Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور انہوں نے اس چیز کا اتباع کیا۔ جو شیاطین سلیمان (علیہ السلام) کی بادشاہی میں پڑھتے تھے۔ اور سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا ، بلکہ شیاطین کفر کرتے تھے۔ اور لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اور وہ چیز جو اتاری گئی تھی بابل کے مقام پر دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر۔ اور وہ کسی کو نہیں سکھاتے تھے۔ یہاں تک کہ دونوں کہتے تھے۔ بیشک ہم تو آزمائش ہیں پس تم کفر نہ کرنا۔ پس لوگ ان دونوں سے ایسی چیزیں سکھتے تھے جس کے ذریعے مرد اور عورت کے درمیان جدائی ڈالتے تھے۔ اور وہ اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ مگر اللہ کے حکم سے اور وہ ان سے ایسی چیزیں سکھتے ہیں جو ان کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اور فائدہ نہیں پہنچاتی اور البتہ تحقیق انہوں نے جان لیا اس شخص کو جس نے اس (سحر) کو خریدا ہے۔ اس کے لیے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور وہ بری چیز ہے۔ جس کے بدلے میں انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا ہے۔ اگر ان کو سمجھ ہوتی
شیطان کا اتباع : ان آیات میں بنی اسرائیل کی انتہائی پستی اور ان کے انحطاط کا ذکر ہو رہا ہے گزشتہ آیت میں یہ بات بیان کی گئی تھی کہ بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اس طور پر پس پشت ڈال دیا کہ اس سے بالکل لاتعلق ہوگئے ۔ گویا کہ وہ جانتے ہی نہیں کتاب اللہ کی تلاوت اور اس پر عمل درآمد کی بجائے “ واتبعوا ما تتلوا الشیطین علی ملک سلیمن ” انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جنوں اور انسانوں کا اختلاط ہوتا تھا۔ کیونکہ جن بھی آپ کے ماتحت تھے۔ لہٰذا اس دور میں جو کلام یا دیگر چیزیں جن پڑھتے تھے۔ بنی اسرائیل نے ان کا تباع کیا۔ اس طرح سحر یا جادو انسانوں تک پہنچ گیا۔ اسی بات کو اس آیت میں یوں بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل شیاطین یا جنوں کی تلاوت کہ وہ چیزوں کی پیروی کرنے لگے۔ گویا جادو میں ملوث ہوگئے اور کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر جادو گر ہونیکا الزام : جادو کو شیطانی کھیل جان کر کھیلتے رہتے تو اور بات تھی۔ مگر بنی اسرائیل نے ستم بالائے ستم یہ کیا کہ اس جادو کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کردیا۔ حالانکہ سحر پر اعتقاد رکھنا اور اس پر عمل کرنا صریحا کفر ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی برات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا “ وما کفر سلیمن ” سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا۔ یعنی انہوں نے یہ جادو وغیرہ تمہیں نہیں سکھایا۔ “ ولکن الشیطن کفروا ” بلکہ یہ تو شیطانوں نے کفر کا ارتکاب کیا۔ جنہوں نے لوگوں کو جادو سکھایا ہے۔ سحر کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرنا بنی اسرائیل کا قبیح فعل ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے نبی اور صاحب شریعت رسول تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور شیاطین کو آپ کے مطیع کردیا تھا۔ اور ہوا کہ آپ کے لیے مسخر کردیا تھا۔ “ فسخرنالہ الریح ” آپ ان چیزوں سے حسب منشا کام لیتے تھے۔ وہ کیسے جادو سکھا سکتے تھے۔ امام بن جریر (رح) نے ایک روایت (1 ۔ تفسیر طبری ج 1 ص 451) بیان کی ہے۔ “ قال بعض احبار الیھود ” یہودیوں کے بعض علماء نے کہا “ الا تعجبون من محمد ” اے لوگو ! تم محمد پر تعجب نہیں کرتے۔ “ یزعم ان ابن داؤد کان نبیا ” جو یہ کہتے ہیں کہ ابن داؤد (سلیمان علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے حالانکہ “ ما کان الا ساحرا ” وہ تو جادوگر تھے۔ گویا یہودیوں کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق یہ اعتقاد تھا۔ اس لیے فرمایا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا۔ جو کہ “ یعلمون الناس السحر ” لوگوں کا جادو کا علم سکھاتے تھے۔ اس بات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرنا صریح کفر ہے۔ جادو کے ذرائع : مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ) کہ جادو دو ذرائع سے دنیا میں آیا۔ اس کا پہلا ذریعہ تو جنات ہیں۔ یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جادو شیاطین سے انسانوں میں رائج ہوا۔ جادو کا دوسرا ذریعہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لیے دنیا پر بھیجا۔ اسی کے متعلق فرمایا “ وما انزل علی الملکین بابل ھاروت وما روت ” ہاروت اور ماروت کون تھے : عام مفسرین (2 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 42 ، ابو السعود ج 1 ص 108 ، تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 371) نے یہی لکھا ہے کہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لیے بابل کے مقام پر اتارا ۔ یہ بابل شہر وہی ہے جو کلدانیوں کا دار السلطنت اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جائے پیدائش ہے۔ وہاں سے ہجرت کرکے آپ شام اور فلسطین پہنچے۔ اور پھر حجاز میں خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ بہرحال لفظ “ ملکین ” سے مراد دو فرشتے ہی ہیں کیونکہ “ ملک ” فرشتے کو کہتے ہیں ۔ تفسیر روائتوں میں آتا ہے (3 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 138 ، معالم التنزیل ج 1 ص 42) کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) یا کسی اور نبی کے زمانہ میں دنیا پر معصیت عام تھی لوگ فسق و فجور میں مبتلا تھے تو آسمان پر فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور شکایت کی کہ مولا کریم ! تو نے یہ کیسی مخلوق پیدا کی ہے جو اس قدر گناہ میں ملوث ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ کہ میں نے انسان میں مختلف قومیں پیدا کی ہیں جیسے قوت شہوانیہ ، قوت بہیمیہ اور قوت غضبیہ وغیرہ وغیرہ اور ان کے ساتھ ساتھ نیکی کرنے کی طاقت بھی عطا کی ہے۔ اس لیے تم دیکھتے ہو کہ کچھ لوگ اگر گناہ کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ تو کچھ نیکوکار بھی ہیں۔ کیونکہ ان کے اندر ساری قومیں موجود ہیں۔ برخلاف اس کے فرشتوں کو میں نے قوت ملکوتی سے نوازا ہے۔ اگر تم تجربہ کرنا چاہتے ہو تو میں تم کو زمین پر بھیجتا ہوں تم اپنے میں سے دو فرشتے منتخب کرو۔ پھر دیکھیں گے کہ وہ کس طرح گناہ سے بچتے ہیں۔ الغرض فرشتوں نے اس آزمائش کے لیے ہاروت اور ماروت کو منتخب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں قوت شہوانیہ بھی رکھ دی۔ اور پھر انہیں بابل کے مقام پر اتار دیا۔ انہیں خاص طور پر نصیحت کی گئی کہ برائی سے باز رہنا۔ زنا اور دیگر معصیت سے اجتناب کرنا اور عدل و انصاف سے وقت گزارنا۔ ایک دفعہ ایسا واقعہ پیش آیا کہ ایک خوبصورت عورت ایک چھکڑے پر سوار جا رہی تھی۔ اس نے کسی ضرورت کے تحت منہ سے کپڑا ہٹایا تو اسے دیکھ کر فرشتے بےقابو ہوگئے۔ یہ ان کی آزمائش کا مرحلہ تھا۔ انہوں نے اس عورت سے فرصت میں ملاقات کی خواہش کی۔ جسے اس نے منظور کرلیا۔ بوقت ملاقات فرشتوں نے اس سے نفسانی خواہش کی تکمیل کی درخواست کی اس عورت نے اس خواہش کی تکمیل کے لیے یہ شرط پیش کی کہ مجھے وہ اسم اعظم سکھا دو جسے پڑھ کر تم آسمانوں پر چلے جاتے ہو اور پھر واپس آجاتے ہو۔ فرشتوں نے اسم اعظم اس عورت کو سکھادیا۔ پھر اس نے کہا کہ میرے ساتھ یہ لڑکا ہے۔ اس کو قتل کر دو ۔ ورنہ یہ ہمارا راز فاش کر دے گا۔ فرشتوں نے ایسا کرنے سے معذرت کی۔ عورت نے کہا۔ اچھا یہ شراب ہی پی لو یہ بڑی لذیذ چیز ہے۔ فرشتوں نے شراب پی لی۔ پھر نشے میں آکر انہوں نے لڑکے کو بھی قتل کردیا اور زنا کے مرتکب بھی ہوئے۔ گویا سارے معاصی میں مبتلا ہوگئے۔ عورت تو اسم اعظم پڑھ کر اوپر چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ زہرہ ستارے میں جا کر نابود ہوگئی اور فرشتے سزا میں مبتلا ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ ان گناہوں کی سزا دنیا میں بھگتا چاہتے ہو یا آخرت میں انہوں نے دنیا کی سزا کو پسند کیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شکلیں مسخ کرکے انہیں کسی تاریک اور عمیق کنوئیں میں الٹا لٹکا دیا۔ آج تک وہ اسی میں لٹکے ہوئے ہیں ان کے نیچے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ اور وہ سخت اذیت پا رہے ہیں۔ جب قیامت آئے گی۔ تو اس وقت وہ اس عذاب سے نجات پائیں گے۔ دیگر اسرائیلی روایتوں کی طرح یہ بھی ایک اسرائیلی روایت ہے تاہم اس کی سچائی پر یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ہاروت اور ماروت کی عینی شہادت : امام ابن منذر (رح) نے ایک واقعہ نقل کیا ہے (1 ۔ تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 373) کہ ایک موقع پر ایک بوڑھا آدمی عبد الملک بن مروان کے ساتھ تکئے پر بیٹھا تھا۔ نووارد نے تعجب کیا۔ کہ یہ کون آدمی ہے۔ جو خلیفہ کے ساتھ بیٹھا ہے تو انہوں نے بتایا۔ کہ یہ آدمی ہاروت ماروت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہے۔ لہٰذا اس کی عزت افزائی کی گئی ہے۔ اس شخص نے آگے بڑھ کر بزرگ آدمی کو سلام کیا۔ اور عرض کیا حضرت ہاروت ماروت سے ملاقات کا کچھ حال مجھے بھی سناؤ۔ اس پر اس شخص کے آنسو جاری ہوگئے۔ اور اس نے واقعہ یوں سنانا شروع کیا۔ کہ بھائی ! میں ابھی بچہ تھا۔ گھر میں مال و دولت کی فراوانی تھی۔ جسے میں فراخ دلی سے خرچ کرتا۔ جب باپ فوت ہوگیا تو ماں سے دولت حاصل کرتا اور خوب اڑاتا۔ ایک دن میں نے ماں سے دریافت کیا۔ کہ ماں یہ تو بتائیں کہ ہمارے پاس یہ مال و دولت کہاں سے آیا تھا۔ جو اتنا خرچ کرنے سے بھی کم نہیں ہوتا۔ ماں نے کہا ، بیٹا تم جتنی چاہو دولت لٹاؤ یہ ختم ہونے والی نہیں ہے۔ پھر اس نے مجھے دولت سے بھرے ہوئے کمرے دکھائے۔ لڑکے میں شعور پیدا ہوچکا تھا۔ اس نے دوسرا سوال کیا کہ میرے باپ نے یہ مال کس طریقے سے کمایا تھا۔ ماں نے بتایا کہ تیرا باپ ساحر تھا اور اس نے یہ ساری دولت سحر کی وجہ سے کمائی لڑکے کو خیال آیا کیوں نہ میں بھی وہی چیز سیکھ لوں جس کی وجہ سے میرے باپ نے ا تنا مال پیدا کیا۔ اس نے سوچا کہ سحر کا علم اس کے باپ نے اپنے کسی شاگرد کو بھی سکھایا تھا۔ اس کا پتہ کرکے اس سے یہ علم سیکھنا چاہئے۔ چناچہ تلاش کرنے پر اسے ایک شخص مل گیا۔ جو اس کے باپ کا شاگرد تھا۔ لڑکے نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو وہ کہنے لگا۔ یہ بڑا خطرناک علم ہے۔ اسے نہ ہی سیکھو تو بہتر ہے لڑکے نے اصرار کیا تو اس نے کہا کہ اچھا اگر تم ضرور ہی یہ علم سیکھنا چاہتے ہو تو میرے پیچھے پیچھے آجاؤ۔ مگر یاد رکھو جہاں ہم جا رہے ہیں۔ وہاں جاکر خدا کا نام نہ لینا۔ لڑکا بیان کرتا ہے کہ میں اپنے باپ کے شاگرد کے پیچھے ہوگیا۔ حتیٰ کہ ہم ایک غار پر پہنچے اور اس میں اتر گئے۔ ہم تین سو سیڑھیاں نیچے اترے تو وہاں ایک کنواں نظر آیا۔ کنوئیں کے اندر دو شخص نظر آئے۔ جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے الٹے لٹک رہے تھے۔ ان کی شکلیں عجیب و غریب تھیں۔ ان کی آنکھیں ڈھال کی طرح بڑی بڑی اور بڑی چمکدار تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر میرے دل میں خوف پیدا ہوا۔ اور میری زبان سے بےساختہ کلمہ لا الہ الا اللہ نکل گیا۔ یہ کلمہ سن کر وہ دو شخص اور زیادہ مضطرب ہوئے۔ میں پھر گھبرایا اور میرے منہ سے پھر وہی کلمہ نکلا۔ دو تین دفعہ ایسا ہی ہوا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ کہ تو کون ہو ؟ میں نے ان سے اپنا تعارف کرایا۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ اور اس حال میں کس وجہ سے ہو ؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ ہم ہاروت اور ماروت ہیں۔ اور یہاں سزا بھگت رہے ہیں۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ تم کس امت میں ہو تو میں نے بتایا کہ نبی آخر الزمان ﷺ کی امت میں ہوں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا آخری نبی کا ظہور ہوگیا ہے ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ انہوں نے کچھ علامتیں بھی دریافت کیں جو میں نے ان کو بتائیں۔ وہ دونوں بعض علامات پر خوش ہوئے۔ اور بعض پا ناراض ہوئے۔ میں نے اس کی و کہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ہم ان علامات پر خوش ہوئے ہیں۔ جو قرب قیامت سے متعلق ہیں کیونکہ قیامت برپا ہونے پر ہم اس عذاب سے رہائی پالیں گے۔ الغرض ! وہ لڑکا اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی وجہ سے سحر سے تو محروم ہوگیا ۔ تاہم اسے حقیقت معلوم ہوگئی اور وہ ہاروت ماروت کا عینی شاہد بن گیا۔ ہاروت ماروت کے واقعہ سے انکار : بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 71 ، مظہری ج 1 ص 107 ، طبری ج 1 ص 452) “ وما انزل علی الملکین ببابل ہاروت وماروت ” میں لفظ “ ما ” نافیہ ہے یعنی بابل کے مقام پر ہاروت ماروت پر کوئی چیز نہیں اتاری گئی۔ یہ سب جھوٹے قصے ہیں۔ جو بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ ان مفسرین کی ذاتی تحقیق ہے۔ بعض اصحاب یہ بھی کہتے ہیں (2 ۔ بیان القرآن ج 1 ص 246) کہ ہاروت ماروت کا سارا قصہ کہانی محض ہے چناچہ بشار ابن برد شاعر سے کسی نے پوچھا کیا آپ نے ال سلیمان سادات خاندان کے متعلق بھی کوئی قصیدہ لکھا ہے ؟ یہ اونچے درجے کا شاعر تھا۔ کہنے لگا۔ اس خاندان کے متعلق کچھ زیادہ تو نہیں لکھا۔ صرف یہ دو شعر کہتے ہیں (1 ۔ الکامل المبرد ج 3 ص 112) ؎ دینار ال سلیمان ودرھمھم کبابلیین حقا بالعفاریت لایرجیان ولا یرجی نوالھما کما سمعت بھاروت وماروت ال سلیمان بڑے کنجوس لوگ ہیں۔ ان کے درہم و دینار ایسے ہیں۔ جیسے دو بابلیوں کے اردگرد بہت سے بھوت جمع ہوں۔ اور وہ کسی کو نظر بھی نہ آئیں۔ اس طرح ال سلیمان کا مال و دولت بھی کسی کو نظر نہیں آتا۔ نہ ان سے کسی عطیے کی توقع ہے۔ اور نہ ان کے درہم و دینار کو دیکھنے کی امید۔ ان کی دولت ایسے ہی ہے جیسے تم نے ہاروت ماروت کا نام تو سن رکھا ہے۔ مگر ان کی حقیقت کچھ نہیں ۔ غرضیکہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں۔ جو ہاروت ماروت کے قصے کو افسانہ نے زیادہ حیثیت نہیں دیتے۔ سحر کیا ہے : تاہم اکثر مفسرین کہتے ہیں (2 ۔ تفسیر کبیر ج 3 ص 220 ، 221) کہ ہاروت ماروت فرشتے تھے۔ اگرچہ زہرہ والا واقعہ مصدقہ نہیں ہے۔ مگر ان فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے سحر کا علم دیکر نازل کیا تھا۔ تاکہ سحر اور معجزے میں فرق قائم کیا جاسکے۔ لغوی اعتبار سے سحر کا معنی لطیف ، باریک یا مخفی شئ ہے۔ سحر میں چونکہ کوئی چیز ظاہری طور پر نظر نہیں آتی۔ اس لحاظ سے اسے سحر کہتے ہیں سحر کا دوسرا معنی غذا ہے۔ جب انسان کوئی بھی گذا کھاتا ہے۔ تو ہضم ہو کر باریک باریک رگوں کے ذریعے جسم کے ہر حصہ میں پہنچتی ہے۔ یہ لطیف بھی ہوتی ہے کہ نظر نہیں آتی۔ گویا اس میں اخفاء اور پیچیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ زمانہ جاہلیت کے ایک مشہور شاعر امرء القیس کا کہنا ہے ؎ ارنا موضعین لا مرغیب ونسحر بالطعام وبالشراب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنی سواریاں دوڑا رہے ہیں۔ مگر کسی ایسی منزل کی طرف جس کا ہمیں علم نہیں ۔ یعنی پردہ غیب میں ہے اور ادھر ہم پر کھانے پینے کے ذریعے سغر کیا جاتا ہے۔ یعنی خوراک کھا کر ہم غافل ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ جسم میں تیز رفتاری سے سواریاں دوڑا رہے ہیں۔ جسم کی مشینری اتنی تیزی سے کام کر رہی ہے گویا ہزاروں میل کی رفتار سے چلنے والے ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے لیکن یہ سب کچھ پردہ غیب میں ہے۔ اسی طرح ایک شخص یوں کہتا ہے۔ ؎ فان تسئلینا فیم نحن فاننا عصافیر من ھذا الانام المسحر اگر تو ہم سے پوچھے کہ ہم کس حال میں ہیں ۔ تو میں کہوں گا کہ ہم تو سحر زدہ مخلوق میں سے چڑیوں کی مانند ہیں۔ جو کھانے پینے کے ذریعے اڑتے پھرتے رہتے ہیں۔ عربی زبان میں سحر کا ایک معنی پھیپھڑا بھی ہوتا ہے۔ وہ بھی مخفی ہوتا ہے۔ نظر نہیں آتا۔ لہٰذا اس لحاظ سے بھی سحر میں اخفا کا معنی پایا جاتا ہے۔ کیا ہاروت ماروت انسان تھے ؟ بعض فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر کبیر ج 3 ص 218) کہ ہاروت ماروت فرشتے نہیں بلکہ انسان تھے اور نیک آدمی تھے ان کے متعلق رجلین صالحین کے لفظ آتے ہیں۔ وہ بابل میں رہتے تھے اور سحر کا علم جانتے تھے۔ تاہم جب وہ لوگوں کو یہ علم سکھاتے تھے۔ تو انہیں خبردار بھی کرتے تھے کہ یہ علم اچھا نہیں ہے۔ اس سے بچ جاؤ تو بہتر ہے۔ ورنہ ایمان ضائع کر بیٹھو گے۔ کیونکہ سحر پر اعتقاد رکھنا اور اس پر عمل کرنا کفر میں داخل ہے۔ تاہم اس علم کے نزول میں کوئی خاص قباحت نہیں ہے۔ یہ ایک علم ہے۔ بعض کہتے ہیں (2 ۔ تفسیر کبیر ج 3 ص 318) کہ ہاروت ماروت “ ملکین ” (فرشتے) نہیں بلکہ ” ملکین ” یعنی بادشاہ تھے اور بڑی سلطنت کے مالک تھے۔ ان کے پاس یہ علم تھا ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ “ ملک ” کا اطلاق فرشتوں کے علاوہ نیک آدمیوں پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے سورة یوسف میں ملک کا لفظ یوسف (علیہ السلام) کیلئے بھی بولا گیا ہے “ ان ھذا الا ملک کریم ” وہ انسان نہیں بلکہ بزرگ فرشتہ ہے۔ کیا سارا جادو کفر ہے : امام ابو منصور تریدی (رح) اور ابو الحسن اشعری (رح) تیسری چوتھی صدی کے بلند پایہ امام گزرے ہیں۔ یہ امام اعظم (رح) کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ آپ بڑے متکلم ہے اور علم کلام میں آپ کو بڑا مرتبہ حاصل ہے۔ امام ابو منصور ما تریدی (رح) فرماتے ہیں کہ سحر کو مطلقا کفر کہنا درست نہیں کیونکہ اس کی بعض قسمیں کفر ہیں۔ بعض فسق اور بعض بدعت ۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) بھی اپنی تفسیر بیان القران میں فرماتے ہیں (1 ۔ بیان القرآن ج 1 ص 50 مطبوعہ محتبائی دہلی) کہ سحر اسی صورت میں کفر ہے جب کہ اس میں کفر یہ یا شرکیہ کلمات پائے جائیں مثلاً استعانت بالشیاطین ہو یا مافوق الاسباب ذرائع سے مدد طلب کی جائے۔ تو ایسا سحر کفر ہوگا۔ کیونکہ غائبانہ استعانت صرف اللہ تعالیٰ سے روا ہے۔ کسی دوسرے سے طلب نہیں کی جاسکتی۔ “ ایاک نعبدو وایاک نستعین ” کا یہی مطلب ہے کہ مافوق الاسباب اعانت اسی ذات خداوندی سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایسی استعانت خواہ شیاطین سے ہو ۔ کواکب سے ہو اصنام یا بتوں سے مطلوب ہو۔ سب شرک میں داخل ہے۔ ارواح خبیثہ کی تعظیم ، غیر اللہ کے نام کی نذر ماننا یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا یہ بھی کفر و شرک میں داخل ہے۔ اگر ایسا کرے گا تو یقیناً کفر کا مرتکب ہوگا۔ اگر سحر میں پڑھے جانے والے کلمات شرکیہ نہ ہوں بلکہ مباح یا جائز کلام ہو۔ تو پھر اس کی حیثیت مختلف ہوگی۔ اگر اس سحر کے ذریعے کوئی خلاف شرع کام مطلوب ہے۔ کسی کی ایذا رسانی مقصود ہے تو ایسی صورت میں یہ سحر فسق اور معصیت ہوگا۔ اور اگر سحر کے کلمات بھی مباح ہیں ۔ شرکیہ نہیں ہیں۔ اور اس سے غرض بھی فاسد نہیں ہے۔ خلاف شرع نہیں ہے تو اس صورت میں سحر تو بہرحال ناجائز ہوگا۔ مگر اسے زیادہ سے زیادہ بدعت کا دراہ دے سکتے ہیں۔ اسے یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم یہ کفر س شرک کے زمرہ میں نہیں آئے گا اور اگر کلمات مباح ہیں۔ ایذا رسانی بھی مقصود نہیں اور مطلوبہ کام بھی جائز ہے تو اس کو سحر نہیں کہیں گے۔ بلکہ اس کا عام اصطلاح میں عملیات اور عزیمت کہتے ہیں۔ جھاڑ پھونک ، گنڈا تعویز وغیرہ اسی ضمن میں آتے ہیں۔ جادوگر کی سزا : فقہاء اور محدثیں کرام فرماتے ہیں (2 ۔ احکام القرآن للجصاص ج 18 ص 15 کواکب امدری ج 2 ص 405) کہ اگر جادو کے نتیجے میں کسی کی جان ضائع ہوجائے تو اس کے بدلے میں ساحر کو قتل کردینا چاہئے اگر سحر کی وجہ سے جان بچ گئی ہے۔ کوئی دوسرا نقصان ہوا ہے۔ تو نقصان کی مناسبت سے ساحر کو تعزیری سزا دی جائے گی۔ ساحر کو پکڑنا مشکل کام ہے۔ کیونکہ جب تک مکمل ثبوت نہ ہو۔ کسی پر جادو کرنے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ تاہم اگر ایسا ممکن ہو یا ساحر خود اقرار کرلے تو پھر مذکورہ سزا کا مستوجب ہوگا۔ بشرطیکہ حکومت بھی اسلامی ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے مطابق اگر ساحرہ عورت ہو تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا (1 ۔ احکام القرآن جصاص ج 1 ص 50) بالکل اسی طرح جس طرح مرتدہ عورت کو قتل کی سزا نہیں دی جاتی بلکہ اسے قید میں رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح ساحرہ کو بھی قید کردیا جائے گا۔ البتہ بعض ائمہ عورت کو بھی قتل کرنے کے حق میں ہیں۔ اگر انسان جان کی تلف سے کم تر نقصان ہوا ہے۔ یعنی محض ایذا رسانی کا ارتکاب ہوا ہے۔ تو ساحرہ کو وہی سزا دی جائے گی۔ جو ڈکیتی کے مقدمہ میں دی جاتی ہے۔ قرآن پاک نے ڈاکو کے لیے چار قسم کی سزائیں مقرر کی ہیں۔ یعنی سولی پر لٹکانا ، قتل کرنا۔ الٹے سیدھے ہاتھ اور پاؤں کاٹنا ، اور حبس یعنی قید میں ڈال دینا۔ لہٰذا ساحر کو بھی اس کے جرم کے مطابق اسی قسم کی سزا دی جائے گی۔ میاں بیوی میں جدائی : بہرحال اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا “ وما یعلمن من احد حتی یقولا انما نحن فتنۃ فلا تکفر ” وہ دو فرشتے ہاروت اور ماروت جب کسی انسان کو جادو کا علم سکھاتے تھے۔ تو اسے واضح کردیتے تھے کہ ہم تو آزمائش ہیں۔ تم یہ کفر نہ کرو۔ اگر ایسا کروگے تو ایمان ضائع کر بیٹھو گے۔ مگر اس کے باوجود لوگ ان سے جادو کا علم سکھتے تھے۔ جن میں اہل کتاب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ “ فیتعلمون منہما ” اور وہ ان فرشتوں سے ایسی چیزیں سیکھتے تھے “ ما یفرقون بہ بین المرء وزوجہ ” جن کے ذریعے وہ میاں بیوی میں جدائی ڈال دیتے تھے۔ یہ ایسا برا عمل ہے۔ جس پر شیطان بہت زیادہ خوش ہوتا ہے (2 ۔ مسلم ج 2 ص 376) اور جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ تاہم سحر بھی ایک فن ہے۔ جس طرح دیگر فنون ہیں جیسے سائنس ، ٹیکنالوجی ، انجیرنگ وغیرہ وغیرہ۔ نافع اور ضار علم : فرمایا اگرچہ جادو ایذا رسانی کا ذریعہ ہے ۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے۔ کہ “ وما ھم بضارین بہ من احد الا باذن اللہ ” ایسا عمل کرنے والے ساحر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر ازخود کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ تاہم جادو کرنا۔ اس پر یقین رکھنا۔ چونکہ قباحت سے خالی نہیں۔ یہ مضر ہے ۔ مفید نہیں۔ اس لیے حضور ﷺ کی دعا ہے (1 ۔ نسائی ج 2 ص 321) “ اللھم انی اعوذ بک من علم لا ینفع ” اے اللہ ! میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں۔ جو نفع مند نہ ہو آپ فرمایا کرتے تھے۔ “ علمنی ما ینفعنی ” اے اللہ ! مجھے وہ علم عطا کر جو نفع بخش ہو۔ دنیا میں بھی اس سے فائدہ اٹھاؤں اور آخرت میں بھی فائدہ مند ہو۔ اسی بات کو فرمایا “ ویتعلمون ما یضرھم ولا ینفعھم ” یہ لوگ ایسا ہی علم سیکھتے ہیں۔ جو نفع کی نجائے انہیں نقصان پہنچاتا ہے فرمایا “ ولقد علموا لمن اشترہ ما لہ فی الاخرۃ من خلاق ” یہ لوگ خوب جانتے ہیں کہ انہوں نے اس علم کے ذریعے کیا خریدا ہے۔ یہ لوگ یاد رکھیں کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ظاہ رہے کہ آخرت میں ساحر کو اس علم کا کیا فائدہ ہوگا وہ تو الٹا عذاب میں مبتلا ہوگا۔ خاص طور پر اگر اس نے ایسا جادو کیا ہے۔ جس میں کفر و شرک پایا جاتا ہے۔ تو وہ یقیناً آخرت سے محروم رہے گا۔ آگے فرمایا “ ولبئس ما شروا بہ انفسھم ” انہوں نے بہت ہی بری چیز کے بدلے میں اپنی جانوں کو بیچا ہے۔ ان کا یہ سودا بہت ہی خسارے کا سودا ہے۔ “ لو کانوا یعلمون ” اگر ان میں کچھ بھی سمجھ ہوتی تو ایسا کام نہ کرتے۔ یہودیوں سے موافقت : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہودیوں کی بد اعمالیوں کا ذکر فرمایا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امت محمدیہ کا حال بھی ان سے زیادہ مختلف نہیں ہے جب لوگ اللہ تعالیٰ کے دین سے غافل ہوجائیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کردیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تہی دامن ہوجائیں۔ تو پھر پستی کی طرف ہی جانا ہوگا۔ آج انڑوپاک میں دیکھ لیں۔ دیگر ممالک پر نظر ڈال لیں۔ ہر طرف گندگی پھیلی ہوئی ہے۔ کتاب الٰہی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور دین کے لیے سعی وجہد کو ترک کردیا گیا ہے۔ دین کا دارو مدار عملیات پر رہ گیا ہے اس کام کے لیے یہ عمل کرلو۔ اس کام کے لیے وہ وظیفہ کافی ہے علم و عمل ختم ہوچکا ہے۔ علمائے حق کا ایک مدہم سا دیا ٹمٹما رہا ہے۔ ورنہ ساری دنیا کفر و ضلالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اہل کتاب کی طرح ہماری امت میں بھی حق و باطل غلط ملط ہوچکا ہے۔ صحیح اور غلط کی پہچان ایک عام شخص کے لیے مشکل ہوچکی ہے۔ دیہات میں حالات اور بھی خراب ہیں جہاں کے امام کے فرائض میں نماز پڑھانا بھی ہے۔ اور مردے کو غسل دینا بھی ۔ بچے کی پیدائش پر کان میں اذان بھی وہی کہتا ہے۔ عقیقہ کے لیے جانور ذبح کرنا ہو۔ تو امام صاحب کو بلایا جاتا ہے۔ اور تعویز گنڈے کی ضرورت پڑجائے تو بھی میاں صاحب دیں گے ، ان کا علم خطبہ جمعہ بھی تعارفی مسائل تک ہوتا ہے۔ دین کے علم سے بیچارے بےبہرہ ہوتے ہیں۔ غرض یہ حالت یہودیت سے مشابہت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا (1 ۔ بخاری ج 1 ص 1088 ، مسلم ج 2 ص 239 ، ترمذی ص 279) کہ میری امت بھی پہلے لوگوں کے نقش قدم پر بالکل اسی طرح چلے گی۔ جس طرح ایک جوتا دوسرے کے مشابہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ بعض علاقوں میں چار چار گاؤں کا ایک ہی امام ہے۔ بلکہ ہم نے خود سفر میں ملاحظہ کیا۔ کہ ایک علاقہ میں چھ سات گاؤں کا ایک ہی امام تھا۔ کہیں نکاح کرنا ہو۔ جنازہ پڑھانا ہو۔ وہی مولوی صاحب انجام دیں گے۔ تعویز گنڈے کا کاروبار چل رہا ہے۔ نقش سلیمانی والی کتابیں ہیں۔ لکھنؤ والے کی کتاب نافع الخلالق ہے۔ یا تعویز گنڈے والی دہلوی کی کتاب ۔ فالنامہ ہے۔ کسی مسئلہ کا حل مطلوب ہو۔ کتاب کھول کر معلوم کرلو۔ حتیٰ کہ چوری تک کی تفتیش عملیات کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ کالا علم جھاڑ پھونک وغیرہ سفلی عملیات ہیں۔ یہی چیزیں یہودیوں میں رائج تھیں اور آج ہم میں بھی یہی پائی جاتی ہیں۔ بعض صحیح وظائف بھی ہیں۔ جیسے سورة یسین کا ورد ہے۔ سورة مزمل کی روزانہ تلاوت ہے۔ رزق کی فراوانی کسی جائز چیز کے حصول ۔ یا کسی مصیبت سے رہائی کے لیے کسی کو کوئی اچھی بات بتا دی۔ مگر عام طور پر یہ گنڈے تعویز یہودیوں ولے ہیں۔ ذرا گھوم پھر کے دیکھ لیں۔ ماہرین عملیات کے ہاں عورتوں کی بھرمار ہے کوئی نہیں دیکھتا کہ مقصد جائز ہے یا ناجائز ، کفر ہے یا شرک ، سب ایک ہی گاڑی میں سوار چلے جا رہے ہیں۔ یہی یہودیت کی موافقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ ولو انھم امنوا واتقوا ” اگر یہ لوگ جادو کا کاروبار چلا نے کی نجائے ایمان لاتے اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے۔ شرک و بدعات سے اجتناب کرتے “ لمثوبۃ من عند اللہ خیر ” تو وہ اللہ تعالیٰ کے بہتر اجر وثواب کے مستحق ہوتے ۔ “ لو کانوا یعلمون ” اگر انہیں علم ہوتا۔
Top