Mualim-ul-Irfan - Ar-Rahmaan : 69
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگو ! عبادت کرو اپنے پروردگار کی جس نے تم کو پیدا کیا ہے۔ اور ان لوگوں کو جو تم سے پہلے گزرے ہیں ، تاکہ تم بچ جاؤ
گزشتہ سے پیوستہ : دوسرے رکوع کے اختتام تک اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے انسانوں کا ذکر فرمایا ہے۔ سورة بقرہ کی ابتدائی چار آیتوں میں ایمان والوں کا ذکر کیا ہے اور ا ن کے اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ اگلی دو آیتوں میں ظاہراً اور باطناً انکار کرنے والے کفار کا حال اور ان کا انجام بیان ہوا ہے۔ اس کے بعد تیرہ آیات میں منافقین کا حال تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ان کی چال بازی ، دھوکا بازی ، فریب کاری ، ریشہ دوانی ، ظاہرو باطن میں تفاوت ، فساد فی الارض اور غلط عقیدے کا رد ہے۔ پھر اس کی وضاحت دو مثالوں کے ذریعے کی گئی ہے۔ ایک آگ کی مثال اور دوسری پانی کی۔ منافقین کا انجام بھی بیان ہوا ہے اور تنبیہ بھی کی گئی ہے۔ مخاطبین قرآن : اب تیسرا رکوع شروع ہو رہا ہے۔ یہاں سے تمام انسانوں کو خطاب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر مظہری ج 1 ص 35) کہ قرآن پاک میں جہاں بھی “ یایھا الناس ” سے خطاب ہے وہاں روئے سخن اہل مکہ کی طرف ہے۔ کیونکہ نزول قرآن کے زمانہ میں اکثر و بیشتر وہی لوگ کفر میں مبتلا تھے ۔ اور جہاں پر “ یایھا الذین امنوا ” کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔ ان سے مراد اہل مدینہ ہیں کہ انہوں نے برضاؤ رغبت ایمان قبول کیا۔ اور اسلام کی مرکزیت کے لیے بیشمار قربانیاں دیں۔ تو یہاں پر “ یایھا الناس ” کے مخاطب دنیا کی تمام اقوام اور تمام بنی نوع انسان ہیں۔ جو لوگ اس وقت موجود تھے۔ ان سے براہ راست خطاب ہے۔ اور جو بعد میں آنے والے ہیں انہیں اہل ایمان کے واسطہ سے مخاطب کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے “ لانذرکم بہ ومن بلغ ” تاکہ میں اس قرآن پاک کے ذریعے تمہیں بھی تمہارے خطرناک انجام سے آگاہ کر دوں۔ اور جن لوگوں تک یہ قرآن پہنچے گا انہیں بھی متنبہ کردوں۔ گویا میں سب کو ان کے برے انجام سے ڈرا رہا ہوں۔ چار اہم مضامین : اس رکوع میں قرآن کریم کے چار اہم اور عمدہ مضامین کا تذکرہ ہے۔ سب سے پہلے توحید کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائے بغیر نجات کا کوئی راستہ نہیں۔ لہٰذا اس کے بغیر جنت کا دروازہ نہیں کھل سکتا۔ قرآن پاک کا دوسرا اہم مضمون رسالت ہے۔ نبی ﷺ پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص حد کمال کو نہیں پہنچ سکتا۔ تیسرا مضمون خود قرآن کریم اس کی حقانیت اور اس کا وحی الٰہی ہونا ہے۔ جسے قرآن پاک میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے۔ انسان کو زندگی کے ہر موڑ پر ہدایت اور راہنمائی کی ضرورت ہے۔ اور اس کا واحد ذریعہ وحی الٰہی ہے۔ کیونکہ یہاں پر انسانی عقل و شعور کام نہیں کرسکتے۔ انسان ہمیشہ علم کی روشنی میں ترقی کرتا ہے اور ذرائع علم میں سب سے اہم ، قطعی اور آخری ذریعہ وحی الٰہی ہے۔ اس رکوع میں چوتھے اہم مضمون معاد کا ذکر ہے۔ قیامت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ کیونکہ اچھے اور برے نتیجے کا دارو مدار روز قیامت پر ہے اس روز تمام چیزیں اپنی اصلی حالت میں ظاہر ہوں گی۔ نیکی اور بدی میں امتیاز ہوگا۔ اور انسان اس کے نتیجے میں ذمہ داری سے دو چار ہوگا۔ لہٰذا یہ اہم مضمون بھی یہاں بیان ہوا ہے۔ توحید : سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو توحید پر کار بند رہنے کا حکم دیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے “ یایھا الناس اعبدوا ربکم ”۔ اے انسانو ! اپنے رب کی عبادت کرو۔ توحید فی العبادت “ وحدوا ” اپنے رب کو وحدہ لا شریک مانو۔ اور اس کی عبادت کرو۔ کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ گویا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے توحید جیسی سب سے اہم انسانی ذمہ داری کا ذکر کیا ہے ۔ کیونکہ اس سلسلے میں اکثر لوگ غلطی میں ملتا ہوجاتے ہیں۔ عبادت کا مفہوم “ ایاک نعبد ” میں ذکر کردیا گیا تھا۔ کہ عبادت حقیقت میں اپنے ظاہرو باطن کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مصروف کرنا ہے۔ اور اس خاص عقیدے اور تصور کے ساتھ کرنا ہے کہ پوری کائنات اور اس کے تمام اسباب پر اسی مالک الملک کا تسلط ہے۔ ہر قسم کا نفع و نقصان اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ وہ علیم کل ، قادر مطلق اور مختار مطلق ہے۔ اسی ہستی کا تصور کرتے ہوئے اس کے سامنے انتہائی عاجزی کے اظہار کو عبادت کہتے ہیں ۔ عبادت کی ادائیگی بدن ، زبان ، دل ، مال اور افعال سے ہوتی ہے اور اس تصور کے ساتھ عبادت صرف خدا تعالیٰ کی ہی ہو سکتی ہے صفات الٰہی : یہاں پر اللہ تعالیٰ کی چند صفات بیان کرکے اس ہستی کی پہچان کرائی گئی ہے۔ جس کی عبادت مطلوب ہے۔ فرمایا “ اعبدوا ربکم ” یعنی اپنے رب کی عبادت کرو۔ اور رب خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں۔ وہی انسان کو پالنے والا ہے۔ انسانی زندگی کی ترقی اور بقا کے تمام اسباب مہیا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ انسانی وجود سے باہر جتنی بھی نعمتیں ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں ۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ کی دوسری صفت “ خلق ” بیان کی گئی ہے “ الذی خلقکم ” انسان کو سب سے پہلے اور سب سے بڑی نعمت جو میسر آتی ہے ، وہ اس کا وجود ہے۔ اسی لیے فرمایا اس ذات کی عبادت کرو۔ جس نے تم کو پیدا کیا۔ خالق اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں۔ “ اللہ خالق کل شیء ” گویا تمہارا خالق بھی وہی ہے۔ “ والذین من قبلکم ” اور تم سے پہلی قوموں کا خالق بھی وہی ہے۔ معرفت الٰہی : امام غزالی (رح) نے حدیث پاک کے حوالے سے لکھا ہے (1 ۔ ) کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں غوروفکر کرنا استعداد سے باہر ہے۔ کیونکہ “ لافکرہ فی الرب ” رب کی ذات میں فکر نہیں ہوسکتا۔ کہ یہاں تک عقل و شعور کی رسائی نہیں ہے البتہ اللہ تعالیٰ کی پہچان اس کی پیدا کردہ اشیاء میں غوروفکر سے حاصل ہوتی ہے۔ جب اسکی صفات سمجھ میں آجاتی ہیں تو اس کی ذات کی معرفت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اسی لیے حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مصنوعات میں غور و فکر کرنا چاہئے۔ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت ، اس کی قدرت ، اسکا علم ، اس کی رحمت اور اس کی ربوبیت سب کچھ سمجھ میں آئے گا۔ اور اس طرح خود اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے گی۔ حضور ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا ، تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ ہیں۔ سب سے پہلے توحید و رسالت کی دعوت دینا “ شھادۃ ان لا الہ الا اللہ وانی رسول اللہ ” یعنی سب سے پہلے اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے۔ اور حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا “ فاذاھم عرفوا ذلک ” جب وہ اس کو پہچان لیں تو پھر انہیں نماز ، روزہ اور دیگر احکام کا حکم دینا۔ گویا سب سے پہلے معرفت الٰہی اس کے بعد رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے اور باقی باتیں بعد میں بتانا۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کے متعلق قرآن پاک میں فرمایا ہے “ وما قدروا اللہ حق قدرہ ” انہوں نے تو خدا کے مرتبے کو بھی نہیں پہچانا ہے۔ جس طرح کی پہچاننے کا حق ہے اگرچہ یہ لوگ اہل کتاب اور صاحب علم ہیں۔ بڑے بڑے فلاسفر ہیں۔ مگر رب کی صفت کو نہیں پہچان سکے۔ اگر اس کی صفت کو پہچان لیتے تو پھر رک کا ارتکاب نہ کرتے۔ عزیز (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا نہ کہتے ۔ مسیح (علیہ السلام) کو ابن اللہ کا خطاب نہ دیتے اور حضرت مریم (علیہا السلام) کو مادر خدا نہ کہتے۔ غرضیکہ بندے اور خدا کو ایک نہ کردیتے۔ انہیں تو پہچان ہی نہیں ہوسکی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں پہچان کرائی ہے۔ کہ جب اللہ کی صفت کو پہچان لوگے تو اس کی عبادت ہوگی۔ اور اگر اس کی معرفت ہی حاصل نہیں ہوئی کہ وہ کن صفات کا مالک ہے۔ تو عبادت کس کی کروگے۔ عبادت الٰہی : فرمایا “ یایھا الناس اعبدو ربکم ” اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو “ الذی خلقکم ” وہ رب جس نے تم کو وجود کی نعمت بخشی۔ “ والذین من قبلکم ” اور جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں “ لعلکم تتقون ” تاکہ تم بچ جاؤ۔ “ لعل ترجی ” کے لیے ہوتا ہے اور “ ترجی ” کا معنی ہے امید لیکن امام جلال الدین سیوطی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر جلالین ص 6) کہ قرآن پاک میں “ لعل ” کا لفظ تحقیق کے لیے آتا ہے۔ تاکہ تم برے انجام اور کفر شرک سے بچ جاؤ۔ “ تتقون ” یعنی متقی بن جاؤ۔ اس رب کی پہچان کرنے کے بعد اس کی عبادت کرو۔ “ خلقکم ” میں صفت ایجاد کا تذکرہ ہے۔ کہ اس نے انسان کو عدم اور نیستی سے پیدا کیا ہے ۔ جس کے متعلق فرمایا “ لم یکن شیئا مذکور ” کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ اسے خدم سے وجود میں لایا۔ لہٰذا اپنے رب کی عبادت کرو۔ جس نے وجود جیسی نعمت عطا کی۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی عبادت سے متعلق احادیث میں بہت سے احکام موجود ہیں۔ ترمذی شریف اور مسند احمد میں یہ روایت (2 ۔ ترمذی ص 406 ، مسند احمد ج 4 ص 202) موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) پر وحی نازل فرمائی کہ لوگوں کو ان باتوں کی تبلیغ کرو۔ سب سے پہلی بات یہ کہو کہ “ ان تعبدوہ ولا تشرکوا بہ شیئا ” اے لوگو ! اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ کیونکہ اس کی مثال ایسی ہے “ کمثل رجل اشتری عبدا ” کہ کوئی شخص غلام خریدے۔ روپیہ یا سونا چاندی غلام خریدنے پر خرچ کرے۔ پھر اس غلام کو کام پر لگا دے۔ اور غلام مزدوری کرکے جو معاوضہ حاصل کرے وہ اپنے مالک کی بجائے کسی دوسرے شخص کو دے دے۔ فرمایا “ “ ایکم یرضی ان یکون عبدہ کذلک ” اس قسم کے غلام سے کون راضی ہو سکتا ہے کہ اس کا مالک وہ ہے۔ اس کی خوراک یا لباس اور رہائش کا بندوبست وہ کرتا ہے۔ مگر غلام دن بھر کی کمائی مالک کی بجائے دوسروں کو دے آتا ہے۔ فرمایا مشرک کا حال بھی یہی ہے کہ تمام نعمتیں اور ان کے اسباب اللہ تعالیٰ نے مہیا کیے ہیں ، مگر وہ تعظیم غیر کی کرتا ہے۔ یہ مشرک اس نمک حرام غلام کی طرح ہے۔ جو اپنی کمائی دوسروں کے گھر میں ڈال آتا ہے۔ الغرض فرمایا رب تعالیٰ کی پہچان نشانیوں سے ہوتی ہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ کی دو صفات بیان ہوئی ہیں۔ ایک ربوبیت اور دوسری خالقیت اگر انسان غوروفکر کرکے ان صفات کو پہچان لیں گے۔ کہ یہ صفات خدا تعالیٰ کے ساتھ ہی خاص ہیں۔ تو پھر وہ عبادت بھی اسی ہی کی کریں گے۔ وجود الٰہی پر دلائل : ہارون الرشید نے امام مالک صاحب (رح) سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے وجود پر کوئی دلیل بتلائیں۔ انہوں نے فرمایا (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 58) کہ انسان کی مختلف بولیاں ، مختلف آوازیں ، مختلف لب و لہجے اور مختلف نغمے خود خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل ہیں۔ دنیا میں چار ہزار مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں کیا یہ وجود الٰہی پر کچھ کم دلیل ہے۔ اہل سنت کے چار اماموں میں سے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) بڑے امام ہیں ۔ امام افعی (رح) اور امام احمد (رح) ان کے شاگرد ہیں۔ یا شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ پھر ان بڑے اماموں میں سے امام ابوحنیفہ ، امام اعظم ہیں ان کا مرتبہ زیادہ ہے۔ کیونکہ انہوں نے تقریباً آٹھ صحابہ کرام ؓ کی زیارت کی ہے (2 ۔ الخیرات الحسان لابن حجر مکی (رح) ص 21 ومناقب الامام ابی حنیفہ (رح) وصاحبیہ لحافظ ذہبی (رح) ص 7) یہ سعادت کسی دوسرے امام کو حاصل نہیں۔ آپ صحابہ کرام ؓ کے زمانہ سے قریب تر ہیں۔ آپ کی ولادت سنہ 80 ھ میں ہوئی جب کہ صحابہ کرام سنہ 110 ھ تک دنیا میں موجود رہے۔ انہیں امام اعظم (رح) کا واقعہ (3 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 58) ہے کہ دہریوں اور زندیقوں کی ایک جماعت آپ سے مناظرہ کرنے کے لئے حاضر ہوئی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی وجود یا ہستی نہیں ہے بلکہ کائنات کا یہ نظام خودبخود چل رہا ہے۔ جب انہوں نے امام صاحب (رح) سے گفتگو کرنا چاہی تو آپ نے فرمایا “ انی مفکر فی امر ” میں ایک معاملہ میں غور و فکر کر رہا ہوں۔ اور بات میری سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ مجھے بتلا یا گیا ہے کہ سامان سے بھری ہوئی ایک کشتی خودبخود دریا میں چل رہی ہے۔ اس کو چلانے والا کوئی ملاح اس میں نہیں ہے۔ مگر یہ پانی کی موجوں کو چیرتی ہوئی چلی جا رہی ہے۔ اور واپس آرہی ہے۔ وہ کہنے لگے یہ کس قدر بےعقلی کی بات ہے۔ بھلا کون عقل مند کہہ سکتا ہے کہ کشتی بغیر کسی چلانے والے کے خودبخود چل رہی ہے۔ یہ سب کر امام صاحب (رح) فرمانے لگے۔ “ ویحکم ” تم پر افسوس ہے کہ جب ایک معمولی کشتی چلانے والے کے بغیر چل نہیں سکتی۔ تو تمام کائنات ، عالم سفلی اور عالم علوی اور جو کچھ ان کے اندر ہے۔ کیا یہ نظام خود بخود چل رہا ہے۔ کوئی اس کا نگران نہیں ہے۔ اس حاضر جوابی سے تمام دہریے تائب ہوگئے اور امام صاحب کے ہاتھ پر ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے۔ کسی نے امام شافعی (رح) سے عرض کیا کہ حضرت ! وجود الٰہی پر کوئی دلیل لائیں۔ اتفاق کی بات کہ سامنے توت کا درخت تھا۔ امام صاحب فرمانے لگے (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ، ص 58) یہ توت کا درخت خدا تعالیٰ کے وجود پر دلیل ہے۔ دیکھو اس درخت کے پتوں کا ذائقہ ، مزہ اور بو یکساں ہے۔ مگر ریشم کا کیڑا اس پتے کو کھا کر ریشم نکالتا ہے ۔ شہد کی مکھی اس سے شہد حاصل کرتی ہے۔ بکری کھائے تو مینگنیاں نکالتی ہے۔ اور ہرن کھائے تو کستوری پیدا ہوتی ہے۔ بتاؤ یہ خدا تعالیٰ کا کام نہیں تو اور کس کا کام ہے۔ چار مختلف چیزیں ایک ہی پتا کھاتی ہیں اور ان سے مختلف چیزیں نکلتی ہیں ۔ یہ خدا تعالیٰ کی قدرت تامہ کا شاہکار ہے۔ کہ چاروں چیزوں کو الگ الگ پیدا کرتا ہے۔ امام احمد (رح) سے بھی کسی نے یہی سوال کیا۔ فرمانے لگے (2 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 59) کہ انڈہ قلعہ کی مانند ہے۔ اوپر سے سفید اور چکنا اور اندر سے سونے کی طرح زرد ہے۔ یہ اچانک پھٹتا ہے تو اس سے سمیع وبصیر حیوان نکلتا ہے۔ یہ خوبصورت جانور کون نکالتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے سوا اور کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ان ہی مصنوعات پر غور کرنے سے اس کی قدرت ، حکمت ، خالقیت اور ربوبیت کے رموز سمجھ میں آتے ہیں۔ لہٰذا اگر خدا تعالیٰ کی صفت سمجھ میں آگئی تو پھر عبادت بھی ٹھکانے لگے گی۔ فرمایا “ الذی جعل لکم الارض فراشا ” وہ خدا تعالیٰ جس نے زمین کو تمہارے لیے فرش بنایا۔ زمین کی ساخت اس طرح کی ہے کہ نہ دلدل کی طرح نرم اور نہ پتھر کی طرح سخت۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا معتدل بنایا ہے کہ انسان اپنی تمام ضروریات اسی سے پوری کرتا ہے اسی پر چلتے پھرتے ہیں۔ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ مکان بناتے ہیں۔ غرض زمین کو کمال درجے کا فرش بنایا توحید عبادت کے لیے شرط ہے : “ یایھا الناس اعبدو ربکم ” اے انسانو ! عبادت کرو اپنے پروردگار کی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اس کی تفسیر اس طرح بیان کرتے ہیں (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 71 ، درمنثور ج 1 ص 33 ، تفسیر مظہری ج 1 ص 35) ۔ “ اعبدو ربکم وحدو اللہ ” یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانو ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی تفسیر دو طریقے پر ہے۔ “ وحدو اللہ ” میں توحید کا لفظ پہلے بیان کیا۔ کیونکہ توحید عبادت کے لیے شرط ہے۔ اگر توحید ہوگی تو عبادت بھی کار آمد ہوگی۔ ورنہ کوئی فائدہ نہیں جس طرح نماز کے لیے طہارت شرط ہے۔ یعنی طہارت کے بغیر نماز ادا نہیں ہوگی۔ اسی طرح توحید کے بغیر عبادت نہیں ہوگی۔ تفسیر کے دوسرے طریقے میں “ وحدہ اللہ ” کا معنی یہ کیا ہے کہ عبادت صرف ایک خدا کے لئے کرو۔ یہ توحید فی العبادۃ ہے۔ خدا کے سوا کسی دوسرے کے لیے عبادت ہرگز جائز نہیں۔ بلکہ ایسا کرنا کفر ، شرک اور حرام ہے۔ دلائل توحید : اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے قوی دلائل موجود ہیں۔ سب سے پہلے خدا تعالیٰ جو مانع اور قادر ہے۔ اس کی صفات کا ذکر ہے کہ اس کے مشابہ کوئی چیز نہیں۔ نہ اس کا کوئی ۔۔۔ یعنی مقابل یا شریک ہے اور نہ اس کی کوئی مثل ہے۔ وہ ایسی اعلی وارفع ذات ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی۔ دلائل توحید کے متعلق فرمایا کہ آسمان کی بلندی پر غور کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بغیر ستون کے قائم کیا ہے۔ اس بات کا اشارہ سورة رعد میں کیا گیا ہے “ بغیر عمد ترونھا ” اسے تم بغیر ستونوں کے دیکھ رہے ہو۔ دنیا میں کوئی چھت بغیر ستون کے کھڑی نہیں ہوسکتی۔ مگر یہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ جس نے آسمان جیسی عظیم الشان چھت کو کھڑا کیا ہوا ہے۔ لطف یہ ہے کہ جب سے اسے قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں آیا۔ جب تک چاہے گا آسمان کو اسی حالت میں قائم رکھے گا۔ اور جب چاہے گا اسے توڑ پھوڑ دے گا۔ اور یہ درہم برہم ہوجائے گا۔ اسی بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا “ وجعلنا السمآء سقفا محفوظا وھم عن ایتھا معرضون ” دیکھو ! ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا ہے۔ مگر لوگ ہماری ان نشانیوں سے اعراض کرتے ہیں۔ ان میں غور و فکر نہیں کرتے۔ دلائل توحید کے سلسلے میں زمین کو دوسری دلیل کے طور پر پیش کیا ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کیسا ثبات بخشا ہے۔ امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ احکام القرآن ج 1 ص 28) کہ زمین کے اوپر بھی ہوا ہے اور نیچے بھی ہوا ہے۔ اور اسے فضا میں بغیر کسی سہارے کے قائم کر رکھا ہے۔ بلاشبہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے۔ لفظ خلق کی تشریح کل (گزشتہ درس میں) بیان کردی تھی۔ کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ خلقکم والذین من قبلکم ” یعنی وہ ذات جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ پھر فرمایا اس رب کی عبادت کرو “ الذی جعل لکم الارض فراشا ” جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا۔ فرش ، بستر ، دری ، چٹائی وغیرہ کو کہتے ہیں جس پر انسان آرام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش کے ساتھ اسی طرح تعبیر کیا ہے۔ جیسا پہاڑوں کے متعلق فرمایا “ والجبال اوتادا ” یعنی پہاڑوں کو کیل بنایا۔ اور سورج کے متعلق آتا ہے “ وجعل الشمس سراجا ” سورج کو اللہ تعالیٰ نے چراغ بنایا۔ ایک اشکال اور اس کا جواب : امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ احکام القرآن ج 1 ص 27) کہ اگر کوئی شخص قسم اٹھائے کہ میں فرش پر نہیں سوؤں گا اور وہ زمین پر سو جائے۔ تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو بھی فرش سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عرف عام میں فرش ، چارپائی ، دری ، قالین یا چٹائی کو کہتے ہیں ، زمین کو نہیں کہتے۔ اس لیے قسم نہیں ٹوٹے گی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص قسم اٹھائے کہ میں چراغ کی روشنی میں نہیں بیٹھوں گا یا نہیں پڑھوں گا اور وہ سورج کی روشنی میں بیٹھ کر پڑھے۔ تو بھی اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ حالانکہ سورج کو بھی اللہ تعالیٰ نے چراغ کہا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ عرف عام میں چراغ کا لفظ دیے یا لالٹین پر بولا جاتا ہے۔ سورج پر نہیں بولا جاتا۔ لہٰذا سورج کی روشنی میں اس کے لیے پڑھنا مباح ہوگا۔ ابوالحسین قدوری (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ مختصر القدوری ص 225 ، مطبوعہ نور محمد کراچی) کہ اگر کوئی شخص قسم اٹھائے کہ میں گوشت نہیں کھاؤں گا۔ مگر وہ مچھلی کھالے۔ تو اس کی قسم قائم رہے گی۔ حالانکہ مچھلی بھی گوشت ہی کی ایک قسم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے خود اسے “ لحما صریا ” یعنی تازہ گوشت فرمایا ہے۔ یہاں بھی وہی اصول کار فرما ہے۔ عرف عام میں گوشت کا اطلاق گائے بھینس یا بھیڑ بکری وغیرہ کے گوشت پر ہوتا ہے۔ مچھلی پر نہیں ہوتا۔ عبادت کیوں ضروری ہے : قرآن پاک کی اولین دعوت اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت ہے۔ اس مسئلہ میں تمام آسمانی کتب متفق ہیں کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی کی جائے۔ قرآن پاک جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیتا ہے۔ اسی طرح غیر اللہ کی عبادت سے منع بھی کرتا ہے۔ اس آیت میں فرمایا کہ اپنے رب کی عبادت کرو۔ تو عبادت کو ربوبیت پر مرتب فرمایا۔ گویا ربوبیت عبادت کی علت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اسی لیے کرو کہ وہ رب ہے۔ اگلی آیت میں ربوبیت کی تشریح بیان کردی گئی ہے کہ اس نے تم پر ایسے ایسے انعام کئے ہیں۔ لہٰذا اس کی عبادت ضروری ہے۔ ربوبیت کے سلسلہ میں سب سے پہلے صفت خلق کا ذکر ہے۔ اور پھر ظاہری ، باطنی ، علمی اور عملی ہر قسم کے انعامات کا بیان ہے۔ اس ضمن میں قرآن پاک بھی ایک بہت بڑا انعام ہے اس کے چار عمدہ مضامین یعنی توحید ، رسالت ، قرآن کی حقانیت اور معاد کا ذکر ہوچکا ہے۔ عبادت کے لائق صرف ذات باری تعالیٰ ہے : فرمایا اس رب کی عبادت کرو۔ جس نے تمہیں پیدا کیا۔ جب انسان اپنے بارے میں غور کرے گا تو اسے معلوم ہوگا۔ کہ پہلے وہ موجود نہیں تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا۔ نہ صرف اسے بلکہ اس کے آباؤ اجداد کو بھی پیدا فرمایا “ والذین من قبلکم ” تم سے پہلے تمام لوگوں کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ خالق وہ ہے باقی سب مخلوق ہیں۔ عاجز اور محتاج ہیں انسان اس قدر بےبس ہے کہ اس کے جسم کی کھال کا کوئی حصہ اتر جائے تو ساری مخلوق مل کر بھی اسے وہ کھال مہیا نہیں کرسکتی۔ اس سلسلے میں نہ جنات کوئی مدد کرسکتے ہیں اور نہ فرشتے ۔ نہ نیک انسان کسی کام آسکتے ہیں اور نہ ۔۔۔ اسی لیے خود انسان یا کسی دوسری مخلوق میں کوئی بھی عبادت کا مستحق نہیں۔ گویا کسی چیز میں ایسی صلاحیت موجود نہیں جس کی بناء پر اس کی عبادت کی جائے ۔ لہٰذا عبادت صرف اسی ذات اقدس کی ہو سکتی ہے جو واجب والوجود ہے ۔ یعنی جس کا وجود خود بخود ہے۔ جو خالق ، رب ، علیم کل ، قادر مطلق ، مختار کل اور نفع و نقصان کا مالک ہے ۔ جو ازلی و ابدی ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔ باقی ہر چیز حادث اور فانی ہے۔ کل شیء ھالک الا وجھہ ہر چیز بالفعل ہلاک ہے ، یا فنا ہوجائے گی۔ دوام اور بقا صرف اس ذات اقدس کے لیے ہے۔ جو محسن اور منعم ہے۔ جو سمیع وبصیر ہے لہٰذا عبادت بھی اسی کی ہو سکتی ہے۔ فرمایا عبادت کرنے کا فائدہ یہ ہوگا “ لعلکم تتقون ” تاکہ تم خدا کی پکڑ اور اس کے عذاب سے بچ جاؤ۔ تقویٰ بچاؤ کو کہتے ہیں کہ اگر اس کی عبادت کرتے رہو گے تو بچ جاؤ گے۔ ورنہ اس کی گرفت میں آجاؤ گے۔ عبادت الٰہی کو لازم پکڑو گے تو دنیا میں برائی سے بچ جاؤ گے اور آخرت میں عذاب سے محفوظ رہو گے۔ زمین کے فوائد : “ الذی جعل لکم الارض فراشا ” وہی قادر مطلق اور مہربان خدا تعالیٰ جس نے زمین کو تمہارے لیے فرش کے طور پر بنایا۔ ایسا فرش جو نہ پتھر کی طرح سخت ہے اور نہ پانی کی طرح بالکل نرم ۔ یہ ہوا کی طرح لطیف بھی نہیں بلکہ بابطع اس کو خشک بنایا۔ تاکہ یہ دوسری چیزوں کے ساتھ مل کر مفید مرکب بن سکے۔ اور لوگوں کے کاروبار ٹھیک طور پر چل سکیں۔ اس زمین میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی بیشمار نشانیاں و دیعت کی ہیں کرہ ارض کے مختلف حصوں کی زمین مختلف ہے۔ یہ بھی ایک نعمت خداوندی ہے “ وفی الارض قطع مبحورت ” زمین کے ٹکڑے الگ الگ ہیں ، رنگت کے اعتبار سے کوئی حصہ سفید ہے۔ اور کوئی حصہ سیاہ ہے۔ “ ومن الجبال جدد بیض وحمر مختلف الوانھا ” کہیں سرخ گھاٹیاں ہیں اور کہیں سیاہ پتھر ہیں۔ وضع قطع میں واضح اختلافات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں روئیدگی کی صلاحیت بھی رکھی ہے۔ قرآن پاک میں دوسری جگہ آتا ہے “ والارض ذات الصدع ” قسم ہے زمین کو جو پھٹ کر پودے اور نباتات کو باہر نکالتی ہے پانی کو اپنے اندر جذب کرکے محفوظ رکھتی ہے۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور دوسرے مقام پر فرمایا “ فسل کہ ینابیع فی الارض ” پھر اس کو زمین میں نالیوں اور چشموں کی شکل میں چلاتا ہے۔ ضرورت کے وقت چشمے یا نہریں جاری ہوجاتی ہیں۔ یا کنویں کھود کر پانی حاصل کیا جاتا ہے جس سے انسان ، جانور اور کھیتیاں یکساں طور پر مستفید ہوتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زمین میں کرم و سخاوت کا وہ مادہ رکھا ہے کہ اس میں ایک دانہ پھینکو یہ سو دانے لوٹائے گی۔ اس پر خود قرآن شاہد ہے۔ زمین میں انسان پر روز موت وحیات کا مشاہدہ کرتے ہیں ایک جگہ فرمایا “ وایۃ لھم الارض المیتۃ احیینھا ” دیکھتے نہیں ، کہ زمین بالکل مردہ یعنی خشک ہوتی ہے۔ پھر اس کو ہم زندہ کردیتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ لوگ ہر موسم میں کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قیامت کا نقشہ انسان کی نگاہ میں رہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں مختلف قسم کے جانور پھیلا دئیے “ وبث فیھا من کل دابۃ ” ، جنہیں انسان شمار تک نہیں کرسکتا۔ پھر دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے زمین کے مختلف طبقات میں مختلف قسم کے پتھر رکھ دیے جن میں بڑے بڑے قیمتی اور معمولی سے معمولی ہر قسم کے پتھر انسانی ضروریات کے لیے موجود ہیں۔ زمین کی افادیت کے متعلق مزید فرمایا “ خلق لکم ما فی الارض جمیعا ” اے انسانو ! تمہارے ہی فائدے کے لیے زمین کی ساری چیزوں کو پیدا کیا۔ ذرا غور کرو۔ پتھروں میں عقیق اور یاقوت بھی ہے۔ اور زمرد اور ہیرا بھی۔ نفیس مرمر اور سنگ خار ابھی ہے سنگ سرخ بھی ہے اور سماق بھی ہے۔ پھر یہ کہ زمین میں اللہ تعالیٰ نے وسیع کانیں رکھ دی ہیں کہیں سونے کی کان ہے۔ اور کہیں چاندی کی کہیں سے تانبا نکل رہا ہے اور کہیں سے لویا ۔ کہیں سے پٹرول برآمد ہو رہا ہے اور کہیں سے کسی اور تیل کے چشمے ابل رہے ہیں۔ صنعت و حرفت کا سارا دارو مدار انہیں کانوں پر ہے۔ اگر زمین یہ چیزیں مہیا نہ کرے تو تمام کارخانے بند ہوجائیں اور پوری دنیا افراتفری کا شکار ہوجائے۔ یہ بڑے بڑے پہاڑ اور سلسلہ ہائے کوہسار زمین پر ہی قائم ہیں۔ جن کے ساتھ انسان کے بیشمار فوائد وابستہ ہیں۔ سورة حجر میں فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو اس لیے پیدا کیا تاکہ تمہاری زمین کا توازن قائم رہے اور یہ مضطرب نہ ہونے پائے۔ آسمان اور پانی کی نعمت : فرمایا اس رب کی عبادت کرو جس نے آسمان کو چھت بنایا “ والسمآء بنآء ” یہ بھی خدا تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ دیکھو ! روشنی کے لیے مہتاب اور آفتاب کو آسمان میں ہی رکھا ہے اس میں ستارے اور سیارے بھی ٹکائے ہیں۔ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے اعمال کے صعود کی جگہ آسمان ہے۔ اور ادھر سے نزول وحی کا مقام بھی آسمان ہے فرمایا وہی رب “ وانزل من السمآء مآء ” جس نے آسمان سے پانی اتارا اور جس کے نتیجے میں “ فاخرج بہ من الثمرات رزقا لکم ” یعنی پانی کے ذریعے زمین سے پھلوں کو نکالا جو تمہارے لیے روزی کا سامان ہیں۔ اگر آسمان سے پانی نازل نہ ہو۔ تو کھیتی باڑی نہ ہوسکے درخت سوکھ جائیں۔ اور نہ کوئی فصل پیدا ہو اور نہ کوئی پھل۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسی رب کی عبادت کرو۔ جس نے پانی اتار کر یہ تمام نعمتیں تمہارے استفادہ کے لیے پیدا فرمائیں۔ لفظ ند کا معنی : یہ سب نعمتیں ذکر کرنے کے بعد فرمایا “ فلا تجعلوا للہ ان دادا ” جب یہ تمام انعامات اللہ تعالیٰ نے عطا کیے ہیں تو پھر اس کے لئے “ ند ” نہ ٹھہراؤ۔ اس کا شریک نہ بناؤ۔ “ ند ” کا لفظی معنی ہے۔ المثل المساوی مگر اصطلاحاً “ ند ” اس کو کہتے ہیں جو ذات اور جوہر میں شریک ہو۔ جریر کا شعر ہے (1 ۔ دیوان جریر ص 129) اتیما تجعلون الی ندا وھل تیم لذی ھسب نلید تم نبی تیم کو میرا شریک بناتے ہو حالانکہ نبی تیم تو کسی شریف آدمی کے شریک نہیں بن سکتے وہ تو کمینے آدمی ہیں۔ ایک بذ ہے اور ایک شبیہ ہے۔ شبیہ یا مشابہ اس چیز کو کہتے ہیں ۔ جو کیفیت میں برابر ہو جیسے گرمی ، سردی ، سختی ، نرمی وغیرہ ۔ اسی طرح جو چیز طول ، عرض اور عمق میں برابر ہو۔ اسے مشاکل کہتے ہیں۔ چناچہ فرمایا اللہ تعالیٰ کے لیے شریک مت ٹھہراؤ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے سوا واجب الوجود کوئی نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی علیم کل اور قادر مطلق نہیں۔ یہ ایسی صفات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ مگر تم جہالت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا ند ٹھہراتے ہو۔ آج دنیا میں خدا تعالیٰ کے مد مقابل اور شریک ٹھہرانے والے بیشمار مجوسی موجود ہیں ۔ ثنوی مذہب والے دو خدا مانتے ہیں۔ ایک نیکی کا دوسرا بدی کا ۔ ایک کا نام یزدان رکھا ہے۔ اور دوسرے کا نام اہرمن۔ ان کے نزدیک ایک شر کا خدا ہے۔ اور دوسرا خیر کا نور کا خدا اور ہے اور ظلمت اور نور اسی وحدہ لاشریک لہ کے پیدا کردہ ہیں۔ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ وہی ذات ہے جس نے خود تمہیں بھی پیدا کیا ہے۔ بعض لوگ ستاروں میں مستقل تاثیر کے قائل ہیں۔ ایسے لوگ نیک بختی اور بدبختی اور ترقی و تنزل کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ یہ صابی فرقہ کے لوگ ہیں۔ جو ستاروں کو اللہ تعالیٰ کا ند ٹھہراتے ہیں۔ بعضے لوگ اصحاب قبور سے حاجتیں طلب کرتے ہیں۔ اور اس طریقے سے خدا کا ند ٹھہراتے ہیں بعض لوگ پیروں کو ہر حالت میں مستجاب الدعوات سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا چاہے راضی ہو یا ناراض پیر ہو حالت میں سفارش کریں گے۔ آج کل پیر پرست لوگوں کا یہی عقیدہ ہے کہ پیر کا دامن پکڑ لیا ہے۔ بس پار ہوجائیں گے۔ کسی نیکی بدی کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ اس قسم کی سفارش کو قرآن پاک نے جبری سفارش سے تعبیر کیا ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ “ ولا یشفعون الا لمن ارتضی ” اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی جبری سفارش نہیں ہوگی۔ سفارش کی اجازت اسے ہوگی جس سے خدا تعالیٰ راضی ہوگا۔ اور جس کا عقیدہ خدا تعالیٰ کو پسند ہوگا۔ چونکہ کفر و شرک اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود عقائد ہیں۔ لہٰذا کسی مشرک کی سفارش ممکن نہیں ہے۔ یہ ند ٹھہرانے کی مختلف صورتیں ہیں۔ شرک فی المشیت : بعض لوگ مشیت میں شرک کرتے ہیں ۔ حضور ﷺ کے سامنے ایک شخص نے کہا “ ماشاء اللہ وما شئت ” تو آپ نے فرمایا “ اجعلتنی للہ ندا ” کیا تم نے مجھے خدا کے ساتھ شریک ٹھہرا لیا ہے۔ “ قل ما شآء اللہ وحدہ ” کہو ، جو صرف اللہ تعالیٰ چاہے۔ قرآن پاک میں موجود ہے۔ “ وما تشآءون الا ان یشآء اللہ رب العلمین ” تم اس وقت تک نہیں چاہ سکتے۔ جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے۔ البتہ بعض روایات میں (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 57 ، درمنثور ج 1 ص 35) یوں آتا ہے کہ کہو “ ماشاء اللہ ” جو اللہ چاہے اس کے بعد جو تمہارا ارادہ ہے اس کے مطابق عمل کرو ، شرک سے بچ جاؤ گے ۔ شرک فی العادت : شاہ اسماعیل شہید (رح) اور دوسرے علمائے کرام فرماتے ہیں (2 ۔ تقویۃ الایمان ص 77 ، 91) کہ شرک عبادت میں بھی ہوتا ہے اور عادت میں بھی ہوتا ہے۔ شرک فی العادت کی مثال زنار کا دھاگا ہے۔ جو ہندو یا نجوسی اپنے جسم کے ساتھ باندھتے ہیں۔ عیسائی صلیب باندھتے ہیں۔ یہ بھی شرک فی العادت ہے۔ حضور ﷺ نے صلیب کو کفر کی نشانی بتایا ہے۔ اسی لیے فرمایا (3 ۔ ترمذی ص 441) “ اطرح عنک ھذا الوثن ” اسے اتار دو ، یہ بت ہے۔ حدیث شریف (4 ۔ بخاری ج 1 ، ص 490 ، مسلم ج 1 ص 87) میں آتا ہے کہ جب مسیح (علیہ السلام) دوبارہ تشریف لائیں گے تو صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے۔ صلیب کی شکستگی اس لیے ہوگی۔ کہ یہ کفر کی نشانی ہے۔ اور وہ بھی نبی کے نام پر اور خنزیر کو قتل کریں گے۔ کہ عیسائیوں نے اسے بکری کی طرح حلال قرار دے لیا ہے حالانکہ یہ کسی نبی کی شریعت میں حلال نہیں ٹھہرا۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں (5 ۔ حجۃ اللہ البالغہ ج 2 ص 180) کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد جتنے پیغمبر آئے ہیں۔ سب کی شریعتوں میں خنزیر حرام ہی رہا ہے۔ شرک کی دوسری قسمیں : بعض لوگ بچے کے سر پر چوٹی رکھ کر شرک کے مرتکب ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ چوٹی فلاں بزرگ یا فلاں خواجہ کی رکھی ہے۔ اگر یہ چوٹی نہ رکھتے تو بچہ مر جاتا۔ یہ صریح اور جلی شرک ہے۔ بعض لوگ مجوسیوں کے نوروز یا عیسائیوں کے بڑے دن کی تعظیم بجا لاکر شرک کرتے ہیں۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں ایسے مواقع پر جو تحفہ میں پھول ، ہار ، ڈالی یا کوئی اور ہدیہ پیش کریگا اور تعظیم کریگا تو شرک میں مبتلا ہوجائے گا۔ بعض مشائخ نے کفر تک کا فتویٰ لگایا ہے۔ کچھ لوگوں کے اندر ۔۔۔ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ غیر اللہ کے تقرب کے لیے نذرونیاز دیتے ہیں ہم ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ قبروں اور زیارتوں پر کس کس طرح اور کس کس نام کے عرس منعقد ہو رہے ہیں۔ یہ سب بدعت اور بعض شکلوں میں شرک ہے۔ بعض لوگ غیر اللہ کی قسم اٹھا کر شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور کچھ غیر اللہ کے نام پر بچے کا نام رکھ کر شرک کرتے ہیں۔ جیسے عبد المصطفی ، حالانکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ عبد اللہ یا عبد الرحمن وغیرہ نام رکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی جائے۔ بعض لوگ استعانت طلب کرنے میں شرک کرتے ہیں یعنی غائبانہ طور پر مافوق الاسباب قبروں والے بزرگوں اور اولیاء سے مدد چاہتے ہیں یہ سب شرک ہے۔ “ واللہ علی کل شیء شھید ” خدا تعالیٰ کی ذات ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ اس سے مدد طلب کرو۔ تم غائبوں کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہو۔ جن کا کوئی اختیار نہیں۔ ان کو تو یہ بھی علم نہیں کہ تم کس تکلیف میں مبتلا ہو۔ چہ جائیکہ ان کے آگے دست سوال دراز کرو۔ بعض لوگ جانور ذبح کرتے وقت “ بسم اللہ وباسم محمد یا بسم اللہ وباسم فلاں ” یعنی فلاں بزرگی یا فلاں پیر کے نام پر۔ ایسی صورت میں جانور سرے سے مردار ہوگیا (1 ۔ ہدایہ ج 4 ص 370) فقہائے کرام نے اسے بسم اللہ میں شرک قرار دیا ہے۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو شگون لے کر شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا (1 ۔ مسند احمد ج 1 ص 289) الطیرۃ شرک ” شگون لینا شرک کی بات ہے۔ بعض لوگ غیب کی خبریں معلوم کرنے کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کاہن ، سنیاسی ، نجومی ، دست شناس ، یا جفار کے پاس جا کر پوچھتے ہیں اور ایمان کو ضائع کرلیتے ہیں اس قسم کی خبروں پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔ یہ اپنی جیب سے پیسے دیکر شرک خریدنے کے مترادف ہے۔ بعض لوگ تعویذ گنڈے کی شکل میں شرک کرتے ہیں۔ تعویذ گنڈے کرنے والے اکثر غلط کار لوگ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے کلام یا حضور نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق پڑھ کر دم کر دے یا لکھ کر دے دے تو جائز ہے وگرنہ یہ ٹونے ٹوٹکے جن کے ساتھ طرح طرح کی شرائط وابستہ ہوتی ہیں ۔ یہ سب شرکیہ یا بدعت اور معصیت کی باتیں ہیں۔ بعض لوگ غیر اللہ کو غائبانہ طور پر پکار کر شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جیسے یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا للہ یہ ندا کا شرک ہے۔ اور پھر ان سے حاجتیں بھی طلب کرتے ہیں۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید تقویۃ الایمان میں لکھتے ہیں (2 ۔ تقویۃ الایمان ص 79 فصل شرک فی العادات ) کہ دیکھو ! ایسے لوگ کتنی غلط بات کرتے ہیں۔ کہ بندے کو اصل ٹھہرا دیا۔ اور خدا تعالیٰ کو واسطہ بنا دیا۔ اگر اس کا الٹ کردیتا تو درست تھا۔ یعنی یا اللہ شیئا للشیخ عبد القادر جیلانی ۔ اے مولا کریم ! شیخ عبد القادر جیلانی (رح) کے واسطے اور ان کے طفیل سے میرا یہ کام کر دے۔ مگر اس شخص نے شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) تعالیٰ کو منتہیٰ بنا کر اللہ تعالیٰ کو واسطہ کے طور پر پیش کیا۔ اور اس کے ساتھ توہین کا بھی مرتکب ہوا۔ غیر سے امداد طلب کرکے کفر میں مبتلا ہوا۔ شرک خفی : شرک جلی کے بعد شرک خفی کا ذکر بھی ہوجائے۔ شرک خفی ریا میں پایا جاتا ہے۔ یا بعض دوسری اعتقادی صورتوں میں ہوتا ہے۔ چونکہ اس قسم کا شرک خفیف ہوتا ہے۔ اس لیے اس سے بچنے کے لیے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے امام ابن کثیر اور امام رازی (رح) نے اس کی مثال دی ہے (3 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 57) کہ بعض “ واللہ وحیاتک ” اللہ کی قسم اور تیسری زندگی کی قسم یا میری زندگی کی قسم یا بعض لوگ اس طرح کہہ جاتے ہیں کہ اگر رات کو یہ کتا نہ ہوتا تو ہم لٹ جاتے۔ یہ بطخ مکان میں موجود تھی جس کی وجہ سے ہم چوری سے بچ گئے۔ یہ شرک خفی کی مثالیں میں۔ عام محاورے میں یوں بھی کہا جاتا ہے۔ کہ ٖڈاکٹر صاحب یا حکیم صاحب کی مہربانی سے مریض بچ گیا۔ ورنہ مر گیا تھا۔ یہ پہرے دار یا چپڑاسی نہ ہوتا۔ تو ہم تباہ ہوگئے تھے۔ یہ تمام چیزیں اس لیے شرک خفی کی فہرست میں آتی ہیں۔ کہ ان چیزوں کو مؤثر سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ ہر چیز میں اثر ڈالنے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اطاعت بغیر اللہ : جس طرح غیر اللہ کی عبادت مطلقاً کفر اور شرک ہے۔ اسی طرح غیر اللہ کی بالاستقلال اطاعت بھی شرک ہے اطاعت غیر کا مطلب یہ ہے کہ نبی یا کسی بزرگ کی اطاعت کرتا ہے۔ مگر اسکو مبتغ نہیں سمجھتا بلکہ سب کچھ اسی کو سمجھ رہا ہے یعنی وہ جو بھی حکم کرے گا۔ اس کی بلا چون و چرا اطاعت کی جائے گی۔ “ اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ ” اسی کو کہا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو رب بنا لیا تھا۔ یہ شرک ہے۔ البتہ نبی کی مطلق اطاعت فرض ہے کیونکہ نبی کے بغیر انسان اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی اور اس کی خوشنودی معلوم نہیں کرسکتا۔ مگر نبی کا حکم مستقل نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہوتا ہے۔ “ وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ ” ہم نے دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) کو اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے ۔ نبی کی اطاعت فرض ہے بحیثیت رسالت کے۔ اور علی الاطلاق صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ نبی کے لفظ میں یہ بات پائی جاتی ہے۔ کہ وہ اپنی جانب سے کوئی حکم نہیں دیتا۔ بلکہ “ ان اتبع الا ما یوحی الی ” میں تو اسی حکم کی تعمیل کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے۔ یعنی منجانب اللہ ہوتا ہے ۔ باقی رہی یہ بات کی علمائے کرام مجتہدین شیخ طریقت ، بادشاہ وقت ، امرا ، حکام اور والدین کی اطاعت بھی کی جاتی ہے۔ نیز غلام اپنے آقا کی اطاعت بھی کرتا ہے تو یہ سب اطاعتیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ مقید ہیں کہ اس کے حکم کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔ شیخ ، پیر ، حاکم ، استاد اور والدین کی اطاعت ، غلام کی اطاعت وغیرہ اسی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا (1 ۔ ترمذی ص 262 ، مسلم ج 2 ص 165 ، بخاری ج 2 ص 1078) ۔ “ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ” خالق کی معصیت کرتے ہوئے۔ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق کی اطاعت روا نہیں ہے۔ ایسا کرنا شرک کے مترادف ہے۔ ان کی اطاعت مطلق نہیں ہے۔ بلکہ بنی کی اطاعت مطلق ہے۔ کیونکہ نبی اپنی جانب سے حکم نہیں دیتا۔ بلکہ وہ منجانب اللہ ہوتا ہے۔ باقی لوگ چونکہ اپنی طرف سے حکم دیتے ہیں۔ اسی لئے ان کے حکم کو جانچنا ہوگا۔ صحیح حکم کی اطاعت ہوگی۔ اور خلاف شرع غلط بات کو ٹھکرا دیا جائے گا۔ اسی لیے فرمایا “ فلا تجعلوا للہ انداد وانتم تعلمون ” اللہ تعالیٰ کے لیے ندنہ ٹھہراؤ۔ اور تم جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں کوئی نافع اور ضار نہیں۔ کوئی خالق اور قادر مطلق نہیں ۔ جب یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ کی ہیں۔ تو پھر اس کی عبادت اور اس کی صفات میں غیروں کو کیوں شریک مانتے ہو۔ مسئلہ توحید قرآن پاک کا بنیادی مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دو آیتوں میں یہ مسئلہ سمجھا دیا ہے۔ اس کے بعد دوسرے مضامین ہوں گے۔
Top