Mualim-ul-Irfan - Hud : 102
وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌ١ؕ اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ
وَ : اور كَذٰلِكَ : ایسی ہی اَخْذُ : پکڑ رَبِّكَ : تیرا رب اِذَآ اَخَذَ : جب اس نے پکڑا (پکڑتا ہے) الْقُرٰي : بستیاں وَهِىَ : اور وہ ظَالِمَةٌ : ظلم کرتے ہوں اِنَّ : بیشک اَخْذَهٗٓ : اس کی پکڑ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ : دردناک سخت
اور اسی طرح ہے پکڑ تیرے رب کی جس وقت کہ وہ پکڑتا ہے بستیوں میں رہنے والوں کو درآئحالی کہ وہ ظلم کرنے الے ہوتے ہیں۔ بیشک اس کی پکڑ بڑی درد ناک اور بہت شدید ہوتی ہے
ربط آیات فرعون اور اس کی قوم کا حال بیان ہوچکا ہے۔ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا مگر فرعون اور اس کے سرداروں نے آپ کی بات کا انکار کیا۔ لوگوں نے فرعون کی بات کا اتباع کیا ، حالانکہ وہ بالکل غلط موقف پر تھا ان کے انجام کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن فرعون اپنی قوم کے آگے آگے چل رہا ہوگا اور سب کو دوزخ میں لے جائیگا۔ اللہ نے دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت لگائی ، اور قیامت کو بھی وہ اسی لعنت میں گرفتار ہوں گے۔ اللہ نے مختلف بستیوں کا حال بیان فرمایا کہ ان میں سے بعض بالکل اجڑ چکی ہیں اور بعض کے نشانات موجود ہیں اور آنے والے لوگوں کے لئے باعث عبرت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے کسی نفس پر ظلم نہیں کیا۔ بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی سزا کے مستحق بنتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ لوگ جن معبودان باطلہ کی پرستش کرتے رہے ، قیامت والے دن ان کے کچھ کام نہیں آئیں گے اور صرف ہلاکت ہی ا ن کے مقدر میں ہوگی۔ اللہ والے کی گرفت ایسے ہی نافرمانوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا اشراد ہے وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القریٰ اور تیرے پروردگار کی پکڑ اسی طرح ہوتی ہے جب وہ بستیوں والوں کو پکڑتا ہے وہی ظالمۃ درآں حالیکہ وہ ظلم کرنے والے ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت صرف سابقہ اقوام نوح ، عاد ، ثمود ، لوط ، اصحاب ، ایکہ اور مدین اور قوم فرعون کے لئے ہی نہ تھی بلکہ جب بھی کوئی قوم ظلم و جور پر اتر آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت بھی آجاتی ہے۔ اور ایسے لوگوں کو بالا نتہا سزا مل کر رہتی ہے۔ ان اقوام کا ذکر اللہ نے نمونے کے طور پر کیا ہے ، وگرنہ اس کا قانون ساری مخلوق کے لئے ایک سا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کذلک نجزی کل کفورً ہم ہر ناشکر گزار کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں اور کسی گنہگار کو چھوڑتے نہیں۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ مہلت دے دیتا ہے مگر آخر کار مجرم پکڑے جاتے ہیں۔ ان اخذہ الیم شدید بیشک اللہ تعالیٰ کی پکڑ درد ناک اور بڑی سخت ہے۔ اس سے کوئی شخص بچ نہیں سکتا۔ نشان عبرت فرمایا ان فی ذلک لایۃ لمن خاف عذاب الاخرۃ بیشک اس میں نشان عبرت ہے اس شخص کے لئے جو آخرت کے عذاب سے خوف کھاتا ہے۔ اسے ڈر ہے کہ کہیں وہ بھی سابقہ قوموں کی طرح اللہ کی گرفت میں نہ آجائے۔ فرمایا آخرت کا دن ایسا ہے ذلک یوم مجموع ” لہ الناس کہ اس دن لوگوں کو اکٹھا کیا جائیگا و ذلک یوم مشھود اور یہی حاضری کا دن ہے اس دن سب کے سب اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے اور کوئی بھی غیر حاضر نہیں ہوگا اور پھر اس دن کے وقوع کے متعلق فرمایا وما نوخرۃ الا لاجل معدود ہم اس دن کو مئوخر نہیں کرتے مگر ایک مقررہ وقت تک ۔ قیامت کا دن اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے ، اس کی میعاد اور وقت مقررہ ہے۔ ہر جاندار اور شجر و حجر تک کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ پھر اسی طرح مجموعہ عالم کے لئے بھی ایک وقت مقرر ہے۔ پھر اسی طرح مجموعہ عالم کے لئے بھی ایک وقت مقرر ہے۔ یہ تمام اوقات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں اور وہ ان مقررہ اوقات پر ہر چیز کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح جب پوری کائنات کا مقررہ وقت آجائے گا تو قیامت واقع ہوجائے گی اور اسی دن کے لئے اسے مئوخر کیا گیا ہے۔ سورة انعام کی ابتداء میں بھی گزر چکا ہے کہ جس طرح ہر فرد کی عمر اور مدت مقرر ہے اسی طرح مجموعہ عالم کی بھی ایک عمر اور مدت مقرر ہے جب وہ مدت پوری ہوجائے گی تو یہ سارا سلسلہ تبدیل کردیا جائے گا۔ موجودہ پورا نظام درہم برہم ہو ائے گا اور اس کی جگہ دوسری نظام قائم ہوگا تو فرمایا کہ اس دن کو مئوخر کرنا اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت کے مطابق ہے۔ مجرم یہ نہ سمجھیں کہ وہ اس طرح ہمیشہ دندناتے پھریں گے اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ، بلکہ بتلایا یہ جا رہا ہے کہ اللہ کی حکمت کے مطابق جب وہ مقررہ دن آجائے گا تو پھر سب کو اللہ کے حضور پیش ہو کر اعمال کی جوابدہی کرنا ہوگی۔ انسانوں کی زبان بندی فرمایا یوم یات جب وہ دن آجائے گا لاتکلم نفس الا باذنہ تو کوئی شخص کلام نہیں کرسکے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آج تو لوگ طاقت اور اقتدار کے نشے میں سرشار بڑا شور مچاتے ہیں مگر اس دن کوئی شخص اس وقت تک لب کشائی نہیں کرسکے گا۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بولنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ، اس دن کوئی نہیں بول سکے گا سوائے انبیاء (علیہم السلام) کے اور ان کی پکار یہی ہوگی رب سلم رب سلم اے اللہ ! آج کے دن بچا لے ، ایسا موقع ہوگا اور ایسی دہشت طاری ہوگی۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے ان اللہ لیملی للظالم حتی اذا اخذہ لم یخلصہ بیشک اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا رہتا ہے مگر جب پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں۔ تو فرمایا آج یہ لوگ ظلم و زیادتی پر ڈٹے ہوئے ہیں مگر وہ دن بھی آنے والا ہے ۔ جب بولنے کی طاقت بھی نہیں ہوگی۔ شقاو ت و سعادت جس دن کا ذکر ہو رہا ہے اس دن انسان دوگروہوں میں تقسیم ہوں گے فمنھم شقی و سعید ان میں سے بعض بدبخت ہوں گے اور بعض نیک بخت اور آگے اللہ نے دونوں گروہوں کا انجام بھی بیان فرمایا ہے۔ یہ بدبختی اور نیک بختی دنیاوی لحاظ سے بھی ہوتی ہے ، دینی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی اگر نیک بختی کو محض دنیاوی لحاظ سے شمار کیا جائے تو بہت سے کافر ، مشرک ، نافرمان ، باغی ، ظالم اور سرکش نیک بخت سمجھے جائیں گے کیونکہ انہیں صحت و تندرستی حاصل ہے ، مال و دولت کی فراوانی ہے ، کاریں اور کوٹھیاں ہیں ، الاد اور نوکر چاکر ہیں ، جاہ اور اقتدار حاصل ہے مگر یہ حقیقی سعادت نہیں ہے۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ انسان کو حقیقی سعادت اس وقت حاصل ہوگی جب وہ انسان اکبر کے نمونے کے مطابق ہوگا جو خطیرۃ القدس میں تمام انسانیت کے لئے موجود ہے۔ اس کو وح اعظم بھی کہتے ہیں۔ جو شخص اس نمونے کے زیادہ قریب ہوگا وہی سعادت مند ہوگا اور جو شخص اس نمونے سے جتنا دور ہوگا وہ اتنا ہی بدبخت ہوگا۔ حضرت شقیق ملجی بڑے پائے کے بزرگ اور اولیاء اللہ میں سے ہوئے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں شقاوت کی علامت یہ ہے کہ انسان کا دل سخت ہوتا ہے اور اس کی آنھیں خوف خدا اور خوف آخرت سے کبھی تر نہیں ہوتیں۔ ایسے شخص کا دل دنیا کی طرف ہی راغب رہتا ہے۔ وہ لمبی لمبی آرزوئیں بادنھتا ہے ، سکی میں بناتا ہے کہ یوں کر دوں گا اور یوں کر دوں گا مگر حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔ فرماتے ہیں کہ شقی آدمی بےحیائی کی طرف بھی مائل ہوتا ہے۔ اور سعادت مند آدمی وہ ہوتا ہے جو نرم دل ہو۔ خدا کے خوف سے اس کی آنکھیں پرنم رہتی ہوں دنیا سے ایک حد تک نفرت کا اظہار کرتا ہو۔ لمبی خواہشات سے بچتا ہو او اس میں شرم و حیا کا مادہ موجود ہو۔ شقی و سعید کا انجام فرمایا فاما الذین شقوا ففی النار بہرحال جو بدبخت ہوئے وہ دوزخ میں جائیں گے لھم فیھا زفیر وشھیق وہاں ان کے لئے چیخنا چلانا اور رونے کی آوازیں ہونگی۔ مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ زفیر گدھے کی اس آواز کو کہیت ہیں جو ابتداء میں بڑی بلند ہوتی ہے اور شہیق وہ آواز ہوتی ہے جو آخر میں نرم پڑجاتی ہے یہ ایسی آواز ہوتی ہے جو سینے اور حلق سے غم واندوہ کی صورت میں نکلتی ہے تو فرمایا کہ بدبخت آدمی کے لئے دوزخ میں جا کر رونا پیٹنا اور چیخنا چلانا ہوگا خلدین فیھا مادامت السموت ولارض یہ لوگ وہیں دوزخ میں ہی رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں۔ الا ماشآء ربک مگر جوت یرا پروردگار چاہے۔ اگر اس کی مشیت ہوگی تو حالات مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ مالک ہے۔ جو چاہے کرے مگر عام قانون یہی ہے کہ شقی لوگ دوزخ میں دائمی طور پر رہیں گے ان ربک فقال لما یرید بیشک تیرا پروردگار کر گزرنے والا ہے جو چاہے ۔ اس کو حق پہنچتا ہے کہ کسی بندے سے جیسا چاہے سلوک کرے۔ فرمایا واما الذین سعدواففی الجنۃ اور بہرحال وہ لوگو جو نیک بخت ہوئے۔ وہ جنت میں ہوں گے۔ خلدین فیھا مادامت السموت والارض وہ اسی میں مقیم رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں۔ الا ماشآء ربک سوائے اس کے کہ جو تیرا پروردگار چاہے وہ اگر کچھ اور فیصلہ کرنا چاہے۔ یا اس قانون میں کوئی استثنا برتنا چاہے تو وہ مختار کل ہے۔ ان جنتیوں کے متعلق فرمایا عطآء غیر مجدود جنتیوں کے جنت میں جانے کا یہ ایسا انعام ہے جو قطع نہیں کیا جائے گا یعنی ایسے لوگوں کو جنت سے محروم کی کوئی صورت نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ ارض و سما کی ابدیت اس آیت کریمہ میں دوزخیوں اور جنتیوں دونوں گروہوں کے لئے مادامت السموت والارض کے الفاظ آئے ہیں ، یعنی جب تک آسمان و زمنی کا نظام قائم ہے دونوں گروہ اپنے اپنے مقام پر رہیں گے۔ ان الفاظ سے یہ متر شح ہوتا ہے کہ جنت اور دوزخ کا قیام ابدی نہیں بلکہ زمین و آسمان کی موجودگی تک ہے ، اور جب یہ نظام بدل جائے گا تو جنت یا دوزخ سے نکلنا پڑے گا ، حالانکہ مشہور یہ ہے کہ جنت اور دوزخ ہمیشہ رہیں گے ۔ اس اشکال کے جواب میں مفسرین فرماتے ہیں کہ عربی محاورے میں جب لندی کا ذکر کرنا ہو تو آسمان سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ انسانی ذہن میں آسمان بلند ترین جگہ پر ہے اور جب پستی کا ذکر مطلوب ہو تو زمین سے تشبیہدی جاتی ہے تو اس سے پوری کائنات مرد ہوتی ہے جس میں کسی چیز کو استشناء حاصل نہیں ہوتا دوسری بات یہ ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے ، زمین و آسمان کو دیکھ رہا ہے کہ ان میں کوئی تغیر و تبدل پیدا نہیں ہوتا لہٰذا اس کے دل میں ان کی ابدیت کا تصور پیدا ہتا ہے اور جب زمین و آسمان کے قیام کے حوالے سے کسی بات کا ذکر کیا جائے تو مراد یہی ہوتی ہے کہ زمین و آسمان کی طرح یہ چیز بھی ابدی ہے تو یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں دوزخی اور جنتی اپنے اپنے مقام میں رہیں گے۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ یہ لوگ ان مقامات پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے اور وہاں سے نکالے نہیں جائیں گے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں مذکورہ آسمان و زمین سے مراد اس دنیا کے آسمان و زمین نہیں بلکہ آخرت کا آسمان اور زمین مراد ہے۔ آگے سورة ابراہیم میں آ رہا ہے ۔ ” یوم تبدل الارض غیر الارض والسموت “ وہ دن آنے والا ہے جب کہ موجودہ زمین اور آسمان تبدیل کردیئے جائیں گے اور ان کی جگہ دوسری زمین اور دوسرا آسمان قائم ہوگا۔ ظاہر ہے کہ قیامت کے بعد جو زمین و آسمان قائم کئے جائیں گے وہ ابدی ہوں گے ، لہٰذا اس آیت میں آخرت کے زمین و آسمان مراد ہیں۔ جس طرح یہ زمین آسمان ابدی ہوں گے اسی طرح جنتیوں اور دوزخیوں کا قیام بھی ابدی ہوگا۔ ماشاء اللہ کی توجیہات یہاں پر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جنت اور دوزخ کا قیام ابدی ٹھہرا تو پھر ماشاء اللہ کے استثناء کا کیا مطلب ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جنت اور دوزخ کے قیام کے علاوہ حشر کا جو عرصہ ہوگا اس میں نہ تو لوگ جنت میں ہوں گے اور نہ دوزخ میں تو اس عرصہ کو الا ماشآء اللہ پر ہی محول کر سکیت ہیں۔ اس ضمن میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ دوزخی لوگ جب جہنم میں جلتے جلتے کافی عرصہ گزاریں گے اور وہ شدید پیاس میں مبتلا ہوں گے ، تو انہیں حجیم (گرم آگ) سے حمیم (گرم پانی) کی طرف لے جایا جائے گا تو یہ درمیانی عرصہ الا ماشاء اللہ کی استثنائی حالت میں ہوگا ، کیونکہ اس وقفہ کے دوران دوزخی کم از کم دوزخ میں نہیں ہوں گے۔ ایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جنتیوں کا جنت میں اور دوزخیوں کا دوزخ میں قیام اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے اگرچہ بعض گمراہ فرقوں کا یہ خیال بھی ہے کہ خدا تعالیٰ جنتیوں کو جنت میں اور دوزخیوں کو دوزخ میں رکھنے پر مجبور ہے مگر یہ غلط نظریہ ہے حقیقت یہ ہے اللہ تعالیٰ کسی کام پر ہرگز مجبور نہیں ہے ، بلکہ وہ اپنی مشیت کے مطابق جو چاہے کرنے پر قادر ہے ، لہٰذا جنت اور دوزخ میں رکھنے کا فیصلہ خالصتاً اس کی مرضی پر موقوف ہے ، وہ جو چاہے فیصلہ کرے ، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ بہرحال جہاں تک جنت اور دوزخ کی ابدیت کا تعلق ہے ، یہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک وقت ایسا بھی آئیگا کہ موت کو ذبح کردیا جائے گا اور جنت والوں سے کہا جائیگا خلود ولا موت تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اور اب موت نہیں آئے گی پھر دوزخ والوں سے بھی یہی کہا جائے گا جس کا مطلب بھی یہی ہے کہ جنت اور دوزخ ابدی میں اور وہاں پہنچنے والوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہیں رہنا ہوگا البتہ جنتیوں کے متعلق خاص طور پر فرمایا گیا ہے۔ عطا غیر مجذوذ جنت میں داخلہ ایک ایسی بخششیں ہے جو منقطع نہیں ہوگی۔ سورة التین میں بھی اس قسم کے الفاظ آئے ہیں کہ اہل ایمان اور اعمال صالح کے مرتکبین کے لئے آخر غیر ممنون نہ ختم ہونے الا اجر ہوگا۔ شرک اور اس کا بدلہ آگے شرک کی مذمت بیان فرمائی فلاتک فی مریۃ مما یعبدھولآء آپ اس چیز سے شک میں نہ پڑیں جس کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں ، کیونکہ مایعبدون الا کما یعبد ابآئو ھم من قبل یہ بھی انہی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت اس سے پہلے ان کے آبائو اجداد کرتے آئے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے شرک کے ارتکاب میں آپکو کسی قسم کا شک نہیں ہونا چاہئے۔ یہ پکی بات ہے کہ نزول قرآن کے زمانے کے مشرک یا موجودہ زمانے کے مشرک انہی معبودان باطلہ کی پوجا کر رہے ہیں جو ان کے بزرگ سے چلے آ رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ جوئی غیر اللہ کی پرستش کریگا وہ ہلاک ہو کر رہے گا فرمایا وانا لموفوھم نصیبھم غیر منقوص اور ہم ان کو پورا پورا بدلہ دینے والے ہیں۔ ان کو پوری پوری جزا ملے گی اور اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ کفر و شرک یا ظلم و زیادتی کرنے والے قطعاً یہ خیال نہ کریں کہ وہ کسی طرح اللہ کی گرفت سے بچ جائیں گے ، بلکہ انہیں ان کے کئے کا مکمل بدلہ ملے گا۔ اس سے یہ مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں جو حصہ مقرر ہے۔ وہ پورا پورا دیا جائے گا۔ دنیا میں ہر نیک و بد کے لئے اللہ کے علم کے مطابق ایک ایک حصہ مقرر ہے جو لازماً ہر ایک کو ملے گا۔ اس دنیا کی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے صحت ، زندگی ، مال ، الاد ، راحت جو کچھ بھی لوازمات زندگی کے طور پر مقرر کیا ہے ، وہ سب کچھ مل کر رہے گا اور اس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جب یہ مقررہ حصے مکمل ہوجائیں گے تو پھر سزا کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے گا۔ گویا اپنا پورا حصہ حاصل کرلینے کے بعد اگلی منزل آئیگی۔
Top