Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور اگر تم بدلہ لو ، پس بدلہ لو اس کی مثل جتنی تم کو تکلیف پہنچائی گئی ہے اور اگر تم صبر کرو تو البتہ وہ بہتر ہے صبر کرنے والوں کے لیے ۔
(زمانہ نزول) سورة النحل کی ان آخری تین آیات کے زمانہ نزول کے متعلق مفسرین کی دو رائیں ہیں ، امام ابوحنیفہ (رح) کے استاد ، مکہ کے استاد الحدیث حضرت عطاء (رح) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة ہذا کی ان تین آیات کے سوا باقی ساری سورة مکی دور میں نازل ہوئی جب کہ یہ آیات مدنی زندگی میں نازل ہوئیں اور ان کا زمانہ نزول فتح مکہ کے قریب ہے ، دوسری روایت یہ ہے کہ یہ ساری کی ساری سورة مکی ہے اور ان آیات میں بیان کردہ انتقامی کاروائی کا قانون غزوہ احد کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر مکان وزمان کے لیے نافذ العمل ہے ، اس لحاظ سے غزوہ احد کے موقع پر پیش آمدہ حالات پر بھی اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے ۔ (شان نزول) پہلے نظریہ کے مطابق ان تین آیات کا شان نزول غزوہ احد سے وابستہ ہے اس جنگ میں مسلمانو کو شکست ہوئی ستر مسلمان شہید ہوئے جن کے ساتھ کفار نے بڑی زیادتی کی ، ان شہدا کے اعضاء کاٹ کر ان کا مثلہ بنایا گیا حتی کہ سیدالشہداء امیر حمزہ ؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا گیا ، اس کاروائی کا مسلمانوں کو بڑا صدمہ ہوا حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے شہدا ی یہ حالت دیکھی تو فرمایا بخدا ! اگر اللہ نے ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرمایا تو ہم ان کے ساتھ اس سے دگنی انتقامی کاروائی کریں گے ہم بھی ان کے مردوں کے ہاتھ پاؤں ، ناک ، کان وغیرہ کاٹ کر ان کو بدشکل بنائیں گے ، امام جلال الدین سیوطی (رح) اپنی تفسیر جلالین میں لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اس عزم کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں ، جن میں اللہ نے زیادتی کرنے سے منع فرما دیا ، چناچہ حضور ﷺ نے اپنے ارادے سے رجوع کرلیا اور دوسرے لوگوں کو بھی کسی کا مثلہ بنانے سے منع فرمایا دیا ، امام سیوطی (رح) نے مسند بزار کے حوالے سے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے قسم کا کفارہ بھی ادا کیا اور آئندہ ایسی منتقمانہ کاروائی کا ارادہ ترک کردیا ، ۔ (انتقامی کاروائی کی حدود) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وان عاقبتم “۔ اگر تم بدلہ لینا چاہو (آیت) ” فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ “ تو اسی قدر بدلہ لو جس قدر تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہے مطلب یہ کہ بدلہ لیتے وقت زیادتی نہ کرو ، بلکہ پہنچائی گئی تکلیف کی حدود میں رہتے ہوئے دشمن کو اتنی ہی اذیت پہنچاؤ ، اور یہ بھی محض اجازت ہے ضروری نہیں ، اس کے برخلاف (آیت) ” ولئن صبرتم “۔ اگر تم اس تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے صبر سے کام لو ، یعنی بدلہ لینے کا ارادہ ہی ترک کر دو ، دشمن کر ویسے ہی معاف کر دو (آیت) ” لھو خیر للصبرین “۔ تو یہ بات صبر کرنے والوں کے لیے زیادہ بہتر ہے گویا معاف کردینا بدلہ لینے سے بہتر ہے ، یہ معافی تمہارے لیے گناہوں کا کفارہ بنے گی اور تمہارے درجات بلند ہوں گے ، اس سے آخرت میں بہت فائدہ ہوگا ۔ مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ ان آخری آیات کا تعلق سورة ہذا کی آیت نمبر 90 کے ساتھ ہے ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسالم کا عالمی پروگرام پیش کیا ہے (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان۔۔۔۔۔۔ الخ “۔ اللہ نے جن تین مثبت چیزوں کا حکم دیا ہے ان میں پہلی چیز عدل ہے اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ دشمن جس قدر اذیت پہنچائے اسے اسی قدر تکلیف دی جائے اور زیادتی نہ کی جائے ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہی چیز بیان کی ہے کہ عدل و انصاف کے دامن کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑو خواہ تمہارے سامنے تمہارا دشمن ہی کیوں نہ ہو ، اگرچہ مکی سورتوں میں بالعموم توحید و رسالت ، قرآن پاک کی صداقت اور معاد کا ذکر ہے تاہم عدل ایک ایسی ضروری چیز ہے جس کا ذکر اللہ نے مکی زندگی ہی میں کردیا اور مسلمانوں کو یہ بات سمجھا دی کہ غالب آنے کی صورت میں اگر انتقام لینا چاہو تو کسی پر زیادتی نہ کرنا ورنہ تم خود ظالم بن جاؤ گے اور اگر صبر کرو اور بالکل معاف ہی کر دو تو یہ عزیمت کا مقام ہے ، اس کا نتیجہ مزید بہتر صورت میں نکلے گا اس قانون کی ضرورت مکی زندگی میں اس لیے بھی تھی کہ اس وقت مسلمان فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے ، لوگوں پر اسلام پیش کر رہے تھے اور اس کے جواب میں مشرکین کی طرف سے بڑی تکلیف دہ باتین سننا پڑتی تھیں ، ہو سکتا تھا کہ مسلمانوں میں انتقامی آگ بھڑک اٹھتی تو اللہ نے پیشگی قانون بتلا دیا کہ بہتر تو یہ ہے کہ معاف ہی کر دو اور اگر بدلہ ہی لینا ہو تو حد سے تجاوز نہ کرو۔ انتقامی کاروائی کے ضمن میں امام ابوبکر جصاص (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر دشمن نے تمہارے آدمی کی جان تلف کی ہے تو تم بھی اس کی جان لے سکتے ہو ، اور اگر دشمن نے کسی کا کوئی عضو کاٹا ہے تو تم بھی اس کا وہی عضو تلف کرسکتے ہو ، اس قانون کی تفصیل اللہ نے سورة مائدہ میں بیان فرما دی ہے (آیت) ” ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن ولجروح قصاص فمن تصدق بہ فھو کفارۃ لہ “۔ یعنی قصاص کی صورت یہ ہے کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کا بھی قصاص ہے ، البتہ اگر کوئی شخص معاف کر دے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائیگا ، قتل کے معاملہ میں قانون یہی ہے کہ اگر ممکن ہو تو قاتل کو ویسے ہی قتل کیا جائے جس طرح اس نے خود قتل کیا تھا ، مثلا اگر کسی نے کسی شخص کا پہلے کوئی عضو قطع کیا اور پھر اس کو مکمل طور پر جان سے مار دیا ، تو اس کے قصاص میں بھی ایسا ہی کیا جاسکتا ہے تاہم عام قانون یہ ہے کہ قتل کے قصاص کے لیے تلوار سے یکبارگی گردن اڑا دی جائے ، امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے آدمی کا سردو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا ہے تو اس میں بعینہ قصاص ممکن نہیں ، لہذا اس کے بدلے میں اسے تلوار کے ساتھ قتل کردیا جائے گا ، البتہ جہاں مماثلت ممکن ہو ، وہاں ایسا ہی عمل کیا جائے گا ، مثلا اگر کسی نے کسی شخص کی ٹانگ گھٹنے سے کاٹ دی ہے تو اس کے بدلے گھٹنے سے ہی