Mualim-ul-Irfan - Maryam : 46
قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِیْ یٰۤاِبْرٰهِیْمُ١ۚ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِیْ مَلِیًّا
قَالَ : اس نے کہا اَ رَاغِبٌ : کیا روگرداں اَنْتَ : تو عَنْ : سے اٰلِهَتِيْ : میرے معبود (جمع) يٰٓاِبْرٰهِيْمُ : اے ابراہیم لَئِنْ : اگر لَّمْ تَنْتَهِ : تو باز نہ آیا لَاَرْجُمَنَّكَ : تو میں تجھے ضرور سنگسار کروں گا وَاهْجُرْنِيْ : اور مجھے چھوڑ دے مَلِيًّا : ایک مدت کے لیے
کہا (ابراہیم (علیہ السلام) کے والد نے) کیا تو اعراض کرنے والا ہے میرے معبودوں سے اے ابراہیم ! اگر تو باز نہیں آئے گا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور تو چھوڑ دے مجھے لمبے زمانے تک ۔
ربط آیات : پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت اور انکے عقیدے کا ذکر ہوا پھر اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید فرمائی اور اس ضمن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی اختصار کے ساتھ بیان ہوا ، آپ نے اپنے باپ کو نہایت نرم اور محبت آمیز لہجے میں سمجھایا کہ تم جن بتوں کی پوجا کرتے ہو یہ نہ سن سکتے ہیں ، نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کسی کام آسکتے ہیں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے پاس قطعی علم آچکا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے لہذا آپ میری بات مانیں میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا ، اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اگر بیٹا اہل علم ہے تو باپ کو اس سے سیکھنے میں عار نہیں محسوس کرنی چاہئے بلکہ یہ تو فضیلت کی بات ہے کہ باپ نے اپنے قابل بیٹے سے سیکھا یہ چیز عقل کے عین مطابق ہے اور ایسا کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہئے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کو یہ بھی کہا خدا کے سچے قانون کو چھوڑ کر توحید کو تر کرنا اور شرک کو اختیار کرنا شیطان کی عبادت کرنے کے مترادف ہے ، لہذا آپ شیطان کی پرستش نہ کریں شیطان تو خدائے رحمان کا نافرمان ہے اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر آپ نے شیطان کا اتباع ترک نہ کیا ، تو سزا کے مستحق ہوں گے ۔ (باپ کا جواب) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس محبت آمیز رویہ کا جواب آپ کے باپ نے یوں دیا (آیت) ” قال اراغب انت عن الھتی یابراہیم “۔ کہنے لگا ، اے ابراہیم ! کیا تو میرے معبودوں سے اعراض کرنے والا ہے ؟ عربی زبان میں اگر رغبت کے بعد نی آئے تو اس کا معنی ہوتا ہے کسی چیز میں رغبت کرنا اور اگر یہ لفظ عن کے ساتھ آئے تو اس کا معنی اعراض کرنا جاتا ہے جیسے ” ومن یرغب عن ملۃ ابرھیم الا من سفہ نفسہ “۔ (البقرۃ : 130) کون ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت سے اعراض کرے مگر وہی جس نے اپنے نفس کو بیوقوف بنا لیا یعنی ملت ابراہیمی کے خلاف وہی شخص ہوگا جو بےعقلی سے کام لے گا صحیح الفطرت اور عقل سے کام لینے والا آدمی ملت ابراہیمی سے انحراف نہیں کرسکتا ۔ (سنگساری کی دھمکی) پھر باپ نے سختی کی ساتھ سرزنش کی اور کہنے لگا ، تو میرے بتوں سے اعراض کرتا ہے اور ان کی توہین کرتا ہے ، میں یہ برداشت نہیں کرسکتا (آیت) ” لئن لم تنتہ “۔ اگر تو اس حرکت سے باز نہیں آئے گا میرے معبودوں کے خلاف بداعتمادی پھیلاتا رہے گا (آیت) ” لارجمنک “۔ تو میں تجھے پتھر مار مار کر ہلاک کر دوں گا ، امام ابن جریر طبری (رح) فرماتے ہیں کہ لفظ رجم کا اطلاق زبانی سب وشتم پر بھی ہوتا ہے یعنی میں تجھے گالیاں دوں گا تاہم جمہور مفسرین کے نزدیک رجم کا معنی سنگسار کرنا ہی ہے جو کہ ذلت ناک سزا تصور ہوتی ہے اور زانی محصن کو دی جاتی ہے جب کہ وہ زنا کا خود اقرار کرے یا چار گواہ چشم دید گواہی دیں یہی سزا اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو دی تھی اور ان پر آسمان سے پتھر برسائے تھے ۔ باپ نے یہ بھی کہا (واھجرنی ملیا) مجھ سے دور ہوجاؤ ایک زمانے تک مطلب یہ کہ میں تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا ، عرصہ دراز کے لیے مجھ سے علیحدہ ہوجاؤ ، عالم اور جاہل میں یہی فرق ہے ، ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ کو نہایت نرمی اور محبت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی جب کہ باپ نے جواب میں نہایت سخت رویہ اختیار کیا جاہل لوگ نرمی کی بات سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ وہ خود سب ودشنام اور مار دھاڑ پر اتر آتے ہیں ۔ (سلامتی اور مغفرت کی دعا) اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے گالی کا جواب دعا کے دعا دیا (آیت) ” قال سلم علیک “۔ کہنے لگے اے باپ ! تجھ پر سلامتی ہو ، اس کو سلام متارکت کہتے ہیں جیسے سورة فرقان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی یہ صفت بھی بیان کی ہے (آیت) ” واذا خاطبھم الجھلون قالوا سلما “۔ (آیت ، 63) کہ جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ سلام کہہ کر نکل جاتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ تم اپنے طریقے پر رہو ، ہم تم سے علیحدہ ہوتے ہیں کیونکہ جہالت کا جواب جہالت سے دینے کی اجازت نہیں ہے ، اور ساتھ ساتھ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے ساتھ ہمدردی کا پورا پورا حق بھی ادا کردیا ، کہنے لگے (آیت) ” ساستغفر لک ربی “۔ میں اپنے پروردگار سے تیرے لیے بخشش کی دعا کروں گا کیونکہ (آیت) ” انہ کان بی حفیا “۔ میرا پروردگار میرے ساتھ بڑا مہربان ہے اور امید ہے کہ میری دعا رائیگاں نہیں جائے گی ، مشرک کے لیے بخشش کی دعا کرنا درست نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی من بعد ماتبین لھم انھم اصحب الجحیم “۔ (التوبۃ ۔ 113) کسی نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کریں ، اگرچہ وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں ، اس کے بعد کی یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ قطعی جہنمی ہیں ، مگر ابراہیم (علیہ السلام) نے نہ صرف باپ کے لیے دعا کا وعدہ کیا بلکہ فی الواقع دعا کر بھی دی (آیت) ” ربنا اغفرلی ولوالدی “۔ (ابراہم 41) اے پروردگار ! مجھے بھی بخش دے اور میرے والدین کو بھی ، اس بات کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دی (آیت) ” ومان کان استغفار ابرھیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ فلما تبین لہ انہ وعدواللہ تبرا منہ “۔ (التوبۃ 114) ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنی باپ کے لیے دعائے مغفرت ایک وعدے کی بناء پر تھی جو انہوں نے کر رکھا تھا ، لیکن جب بعد میں واضح ہوگیا کہ وہ دشمن خدا ہے یعنی اس کا خاتمہ کفر پر ہی ہوگا ، تو آپ نے بیزاری کا اظہار کردیا ۔ حضور ﷺ کے چچا ابو طالب آپ کے محسن اور مربی تھے اور وہ مشرکوں کے مقابلے میں آپ کی بڑی حمایت کرتے رہے ، مگر ایمان قبول نہیں کیا جب اس کی وفات کفر کی حالت میں ہی ہوگئی تو حضور ﷺ کو بڑا صدمہ ہوا آپ نے فرمایا (آیت) ” ساستغفرلک ربی “۔ میں تیرے لیے اپنے پروردگار سے بخشش کی دعا کروں گا ، مگر فرمایا کہ پھر اللہ نے مجھے منع کردیا کیونکہ مشرکوں کے لیے دعا جائز نہیں ۔ بعض فرماتے ہیں کہ مشرکوں کی زندگی میں تو ان کے لیے دعائے مغفرت کی جاسکتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایمان کی توفیق عطا کر کے مغفرت کا اہل بنا دے ، مگر کفر وشرک کی حالت میں ہی مرنے کے بعد ان کے لیے دعا درست نہیں کیونکہ وہ ازلی جہنمی قرار پا گئے یہاں پر ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے والدین کافر اور مشرک تھے اور خود انہوں نے ایمان قبول کرلیا اب وہ بھی ہر نماز میں والدین کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں (آیت) ” ربنا اغفرلی ولوالدی “۔ اے اللہ مجھے بھی معاف کر دے اور میرے والدین کو بھی بخش دے ، اس ضمن میں صاحب کشاف بیان کرتے ہیں کہ ایسے شخص کی دعا کے مصداق ان کے قریبی والدین نہیں ہوں گے بلکہ ان کے مصداق پوری نسل انسانی کے والدین حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا ؓ ہوں گی جو کامل درجے کے مومن اور اولین والدین تھے ۔ (ابراہیم (علیہ السلام) کی علیحدگی ) بہرحال ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے دعا کا وعدہ کیا اور پھر ان سے علیحدگی کا ارادہ بھی کرلیا ۔ کہنے لگے (آیت) ” واعتزلکم وما تدعون من دون اللہ “ میں تمہیں بھی چھوڑتا ہوں اور تمہارے معبودوں کو بھی جن کی تم پوجا کرتے ہو ۔ (آیت) ” وادعوا ربی “۔ اور میں تو صرف اپنے پروردگار کو ہی پکارتا ہوں جو قادر مطلق ، علیم کل ، مختار کل ، حاجت روا اور مشکل کشا ہے ، وہ ہمہ دان ، ہمہ بین اور ہمہ تو ان ہے ، اور خالق مدبر اور متصرف ہے ، میں تو صرف اسی کو پکارتا ہوں اور تمہارے معبودوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں وہ اللہ کے دشمن ہیں (آیت) ” وبدا بیننا وبینکم العداوۃ والبغضآء وبدا حتی تؤمنوا باللہ وحدہ “۔ (الممتحنۃ۔ 4) اور ہمارے اور تمہارے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہے جب تک کہ تم اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان نہ لے آؤ ، دوسری آیت میں ہے ابراہیم (علیہ السلام) نے کہ (آیت) ” انی ذاھب الی ربی “۔ (صفت ، 99) میں تو اپنے پروردگار کی طرف جا رہا ہوں ، سورة العنکبوت میں یوں آتا ہے (آیت) ” وقال انی مھاجر الی ربی “۔ (آیت ، 22) یعنی میں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں ، جہاں میرے مالک کا حکم ہوگا وہاں چلا جاؤں اور تمہیں اور تمہارے معبودوں کو بہرحال چھوڑ رہا ہوں ۔ (آیت) ” عسی الا اکون بدعآء ربی شقیا “۔ امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکارنے کی ساتھ محروم نہیں ہونگا ۔ اس زمانے میں عراق کا پورا علاقہ جس میں نمرود کی علمداری تھی کفر وشرک میں ڈوبا ہوا تھا ، بادشاہ سے لے کر ادنی سے ادنی چرواہے تک مشرک تھے ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے والے ابراہیم (علیہ السلام) کے علاوہ آپ کے بھتیجے لوط (علیہ السلام) تھے ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی سارہ ؓ بھی مومنہ تھیں البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ آپ کا نکاح اس ہجرت سے پہلے ہوچکا تھا یا ہجرت کے بعد شام پہنچ کر ہوا ، بہرحال تین افراد پر مشتمل یہ قافلہ عراق سے چل کر مصر اور پھر شام و فلسطین پہنچا راستے میں اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو نبوت بھی عطا فرمائی اور وہ شرق اردن کے علاقے میں مامور ہوئے ۔ (انعام بصورت اسحاق اور یعقوب علیہما السلام) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” فلما اعتزلھم وما یعبدون من دون اللہ “۔ جب آپ قوم اور ان کے معبودوں کو چھوڑ کر چلے گئے تو اللہ نے آپ پر اولاد کی صورت میں انعام کیا (آیت) ” وھبنا لہ اسحاق ویعقوب “ ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) (بیٹا) اور یعقوب (علیہ السلام) (پوتا) عطا فرمایا (آیت) ” وکلا جعلنا نبیا “۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ اولاد عطا فرمائی بلکہ ہر ایک کو نبی بھی بنایا ، پھر ان کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے یوسف (علیہ السلام) بھی اللہ کے نبی ہوئی ، اللہ تعالیٰ چار پشتوں میں نبی پیدا کئے ” الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم “۔ یعنی یوسف ابن یعقوب ابن اسحاق بن ابراہیم سارے کے سارے اللہ کے برگزیدہ بندے اور نبی ہوئے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے دو فرزند عطا کیے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) دونوں اللہ کے نبی ہوئے مگر اس مقام پر صرف اسحاق (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا ہے ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر اگلے رکوع میں مستقل عنوان کے تحت آرہا ہے اس مقام پر چونکہ صرف یہودونصاری کا ردمطلوب تھا اس لیے یہاں پر انکے جد امجد حضرت اسحاق اور یعقوب (علیہما السلام) کا ذکر کیا اور آگے جہاں مشرکین عرب کا رد مقصود ہے وہاں ان کے جدامجد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر آ رہا ہے ۔ فرمایا ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق اور یعقوب عطا فرمائے (آیت) ” ووھبنا لھم من رحمتنا “ اور ہم نے اپنی خاص مہربانی بھی ان کے شامل حال کی (آیت) ” وجعلنا لھم لسان صدق علیا “۔ اور ہم نے ان کے لیے سچائی کی بلند زبان بھی بنائی یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی اولاد کے لیے ہمیشہ رحمت کی دعائیں ہوتی رہتی ہیں ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں اے اللہ ! رحمت بھیج حضرت محمد ﷺ پر اور آپ کی آل پر کما صلیت علی ابراہیم وعلی ابراہیم جیسا کہ تو نے رحمت بھیج حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی اولاد پر ، اس سے زیادہ سچی اور بلند شہرت کیا ہو سکتی ہے اللہ تعالیٰ نے یہ ثنائے جمیل ، ذکر جمیل ، شہرت اور مہربانی خاص طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی اولاد کو عطا فرمائی ، ان کو نبی اور رسول بنایا قوم تو ان کو برداشت نہ کرسکی مگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہمیشہ ان کے شامل حال رہی ۔
Top