Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا
: اور انہوں نے پیروی کی
مَا تَتْلُوْ
: جو پڑھتے تھے
الشَّيَاطِیْنُ
: شیاطین
عَلٰى
: میں
مُلْكِ
: بادشاہت
سُلَيْمَانَ
: سلیمان
وَمَا کَفَرَ
: اور کفرنہ کیا
سُلَيْمَانُ
: سلیمان
وَلَٰكِنَّ
: لیکن
الشَّيَاطِیْنَ
: شیاطین
کَفَرُوْا
: کفر کیا
يُعَلِّمُوْنَ
: وہ سکھاتے
النَّاسَ السِّحْرَ
: لوگ جادو
وَمَا
: اور جو
أُنْزِلَ
: نازل کیا گیا
عَلَى
: پر
الْمَلَکَيْنِ
: دوفرشتے
بِبَابِلَ
: بابل میں
هَارُوْتَ
: ہاروت
وَ مَارُوْتَ
: اور ماروت
وَمَا يُعَلِّمَانِ
: اور وہ نہ سکھاتے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
حَتَّی
: یہاں تک
يَقُوْلَا
: وہ کہہ دیتے
اِنَّمَا نَحْنُ
: ہم صرف
فِتْنَةٌ
: آزمائش
فَلَا
: پس نہ کر
تَكْفُر
: تو کفر
فَيَتَعَلَّمُوْنَ
: سو وہ سیکھتے
مِنْهُمَا
: ان دونوں سے
مَا
: جس سے
يُفَرِّقُوْنَ
: جدائی ڈالتے
بِهٖ
: اس سے
بَيْنَ
: درمیان
الْمَرْءِ
: خاوند
وَ
: اور
زَوْجِهٖ
: اس کی بیوی
وَمَا هُمْ
: اور وہ نہیں
بِضَارِّیْنَ بِهٖ
: نقصان پہنچانے والے اس سے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
اِلَّا
: مگر
بِاِذْنِ اللہِ
: اللہ کے حکم سے
وَيَتَعَلَّمُوْنَ
: اور وہ سیکھتے ہیں
مَا يَضُرُّهُمْ
: جو انہیں نقصان پہنچائے
وَلَا يَنْفَعُهُمْ
: اور انہیں نفع نہ دے
وَلَقَدْ
: اور وہ
عَلِمُوْا
: جان چکے
لَمَنِ
: جس نے
اشْتَرَاهُ
: یہ خریدا
مَا
: نہیں
لَهُ
: اس کے لئے
فِي الْاٰخِرَةِ
: آخرت میں
مِنْ خَلَاقٍ
: کوئی حصہ
وَلَبِئْسَ
: اور البتہ برا
مَا
: جو
شَرَوْا
: انہوں نے بیچ دیا
بِهٖ
: اس سے
اَنْفُسَهُمْ
: اپنے آپ کو
لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ
: کاش وہ جانتے ہوتے
اور انہوں نے اس چیز کا اتباع کیا۔ جو شیاطین سلیمان (علیہ السلام) کی بادشاہی میں پڑھتے تھے۔ اور سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا ، بلکہ شیاطین کفر کرتے تھے۔ اور لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اور وہ چیز جو اتاری گئی تھی بابل کے مقام پر دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر۔ اور وہ کسی کو نہیں سکھاتے تھے۔ یہاں تک کہ دونوں کہتے تھے۔ بیشک ہم تو آزمائش ہیں پس تم کفر نہ کرنا۔ پس لوگ ان دونوں سے ایسی چیزیں سکھتے تھے جس کے ذریعے مرد اور عورت کے درمیان جدائی ڈالتے تھے۔ اور وہ اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ مگر اللہ کے حکم سے اور وہ ان سے ایسی چیزیں سکھتے ہیں جو ان کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اور فائدہ نہیں پہنچاتی اور البتہ تحقیق انہوں نے جان لیا اس شخص کو جس نے اس (سحر) کو خریدا ہے۔ اس کے لیے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور وہ بری چیز ہے۔ جس کے بدلے میں انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا ہے۔ اگر ان کو سمجھ ہوتی
شیطان کا اتباع : ان آیات میں بنی اسرائیل کی انتہائی پستی اور ان کے انحطاط کا ذکر ہو رہا ہے گزشتہ آیت میں یہ بات بیان کی گئی تھی کہ بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اس طور پر پس پشت ڈال دیا کہ اس سے بالکل لاتعلق ہوگئے ۔ گویا کہ وہ جانتے ہی نہیں کتاب اللہ کی تلاوت اور اس پر عمل درآمد کی بجائے “ واتبعوا ما تتلوا الشیطین علی ملک سلیمن ” انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جنوں اور انسانوں کا اختلاط ہوتا تھا۔ کیونکہ جن بھی آپ کے ماتحت تھے۔ لہٰذا اس دور میں جو کلام یا دیگر چیزیں جن پڑھتے تھے۔ بنی اسرائیل نے ان کا تباع کیا۔ اس طرح سحر یا جادو انسانوں تک پہنچ گیا۔ اسی بات کو اس آیت میں یوں بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل شیاطین یا جنوں کی تلاوت کہ وہ چیزوں کی پیروی کرنے لگے۔ گویا جادو میں ملوث ہوگئے اور کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر جادو گر ہونیکا الزام : جادو کو شیطانی کھیل جان کر کھیلتے رہتے تو اور بات تھی۔ مگر بنی اسرائیل نے ستم بالائے ستم یہ کیا کہ اس جادو کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کردیا۔ حالانکہ سحر پر اعتقاد رکھنا اور اس پر عمل کرنا صریحا کفر ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی برات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا “ وما کفر سلیمن ” سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا۔ یعنی انہوں نے یہ جادو وغیرہ تمہیں نہیں سکھایا۔ “ ولکن الشیطن کفروا ” بلکہ یہ تو شیطانوں نے کفر کا ارتکاب کیا۔ جنہوں نے لوگوں کو جادو سکھایا ہے۔ سحر کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرنا بنی اسرائیل کا قبیح فعل ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے نبی اور صاحب شریعت رسول تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور شیاطین کو آپ کے مطیع کردیا تھا۔ اور ہوا کہ آپ کے لیے مسخر کردیا تھا۔ “ فسخرنالہ الریح ” آپ ان چیزوں سے حسب منشا کام لیتے تھے۔ وہ کیسے جادو سکھا سکتے تھے۔ امام بن جریر (رح) نے ایک روایت (1 ۔ تفسیر طبری ج 1 ص 451) بیان کی ہے۔ “ قال بعض احبار الیھود ” یہودیوں کے بعض علماء نے کہا “ الا تعجبون من محمد ” اے لوگو ! تم محمد پر تعجب نہیں کرتے۔ “ یزعم ان ابن داؤد کان نبیا ” جو یہ کہتے ہیں کہ ابن داؤد (سلیمان علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے حالانکہ “ ما کان الا ساحرا ” وہ تو جادوگر تھے۔ گویا یہودیوں کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق یہ اعتقاد تھا۔ اس لیے فرمایا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا۔ جو کہ “ یعلمون الناس السحر ” لوگوں کا جادو کا علم سکھاتے تھے۔ اس بات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرنا صریح کفر ہے۔ جادو کے ذرائع : مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ) کہ جادو دو ذرائع سے دنیا میں آیا۔ اس کا پہلا ذریعہ تو جنات ہیں۔ یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جادو شیاطین سے انسانوں میں رائج ہوا۔ جادو کا دوسرا ذریعہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لیے دنیا پر بھیجا۔ اسی کے متعلق فرمایا “ وما انزل علی الملکین بابل ھاروت وما روت ” ہاروت اور ماروت کون تھے : عام مفسرین (2 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 42 ، ابو السعود ج 1 ص 108 ، تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 371) نے یہی لکھا ہے کہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لیے بابل کے مقام پر اتارا ۔ یہ بابل شہر وہی ہے جو کلدانیوں کا دار السلطنت اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جائے پیدائش ہے۔ وہاں سے ہجرت کرکے آپ شام اور فلسطین پہنچے۔ اور پھر حجاز میں خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ بہرحال لفظ “ ملکین ” سے مراد دو فرشتے ہی ہیں کیونکہ “ ملک ” فرشتے کو کہتے ہیں ۔ تفسیر روائتوں میں آتا ہے (3 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 138 ، معالم التنزیل ج 1 ص 42) کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) یا کسی اور نبی کے زمانہ میں دنیا پر معصیت عام تھی لوگ فسق و فجور میں مبتلا تھے تو آسمان پر فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور شکایت کی کہ مولا کریم ! تو نے یہ کیسی مخلوق پیدا کی ہے جو اس قدر گناہ میں ملوث ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ کہ میں نے انسان میں مختلف قومیں پیدا کی ہیں جیسے قوت شہوانیہ ، قوت بہیمیہ اور قوت غضبیہ وغیرہ وغیرہ اور ان کے ساتھ ساتھ نیکی کرنے کی طاقت بھی عطا کی ہے۔ اس لیے تم دیکھتے ہو کہ کچھ لوگ اگر گناہ کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ تو کچھ نیکوکار بھی ہیں۔ کیونکہ ان کے اندر ساری قومیں موجود ہیں۔ برخلاف اس کے فرشتوں کو میں نے قوت ملکوتی سے نوازا ہے۔ اگر تم تجربہ کرنا چاہتے ہو تو میں تم کو زمین پر بھیجتا ہوں تم اپنے میں سے دو فرشتے منتخب کرو۔ پھر دیکھیں گے کہ وہ کس طرح گناہ سے بچتے ہیں۔ الغرض فرشتوں نے اس آزمائش کے لیے ہاروت اور ماروت کو منتخب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں قوت شہوانیہ بھی رکھ دی۔ اور پھر انہیں بابل کے مقام پر اتار دیا۔ انہیں خاص طور پر نصیحت کی گئی کہ برائی سے باز رہنا۔ زنا اور دیگر معصیت سے اجتناب کرنا اور عدل و انصاف سے وقت گزارنا۔ ایک دفعہ ایسا واقعہ پیش آیا کہ ایک خوبصورت عورت ایک چھکڑے پر سوار جا رہی تھی۔ اس نے کسی ضرورت کے تحت منہ سے کپڑا ہٹایا تو اسے دیکھ کر فرشتے بےقابو ہوگئے۔ یہ ان کی آزمائش کا مرحلہ تھا۔ انہوں نے اس عورت سے فرصت میں ملاقات کی خواہش کی۔ جسے اس نے منظور کرلیا۔ بوقت ملاقات فرشتوں نے اس سے نفسانی خواہش کی تکمیل کی درخواست کی اس عورت نے اس خواہش کی تکمیل کے لیے یہ شرط پیش کی کہ مجھے وہ اسم اعظم سکھا دو جسے پڑھ کر تم آسمانوں پر چلے جاتے ہو اور پھر واپس آجاتے ہو۔ فرشتوں نے اسم اعظم اس عورت کو سکھادیا۔ پھر اس نے کہا کہ میرے ساتھ یہ لڑکا ہے۔ اس کو قتل کر دو ۔ ورنہ یہ ہمارا راز فاش کر دے گا۔ فرشتوں نے ایسا کرنے سے معذرت کی۔ عورت نے کہا۔ اچھا یہ شراب ہی پی لو یہ بڑی لذیذ چیز ہے۔ فرشتوں نے شراب پی لی۔ پھر نشے میں آکر انہوں نے لڑکے کو بھی قتل کردیا اور زنا کے مرتکب بھی ہوئے۔ گویا سارے معاصی میں مبتلا ہوگئے۔ عورت تو اسم اعظم پڑھ کر اوپر چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ زہرہ ستارے میں جا کر نابود ہوگئی اور فرشتے سزا میں مبتلا ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ ان گناہوں کی سزا دنیا میں بھگتا چاہتے ہو یا آخرت میں انہوں نے دنیا کی سزا کو پسند کیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شکلیں مسخ کرکے انہیں کسی تاریک اور عمیق کنوئیں میں الٹا لٹکا دیا۔ آج تک وہ اسی میں لٹکے ہوئے ہیں ان کے نیچے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ اور وہ سخت اذیت پا رہے ہیں۔ جب قیامت آئے گی۔ تو اس وقت وہ اس عذاب سے نجات پائیں گے۔ دیگر اسرائیلی روایتوں کی طرح یہ بھی ایک اسرائیلی روایت ہے تاہم اس کی سچائی پر یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ہاروت اور ماروت کی عینی شہادت : امام ابن منذر (رح) نے ایک واقعہ نقل کیا ہے (1 ۔ تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 373) کہ ایک موقع پر ایک بوڑھا آدمی عبد الملک بن مروان کے ساتھ تکئے پر بیٹھا تھا۔ نووارد نے تعجب کیا۔ کہ یہ کون آدمی ہے۔ جو خلیفہ کے ساتھ بیٹھا ہے تو انہوں نے بتایا۔ کہ یہ آدمی ہاروت ماروت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہے۔ لہٰذا اس کی عزت افزائی کی گئی ہے۔ اس شخص نے آگے بڑھ کر بزرگ آدمی کو سلام کیا۔ اور عرض کیا حضرت ہاروت ماروت سے ملاقات کا کچھ حال مجھے بھی سناؤ۔ اس پر اس شخص کے آنسو جاری ہوگئے۔ اور اس نے واقعہ یوں سنانا شروع کیا۔ کہ بھائی ! میں ابھی بچہ تھا۔ گھر میں مال و دولت کی فراوانی تھی۔ جسے میں فراخ دلی سے خرچ کرتا۔ جب باپ فوت ہوگیا تو ماں سے دولت حاصل کرتا اور خوب اڑاتا۔ ایک دن میں نے ماں سے دریافت کیا۔ کہ ماں یہ تو بتائیں کہ ہمارے پاس یہ مال و دولت کہاں سے آیا تھا۔ جو اتنا خرچ کرنے سے بھی کم نہیں ہوتا۔ ماں نے کہا ، بیٹا تم جتنی چاہو دولت لٹاؤ یہ ختم ہونے والی نہیں ہے۔ پھر اس نے مجھے دولت سے بھرے ہوئے کمرے دکھائے۔ لڑکے میں شعور پیدا ہوچکا تھا۔ اس نے دوسرا سوال کیا کہ میرے باپ نے یہ مال کس طریقے سے کمایا تھا۔ ماں نے بتایا کہ تیرا باپ ساحر تھا اور اس نے یہ ساری دولت سحر کی وجہ سے کمائی لڑکے کو خیال آیا کیوں نہ میں بھی وہی چیز سیکھ لوں جس کی وجہ سے میرے باپ نے ا تنا مال پیدا کیا۔ اس نے سوچا کہ سحر کا علم اس کے باپ نے اپنے کسی شاگرد کو بھی سکھایا تھا۔ اس کا پتہ کرکے اس سے یہ علم سیکھنا چاہئے۔ چناچہ تلاش کرنے پر اسے ایک شخص مل گیا۔ جو اس کے باپ کا شاگرد تھا۔ لڑکے نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو وہ کہنے لگا۔ یہ بڑا خطرناک علم ہے۔ اسے نہ ہی سیکھو تو بہتر ہے لڑکے نے اصرار کیا تو اس نے کہا کہ اچھا اگر تم ضرور ہی یہ علم سیکھنا چاہتے ہو تو میرے پیچھے پیچھے آجاؤ۔ مگر یاد رکھو جہاں ہم جا رہے ہیں۔ وہاں جاکر خدا کا نام نہ لینا۔ لڑکا بیان کرتا ہے کہ میں اپنے باپ کے شاگرد کے پیچھے ہوگیا۔ حتیٰ کہ ہم ایک غار پر پہنچے اور اس میں اتر گئے۔ ہم تین سو سیڑھیاں نیچے اترے تو وہاں ایک کنواں نظر آیا۔ کنوئیں کے اندر دو شخص نظر آئے۔ جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے الٹے لٹک رہے تھے۔ ان کی شکلیں عجیب و غریب تھیں۔ ان کی آنکھیں ڈھال کی طرح بڑی بڑی اور بڑی چمکدار تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر میرے دل میں خوف پیدا ہوا۔ اور میری زبان سے بےساختہ کلمہ لا الہ الا اللہ نکل گیا۔ یہ کلمہ سن کر وہ دو شخص اور زیادہ مضطرب ہوئے۔ میں پھر گھبرایا اور میرے منہ سے پھر وہی کلمہ نکلا۔ دو تین دفعہ ایسا ہی ہوا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ کہ تو کون ہو ؟ میں نے ان سے اپنا تعارف کرایا۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ اور اس حال میں کس وجہ سے ہو ؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ ہم ہاروت اور ماروت ہیں۔ اور یہاں سزا بھگت رہے ہیں۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ تم کس امت میں ہو تو میں نے بتایا کہ نبی آخر الزمان ﷺ کی امت میں ہوں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا آخری نبی کا ظہور ہوگیا ہے ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ انہوں نے کچھ علامتیں بھی دریافت کیں جو میں نے ان کو بتائیں۔ وہ دونوں بعض علامات پر خوش ہوئے۔ اور بعض پا ناراض ہوئے۔ میں نے اس کی و کہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ہم ان علامات پر خوش ہوئے ہیں۔ جو قرب قیامت سے متعلق ہیں کیونکہ قیامت برپا ہونے پر ہم اس عذاب سے رہائی پالیں گے۔ الغرض ! وہ لڑکا اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی وجہ سے سحر سے تو محروم ہوگیا ۔ تاہم اسے حقیقت معلوم ہوگئی اور وہ ہاروت ماروت کا عینی شاہد بن گیا۔ ہاروت ماروت کے واقعہ سے انکار : بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 71 ، مظہری ج 1 ص 107 ، طبری ج 1 ص 452) “ وما انزل علی الملکین ببابل ہاروت وماروت ” میں لفظ “ ما ” نافیہ ہے یعنی بابل کے مقام پر ہاروت ماروت پر کوئی چیز نہیں اتاری گئی۔ یہ سب جھوٹے قصے ہیں۔ جو بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ ان مفسرین کی ذاتی تحقیق ہے۔ بعض اصحاب یہ بھی کہتے ہیں (2 ۔ بیان القرآن ج 1 ص 246) کہ ہاروت ماروت کا سارا قصہ کہانی محض ہے چناچہ بشار ابن برد شاعر سے کسی نے پوچھا کیا آپ نے ال سلیمان سادات خاندان کے متعلق بھی کوئی قصیدہ لکھا ہے ؟ یہ اونچے درجے کا شاعر تھا۔ کہنے لگا۔ اس خاندان کے متعلق کچھ زیادہ تو نہیں لکھا۔ صرف یہ دو شعر کہتے ہیں (1 ۔ الکامل المبرد ج 3 ص 112) ؎ دینار ال سلیمان ودرھمھم کبابلیین حقا بالعفاریت لایرجیان ولا یرجی نوالھما کما سمعت بھاروت وماروت ال سلیمان بڑے کنجوس لوگ ہیں۔ ان کے درہم و دینار ایسے ہیں۔ جیسے دو بابلیوں کے اردگرد بہت سے بھوت جمع ہوں۔ اور وہ کسی کو نظر بھی نہ آئیں۔ اس طرح ال سلیمان کا مال و دولت بھی کسی کو نظر نہیں آتا۔ نہ ان سے کسی عطیے کی توقع ہے۔ اور نہ ان کے درہم و دینار کو دیکھنے کی امید۔ ان کی دولت ایسے ہی ہے جیسے تم نے ہاروت ماروت کا نام تو سن رکھا ہے۔ مگر ان کی حقیقت کچھ نہیں ۔ غرضیکہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں۔ جو ہاروت ماروت کے قصے کو افسانہ نے زیادہ حیثیت نہیں دیتے۔ سحر کیا ہے : تاہم اکثر مفسرین کہتے ہیں (2 ۔ تفسیر کبیر ج 3 ص 220 ، 221) کہ ہاروت ماروت فرشتے تھے۔ اگرچہ زہرہ والا واقعہ مصدقہ نہیں ہے۔ مگر ان فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے سحر کا علم دیکر نازل کیا تھا۔ تاکہ سحر اور معجزے میں فرق قائم کیا جاسکے۔ لغوی اعتبار سے سحر کا معنی لطیف ، باریک یا مخفی شئ ہے۔ سحر میں چونکہ کوئی چیز ظاہری طور پر نظر نہیں آتی۔ اس لحاظ سے اسے سحر کہتے ہیں سحر کا دوسرا معنی غذا ہے۔ جب انسان کوئی بھی گذا کھاتا ہے۔ تو ہضم ہو کر باریک باریک رگوں کے ذریعے جسم کے ہر حصہ میں پہنچتی ہے۔ یہ لطیف بھی ہوتی ہے کہ نظر نہیں آتی۔ گویا اس میں اخفاء اور پیچیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ زمانہ جاہلیت کے ایک مشہور شاعر امرء القیس کا کہنا ہے ؎ ارنا موضعین لا مرغیب ونسحر بالطعام وبالشراب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنی سواریاں دوڑا رہے ہیں۔ مگر کسی ایسی منزل کی طرف جس کا ہمیں علم نہیں ۔ یعنی پردہ غیب میں ہے اور ادھر ہم پر کھانے پینے کے ذریعے سغر کیا جاتا ہے۔ یعنی خوراک کھا کر ہم غافل ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ جسم میں تیز رفتاری سے سواریاں دوڑا رہے ہیں۔ جسم کی مشینری اتنی تیزی سے کام کر رہی ہے گویا ہزاروں میل کی رفتار سے چلنے والے ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے لیکن یہ سب کچھ پردہ غیب میں ہے۔ اسی طرح ایک شخص یوں کہتا ہے۔ ؎ فان تسئلینا فیم نحن فاننا عصافیر من ھذا الانام المسحر اگر تو ہم سے پوچھے کہ ہم کس حال میں ہیں ۔ تو میں کہوں گا کہ ہم تو سحر زدہ مخلوق میں سے چڑیوں کی مانند ہیں۔ جو کھانے پینے کے ذریعے اڑتے پھرتے رہتے ہیں۔ عربی زبان میں سحر کا ایک معنی پھیپھڑا بھی ہوتا ہے۔ وہ بھی مخفی ہوتا ہے۔ نظر نہیں آتا۔ لہٰذا اس لحاظ سے بھی سحر میں اخفا کا معنی پایا جاتا ہے۔ کیا ہاروت ماروت انسان تھے ؟ بعض فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر کبیر ج 3 ص 218) کہ ہاروت ماروت فرشتے نہیں بلکہ انسان تھے اور نیک آدمی تھے ان کے متعلق رجلین صالحین کے لفظ آتے ہیں۔ وہ بابل میں رہتے تھے اور سحر کا علم جانتے تھے۔ تاہم جب وہ لوگوں کو یہ علم سکھاتے تھے۔ تو انہیں خبردار بھی کرتے تھے کہ یہ علم اچھا نہیں ہے۔ اس سے بچ جاؤ تو بہتر ہے۔ ورنہ ایمان ضائع کر بیٹھو گے۔ کیونکہ سحر پر اعتقاد رکھنا اور اس پر عمل کرنا کفر میں داخل ہے۔ تاہم اس علم کے نزول میں کوئی خاص قباحت نہیں ہے۔ یہ ایک علم ہے۔ بعض کہتے ہیں (2 ۔ تفسیر کبیر ج 3 ص 318) کہ ہاروت ماروت “ ملکین ” (فرشتے) نہیں بلکہ ” ملکین ” یعنی بادشاہ تھے اور بڑی سلطنت کے مالک تھے۔ ان کے پاس یہ علم تھا ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ “ ملک ” کا اطلاق فرشتوں کے علاوہ نیک آدمیوں پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے سورة یوسف میں ملک کا لفظ یوسف (علیہ السلام) کیلئے بھی بولا گیا ہے “ ان ھذا الا ملک کریم ” وہ انسان نہیں بلکہ بزرگ فرشتہ ہے۔ کیا سارا جادو کفر ہے : امام ابو منصور تریدی (رح) اور ابو الحسن اشعری (رح) تیسری چوتھی صدی کے بلند پایہ امام گزرے ہیں۔ یہ امام اعظم (رح) کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ آپ بڑے متکلم ہے اور علم کلام میں آپ کو بڑا مرتبہ حاصل ہے۔ امام ابو منصور ما تریدی (رح) فرماتے ہیں کہ سحر کو مطلقا کفر کہنا درست نہیں کیونکہ اس کی بعض قسمیں کفر ہیں۔ بعض فسق اور بعض بدعت ۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) بھی اپنی تفسیر بیان القران میں فرماتے ہیں (1 ۔ بیان القرآن ج 1 ص 50 مطبوعہ محتبائی دہلی) کہ سحر اسی صورت میں کفر ہے جب کہ اس میں کفر یہ یا شرکیہ کلمات پائے جائیں مثلاً استعانت بالشیاطین ہو یا مافوق الاسباب ذرائع سے مدد طلب کی جائے۔ تو ایسا سحر کفر ہوگا۔ کیونکہ غائبانہ استعانت صرف اللہ تعالیٰ سے روا ہے۔ کسی دوسرے سے طلب نہیں کی جاسکتی۔ “ ایاک نعبدو وایاک نستعین ” کا یہی مطلب ہے کہ مافوق الاسباب اعانت اسی ذات خداوندی سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایسی استعانت خواہ شیاطین سے ہو ۔ کواکب سے ہو اصنام یا بتوں سے مطلوب ہو۔ سب شرک میں داخل ہے۔ ارواح خبیثہ کی تعظیم ، غیر اللہ کے نام کی نذر ماننا یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا یہ بھی کفر و شرک میں داخل ہے۔ اگر ایسا کرے گا تو یقیناً کفر کا مرتکب ہوگا۔ اگر سحر میں پڑھے جانے والے کلمات شرکیہ نہ ہوں بلکہ مباح یا جائز کلام ہو۔ تو پھر اس کی حیثیت مختلف ہوگی۔ اگر اس سحر کے ذریعے کوئی خلاف شرع کام مطلوب ہے۔ کسی کی ایذا رسانی مقصود ہے تو ایسی صورت میں یہ سحر فسق اور معصیت ہوگا۔ اور اگر سحر کے کلمات بھی مباح ہیں ۔ شرکیہ نہیں ہیں۔ اور اس سے غرض بھی فاسد نہیں ہے۔ خلاف شرع نہیں ہے تو اس صورت میں سحر تو بہرحال ناجائز ہوگا۔ مگر اسے زیادہ سے زیادہ بدعت کا دراہ دے سکتے ہیں۔ اسے یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم یہ کفر س شرک کے زمرہ میں نہیں آئے گا اور اگر کلمات مباح ہیں۔ ایذا رسانی بھی مقصود نہیں اور مطلوبہ کام بھی جائز ہے تو اس کو سحر نہیں کہیں گے۔ بلکہ اس کا عام اصطلاح میں عملیات اور عزیمت کہتے ہیں۔ جھاڑ پھونک ، گنڈا تعویز وغیرہ اسی ضمن میں آتے ہیں۔ جادوگر کی سزا : فقہاء اور محدثیں کرام فرماتے ہیں (2 ۔ احکام القرآن للجصاص ج 18 ص 15 کواکب امدری ج 2 ص 405) کہ اگر جادو کے نتیجے میں کسی کی جان ضائع ہوجائے تو اس کے بدلے میں ساحر کو قتل کردینا چاہئے اگر سحر کی وجہ سے جان بچ گئی ہے۔ کوئی دوسرا نقصان ہوا ہے۔ تو نقصان کی مناسبت سے ساحر کو تعزیری سزا دی جائے گی۔ ساحر کو پکڑنا مشکل کام ہے۔ کیونکہ جب تک مکمل ثبوت نہ ہو۔ کسی پر جادو کرنے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ تاہم اگر ایسا ممکن ہو یا ساحر خود اقرار کرلے تو پھر مذکورہ سزا کا مستوجب ہوگا۔ بشرطیکہ حکومت بھی اسلامی ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے مطابق اگر ساحرہ عورت ہو تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا (1 ۔ احکام القرآن جصاص ج 1 ص 50) بالکل اسی طرح جس طرح مرتدہ عورت کو قتل کی سزا نہیں دی جاتی بلکہ اسے قید میں رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح ساحرہ کو بھی قید کردیا جائے گا۔ البتہ بعض ائمہ عورت کو بھی قتل کرنے کے حق میں ہیں۔ اگر انسان جان کی تلف سے کم تر نقصان ہوا ہے۔ یعنی محض ایذا رسانی کا ارتکاب ہوا ہے۔ تو ساحرہ کو وہی سزا دی جائے گی۔ جو ڈکیتی کے مقدمہ میں دی جاتی ہے۔ قرآن پاک نے ڈاکو کے لیے چار قسم کی سزائیں مقرر کی ہیں۔ یعنی سولی پر لٹکانا ، قتل کرنا۔ الٹے سیدھے ہاتھ اور پاؤں کاٹنا ، اور حبس یعنی قید میں ڈال دینا۔ لہٰذا ساحر کو بھی اس کے جرم کے مطابق اسی قسم کی سزا دی جائے گی۔ میاں بیوی میں جدائی : بہرحال اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا “ وما یعلمن من احد حتی یقولا انما نحن فتنۃ فلا تکفر ” وہ دو فرشتے ہاروت اور ماروت جب کسی انسان کو جادو کا علم سکھاتے تھے۔ تو اسے واضح کردیتے تھے کہ ہم تو آزمائش ہیں۔ تم یہ کفر نہ کرو۔ اگر ایسا کروگے تو ایمان ضائع کر بیٹھو گے۔ مگر اس کے باوجود لوگ ان سے جادو کا علم سکھتے تھے۔ جن میں اہل کتاب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ “ فیتعلمون منہما ” اور وہ ان فرشتوں سے ایسی چیزیں سیکھتے تھے “ ما یفرقون بہ بین المرء وزوجہ ” جن کے ذریعے وہ میاں بیوی میں جدائی ڈال دیتے تھے۔ یہ ایسا برا عمل ہے۔ جس پر شیطان بہت زیادہ خوش ہوتا ہے (2 ۔ مسلم ج 2 ص 376) اور جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ تاہم سحر بھی ایک فن ہے۔ جس طرح دیگر فنون ہیں جیسے سائنس ، ٹیکنالوجی ، انجیرنگ وغیرہ وغیرہ۔ نافع اور ضار علم : فرمایا اگرچہ جادو ایذا رسانی کا ذریعہ ہے ۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے۔ کہ “ وما ھم بضارین بہ من احد الا باذن اللہ ” ایسا عمل کرنے والے ساحر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر ازخود کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ تاہم جادو کرنا۔ اس پر یقین رکھنا۔ چونکہ قباحت سے خالی نہیں۔ یہ مضر ہے ۔ مفید نہیں۔ اس لیے حضور ﷺ کی دعا ہے (1 ۔ نسائی ج 2 ص 321) “ اللھم انی اعوذ بک من علم لا ینفع ” اے اللہ ! میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں۔ جو نفع مند نہ ہو آپ فرمایا کرتے تھے۔ “ علمنی ما ینفعنی ” اے اللہ ! مجھے وہ علم عطا کر جو نفع بخش ہو۔ دنیا میں بھی اس سے فائدہ اٹھاؤں اور آخرت میں بھی فائدہ مند ہو۔ اسی بات کو فرمایا “ ویتعلمون ما یضرھم ولا ینفعھم ” یہ لوگ ایسا ہی علم سیکھتے ہیں۔ جو نفع کی نجائے انہیں نقصان پہنچاتا ہے فرمایا “ ولقد علموا لمن اشترہ ما لہ فی الاخرۃ من خلاق ” یہ لوگ خوب جانتے ہیں کہ انہوں نے اس علم کے ذریعے کیا خریدا ہے۔ یہ لوگ یاد رکھیں کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ظاہ رہے کہ آخرت میں ساحر کو اس علم کا کیا فائدہ ہوگا وہ تو الٹا عذاب میں مبتلا ہوگا۔ خاص طور پر اگر اس نے ایسا جادو کیا ہے۔ جس میں کفر و شرک پایا جاتا ہے۔ تو وہ یقیناً آخرت سے محروم رہے گا۔ آگے فرمایا “ ولبئس ما شروا بہ انفسھم ” انہوں نے بہت ہی بری چیز کے بدلے میں اپنی جانوں کو بیچا ہے۔ ان کا یہ سودا بہت ہی خسارے کا سودا ہے۔ “ لو کانوا یعلمون ” اگر ان میں کچھ بھی سمجھ ہوتی تو ایسا کام نہ کرتے۔ یہودیوں سے موافقت : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہودیوں کی بد اعمالیوں کا ذکر فرمایا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امت محمدیہ کا حال بھی ان سے زیادہ مختلف نہیں ہے جب لوگ اللہ تعالیٰ کے دین سے غافل ہوجائیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کردیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تہی دامن ہوجائیں۔ تو پھر پستی کی طرف ہی جانا ہوگا۔ آج انڑوپاک میں دیکھ لیں۔ دیگر ممالک پر نظر ڈال لیں۔ ہر طرف گندگی پھیلی ہوئی ہے۔ کتاب الٰہی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور دین کے لیے سعی وجہد کو ترک کردیا گیا ہے۔ دین کا دارو مدار عملیات پر رہ گیا ہے اس کام کے لیے یہ عمل کرلو۔ اس کام کے لیے وہ وظیفہ کافی ہے علم و عمل ختم ہوچکا ہے۔ علمائے حق کا ایک مدہم سا دیا ٹمٹما رہا ہے۔ ورنہ ساری دنیا کفر و ضلالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اہل کتاب کی طرح ہماری امت میں بھی حق و باطل غلط ملط ہوچکا ہے۔ صحیح اور غلط کی پہچان ایک عام شخص کے لیے مشکل ہوچکی ہے۔ دیہات میں حالات اور بھی خراب ہیں جہاں کے امام کے فرائض میں نماز پڑھانا بھی ہے۔ اور مردے کو غسل دینا بھی ۔ بچے کی پیدائش پر کان میں اذان بھی وہی کہتا ہے۔ عقیقہ کے لیے جانور ذبح کرنا ہو۔ تو امام صاحب کو بلایا جاتا ہے۔ اور تعویز گنڈے کی ضرورت پڑجائے تو بھی میاں صاحب دیں گے ، ان کا علم خطبہ جمعہ بھی تعارفی مسائل تک ہوتا ہے۔ دین کے علم سے بیچارے بےبہرہ ہوتے ہیں۔ غرض یہ حالت یہودیت سے مشابہت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا (1 ۔ بخاری ج 1 ص 1088 ، مسلم ج 2 ص 239 ، ترمذی ص 279) کہ میری امت بھی پہلے لوگوں کے نقش قدم پر بالکل اسی طرح چلے گی۔ جس طرح ایک جوتا دوسرے کے مشابہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ بعض علاقوں میں چار چار گاؤں کا ایک ہی امام ہے۔ بلکہ ہم نے خود سفر میں ملاحظہ کیا۔ کہ ایک علاقہ میں چھ سات گاؤں کا ایک ہی امام تھا۔ کہیں نکاح کرنا ہو۔ جنازہ پڑھانا ہو۔ وہی مولوی صاحب انجام دیں گے۔ تعویز گنڈے کا کاروبار چل رہا ہے۔ نقش سلیمانی والی کتابیں ہیں۔ لکھنؤ والے کی کتاب نافع الخلالق ہے۔ یا تعویز گنڈے والی دہلوی کی کتاب ۔ فالنامہ ہے۔ کسی مسئلہ کا حل مطلوب ہو۔ کتاب کھول کر معلوم کرلو۔ حتیٰ کہ چوری تک کی تفتیش عملیات کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ کالا علم جھاڑ پھونک وغیرہ سفلی عملیات ہیں۔ یہی چیزیں یہودیوں میں رائج تھیں اور آج ہم میں بھی یہی پائی جاتی ہیں۔ بعض صحیح وظائف بھی ہیں۔ جیسے سورة یسین کا ورد ہے۔ سورة مزمل کی روزانہ تلاوت ہے۔ رزق کی فراوانی کسی جائز چیز کے حصول ۔ یا کسی مصیبت سے رہائی کے لیے کسی کو کوئی اچھی بات بتا دی۔ مگر عام طور پر یہ گنڈے تعویز یہودیوں ولے ہیں۔ ذرا گھوم پھر کے دیکھ لیں۔ ماہرین عملیات کے ہاں عورتوں کی بھرمار ہے کوئی نہیں دیکھتا کہ مقصد جائز ہے یا ناجائز ، کفر ہے یا شرک ، سب ایک ہی گاڑی میں سوار چلے جا رہے ہیں۔ یہی یہودیت کی موافقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ ولو انھم امنوا واتقوا ” اگر یہ لوگ جادو کا کاروبار چلا نے کی نجائے ایمان لاتے اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے۔ شرک و بدعات سے اجتناب کرتے “ لمثوبۃ من عند اللہ خیر ” تو وہ اللہ تعالیٰ کے بہتر اجر وثواب کے مستحق ہوتے ۔ “ لو کانوا یعلمون ” اگر انہیں علم ہوتا۔
Top