Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 31
وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى١ؕ بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا١ؕ اَفَلَمْ یَایْئَسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا تُصِیْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِهِمْ حَتّٰى یَاْتِیَ وَعْدُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۠ ۧ
وَلَوْ
: اور اگر
اَنَّ
: یہ کہ (ہوتا)
قُرْاٰنًا
: ایسا قرآن
سُيِّرَتْ
: چلائے جاتے
بِهِ
: اس سے
الْجِبَالُ
: پہاڑ
اَوْ
: یا
قُطِّعَتْ
: پھٹ جاتی
بِهِ
: اس سے
الْاَرْضُ
: زمین
اَوْ
: یا
كُلِّمَ
: بات کرنے لگتے
بِهِ
: اس سے
الْمَوْتٰى
: مردے
بَلْ
: بلکہ
لِّلّٰهِ
: اللہ کے لیے
الْاَمْرُ
: کام
جَمِيْعًا
: تمام
اَفَلَمْ يَايْئَسِ
: تو کیا اطمینان نہیں ہوا
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: وہ لوگ جو ایمان لائے (مومن)
اَنْ
: کہ
لَّوْ يَشَآءُ اللّٰهُ
: اگر اللہ چاہتا
لَهَدَى
: تو ہدایت دیدیتا
النَّاسَ
: لوگ
جَمِيْعًا
: سب
وَلَا يَزَالُ
: اور ہمیشہ
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: وہ لوگ جو کافر ہوئے (کافر)
تُصِيْبُهُمْ
: انہیں پہنچے گی
بِمَا صَنَعُوْا
: اس کے بدلے جو انہوں نے کیا (اعمال)
قَارِعَةٌ
: سخت مصیبت
اَوْ تَحُلُّ
: یا اترے گی
قَرِيْبًا
: قریب
مِّنْ
: سے (کے)
دَارِهِمْ
: ان کے گھر
حَتّٰى
: یہانتک
يَاْتِيَ
: آجائے
وَعْدُ اللّٰهِ
: اللہ کا وعدہ
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
لَا يُخْلِفُ
: خلاف نہیں کرتا
الْمِيْعَادَ
: وعدہ
اور اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ اس کے ساتھ پہاڑوں کو چلایا جاتا یہ اس کے ساتھ زمین کے ٹکڑے کیے جاتے یا اسکے ساتھ مردوں سے کلام کیا جاتا (تو پھر بھی یہ لوگ نہ مانتے ) بلکہ معاملہ سب کا سب اللہ کے ہاتھ میں ہے کیا مایوس نہیں ہوئے وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہدایت دے دے سب لوگوں کو اور برابر کہیں گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا پہنچتی رہے گی ان کو اس وجہ سے جو انہوں نے کیا ، کھٹکھٹانے والی چیز یا اترے گی وہ ان کے گھروں سے قریب یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آجائے بیشک اللہ تعالیٰ نہیں خلاف کرتا وعدے کا ۔
(ربط آیات) یہ آیت بھی گزشتہ آیات کے ساتھ ہی مربوط ہے ، کافر اور مشرک لوگ من مانی نشانیاں طلب کرتے تھے ، اللہ نے فرمایا کہ یہ ضدی اور عنادی لوگ ہیں ، انہیں حقیقت کی طلب نہیں ہے ، اس لیے انہیں راہ راست نصیب نہیں ہو سکتا ، صراط مستقیم کے حقدار وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی طرف رجوع رکھتے ہیں اور ہدایت کے طالب ہوتے ہیں ، گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے اطمینان قلب کا نسخہ بھی بتلا دیا کہ یہ ذکر الہی ہی ہے جو دلوں کے سکون کا باعث بن سکتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے انجام کا ذکر بھی فرمایا ، حضور ﷺ کے لیے تسلی کا مضمون بھی نازل فرمایا کہ کفار ومشرکین کی طرف سے مخالفت کوئی نئی چیز نہیں ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے ، اسی طرح آپ سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف بھی ہادی بھیجے مگر وہ لوگ اپنی ضد اور عناد کی وجہ سے مخالفت پر اڑے رہے اللہ نے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کی طرف سے مخالفت کی پروا کیے بغیر اللہ اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھیں اور اپنا تبلیغی مشن جاری رکھیں اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں ۔ (شان نزول) آج کا درس مشرکین کے اعتراضات کے جواب میں ہی ہے وہ لوگ طرح طرح کے مطالبات کرتے تھے ، مثلا یہ کہ آپ اس قرآن کے ذریعے مکہ کے پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دیں یہاں پر زمین ہموار ہوجائے اور ہم یہاں کھیتی باڑی کرسکیں ، وہ یہاں پر نہریں جاری کرنے کا مطالبہ بھی کرتے تھے نیز یہ بھی مطالبہ کرتے کہ آپ اس قرآن کے ذریعہ زمین کے ٹکڑے کردیں یا ہمارے فوت شدہ آباؤ اجداد کو زندہ کردیں تاکہ ہم ان کے ساتھ بات چیت کرسکیں مشرکین ایمان لانے کے لیے اس قسم کی شرائط اور بیہودہ اعتراضات پیش کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے آج کے درس میں مشرکین کی غلط فرمائشوں کا رد فرمایا ہے اور ان کو جواب دیا ہے کہ اللہ نے اپنی کتاب قرآن کریم اس قسم کی فرمائشوں کی تکمیل کے لیے نازل نہیں کی بلکہ اس کتاب کو اللہ نے ذریعہ ہدایت بنا کر بیجھا ہے تاکہ لوگ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر کامیابی کی منزل حاصل کرسکیں ۔ (قرآن ذریعہ ہدایت) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولوان قرانا “۔ اور اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ (آیت) ” سیرت بہ الجبال “۔ اس کے ذریعے پہاڑوں کو چلایا جاتا (آیت) ” اوقطعت بہ الارض “۔ یا اس کے ذریعے زمین کے ٹکڑے کردیے جاتے (آیت) ” اوکلم بہ الموتی “۔ یا مردوں سے باتیں کی جاتیں ، مگر اللہ نے اپنی کتابیں اس مقصد کے لیے نازل نہیں فرمائیں ، اللہ تعالیٰ نے تمام کتب سماویہ اور صحائف کو لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے ، یہ قرآن پاک بھی اللہ کی آخری کتاب ہے اور دیگر کتب کی طرح منبع رشد وہدایت ہے مگر اس سے چھومنتر کا کام نہٰں لیا جاسکتا کہ اس کو دم کرکے لوگوں کی فرمائشیں پوری کی جائیں یہ کتاب تو گمراہی کو دور کرکے نیکی اور ہدایت کی طرف بلانے والی چیز ہے ، اس کے ذریعے کفر وشرک مٹتا اور ایمان آتا ہے ۔ ظلم وجور کی جگہ عدل و انصاف لیتا ہے ، نجاست کی بجائے پاکیزگی ، اور بداخلاقی کی جگہ اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں ، نزول قرآن کا مقصد خود قرآن کی زبان سے یہ ہے (آیت) ” کتب انزلنہ الیک مبرک لیدبروا ایتہ ولیتذکر اولوا الالباب “۔ ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف اس لیے نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غوروفکر کریں ، اس پر عمل پیرا ہوں اور دانا لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں ، سورة ابراہیم کی ابتداء میں ہی قرآن کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے (آیت) ” لتخرج الناس من الظلمت الی النور “۔ تاکہ اس کے ذریعے آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں ، کفر ، شرک ، بدعات معاصی وغیرہ سب ظلمات ہیں ، ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے قرآن پاکو اپنانا ہوگا ، اس کے بغیر ایمان اور توحید کی روشنی نصیب نہیں ہو سکتی ۔ (قرآن کا مفہوم) اس مقام پر قرآن کریم سے مراد قرآن پاک بھی ہے اور مطلق کتاب بھی ، قرآن کے لغوی معنی پڑھی جانے والی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ چاروں کتب اور صحائف پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ، انسائیکلوپیڈیا میں بھی قرآن کے متعلق یہی لکھا ہے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ، اور یہی اس کے برحق ہونے کی علامت ہے ، حدیث شریف میں قرآن کا اطلاق زبور پر بھی کیا گیا ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر قرآن کا پڑھنا آسان کردیا تھا ، آپ (علیہ السلام) اپنے خادم کو حکم دیتے