر بھی بڑے بڑے صحرا ، پہاڑ ، پتھر اور گڑھے ہیں مگر زمین کے برخلاف اس پر کوئی ندی نالہ نہیں۔ سیارہ چاند بالکل خشک ہے اور اسی لیے وہاں پر زندگی کے کوئی آثار موجود نہیں۔ جو لوگ اب تک چاند پر پہنچے ہیں وہ پانی اور خوراک کا ذخیرہ زمین سے لے کر گئے ہیں۔ چاند کے بعد دوسرے سیارے مریخ کے متعلق بھی معلومات حاصل کی جارہی ہیں۔ وہاں پر سبزے کے آثار پائے جاتے ہیں مگر وہاں تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا اب تک سائنسدان وہاں کی کچھ تصاویر ہی لینے میں کامیاب ہوئے ہیں چاند کے علاوہ باقی سیارے زمین سے بہت دور ہیں جن کی مسافت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی راکٹ اپنی تیز ترین رفتار سے اڑان کرے تو بھی وہاں پہنچنے میں دو سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ بہرحال قدرت کے اس نظام کو انسان عقل کے ذریعے غور وفکر کر کے سمجھ سکتا ہے اور پھر اس سے فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔ فرمایا چاند کو روشنی بنایا (آیت) ” وقدرہ منازل “ اور اس کے لیے منزلیں مقرر کردیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چاند کی اٹھائیس منزلیں ہیں اور وہ ہر روز نئی منزل میں ہوتا ہے۔ پھر ایک یا دو دن غائب رہتا ہے اور اس طرح پورے مہینہ میں اپنی منزلیں طے کرلیتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے سورج کے لیے بھی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں۔ سورج اپنی حرکت بارہ برجوں میں جاری رکھتا ہے۔ سال بھر ان منزلوں پر چلنے کی وجہ سے موسمی تغیر وتبدل پیدا ہوتا ہے ، کبھی گرمی ، کبھی سردی ، کبھی بہار اور کبھی خزاں۔ اگر سورج پورا سال ایک ہی راستہ پر چلے تو موسم تبدیل نہ ہوں بلکہ سارا سال ایک موسم رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے تحت سورج کی منزلیں مقرر کردی ہیں جن کی وجہ سے انسان مختلف موسموں میں مختلف ضروریات حاصل کرلیتا ہے۔ فرمایا۔ ہم نے اس کی منزلیں مقرر کی ہیں (آیت) ” لتعلموا عدد السنین والحساب “ تا کہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرسکو۔ رات اور دن کا نظام بھی اللہ نے ان سیاروں کی گردش کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے لہٰذا ایک دن اور ایک رات کی تکمیل پر چوبیس گھنٹے شمار ہوتے ہیں اور پھر ایک ایک دن کر کے مہینوں ، سالوں اور صدیوں کی گنتی معلوم کرلی جاتی ہے۔ اگر دن اور رات کا تغیر وتبدل نہ ہو تو تقویم کا معلوم کرنا ممکن نہ ہو۔ تمام کاروبار اور عبادات کا نظام دن رات کے سلسلے سے منسلک ہے دن کے وقت کام کر کے آدمی تھک جاتا ہے تو رات کو آرام کر کے اگلے دن کے کام کاج کے لیے پھر تیار ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس نظام میں بڑی مصلحت رکھی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ چاند اور سورج کو تمہارے تقویم اور حساب کا ذریعہ بنایا۔ ایک حدیث شریف میں حضور ﷺ کا فرمان موجود ہے کہ اللہ کے اچھے بندے (خیار عباد اللہ) وہ ہیں جو سورج اور چاند کی نقل و حرکت سے اوقات معلوم کر کے اللہ کی عبادت کا اہتمام کرتے ہیں۔ گویا عبادت کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے۔ فرمایا (آیت) ” ما خلق اللہ ذلک الا بالحق “ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس سے پیدا کیا ہے حق کے ساتھ پیدا کیا ہے زمین اور فلکیات کا سارا نظام اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت اور تدبیر کے ساتھ چل رہا ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ (آیت) ” یفصل الایت لقوم یعلمون “ اپنی نشانیاں تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو سمجھ رکھتے ہیں۔ جو لوگ عقل و شعور سے کام لیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے ، علیم کل ہونے ، رب ہونے ، معبود ہونے اور واجب الوجود ہونے کو معلوم کر کے اس پر یقین کرلیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کا ایک مربوط نظام قائم کر رکھا ہے کہ صرف اسی میں غور وفکر کر کے انسان اللہ کی وحدانیت کا قائل ہوجاتا ہے۔ نشانیوں کو مفصل بیان کرنے کا یہی مطلب ہے۔ نشانات قدرت۔ آگے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان فی اختلاف الیل والنھار “ بیشک رات اور دن کے اختلاف میں (آیت) ” وما خلق اللہ فی السموت والارض “ اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے (آیت) ” لایت لقوم یتقون “ بیشک نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو بچتے ہیں اور تقوی اختیار کرتے ہیں ، کفر شرک اور معاصی سے بچ نکلنے والے خوب پہنچانتے ہیں کہ ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ ان میں سے ہر چیز اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اور جو لوگ کفار اور مشرکین کی طرح عقل کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرتے وہ بہرے اور گونگے ہیں ، ان کے لیے یہ نشانات قدرت کچھ مفید نہیں ہو سکتے۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کے عقلی دلائل پیش کیے ہیں کہ صاحب عقل وخرد اللہ کی پیدا کردہ مخلوق اور اس کے نظام کائنات کو دیکھ کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ اس کو قائم کرنے والا اور چلانے والا وہی وحدہ لا شریک ہے۔ معاد پر ایمان۔ توحید کے بعد آگے معاد کا ذکر آرہا ہے۔ معاد پر ایمان بھی اجزائے ایمان میں سے ہے۔ اس کے بغیر انسان ایماندار نہیں ہو سکتا۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان الذین لا یرجون لقاء نا “ بیشک وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے۔ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے ہر عمل کو جواب دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ آخرت کے لیے کوئی تیاری نہیں کریں گے ، وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے۔ آگے کون پوچھے گا ان کے دلوں میں شیطان نے ایسا وسوسہ ڈال دیا ہے کہ نہ وہ قیامت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ جزا اور سزا پر۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی دنیا میں کھا پی لو ، آگے کچھ نہیں ہے۔ سورة المومنون میں اس طرح بیان کیا گیا ہے (آیت) ” ان ھی الا حیاتنا الدنیا نموت ونحیا وما نحن بمبعوثین “ دنیا کی زندگی اتنی ہی ہے کہ ہم مرتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں مگر دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔ دوسرے مقام پر اس طرح آتا ہے کہ جو لوگ آخرت کے عقیدے پر ایمان نہیں رکھتے وہی لوگ اکثر کفر اور شرک بھی کرتے ہیں اور برائیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کا یہی عقیدہ ان کی نیکی کے راستے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ پھر وہ نہ تو کوئی اچھا کام کرتے ہیں اور نہ کسی ظلم و زیادتی سے بچتے ہیں کیونکہ ان کا محاسبے کے عمل پر یقین ہی نہیں ہوتا۔ اگر انہیں جواب دہی پر یقین ہوتا تو وہ برائیوں سے بچ جاتے۔ یہاں پر رجی کا لفظ آیا ہے جس کا معنی امید بھی ہوتا ہے اور خوف بھی۔ جیسے سورة نوح میں ہے (آیت) ” مالکم لا ترجون للہ وقارا “ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے وقار سے خوف نہیں کھاتے۔ تا ہم یہاں پر (آیت) ” یرجون “ کا معنی امید ہی زیادہ موزوں ہے یعنی وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی امید ہی نہیں رکھتے۔ دنیا اور آخرت کا تقابل۔ فرمایا ایک تو قیامت پر یقین نہیں رکھتے اور دوسری بات یہ ہے (آیت) ” ورضوبالحیوۃ الدنیا “ وہ دنیا کی زندگی پر ہی راضی ہوگئے ہیں ان کی ساری تک ودو اسی دنیا کی زندگی کے لیے ہے۔ دوسری آیت میں فرمایا (آیت) ” یعلمون ظاہرا من الحیوۃ الدنیا “ (الروم) وہ دنیا کے ظاہری حالات کو خوب جانتے ہیں (آیت) ” وھم عن الاخرہ ھم غفلون “ مگر آخرت کے بارے میں یکسر غافل ہیں۔ فرمایا جو لوگ ہماری ملاقات پر یقین نہیں رکھتے ان کی تیسری صفت یہ ہے (آیت) ” واطمانوا بھا “ اور اس زندگی کے ساتھ ہی مطمئن ہوگئے ہیں۔ وہ اسی دنیا کو اپنا مقصود ومنتہائے بنائے بیٹھے ہیں۔ حدیث شریف میں حضور ﷺ کی دعا منقول ہے (1۔ ترمذی ، 505) اللھم لا تعجل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا ولا غایۃ رغبۃ “ اے اللہ ! دنیا گو ہمارا بڑا مقصد نہ بنا اور نہ اسے ہمارے علم کی انتہائی پہنچ بنا اور نہ بنا ہماری رغبت کی منتہا بنا کہ ہم آخرت سے غافل ہو کر رہ جائیں۔ اور چوتھی بات یہ فرمائی (آیت) ” والذین ھم عن ایتنا غفلون “ اور وہ لوگ جو ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔ ہماری نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ اگر ذرا بھی دھیان دیں تو انہیں توحید کے بیشمار دلائل مل جائیں مگر وہ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قیامت کے منکرین کی چارقباحتیں بیان فرمائی ہیں کہ ایک تو وہ ہماری ملاقات پر یقین نہیں رکھتے ، دوسرا اس دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے ہیں۔ تیسرا اس دنیا کے ساتھ مطمئن ہوگئے اور کہتے ہیں (آیت) ” ربنا عجل لنا قصنا قبل یوم الحساب “ اے ہمارے رب ہمیں قیامت سے پہلے پہلے ہی جو کچھ دینا ہے دے دے۔ اور چوتھی قباحت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے غافل ہیں۔ ان کے اردگرد قدرت کے ہزاروں نشانات بکھرے پڑے ہیں مگر وہ ان سے بالکل غافل پڑے ہیں ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” اولئک ماوھم النار “ ان کا ٹھکانہ دوزخ میں ہے۔ اس وجہ سے کہ (آیت) ” بما کانوا یکسبون “ جو کمائی انہوں نے کی۔ اس دنیا کی زندگی میں انہوں نے اپنے ذہنوں میں اعتقاد فاسد کو جمایا ، کفر ، شرک ، اور معاصی کا ارتکاب کرکے خدا کے قانون کو توڑا۔ لہٰذا ان کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔ یہ معاد کا ذکر بھی ہوگیا۔ اہل ایمان کے لیے انعامات : اب منکرین کے مقابلے میں ایمان والوں کا ذکر ہوتا ہے (آیت) ” ان الذین امنوا “ بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے۔ اللہ کی وحدانیت کو صحیح طریقے سے مانا اور کفر وشرک سے بیزاری کا اعلان کیا۔ نبی کی نبوت پر ، خدا کی کتاب پر ، ملائکہ پر اور تقدیر پر ایمان لائے۔ اللہ کے رسول کہ مسلمہ باتوں پر یقین لائے ، اور اس کے علاوہ (آیت) ” وعملوا الصلحت “ نیک اعمال بھی انجام دیے۔ نماز اور روزہ کی پابندی کی ، حج اور زکوٰۃ کو ادا کیا۔ صدقہ و خیرات کیا ، انسانوں کے ساتھ نیکی کی ، مصیبت میں صبر اور راحت میں شکر ادا کیا۔ جہاد میں حصہ لیا۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” یھدیھم بایمانھم “ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی وجہ سے ان کی راہنمائی کرے گا۔ تمام اعمال کا دارومدار ایمان پر ہے اگر ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ ہیں تو ان کا پروردگار راہنمائی کرے گا۔ (آیت) ” فی جنت النعیم “ نعمت کے باغوں میں ، اور وہ ایسے باغ ہوں گے (آیت) ” تجری من تحتھم الانھر “ جن کے سامنے نہریں بہتی ہوں گی۔ اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی خوشخبری بھی سنا دی۔ اہل جنت کی تسبیحات : فرمایا جب اہل ایمان راحت کے مقام میں پہنچیں گے تو (آیت) ” دعوھم فیھا سبحنک اللھم “ تو وہاں ان کی دعا یہ ہوگی۔ اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے۔ اللہ کی یہ تسبیح غیرارادی طور پر جنتیوں کی زبان پر جاری ہوجائے گی۔ جنت میں کسی مالی یا بدنی عبادت کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ صرف قولی عبادت ہوگی جو کہ تسبیحات کی صورت میں ان کی زبانوں سے ادا ہوگی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ یہ تسبیح اہل جنت کو الہام کی جائیگی اور وہ ہر وقت سبحان اللہ ، الحمد للہ وغیرہ کا ورد کرتے رہیں گے جس طرح سانس انسان کو الہام کیا گیا ہے اور وہ غیرارادی طور پر ہر وقت اور ہر حالت میں سانس لیتا رہتا ہے۔ اسی طرح اہل جنت اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتہلیل بیان کرتے رہیں گے۔ اے پروردگار ! تیری ذات ہر عیب ، نقص ، شراکت کمزوری اور عجز سے پاک ہے۔ سلامتی کے نغمے : فرمایا جنتیوں کی ایک صفت یہ بھی ہوگی (آیت) ” وتحیتھم فیھا سلم “ وہاں پر ان کی ملاقات سلام سے ہوگی۔ جب جنت والے ایک دوسرے کو ملیں گے تو ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔ جب فرشتوں سے ملاقات ہوگی تب بھی سلام ہوگا۔ ادھر اللہ تعالیٰ فرمائیگا۔ سلام علیکم “ اے میرے بندو ! تم پر سلام ہو۔ سورة یسن میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں (آیت) ” سلم قولا من رب رحیم “ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر سلام ہو۔ غرضیکہ ہر ملاقات سلام کے ساتھ ہوگی۔ اور اس کے علاوہ ہر مجلس میں ان کی آخری دعا یہ ہوگی۔ (آیت) ” واخردعوٰھم ان الحمد للہ رب العلمین “ بیشک تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ دنیا کے سازو سامان بھی اسی نے مہیا کیے ہیں اور ابدی راحت کے مقام میں بھی وہی مہربانی فرما رہا ہے۔ اس لیے تمام کی تمام تعریفیں اسی ذات کے لیے ہیں۔ آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کے عقلی دلائل پیش کردیے ہیں اور ساتھ ساتھ قیامت کا ذکر بھی کردیا ہے۔ اس ضمن میں قیامت کے دن پر ایمان لانے والے اور اس کے منکرین کا حال بھی علیحدہ علیحدہ بیان فرما دیا ہے۔
Top