Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 115
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
حَرَّمَ
: حرام کیا
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْمَيْتَةَ
: مردار
وَالدَّمَ
: اور خون
وَلَحْمَ
: اور گوشت
الْخِنْزِيْرِ
: خنزیر
وَمَآ
: اور جس
اُهِلَّ
: پکارا جائے
لِغَيْرِ اللّٰهِ
: اللہ کے علاوہ
بِهٖ
: اس پر
فَمَنِ
: پس جو
اضْطُرَّ
: لاچار ہوا
غَيْرَ بَاغٍ
: نہ سرکشی کرنیوالا
وَّ
: اور
لَا عَادٍ
: نہ حد سے بڑھنے والا
فَاِنَّ اللّٰهَ
: تو بیشک اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
بیشک حرام قرار دیا ہے تم پر (اللہ نے) مردار ، خون ، خنزیر کا گوشت اور وہ چیز جس پر اللہ کے سوا غیر کا نام پکارا گیا ہو پس جو شخص مجبور ہوا (اس حال میں کہ) وہ سرکشی کرنے والا نہیں ہے اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا ہے پس بیشک اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا اور مہربان ہے ۔
(چاروں چیزیں) گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بیان ہوچکا ہے کہ حلال اور طیب چیزیں کھاؤ ، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو ، اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے حلت و حرمت کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے چار قطعی حرام چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ، حلت و حرمت کا یہ قانون اس سے پہلے سورة بقرہ سورة مائدہ اور سورة انعام میں بھی بیان ہوچکا ہے ، یہ بڑا اہم مسئلہ ہے جس کی پابندی اہل ایمان کے لیے نہایت ضروری ہے ان محرمات میں ان چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ماکولات میں شمار ہیں اور لوگوں کا اکثر وبیشتر ان اشیاء سے واسطہ پڑتا رہتا ہے ، یہ مسئلہ بیان کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اکثر مشرک مذکورہ محرمات کو برا نہیں سمجھتے تھے اور ان کو بلا دریغ استعمال کرتے تھے ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قطعی حرمت کا حکم لگایا ہے ۔ (1) (مردار) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” انما حرم علیکم المیتۃ “۔ بیشک اللہ نے تم پر مردار حرام قرار دیا ہے ، اگر کسی حلال جانور کو شریعت کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق ذبح نہ کیا جائے ، تو اگرچہ وہ ذبح کیا گیا ہے مگر وہ مردار کے حکم میں ہی آئے گا ، اگر کوئی جانور بھیڑ بکری وغیرہ خود بخود مر گئی تو ظاہر ہے کہ وہ تو مردار ہی ہوگی ، اور اللہ کے اس حکم کے مطابق اس کا کھانا قطعی حرام ہوگا ، سورة مائدہ میں مردار کی بعض دوسری صورتوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے یعنی وہ جانور بھی حرام ہے جو گلا گھٹ کر مرجائے ، یا چوٹ لگنے سے مرجائے یا کسی اونچی جگہ سے گر کر ہلاک ہوجائے ، یا جسے درندے پھاڑ کھائیں یا جو کسی استھان پر ذبح کیا گیا ہو ، اگر کوئی جانور عمدا اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کردیا جائے تو وہ بھی مردار کی تعریف میں آئے گا ، سکھ جھٹکا کرتے ہیں ، یا انگریز جانور کی پیشانی میں گولی مار کر ہلاک کردیتے ہیں یہ دونوں طریقے حرام ہیں ، کوئی مسلمان ایسے جانور کا گوشت نہیں کھا سکتا ، اسی طرح اگر کسی زندہ جانور کے جسم سے کوئی حصہ کاٹ لیاجائے تو وہ بھی حرام ہوگا ، زمانہ جاہلیت میں جب کسی پر مجبوری کی حالت ہوتی تھی ، کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا تو اونٹ کی کوہان کاٹ کر کھالیتے تھے زخم بعد ٹھیک ہوجاتا تھا ، اسی طرح اگر کسی دنبے کی چکی کاٹ لی جائے تو وہ حرام کے حکم میں آئے گی حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ” ما ابین من الحی فھو میت “۔ جو عضو زندہ جانور سے کاٹ کر الگ کرلیا جائے وہ مردار تصور ہوگا ، مفسرین کرام مردار کی حرمت کی یہ حکمت بیان کرتے کہ جسم میں سستی پیدا ہوتی ہے اور مردار کھانے میں لطف ونشاط کا عنصر مفقود ہوتا ہے ۔ انسان میں اخلاق رذیلہ پیدا ہوتے ہیں ، لہذا اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ (2) (خون) فرمایا ایک تو مردار حرام ہے اور دوسرا ” والدم “۔ یعنی بہنے والا خون بھی حرام ہے جانور کو ذبح کرتے وقت جو خون بہہ جاتا ہے ، یہ ناپاک اور حرام ہے ، چونکہ خوراک انسانی اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہے اس لیے خون کے استعمال سے انسان میں درندگی کی صفت پیدا ہوتی ہے ، خونخوار درندے ، شیر ، چیتا وغیرہ کی طرح انسان بھی درندگی پر اتر آتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کیلیے خون حرام قرار دیا ہے ، البتہ اضطراری حالت کا ذکر آیت کے اگلے حصہ میں آرہا ہے ، اگر کسی شخص کے جسم میں خون کی مقدار اس قدر کم ہوجائے کہ اس کی زندگی کا بچاؤ مشکل ہوجائے تو ایسی حالت میں فقہائے کرام نے ایک انسان کا خون دوسرے انسان میں منتقل کرنے کی اجازت دی ہے ، عام حالات یا معمولی تکلیف میں انتقال خون درست نہیں ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے فرمایا ہے کہ طہارت ، سماحت ، اخبات اور عدالت جیسے پاکیزہ اخلاق کی نشونما میں خوراک کو بڑا دخل حاصل ہے ، انسان جس قسم کی خوراک استعمال کرے گا اس کے اخلاق پر اسی قسم کے اثرات مرتب ہوں گے ۔ (3) (خنزیر کا گوشت) تیسری حرام چیز فرمایا (آیت) ” ولحم الخنزیر “ خنزیر کا گوشت ہے درحقیقت خنزیر کی ہر چیز بال ، کھال ، ہڈیاں ، خون وغیرہ حرام ہیں تاہم چونکہ بعض اقوام میں عام طور پر اس کا گوشت کھایا جاتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے گوشت کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد تمام انبیاء کی شرائع میں خنزیر حرام ہی رہا ہے مگر یہ سب عیسائیوں کی بدبختی ہے جو اسے بھیڑ بکری کی طرح استعمال کرتے ہیں ، جب مسیح (علیہ السلام) دنیا میں دوبارہ نزول فرمائیں گے تو وہ اپنی قوم سے سخت ناراض ہوں گے کہ جس جانور کو سارے نبیوں کی شریعت میں حرام قرار دیا گیا ، اسے آپ کی قوم نے خوب کھایا چناچہ اس کی تذلیل کی خاطر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خنزیر کو قتل کریں گے ، مولانا عبید اللہ سندھی (رح) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس جانور میں دو ایسی قبیح خصلتیں پائی جاتی ہیں جو انسانی فطرت کے خلاف ہیں ، ایک یہ کہ یہ جانور گندگی کھاتا ہے لہذا اس کا گوشت کھانے والے شخص کے دل و دماغ میں بھی گندگی کے اثرات پیدا ہوں گے ، دوسری بری خصلت یہ ہے کہ یہ ایسا بےغیرت جانور ہے کہ کئی کئی نر ایک مادہ سے بیک وقت جفتی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ خنزیر خور قوموں میں انتہائی درجے کی بےغیرتی پائی جاتی ہے ، جس کا مشاہدہ دنیا میں کیا جا رہا ہے ، غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے خنزیر کا گوشت بھی حرام قرار دیا ہے ۔ (4) (نذر لغیر اللہ) چوتھی حرام چیز نذر لغیر اللہ ہے (آیت) ” وما اھل لغیر اللہ بہ “ جو جانور اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کے تقرب اور خوشنودی کے لیے مشہور کیا گیا ہو ، وہ بھی حرام ہے اگر کوئی جانور یا دیگر کوئی چیز لات ، منات یا عزی وغیرہ کی نذر کی گئی تو وہ حرام ہوگئی ، اسی طرح شیخ سدھو کی گائے یا داتا کا بکرا اسی تعریف میں آتا ہے اھلال کا معنی ہی آواز بلند کرنا یاتشہیر کرنا ہوتا ہے ، مقصد یہ کہ اگر کوئی چیز غیر اللہ کے نام پر منسوب کی گئی تو حرام ہوجائے گی ۔ البتہ ایصال ثواب مختلف چیز ہے کوئی شخص اس نیت سے اللہ کے نام پر جانور ذبح کرے کہ اس کا ثواب فلاں بزرگ یا فلاں شخص کو ایصال کرنا مقصود ہے تو اس میں کوئی جھگڑا نہیں ، پیران پیر کی گیارھویں کا بھی صحیح تصور یہی ہے ، اور اگر عقیدہ یہ ہو کہ پیران پیر یا کسی دوسرے بزرگ کے لیے قربانی نہیں کریں گے تو وہ ناراض ہوجائے گا اور جان ومال میں نقصان کا خطرہ ہوگا تو یہی چیز نذر لغیر اللہ ہے ، غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیا جائے یا چاول پکائے جائیں یا مٹھائی تقسیم کی جائے تو اگرچہ بظاہر تو اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی مگر محققین فرماتے ہیں کہ ایسی چیز میں روحانی نجاست پائی جاتی ہے ، ایسا مال کھانے والوں کی روح ناپاک ہوجاتی ہے اور ان کا باطن مسخ ہوجاتا ہے ، ان میں اچھے جذبات کی بجائے غلیظ جذبات جنم لیتے ہیں ، اس نجاست اور برے اخلاق کو صاحب روحانیت لوگ بخوبی محسوس کرتے ہیں ۔ یہاں پر ایک اور مسئلہ بھی توجہ طلب ہے جس شخص کا عقیدہ گندا ہے اگر وہ اللہ کا نام لے کر بھی ذبح کرے گا تب بھی اس کا ذبیحہ مردار کی طرح حرام ہی ہوگا ، ذبیحہ ان کا پاک ہوتا ہے جن کا عقیدہ صحیح ہو ، البتہ اہل کتاب کو یہ رعایت دی گئی کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کریں تو وہ جائز ہوگا کیونکہ وہ اپنی نسبت آسمانی کتاب کی طرف کرتے ہیں ۔ البتہ کسی بت پرست مجوسی یا مرتد کا ذبیحہ حلال نہیں ہوگا ، خواہ وہ ہزار دفعہ اللہ کا نام لیکر ذبح کرے بہرحال اللہ نے ان چار چیزوں کا ذکر کیا ہے کہ یہ حرام ہیں ان کے قریب نہ جاؤ ۔ (بحالت اضطراری) اس قطعی حکم کے بعد استثنائی صورت بھی بیان کردی ہے (آیت) ” فمن اضطر “ جو کوئی اضطراری حالت میں ہو ، اس کے پاس حرام اشیاء کے عالوہ کھانے پینے کی کوئی چیز موجود نہ ہو اور اس کی زندگی کو خطرہ پیدا ہوجائے تو اسے ایسی اشیاء استعمال کرنے کی وقتی طور پر اجازت ہے ، بشرطیکہ ” غیر باغ “ مضطرب شخص سرکشی کرنے والا نہ ہو ، باغ سے مراد یہ ہے کہ ایسا شخص جان بچانے کے لیے نہیں بلکہ لطف اندوز ہونے کے لیے حرام چیز استعمال کر رہا ہے ایسی صورت میں کوئی حرام چیز مباح نہیں ہوگی ، بعض ائمہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی نافرمانی کے کام کے دوران کسی شخص پر اضطراری حالت وارد ہوجائے تو اس کے لیے حرام چیز مباح نہیں ہوگی ، امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چوری یا ڈاکے کی نیت سے سفر کر رہا ہے تو اسے سفر میں روزہ افطار کرنے اور نماز میں قصر کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ وہ برے مقصد کے لیے جا رہا ہے ، البتہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ایسا شخص گنہگار تو ضرور ہے مگر افطار اور قصر کا حق اسے بہرحال حاصل ہے ۔ فرمایا حرام کی اباحت کے لیے دوسری شرط یہ ہے ” ولا عاد “ کہ مضطرب شخص حد سے بڑھنے والا نہ ہو ، مثلا اگر پاؤبھر حرام کھا کر جان بچا سکتا ہے تو آدھ سیر کھانے کی کوشش نہ کرے زیادہ کھانے کی اجازت نہیں ہے ، البتہ اضطراری حالت میں اگر اس اباحت سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور اس کی جان چلی جاتی ہے تو وہ آدمی گنہگار ہوگا کہ اس نے اللہ کی دی ہوئی رعایت سے فائدہ نہیں اٹھایا اور اگر ایسی حالت میں حرام کھالیا ہے تو اللہ نے اس کی اجازت دی (آیت) ” فان اللہ غفور رحیم “۔ وہ نہایت بخشش کرنے والا اور بڑا مہربان ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر کوئی مواخذہ نہیں کرے گا ۔ (حلت و حرمت کا قانون) آگے اللہ تعالیٰ نے ایک اور مسئلہ بھی بیان فرمایا ہے (آیت) ” ولا تقولوا لما تصف السنتکم الکذب ھذا حلال وھذا حرام “۔ کسی چیز کو اپنی زبانوں سے حلال اور حرام قرار نہ دو حلت و حرمت تمہارے اختیار میں نہیں بلکہ ” الحلال ما احل اللہ والحرام ما حرم اللہ “ حلال وہ ہے جسے اللہ نے حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ حرام قرار دیا ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ، اگر میں اللہ کی توحید اور آپ کی رسالت پر ایمان رکھوں اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھوں تو کیا مجھے نجات حاصل ہوجائے گی ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں ، بیشک تم جنتی ہو ۔ کسی چیز پر حلت و حرمت کا حکم لگانا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے یہ خدا تعالیٰ کی صفت مخصوصہ ہے اور اس میں کوئی شریک نہیں ، حلت و حرمت کا اختیار نہ کسی بادشاہ کو ہے ، نہ صدر کو اور نہ کسی پارلیمنٹ کو ، شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں تحلیل وتحریم ایک تکوین نافذ کا نام ہے یعنی خدا تعالیٰ کے ہر چیز کے مالک ہونے کی وجہ سے یہ ایک قطعی حکم ہے کہ یہ کام کرو گے تو مؤاخذہ ہوگا اور فلاں چیز ترک کرو گے تو ماخوذ ہو گے بعض اوقات اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حلت و حرمت کا کام تو نبی کی طرف بھی منسوب ہے (آیت) ” ویحل لھم الطیبت ویحرم علیھم الخبئث “۔ (الاعراف) کہ وہ پاک چیزیں حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے ، اس کے جواب میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ نبی اپنی طرف سے کسی چیز پر حلت و حرمت کا حکم نہیں لگاتا ، بلکہ نبی کا بیان کرنا اس بات کی قطعی دلیل ہوتا ہے کہ اللہ نے اس چیز کو حلال و حرام قرار دیا ہے ، اسی طرح مجتہد حضرات بھی بعض چیزوں پر حلت و حرمت کا حکم لگاتے ہیں ، یہ بھی ان کی اپنی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ وہ قرآن وسنت میں غور کرکے بیان کرتے ہیں کہ بات اس طرح سمجھ میں آرہی ہے کہ یہ چیز حلال ہے یا حرام اور اس کی یہ دلیل ہے سو اللہ نے فرمایا کہ اپنی زبانوں سے یوں مت کہو کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ چیز حرام ہے جب اللہ نے کسی چیز کو حرام نہیں کیا تو تم کیسے یہ حکم لگاتے ہو ، مشرکوں نے بحیرہ ، سائبہ وغیرہ کئی قسم کے محرمات بنا رکھے تھے آج بھی مختلف علاقوں میں لوگ نذر ونیاز کی بعض چیزوں کو بعض مردوں یا بعض عورتوں کے لیے حرام ٹھہراتے ہیں حالانکہ اللہ نے تو ان کو حلال قرار دیا ہے ، جو شخص ایسا کرے گا وہ مشرک ٹھہرے گا ۔ فرمایا اپنی زبانوں سے حلال یا حرام قرار نہ دو (آیت) ” لتفتروا علی اللہ الکذب “۔ کہ یہ اللہ پر جھوٹ باندھنے والی بات ہے ، فرمایا (آیت) ” ان الذین یفترون علی اللہ الکذب لا یفلحون “۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والے کبھی فلاح نہیں پاسکتے ، مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کو خود حلال یہ حرام ٹھہرانے کی بجائے شریعت کا حکم تلاش کرو کہ اللہ نے کیا فرمایا ہے اور اللہ کے نبی نے نے کس طرح بیان فرمایا ہے پھر مجتہدین اور علمائے کرام کی تحقیق کیا ہے ، خود ساختہ حکم لگانے والوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” متاع قلیل “۔ یہ چند روزہ زندگی میں فائدہ اٹھانے والی بات ہے (آیت) ” ولھم عذاب الیم “۔ آگے ان کے لیے دردناک عذاب بھی موجود ہے مقصد یہ ہے کہ حلت و حرمت کے سلسلہ میں اللہ کی حدوں کو نہ توڑو ورنہ عذاب الیم کا شکار ہوجاؤ گے ۔ (وقتی محرمات) مزید فرمایا (آیت) ” وعلی الذین ھادوا حرمنا ما قصصنا علیک من قیل “۔ یہودیوں پر اللہ نے وہ چیزیں حرام قرار دیدیں جن کا ذکر ہم نے آپ کے ساتھ پہلے کیا ہے یہودیوں کے وقتی محرمات کا تذکرہ سورة مائدہ اور سورة انعام میں بھی موجود ہے کہ ان کی سرکشی کی وجہ سے اللہ نے ان کے لیے ناخن والے جانور اور چربی حرام قرار دے دی تھی ، سورة انعام میں (آیت) ” حرمنا کل ذی ظفر “۔ کے الفاظ ہیں کہ ہم نے ناخن والے جانور جن کا پنجہ پھٹا ہوا ہوتا ہے ، حرام قرار دے دیے ” وحرمنا علیھم شحومھما “۔ اور ان کی چربی بھی ان پر حرام کردی تھی اور یہ سب کچھ انکی سرکشی کی سزا کے طور پر کیا تھا ، البتہ ہڈیوں یا آنتوں کے ساتھ لگی ہوئی چربی حلال تھی ، گوشت میں سے چربی کا ذرہ ذرہ علیحدہ کرنا پڑتا تھا ، فرمایا یہ سخت حکم دے کر (آیت) ” وما ظلمنھم “۔ ہم نے ان پر کوئی زیادیت نہیں کی (آیت) ” ولکن کانوا انفسھم یظلمون “۔ بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے تھے ، انہوں نے اللہ کی حدود کو توڑا تو اللہ نے ان کے لیے بعض چیزیں حرام قرار دے دیں ، حدیث شریف میں آتا ہے ” لا تشددوآانفسکم “ اپنے نفسوں پر تشدد نہ کیا کرو ، لوگ خود ہی بعض رسومات جاری کرلیتے ہیں اور پھر ان کی پابندی بھی خود ہی ضروری قرار دیتے ہیں اس طرح وہ کسی کام کے لیے اپنے آپ کو پابند کرلیتے ہیں ، پھر جب اس پر عمل پیرا نہیں ہوسکتے تو مشکل میں پڑجاتے ہیں ، فرمایا اگر ایسا کرو گے تو خدا تعالیٰ بھی تم پر سختی کریگا ، رسومات کی پابندی کرکے اپنے لیے مشکلات پیدا کروگے ، ۔ (رحمت الہی) فرمایا (آیت) ” ثم ان ربک للذین عملوا السوء بجھالۃ “۔ پھر بیشک تیرا پروردگار ان لوگوں کے لیے جنہوں نے نادانی کے ساتھ برائی کا ارتکاب کیا ، عقل و شعور پر پردہ پڑگیا اور کوئی غلط قدم اٹھا بیٹھے (آیت) ” ثم تابوا من بعد ذلک “۔ پھر اس کے بعد توبہ کرلی ، غلطی کا احساس ہوگیا ” واصلحوا “ اور اپنی اصلاح بھی کرلی یعنی اگر کسی کا حق تلف کیا تھا تو وہ ادا کردیا اور آئندہ کے لیے محتاط ہوگئے تو فرمایا (آیت) ” ان ربک من بعدھا لغفور رحیم “۔ بیشک تیرا پروردگار اس کے بعد بہت بخشش کرنے والا اور نہایت مہربان ہے اگر کوئی شخص سچے دل سے تائب ہوجاتا ہے اور اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی بخشش اور رحمت کے دروازے اس پر کھول دیتا ہے اس کی تمام سابقہ خطائیں معاف ہوجاتی ہیں ۔
Top