Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے انسانو !60 ۔ عبادت (اختیار) کرو اپنے پروردگار کی61 ۔ جس نے تمہیں پیدا کیا62 ۔ اور تم سے قبل والوں کو (بھی)63 ۔ عجب نہیں کہ تم پرہیز گا بن جاؤ64 ۔
60 ۔ قرآن مجید کا مخاطب سارا عالم انسانیت ہے۔ کوئی مخصوص نسل مثلا بنی اسرائیل اور کوئی مخصوص قوم مثلا اہل عرب نہیں۔ خطاب لجمیع من یعقل (بحر) یہ طرز خطاب خود ایک دلیل ہے تخاطب کے عام ہونے پر۔ پچھلے دو رکوعوں میں موجودات انسانی کی سہ گانہ تقسیم از روئے اعتقاد بیان ہوچکی ہے۔ یعنی مومن، کافر، منافق، اب خطاب سارے عالم انسانی کو مجموعی طور پر شروع ہورہا ہے۔ 61 ۔ قرآن مجید کے اصل پیام کا آغاز گویا اب ہورہا ہے۔ اور اس کا عنوان اول ہے مسئلہ تو حید، کہ وہی اصل و اساس ہے سارے عقائد ومسائل اسلامی کی۔ 62 (تن تنہا، بلاکسی کی شرکت واعانت کے) عمل تخلیق خالص خدائی عمل ہے۔ ہمسر و مساوی ہونا تو خیر الگ رہا، ماتحت ومعاون کی بھی حیثیت سے کوئی شریک تخلیق نہیں۔ پھر (آیت) ” خلقکم “ سے اس پر بھی زور دینا مقصود ہے کہ کائنات ” خلق “ ہوئی ہے، نیست سے ہست ہوئی ہے، عدم سے وجود میں آئی ہے۔ یہ نہیں کہ پہلے سے کوئی غیر مخلوق مادہ موجود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت میں کوئی خاص صفت وترتیب پیدا کردی۔ بہت سے باطل مذہبوں کا رداسی سے نکل آیا۔ 63 (پس الوہیت ومعبودیت کا سزاوار وہی ایک خالق بےہمتا ہے) (آیت) ” الذین من قبلکم “ سے پچھلی انسانی نسلوں کا مراد ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ خلقت انسانی سے قبل روئے زمین پر کوئی اور مخلوق بھی آباد ہو، جیسا کہ توریت میں درج بھی ہے۔ قرآنی لفظ ان سب ممکن مخلوقات پر حاوی ہے۔ ” تم کو “ (یعنی موجودین بصیغہ حال) اور ” تم سے قبل والوں کو “ (یعنی موجودین بصیغہ ماضی) یہ دو لفظ لاکر قرآن مجید نے اشارہ ادھر بھی کردیا کہ توحید کا درس ماضی وحال، تاریخ ومشاہدہ دونوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 64 (کہ توحید ہی مرتبہ تقوی تک پہچانے کا بےخطا نسخہ ہے) تکونو من المتقین الذین ؓ ربھم (ابن جریر) لعل ہے تو اظہار شک اور امیدوآرزو کے لیے۔ لیکن قرآن مجید میں جہاں حق تعالیٰ کی طرف سے ادا ہوا ہے تو کسی فعل کی آرزو کی جگہ اس کے وقوع کا اور شک واحتمال کی جگہ یقین کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔ اور اردو ترجمہ ” تاکہ “ سے بھی جائز ہوگیا۔ ھی کلمۃ رجاء وطمع وشک وقد جاءت فی القرآن بمعنی کی (لسان) وقد جاءت فی القران بمعنی کی (تاج) ۔
Top