Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ
: اور
اِذْ
: جب
قُلْنَا
: ہم نے کہا
لِلْمَلٰٓئِکَةِ
: فرشتوں کو
اسْجُدُوْا
: تم سجدہ کرو
لِاٰدَمَ
: آدم کو
فَسَجَدُوْا
: تو انہوں نے سجدہ کیا
اِلَّا
: سوائے
اِبْلِیْسَ
: ابلیس
اَبٰى
: اس نے انکار کیا
وَ اسْتَكْبَرَ
: اور تکبر کیا
وَکَانَ
: اور ہوگیا
مِنَ الْکَافِرِیْنَ
: کافروں سے
اور اس بات کو اپنے دھیان میں لاؤ جب کہا ہم نے فرشتوں سے سجدہ کرو آدم کے لیے۔ پس سجدہ کیا انہوں نے۔ مگر ابلیس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کفر کرنے والوں میں سے تھا
فرشتوں کی سجدہ ریزی : حضرت آدم (علیہ السلام) کو خلافت عطا کرنے پر فرشتوں کو آپ کی فضیلت کا علم ہوگیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے آدم (علیہ السلام) کی تعظیم کرائی۔ تاکہ ان کی نیابت واضح ہوجائے۔ تو فرشتوں کو حکم ہوا۔ “ واذ قلنا للملئکۃ اسجدوا لادم ” کہ آدم (علیہ السلام) کے لیے سجدہ کرو “ فسجدو الا ابلیس ” تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ مفسرین کرام نے اس مسئلہ میں بڑی بحث کی ہے۔ کہ جو سجدہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے آدم (علیہ السلام) کے لیے کرایا ، وہ کس قسم کا سجدہ تھا۔ انتہائی درجے کی حاضری ، تذلل اور تواضح کے ساتھ پیشانی کو زمین پر رکھ دینا سجدہ کہلاتا ہے۔ اور اس کی مختلف قسمیں ہیں۔ مثلاً اگر یہ پیشانی معبود برحق کے حق کو ادا کرنے کے لیے بجکالی ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا ایسا کرنا ہر دور اور ہر شریعت میں حرام ، باطل ، کفر اور شرک رہا ہے۔ اور ایسے سجدہ کو سجدہ عبادت کہتے ہیں۔ البتہ سجدہ تحیہ و تکریم جو محض عزت و اعزاز کے لیے کیا جائے۔ یا جو سلام کے وقت کیا جائے۔ ایسا سجدہ پہلی شریعتوں میں روا تھا مگر ہماری شریعت میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو یہ سجدہ کرنا بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ جو سجدہ فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کے روبرو کیا۔ یہ سجدہ تعظیمی تھا (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 177 ، تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 77) یہ سجدہ عبادت نہ تھا۔ جو ہر شریعت میں حرام رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کے ماسوا کو اب ہر قسم سجدہ حرام ہے : شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ حجۃ اللہ البالغہ ج 1 ص 67) کہ سجدہ عبادت اور سجدہ تعظیمی کے درمیان فرق صرف نیت سے ہی ممکن ہے۔ اگر بوقت سجدہ نیت یہ ہے کہ یہ وہی سجدہ ہے جو حق تعالیٰ کے سامنے روا ہے تو پھر ایسا سجدہ غیر اللہ کے سامنے کفر اور شرک ہوگا۔ اور اگر سجدہ محض تعظیم و تکریم کے لیے ہے تو یہ پہلی امتوں میں جائز تھا۔ جیسے یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹوں کا یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ یا فرشتوں کا آدم (علیہ السلام) کو سجدہ۔ مگر ہماری شریعت میں ہر قسم کا سجدہ ناجائز ہے۔ خواہ وہ تعظیمی ہو یا عبادتی ہو۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کے سامنے سجدہ منع ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں حضور ﷺ کا فرمان ہے (3 ۔ ترمذی ص 187) “ لو کنت امرا احدا لامرت المراۃ ان تسجد لزوجہا ” یعنی اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کا بڑا حق رکھا ہے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے (4 ۔ مسند احمد ج 3 ص 159) “ لایصلح لبشر ان یسجد لبشر ” یعنی کسی انسان کے لیے لائق نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے۔ ایک صحابی نے حضور بنی کریم ﷺ سے عرض کیا۔ کہ حضرت ! ہم باہر جاکر دیکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ اپنے بادشاہوں کو سجدہ کرتے ہیں ، حالانکہ وہ تو باطل ہیں۔ اور آپ نبی برحق ہیں۔ تو ہم آپ کے سامنے کیوں سجدہ نہ کریں۔ حضور ﷺ نے منع فرما دیا اور کہا (1 ۔ بودازدج 1 ص 291) کہ دیکھو بھائی ! جب میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا تو کیا تم میری قبر پر سجدہ کرو گے۔ تو اس شخص نے کہا۔ حضور ! ہم ایسا نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا جس طرح میری قبر پر سجدہ حرام ہے۔ اسی طرح میرے سامنے سجدہ گرنا آج بھی حرام ہے خواہ تعظیمی ہی کیوں نہ ہو۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ بیان القرآن ) کہ اگر کسی نے قبر کو سجدہ کیا تو اس کو کفر اور شرک تو نہیں کہیں گے مگر اس کے حرام ہونے میں سب کا اتفاق ہے۔ اور اگر اس سجدہ سے مراد وہی سجدہ ہے جو بندے اپنے رب کے سامنے کرتے ہیں۔ تو ایسا کرنے والا کافر اور مرتد ہوجائے گا۔ اور اگر محض تعظیم کے لیے قبر۔ بادشاہ یا استاد کے سامنے کیا ہے۔ تو تمام صحابہ کرام ؓ آئمہ دین ، علمائے کرام اور سلف صالحین کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں۔ اگرچہ کفر کے درجے تک نہیں پہنچتا۔ فرشتوں کے سجدہ کی بعض توجیہات : بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں (3 ۔ ابن کثیر ج 1 ص 77 ، درمنثور ج 1 ص 50) کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ بمنزلہ قبلہ کے تھا۔ یعنی حقیقت میں سجدہ تو اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا گیا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) محض جہت تھے۔ جن کی طرف منہ کرکے سجدہ کیا گیا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ ہم آج بھی قبلہ کی طرف منہ کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اور اس سے مراد قبلہ کو سجدہ کرنا نہیں ہوتا۔ بلکہ سجدہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہوتا ہے اسی طرح فرشتوں نے بھی آدم (علیہ السلام) کی طرف منہ محض قبلہ ہونے کی حیثیت سے کیا تھا۔ سجدہ آدم (علیہ السلام) کو نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی تھا۔ بعض فرماتے ہیں (4 ۔ تفسیر مظہری ج 1 ص 56) کہ لادم کا “ ل ” سببی ہے۔ یعنی حکم یہ تھا کہ حق تعالیٰ کو سجدہ کرو۔ آدم (علیہ السلام) کی وجہ سے اور سبب سے۔ اور بعض فقہائے کرام فرماتے ہیں (5 ۔ ابن کثیر ج 1 ص 78 ، معالم النتزل ج 1 ص 21) کہ اس سجدہ میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ یعنی سجدہ عبادت تو اللہ تعالیٰ کے لیے تھا۔ اور تعظیم و تکریم آدم (علیہ السلام) کے لیے تھی گویا یہ خلافت کا تعظیمی سجدہ تھا۔ سجدہ خلافت یا سجدہ تعظیمی میں مسجود الیہ عرضی یا مجازی ہوتا ہے۔ حضرت مولانا نانوتوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ ) کہ سجدہ عبادت میں مسجود الیہ بالذات ہوتا ہے۔ اس ضمن میں مولانا عبید اللہ سندھی (رح) مفسر قرآن کی توجہیہ یہ ہے (2 ۔ الماد الرحمن فی تفسیر القرآن ج 1 ص 33) کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی اس زبردست تجلی کو سجدہ کیا تھا۔ جو آدم (علیہ السلام) کے قلب پر پڑ رہی تھی۔ یہی توجہیہ مولانا نانوتوی (رح) نے خانہ کعبہ کے متعلق اس وقت کی تھی جب ایک ہندو دیانند سرسوتی نے اعتراض پیش کیا تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہندو پتھر کی مورتیوں کے سامنے سجدہ کرتا ہے۔ تو مسلمان بھی پتھروں سے بنی ہوئی دیواروں والے مکان یعنی خانہ کعبہ کو سجدہ کرتے ہیں ۔ پھر ہندو اور مسلمان میں فرق کیا ہوا ؟ اس کے جواب میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) نے فرمایا (3 ۔ قبلہ نما) تھا کہ مسلمان اس مکان کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ اس تجلی الٰہی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ جو اس گھر پر پڑتی ہے۔ چونکہ یہ تجلی اعظم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ لہٰذا مسلمان پتھر کی دیواروں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کو کرتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی وقت خدانخواستہ بیت اللہ شریف کی دیواریں منہدم بھی ہوجائیں اور بظاہر وہاں کوئی چیز باقی نہ رہے تو بھی مسلمان اسی جہت میں سجدہ ریز ہوں گے۔ برخلاف اس کے ہندو اسی طرف سجدہ کریں گے۔ جس طرح ان کا بت رکھا ہوا ہوگا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ بت کے سامنے سجدہ کرنا دو مختلف چیزیں ہیں ۔ ابلیس کا انکار : الغرض ! جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا تو فسجدوا سب سے سجدہ کیا “ الا ابلیس ” سوائے ابلیس کے۔ یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ کرنے کا حکم تو فرشتوں کو دیا تھا۔ “ واذقلنا للمئکۃ اسجدوا ” مگر ابلیس کے انکار کا کیا مطلب ؟ تو مفسرین کرام فرماتے ہیں (4 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ج 1 ص 175) کہ سجدے کا حکم نہ صرف ملائکہ کو تھا۔ بلکہ جنات کو بھی تھا۔ اور ابلیس جنات میں سے ہے۔ بلکہ ابو الجنات تھا۔ اور جب کسی بڑے کو کوئی حکم دیا جاتا ہے ۔ تو اس کے ماتحت والے خود بخود اس حکم کے پابند ہوجاتے ہیں۔ سورة اعراف میں ابلیس کے متعلق آتا ہے کہ جب اس نے سجدہ نہ کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا “ ما منعک الا تسجد اذ امرتک ” جب میں نے تمہیں حکم دیا تو تو نے سجدہ کیوں نہ کیا ؟ معلوم ہوا کہ سجدہ کرنے کا حکم ابلیس کو بھی ہوا تھا اور نسلی طور پر یہ جنات میں سے تھا۔ جیسا کہ سورة کہف میں “ کا نہ من الجن ففسق عن امر ربہ ” وہ جنوں میں سے تھا۔ پس اپنے رب کے حکم سے باہر ہوگیا۔ مقصد یہ کہ سجدہ کا حکم فرشتوں اور جنات دونوں انواع کو ہوا تھا۔ فرشتے آدم (علیہ السلام) کے سامنے سربسجود ہوگئے۔ مگر ابلیس اور اس کی قوم نے انکار کیا ۔ حضرت یحییٰ منیزی (رح) خواجہ نظام الدین اولیاء (رح) کے خلیفہ اور بڑے پائے کے عالم اور بزرگ تھے انہوں نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے۔ کہ ابلیس نے ساتھ لاکھ سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی۔ مگر ایک ایک حکم کی سرتابی پر مردود ہوگیا۔ اور اتنے لمبے عرصے کی عبادت برباد ہوگئی۔ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 178) کہ محدث ابن ابی الدنیا نے اپنی کتاب مکاید الشیطان میں ایک روایت بیان کی ہے۔ مکاید الشیطان کا مطلب ہے۔ شیطان کی مکاریاں تو وہ فرماتے ہیں کہ کسی موقع پر ابلیس کی ملاقات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوگئی۔ ابلیس نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے پاس میری سفارش کریں۔ وہ میری توبہ قبول کرلے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سفارش کا وعدہ کیا۔ اور دعا میں مشغول ہوگئے۔ ادھر سے خدا تعالیٰ کا حکم ہوا۔ کہ میں ابلیس کی توبہ اس شرط پر قبول کرنے کو تیار ہوں کہ وہ آدم (علیہ السلام) کی قبر کو سجدہ کرے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ابلیس کو یہ شرط پیش کی تو کہنے لگا۔ کہ زندگی میں تو میں نے آدم کو سجدہ کیا اب اس کی قبر کو سجدہ کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ ابلیس اپنی بات پر پکا تھا۔ اس نے انکار کیا۔ “ ابی واستکبر وکان من الکفرین ” نہ صرف انکار کیا بلکہ تکبر بھی کیا۔ اور تھا انکار کرنے والوں میں۔ یہاں پر ایک اور مسئلہ بھی سمجھ لیں۔ آپ کے مشاہدہ میں بھی شاید آیا ہو کہ آج کل کے بعض مرید اپنے پیروں کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ مشر کا نہ فعل ہے۔ اگر نیت عبادت کی تھی۔ تو سجدہ کرنے والا کافر ہوگیا۔ اور اگر عبادت کی نیت نہ بھی تھی۔ محض تعظیم مقصود تھی تو اس کے حرام ہونے میں کسی عالم کو ، کسی بزرگ کو اختلاف نہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہ بھی شرک ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اور جو ایسا کرتا ہے اس کو روکنا چاہئے۔ حسد او لین گناہ ہے : مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 175) کہ ابن منذر (رح) نے عبادۃ بن ابی امیہ (رح) سے ایک روایت بیان کی ہے۔ کہ اس کائنات میں سب سے پہلا گناہ حسد تھا۔ جو ابلیس نے آدم (علیہ السلام) پر کیا۔ اور کہا “ انا خیر منہ ” میں اس سے بہتر ہوں “ وخلقتنی من نار وخلقتہ من طین ” مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔ لہٰذا میں اس سے افضل ہوں۔ میں کیوں اس کو سجدہ کروں۔ یہی ابلیس کی بھول تھی کہ اس نے اپنی شخصیت کی طرف دیکھا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر نگاہ نہ ڈالی ۔ لہٰذا مردود ٹھہرا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو کوئی بھی خدا تعالیٰ کے حکم کا انکار کرے گا۔ وہ ابلیس کی طرح کافر ہوجائے گا۔ ابلیس نے حسد کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ نہ کیا۔ “ وکان من الکفرین ” اور اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ کفر کرنے والا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا جنت میں : انکار ابلیس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیا “ وقلنا یادم اسکن انت وزوجک الجنۃ ” اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ حضرت حوا ؓ کی تخلیق کے متعلق دوسرے مقام پر فرمایا “ خلق منھا زوجھا ” آدم (علیہ السلام) کی وحشت کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں کی پسلیوں سے ان کا جوڑا پیدا فرمایا۔ اور آپ حضرت حوا ؓ سے مانوس ہوگئے۔ اس لیے فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ “ وکلا منھا رغد حیث شئتما ” اور تم اس میں سے کشادگی کے ساتھ کھاؤ جہاں سے چاہو۔ اس جنت کے متعلق بھی مختلف روایتیں ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جنت زمین پر تھی۔ مگر صحیح قول یہ ہے کہ جس جنت میں آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا ؓ کو رہنے کا حکم ہوا عالم بالا میں جنۃ الماوی ہے۔ جس کا ذکر قرآن پاک کے دوسرے مقامات پر آیا ہے۔ سورة نجم میں موجود ہے “ عند سدرۃ المنتھی ” جو کہ سدرۃ المتہی کے قریب ہے “ عند ھا جنۃ الماوی ” جو کہ سدرۃ المنتہی کے قریب ہے “ عندھا جنۃ الماوی ” یہ عالم بالا ہی کے متعلق ہے۔ شجر ممنوعہ : جنت میں سکونت اختیار کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور حوا ؓ کو یہ حکم بھی دیا کہ جہاں سے جتنا جی چاہے کھاؤ مگر “ ولا تقربا ھذہ الشجرۃ ” اس درخت کے قریب نہ جانا۔ اگر ایسا کرو گے “ فتکونا من الظلمین ” تو ظلم کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے ۔ اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرما دی۔ یہ کون سا درخت تھا جس کی مقاربت سے منع فرمایا گیا۔ اس کے متعلق مفسرین کرام کے کئی اقوال ہیں۔ بعض اسے کھجور کا درخت بتاتے ہیں بعض انجیر کا اور بعض انگور کا (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 79 ، درمنثور ج 1 ص 52) بائیبل کی روایت کے مطابق یہ نیکی اور بدی کی پہچان کا درخت تھا۔ اور بعض نے یہ توجیہہ (2 ۔ الہام الرحمن از حضرت سندھی (رح) ج 1 ص 35) کی ہے کہ آدم (علیہ السلام) اور حوا ؓ کے ملاپ یعنی مباشرت کو درخت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اس لحاظ سے پیدا ہونے والی اولاد کو پھل کہا گیا ہے۔ بعض مفسرین (3 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ص 190 ، ابن کثیر ج 1 ص 79) کا خیال ہے کہ شجر ممنوعہ گندم کا درخت تھا۔ مگر یہاں یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ گندم کا درخت نہیں بلکہ چھوٹا سا پودا ہوتا ہے۔ مفسرین نے اس اعتراض کا جواب بھی دیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ شاعر لوگ لطیفے کی زبان میں کہتے ہیں۔ ؎ بخورنان جواری گرجوار اللہ می خواہی کہ گندم کرو آدم (علیہ السلام) رابیرون از جنۃ الماوی اگر اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہو تو جوار کی روٹی کھاؤ ۔ جو قدرے ٹھنڈی ہوتی ہے۔ گندم گرم ہوتی ہے۔ اگر اس کی روٹی کھاؤ گے تو اس نے آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نکلوا دیا۔ مولانا رومی (رح) بھی فرماتے ہیں ۔ ؎ این عشق نیست این فساد گندم است۔ یہ عشق نہیں ہے بلکہ گندم کی گرمی کا اثر ہے۔ اور یہ اسی کا برپا کردہ فساد ہے۔ غرضیکہ گندم کے اس درخت کو دنیا کے گندم کے درخت پر قیاس نہیں کرنا چاہئے۔ امام ابو داؤد (رح) نے خود اپنا مشاہدہ نقل کیا ہے (4 ۔ ابوداؤد ج 1 ص 216) کہ انہوں نے مصر میں اتنا بڑا سنگترہ دیکھا جسے دو ٹکڑے کرکے بڑی مشکل سے اونٹ پر لادا گیا۔ اگر اس دنیا میں اتنا بڑا سنگترہ ہو سکتا ہے۔ تو جنت میں گندم کا درخت اتنا بڑا کیوں نہیں ہو سکتا۔ امام ابو داؤد (رح) نے یہ بھی بیان کیا ہے (1 ۔ ابوداؤد ج 1 ص 236) کہ انہوں نے دس بالشت لمبا کھیرا دیکھا ہے۔ یہ تر کی قسم کا کھیرا جو موسم گرما میں ہوتا ہے۔ اور بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے (2 ۔ ترمذی ص 326) کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے وقت انار کے دانے اتنے بڑے بڑے ہوں گے کہ ایک دانے کے نصف خول سے اتنا بڑا خیمہ بن سکے گا جس کے نیچے دس بیس آدمی ٹھہر سکیں۔ بہرحال یہ اعتراض معقول نہیں ہے۔ کہ گندم کا پودا ہوتا ہے۔ درخت نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ جنت میں گندم کا بہت بڑا درخت ہو۔ جس کے قریب جانے یا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ شیطانی وسوسہ : اللہ تعالیٰ کے حکم سے آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا ؓ جنت میں رہنے لگے۔ وہ بچوں کی طرح معصوم تھے۔ ابھی ان میں بیہمیت کا مادہ نہیں ابھرا تھا کہ شیطان نے آہستہ آہستہ وسوسہ ڈالنا شروع کیا۔ “ فازلھما الشیطن عنھا ” ان دونوں کو شیطن نے پھسلا دیا۔ دوسری جگہ آتا ہے ۔ “ فوسوس لھما الشیطن ” شیطان نے دونوں میں وسوسہ ڈالا۔ کس چیز کے متعلق وسوسہ ڈالا۔ اس میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ درخت کا پھل کھانے کے متعلق وسوسہ ڈالنا۔ دوسری جگہ موجود ہے کہ شیطان نے کہا کہ اس کو کھالو گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں رہ جاؤ گے۔ اور کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہوگا۔ بعض کہتے ہیں (3 ۔ درمنثور جق ص 53) کہ ضروری نہیں کہ وسوسہ دل کے اندر ہی ڈالا جائے۔ کوئی فعل سرزد کرنے سے بھی وسوسہ اندازی ہوتی ہے۔ بعض کہتے ہیں (4 ۔ الہام الرحمن فی تفسیر القرآن ج 1 ص 35) کہ شیطان ایک جنیہ کو پکڑ کر لایا۔ اور جنت کے دروازے پر اس سے مباشرت کی جسے آدم (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے۔ تو ان کے دل میں بھی ویسا ہی خیال پیدا ہوا۔ انہوں نے حضرت حوا ؓ کے ساتھ مقاربت کی۔ جس کا یہ نتیجہ ہوا۔ کہ جنت کا لباس اتر گیا اور وہ دونوں برہنہ ہوگئے۔ جنت سے خروج : شیطان کی وسوسہ اندازی کا نتیجہ یہ ہوا۔ کہ اس وسوسہ اندازی نے “ فاخرجھما مما کانا فیہ ” ان دونوں کو اسی جگہ یعنی جنت سے نکال دیا جس کے اندر وہ تھے۔ “ وقلنا اھبطوا ” اور “ ھم ” نے کہا اتر جاؤ “ بعضکم لبعض عدو ” بعض تمہارے بعض کے دشمن ہیں۔ شیطان تمہارا دشمن ہے اور تم اس کے دشمن ہو۔ “ ولکم فی الارض مستقر ” اور زمین میں تمہارے لیے ٹھکانا ہے۔ اب تمہاری رہائش زمین پر ہوگی۔ “ ومتاع الی حین ” اور ایک مدت تک فائدہ اٹھانا ہے۔ یعنی تمہاری اصل رہائش گاہ زمین ہی ہوگی۔ البتہ اگر زمین کو چھوڑ کر کہیں فضاؤں یا سمندروں میں جاؤ گے تو وہ عارضی قیام گاہ ہوگا۔ مستقل قیام زمین پر ہی کرو گے۔ زمین ہی اصل ٹھکانا ہے : آج کے دور میں جو پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہم زمین پر مستقل طور پر نہیں رہیں گے بلکہ چاند ، مریخ یا دوسرے سیاروں میں چلے جائیں گے۔ تو یہ محض شیطانی پراپیگنڈا ہے۔ چاند ہماری زمین سے قریب ترین سیارہ ہے۔ اور اس کا فاصلہ اٹھائی لاکھ میل ہے۔ مریخ تو یہاں سے پچاس کروڑ میل دور ہے۔ اور دوسرے سیارے اس سے بھی دور ہیں۔ فرض کرلیا کہ چاند پر رہائش کا بندوبست ہوجاتا ہے۔ وہاں ہوٹل قائم ہوجاتے ہیں۔ تو سائنسدانوں کا اپنا اندازہ یہ ہے کہ ایک پونڈ غذا کو چاند پر پہنچانے کے لیے تیس ہزار پونڈ خرچ ہوں گے۔ وہاں پہنچنے کا خصوصی لباس چار لاکھ روپے میں تیار ہوگا۔ یہ لباس تو راستے میں ہی جل جائے گا۔ چاند پر تو ایٹمی لباس پہننا ہوگا۔ وہاں کی گرمی کی مقدار تقریباً چالیس ہزار سنٹی گریڈ ہے۔ جہاں پر پانی تو کیا تابنا بھی پگھلنے لگتا ہے۔ چاند کے ایک طرف گرمی ہے۔ اور دوسری طرف اتنی سردی ہے۔ جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ لہٰذا ایسی جگہ پر رہنے کے لیے اتنا قیمتی لباس تیار کرانا ہوگا۔ ظاہر ہے ۔ خوراک اور لباس پر اتنی رقم خرچ کرکے رہائش پذیر ہوگا۔ اگر کوئی وہاں تک پہنچے گا بھی تو اس کا قیام بالکل عارضی ہوگا۔ آخر کار اسے زمین پر ہی آنا پڑے گا۔ اسی لیے فرمایا کہ تمہارا اصل ٹھکانا زمین پر ہی ہوگا۔ دوسری جگہ فرمایا “ منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری ” اے انسان ! ہم نے تمہیں اسی زمین سے پیدا کیا۔ اسی میں لوٹائیں گے۔ اور پھر قیامت کو دوسری مرتبہ اسی سے نکالیں گے۔ اسی لیے یہاں پر فرمایا ، کہ اے آدم اور حوا تم یہاں سے زمین پر اتر جاؤ ایک خاص مدت تک وہی تمہارا ٹھکانا ہوگی۔
Top