ٹانگ کاٹی جائے گی ، اگر کسی کا ہاتھ کہنی سے کاٹا گیا ہے تو قصاص میں بھی ایسا ہی کیا جائے گا ، البتہ اگر کسی نے کسی کی ٹانگ پر ضرب لگائی ہے اور وہ درمیان سے ٹوٹ گئی ہے تو اب عین اتنی ہی ضرب لگانا اور بالکل اس مقام سے ٹانگ کر توڑنا ، یا بالکل وہی آلہ استعمال کرنا اور پھر اس کے نتیجہ میں بالکل اتنی ہی ہڈی کا ٹوٹنا اور اتنی ہی درد پہنچا ناممکن نہیں ہوتا ، ایسی صورت میں فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ قصاص کی بجائے اتنی سزا کی ضمانت دنیا ہوگی یعنی مضروب شخص کو معاوضہ ادا کردیا جائے گا ، امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اعضاء کا معاوضہ ادا کیا جاسکتا ہے ، اسی طرح مالی نقصان کا بھی معاوضہ ادا ہوسکتا ہے ، مثلا کسی نے دوسرے شخص کی لکڑی چوری کر کے اسے چھت میں استعمال کرلیا ہے یا اس کا صندوق یا فرنیچر بنا لیا ہے اسی طرح کسی کی گندم چوری کرکے اسے پسوا کر روٹی کھالی ہے ، تو ایسی صورت میں چوری شدہ چیز کا بعینہ واپس ہونا ممکن نہیں رہتا ہے ، لہذا امام صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ اس مغصوبہ چیز کی قیمت ادا کرنا پڑے گی یہ انتقامی کاروائی کا قانون اللہ نے بیان فرما دیا ہے ۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے عزیمت کے مقام پر صبر کی خاص طور تلقین فرمائی ہے ، اگرچہ خطاب حضور ﷺ سے ہے مگر اس خطاب میں آپ کے پیروکار بھی شامل ہیں ، ارشاد ہوتا ہے ” واصبر “ آپ صبر کریں ” وما صبرک الا باللہ “۔ لیکن آپ کا صبر کرنا اللہ تعالیٰ کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں ، ایمان والوں کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کی توفیق کے بغیر انسان نیکی کا کوئی بھی کام نہیں کرسکتا ، لہذا ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے توفیق کا طلبگار رہنا چاہئے ، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے بھی یہی کہا تھا ، (آیت) ” وما توفیق الا باللہ “۔ (ھود) جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق حاصل نہ میں کچھ نہیں کرسکتا ، اللہ ہی کی توفیق سے انسان کام کاج کرتا ہے ، صبر اور برداشت کرتا ہے ، بہرحال اللہ نے صبر پر قائم رہنے کی تلقین فرمائی ہے ۔ (حضور ﷺ کے لیے تسلی ) آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تسلی دی ہے کہ آپ کافروں ، مشرکوں ، مخالفوں اور نافرمانوں کی کا گزاریوں کے بارے میں فکر مند نہ ہوں ، (آیت) ” ولا تحزن علیھم “۔ آپ ان پر غمگین نہ ہو (آیت) ” ولا تک فی ضیق مما یمکرون “۔ اور ان کی تدبیروں سے تنگ نہ ہوں ، اللہ تعالیٰ ان کی چالوں کا خود توڑ پیدا کرے گا ، لہذا آپ کے دل میں تنگی نہیں پیدا ہونی چاہئے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مہربانی آپ کے شامل حال رہے گی ، لہذا آپ غمزدہ نہ ہوں ، (آیت) ” واللہ خیر المکرین “۔ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے ، وہ خود ان سے نپٹ لے گا ۔ پھر فرمایا (آیت) ” ان اللہ مع الذین اتقوا “۔ بیشک اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور مدد ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اور دوسری بات یہ (آیت) ” والذین ھم محسنون “۔ اور وہ لوگ جو نیکی کرنے والے ہیں مطلب یہ کہ اللہ کی معیت اس سے ڈرنے والوں اور نیکی کرنے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم رہنا ضروری ہے اور اس کے لیے تقوی اور نیکی کی ضرورت ہے جس شخص میں خوف خدا ہوگا وہ شریعت کی حدود کی پاسداری بھی کریگا ، کفر ، شرک ، نفاق ، اور بدعقیدگی سے بچتا رہے گا ، اللہ کے ساتھ معاملہ ہمیشہ سچائی کے ساتھ درست رہ سکتا ہے ، اگر دل میں کسی قسم کا کھوٹ ہوگا تو تعلق باللہ درست نہیں رہ سکتا ، البتہ مخلوق کے ساتھ تعلقات کی درستگی احسان پر موقوف ہے ، انسان اپنے بھائی بندوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے گا ، ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرے گا تو اس کا تعلق مخلوق خدا کے ساتھ درست ہوجائے گا ، غرضیکہ اس حصہ آیت میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا ذکر آگیا ہے اور یہی دو چیزیں پورے دین کی جڑ اور بنیاد ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی معاملہ صحیح ہو اور مخلوق کے ساتھ بھی نیکی کا سلوک ہو ۔ (تعظیم اور شفقت) امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ دین کا نچوڑ دو باتیں ہیں ایک بات ” التعظیم الامر اللہ “۔ یعنی اللہ کے احکام کی تعظیم اور ان پر عمل درآمد ہے اور دوسری ” الشفقۃ علی خلق اللہ “۔ یعنی اللہ کی مخلوق پر شفقت ومہربانی کرنا ہے ، ان دو باتوں کا تجزیہ کیا جائے تو نتیجہ تقوی اور احسان ہی نکلے گا جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے اور اللہ کی مدد انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جن میں یہ دو چیزیں پائی جائیں ، سلف صالحین میں یہ چیزیں موجود تھیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ہمیشہ ان کے شامل حال رہتی تھی ، جب ان دو چیزوں میں کمزور ہی واقع ہوگئی تو امت تنزل میں چلی گئی ، اب کئی صدیوں سے امت مسلمہ کا حال دنیا کے سامنے ہے وجہ یہی ہے کہ نہ ان میں تقوی باقی رہا ہے اور نہ احسان ، عدل و انصاف مفقود ہے ، حقوق کی ادائیگی نہیں ہوتی ، تمام طبقات میں سرکشی پائی جاتی ہے ، اللہ کے احکام سے علی الاعلان بغاوت ہو رہی ہے ، تو ایسی صورت میں اللہ کی رحمت اور مدد کیسے حاصل ہوگی ہمارے اندر وہ شرائط ہی نہیں پائی جاتیں جو معیت الہی کا سبب بنتی ہیں تو ہمیں کامیابی کیسے حاصل ہو سکتی ہے (معیت الہی) اللہ تعالیٰ کی معیت بہت بڑی چیز ہے اور اس کے لیے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بھی دعائیں کرتے تھے ، غار ثور والا واقعہ دیکھ لیں ، حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ اس غار میں پناہ لے رکھی ہے حضرت صدیق ؓ کے دل میں دشمن کا خوف پیدا ہوتا ہے تو حضور ﷺ فرماتے ہیں (آیت) ” لا تحزن ان اللہ معنا “۔ (توبہ) خوف نہ کھائیں اللہ ہمارے ساتھ ہے ہمیں کس بات کا غم ہے ، اسی طرح جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل کھڑے ہوئے تو آگے سمندر اور پیچھے فرعون کا لشکر ، لوگوں میں کس قدر خوف پیدا ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی طرح قوم کو تسلی دی تھی کہ فکر نہ کرو ، (آیت) ” ان معی ربی سیھدین “۔ (الشعرائ) میرا پروردگار میرے ساتھ ہے وہی راہ نکالے گا ، ہم اسی کے حکم سے باہر نکلے ہیں لہذا اس کی مدد ہمارے شامل حال ہے ، آپ فکر نہ کریں ۔
Top