کہ گھوڑے کو اصطبل سے نکال کر اس پر زین ڈالو ، یہ حکم دے کر آپ زبور کی تلاوت شروع کردیتے اور جب تک خادم گھوڑے کو سواری کے لیے تیار کرتا ، آپ پوری زبور کی تلاوت کرلیتے ، قرآن کریم کے متعلق بھی آتا ہے کہ بعض حضرات پر اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہوتی ہے جو تھوڑے وقت میں بہت زیادہ تلاوت کرلیتے ہیں ، بعض بیچارے زیادہ وقت میں بھی تھوڑی سی تلاوت کر پاتے ہیں ، بہرحال یہ اللہ کی دین اور اس کی مہربانی ہے کہ وہ اپنے کلام کی تلاوت میں آسانی پیدا کردیتا ہے ۔ الغرض ! اس مقام پر اگر قرآن سے مراد مطلق کتاب لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر کسی کتاب سے پہاڑوں کو چلانے ، زمین کو ٹکڑے کرنے یا مردوں سے ہم کلام ہونے کا کام لیا جاسکتا تو قرآن پاک سے تو بطریق اولی ایسا ہو سکتا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے کوئی بھی کتاب یا صحیفہ اس مقصد کے لیے نازل نہیں فرمایا کہ اس سے لوگوں کی فرمائشیں پوری کی جائیں بلکہ اللہ کی کتابیں تو منبع رشدوہدایت ہیں ، جو ان کی طرف رجوع کرے گا اسے راہ راست میسر آجائے گا جس پر چل کر اللہ کی رحمت کے مقام میں پہنچ جائے گا ۔ (قرآن کی برکات) فرمایا ، یہ قرآن اللہ نے تمہاری خواہشات کی تکمیل کے لیے نازل نہیں فرمایا (آیت) ” بل للہ لامر جمیعا “۔ بلکہ معاملہ سارے کا سارا اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اگر وہ چاہے تو پہاڑوں کو چلا سکتا ہے مگر اس مالک الملک نے یہ کتاب نازل فرما کر پہاڑوں کی طرح کفر وشرک پر جمے ہوئے لوگوں کو ان کی جگہ سے ہٹا کر انوار تجلیات کی وادیوں میں پہنچا دیا ہے اور انکے دلوں میں جمی ہوئی برائیوں کو اکھاڑ کر رکھ دیا ہے اور وہاں پر نور ایمان اور معرفت کے چشمے جاری کردیے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے زمین کی طرح منجمد رسومات باطلہ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور مردہ قوموں اور مردہ دلوں کو ابدی زندگی عطا کردی ہے قرآن کریم تو اس مقصد کے لیے نازل کیا گیا ہے ، اللہ نے سورة یونس میں قرآن پاک کا ایک مقصد یہ بھی بتایا ہے (آیت) ” قد جآء تکم موعظۃ من ربکم وشفآء لما فی الصدور “۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور تمام روحانی بیماریوں کے لیے شفا ہے انسان کی تمام عقلی اور روحانی ضروریات اسی قرآن پاک کے ذریعے پوری ہوتی ہیں ۔ (اجتماعی ہدایت) شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب کافر ومشرک طرح طرح کی فرمائشیں پیش کرتے تو بعض مسلمانوں کے دلوں میں بھی خیال پیدا ہوتا کہ اگر ان کی خواہش پوری کردی جائے تو شاید یہ ایمان لے آئیں مگر اللہ نے اہل ایمان کو تنبیہ فرمائی کہ دل میں ایسا خیال نہ لائیں ، یہ ضدی اور ہٹ دھرم لوگ ہیں ، اگر ان کی فرمائش پوری کر بھی دی جائے تو یہ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے ، سورة انعام میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے (آیت) ” قل انما الایت عنداللہ وما یشعرکم ، انھا اذا جآء ت لا یؤمنون “۔ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ تمام نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں ، وہ جسے چاہے ظاہر کر دے ، مگر تمہیں کیا معلوم ! ایمان والو ! اگر ان کے پاس نشانیاں بھی آجائیں تو یہ ایمان نہیں لائیں گے ، یہ ضدی اور عنادی لوگ ہیں ، اور اپنی ہٹ دھرمی سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” افلم یایئس الذین امنوا “۔ کیا اہل ایمان اس بات سے مایوس نہیں ہوئے (آیت) ” ان لویشآء اللہ “ کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے (آیت) ” لھدی الناس جمیعا “۔ تو سب کے سب لوگوں کو ہدایت دے دے خدا تعالیٰ قادر مطلق ہے ، وہ چاہے تو تمام انسانوں کو جبرا ہدایت کے راستے پر ڈال دے مگر یہ چیز اسکی حکمت اور مصلحت کے خلاف ہے اللہ تعالیٰ نے ایمان کا معاملہ خود انسان کی صوابدید پر چھوڑ رکھا ہے اس نے حق و باطل میں امتیاز بتلا کر فیصلہ انسان پر چھوڑ دیا ہے (آیت) ” فمن شآء فلیؤمن ومن شآء فلیکفر “۔ (الکہف) چاہے تو ایمان قبول کرے اور چاہے تو کفر پر اڑا رہے ، وہ جو بھی راستہ اختیار کریگا ، اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا ، البتہ کسی سے زبردستی کوئی چیز منوانا اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہے وہ تو انسان کو ہر طریقے سے آزماتا ہے (آیت) ” ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ “ (الانبیائ) وہ برائی کے ساتھ بھی آزماتا ہے اور نیکی کے ساتھ بھی ، پھر جو اس کے معیار پر پورا اترتا ہے ، کامیابی کا حقدار وہی ہوتا ہے ، الغرض ! اجتماعی ہدایت اللہ تعالیٰ کی مشیت کے خلاف ہے ہدایت کا حصول ہر شخص کی اپنی صلاحیت اور طلب پر منحصر ہے ۔ (یائیس کے مختلف معانی) یایئس کا عام فہم معنی تو مایوسی ہے ، تاہم شاہ عبدالقادر (رح) اس لفظ کا ترجمہ ” خاطر جمع کر ان “ کرتے ہیں مطلب یہ کہ کیا ان اہل ایمان کے لیے خاطر جمع نہیں ہوئی ، کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو سب کو ہدایت دے دے مگر وہ ایسا نہیں کرے گا ، اہل ایمان کو مشرکین سے ایمان کی توقع نہیں رکھنی چاہئے ۔ اہل لغت کہتے ہیں کہ قبیلہ نخع کی زبان میں یایئس کا معنی جاننا بھی وہتا ہے اور جملے کا مفہوم یہ ہے کہ کیا اہل ایمان نے اس بات کو نہیں جانا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو سب کو راہ راست پر لے آئے مگر یہ اس کی حکمت کے منافی بات ہے ، اس لفظ کو اردو زبان میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ، اور یاس کو مایوسی کے معنوں پر محمول کیا جاتا ہے ، اصغر شاعر کہتا ہے ۔ یاس ایک جنون ہوشیاری امید فریب زندگی کا : جنوں ہوشیاری یہ ہے کہ انسان کو قطعی طور پر یقین ہوجائے کہ ایسا نہیں ہوگا ، یاس زندگی کا ایک جنون ہے اور امید محض دھوکہ ہے انسان ساری زندگی امید کے دھوکے میں مبتلا رہتا ہے مگر بسا اوقات اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا ، بہرحال ہدایت کا فائدہ اسی کو حاصل ہوگاجو اپنی مرضی سے اختیار کریگا ، اللہ تعالیٰ کو ہدایت پر مجبور نہیں کرتا ۔ (کفار کے لیے دائمی مشکلات) فرمائشیں کرنے والے ازلی منکرین کے متعلق اللہ نے فرمایا (آیت) ” ولا یزال الذین کفروا “ اور ہمیشہ رہیں گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (آیت) ” تصیبھم بما صنعوا قارعۃ “۔ پہنچے گی ان کو ان کے کیے کی وجہ س کھٹکھٹانے والی چیز گویا ایسے لوگوں کو امن و سکون نصیب نہیں ہوگا ، بلکہ مشکلات میں گھرے رہیں گے ، یا تو جنگ وجدل میں مصروف رہیں گے ، یابیرونی حوادثات کا شکار ہوں گے ، (آیت) ” اوتحل قریا من دارھم “ یا وہ کھٹکھٹانے والی چیز ان کے گھروں کے قریب اترے گی یا ان پر پڑیگی جس کی وجہ سے وہ ہر وقت خوف میں مبتلا رہیں گے ، گویا ان کو ہر وقت کسی نہ کسی مصیبت کا کھٹکا لگا رہے گا ، چناچہ مشرکین عرب ہمیشہ لڑائی کے خوف میں مبتلا رہے ، یہاں تک کہ مکہ فتح ہوگیا ، ان کے گھروں میں کے قریب مصیبت اترنے کی مثال 6 ھ کا واقعہ حدیبیہ ہے حضور ﷺ پندرہ سوجانبازوں کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر اترے جس کی وجہ سے مکہ والوں میں ہلچل مچ گئی اور آخر کار یہ معاملہ ایک معاہدے کے تحت طے ہوا الغرض ! تحل اگر مخاطب کا صیغہ ہو تو معنی ہوگا کہ آپ اتریں اور اگر غائب کا صیغہ تسلیم کیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ ان کے گھروں کے قریب کوئی آفت یامصیبت اترے ۔ جب کسی علاقے میں آفت نازل ہوتی ہے تو یہ قریبی علاقے والوں کے لیے باعث عبرت ہوتی ہے ، آج ہمارے قریب مشرقی پنجاب میں سکھوں پر مصیبت پڑی ہوئی ہے تو اس سے ہمیں بھی عبرت پکڑنی چاہئے ، ذرا 35 سال پہلے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں ، ان ظالم سکھوں نے مسلمانوں پر کتنے ظلم کیے ، اللہ کے گھروں کی بےحرمتی کی ، مسجدوں کو اصطبل اور بیت الخلا بنایا ، مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ، مگر آج ان کے گوردوارے کا حال بھی ملاحظہ کرلیں ، ان کے مقدس مقام کی بےحرمتی ہوئی گولی چلی اور سینکڑوں سکھ مارے گئے تاریخ اپنے واقعات کو دہراتی ہے اس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے ، ادھر گذشتہ پانچ سال سے روس ہماری سرحدوں پر دستک دے رہا ہے ، افغانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے ، ہمیں اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ ہمارے قریب نازل ہونے والی آفت کہیں ہم پر بھی نہ آپڑے جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کسی کا لحاظ نہیں کرتی 1917 ء میں روس میں جو انقلاب آیا تھا اس میں دوکروڑ انسان ہلاک ہوئے بڑے بڑے باعزت آدمیوں کو زنجیروں میں جکڑ کر تین تین میل تک گھسیٹا گیا ، اپنے قریب مصیبت دیکھ کر انسان کو تنبیہ ہونی چاہئے اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنا چاہئے ظلم و زیادتی سے تائب ہوجانا چاہئے ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو دشمن کو حملہ کرنے کی دعوت دے اندرونی طور پر طوفان اور زلزلے بھی آسکتے ہیں ، یہ بھی انسانوں کو جھنجوڑتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے اللہ سے معافی مانگ لیں ۔ (مسلمانوں کے لیے عبرت) بنیادی طور پر تو یہ کافروں کا حال بیان کیا گیا ہے مگر یہ مسلمانوں کے لیے بھی مقام عبرت ہے ، ابتدائی دور میں مصیبت کفار کے گھروں کے قریب اترتی رہی جس میں ان کے لیے تنبیہ تھی مگر آخر کار یہ مصیبت خود ان پر بھی آن پڑی ، اسی لیے فرمایا کہ انسان کو عبرت حاصل کرنی چاہیے ، (آیت) ” حتی یاتی وعداللہ “۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ آجائے ، ابتدائی دور میں مسلمانوں کے ساتھ اللہ کا وعدہ یہ تھا کہ وہ اسلام کو غالب کرے گا ، چناچہ اللہ نے وہ وعدہ پورہ کردیا ، خلافت راشدہ قائم ہوئی اور آدھی دنیا پر مسلمانوں کو کنٹرول حاصل ہوگیا ، اور باقی آدھی دنیا ساڑھے چھ سو سال تک مغلوب رہی ، کسی میں دم مارنے کی ہمت نہ تھی پھر جب مسلمانوں میں انحطاط پیدا ہوا ، کافروں نے سر اٹھایا اور مسلمان مغلوب ہوتے چلے گئے ، وعدے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جب یہ دنیا ختم ہوگی تو دوسری دنیا قائم ہوگی ، اللہ نے یہ بھی وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا ، پھر جزائے عمل کی منزل آئیگی اور ہر ایک کے متعلق فیصلہ کردیا جائے گا موت کا وعدہ انسان کے لیے انفرادی طور پر آتا ہے اور پھر اجتماعی طور پر فنا کا وعدہ اس وقت پورا ہوگا ، جب قیامت برپا ہوجائے گی کائنات کی تمام چیزیں ختم ہوجائیں گی اور پھر نئی دنیا اور نیا نظام قائم ہوگا ، ایسے ہی وعدے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وعدا علینا “۔ (انبیائ) ہمارا وعدہ برحق ہے (آیت) ” انا کنا فعلین “۔ ہم اس نظام کو تبدیل کرکے دوسرا نظام ضرور لائیں گے ، (آیت) ” ان اللہ لا یخلف المیعاد “۔ بیشک اللہ تعالیٰ وعدے کے خلاف نہیں کرتے اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا ۔
Top