Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
اور اس بات کو اپنے دھیان میں لاؤ جب کہا ہم نے فرشتوں سے سجدہ کرو آدم کے لیے۔ پس سجدہ کیا انہوں نے۔ مگر ابلیس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کفر کرنے والوں میں سے تھا
فرشتوں کی سجدہ ریزی : حضرت آدم (علیہ السلام) کو خلافت عطا کرنے پر فرشتوں کو آپ کی فضیلت کا علم ہوگیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے آدم (علیہ السلام) کی تعظیم کرائی۔ تاکہ ان کی نیابت واضح ہوجائے۔ تو فرشتوں کو حکم ہوا۔ “ واذ قلنا للملئکۃ اسجدوا لادم ” کہ آدم (علیہ السلام) کے لیے سجدہ کرو “ فسجدو الا ابلیس ” تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ مفسرین کرام نے اس مسئلہ میں بڑی بحث کی ہے۔ کہ جو سجدہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے آدم (علیہ السلام) کے لیے کرایا ، وہ کس قسم کا سجدہ تھا۔ انتہائی درجے کی حاضری ، تذلل اور تواضح کے ساتھ پیشانی کو زمین پر رکھ دینا سجدہ کہلاتا ہے۔ اور اس کی مختلف قسمیں ہیں۔ مثلاً اگر یہ پیشانی معبود برحق کے حق کو ادا کرنے کے لیے بجکالی ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا ایسا کرنا ہر دور اور ہر شریعت میں حرام ، باطل ، کفر اور شرک رہا ہے۔ اور ایسے سجدہ کو سجدہ عبادت کہتے ہیں۔ البتہ سجدہ تحیہ و تکریم جو محض عزت و اعزاز کے لیے کیا جائے۔ یا جو سلام کے وقت کیا جائے۔ ایسا سجدہ پہلی شریعتوں میں روا تھا مگر ہماری شریعت میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو یہ سجدہ کرنا بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ جو سجدہ فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کے روبرو کیا۔ یہ سجدہ تعظیمی تھا (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 177 ، تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 77) یہ سجدہ عبادت نہ تھا۔ جو ہر شریعت میں حرام رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کے ماسوا کو اب ہر قسم سجدہ حرام ہے : شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ حجۃ اللہ البالغہ ج 1 ص 67) کہ سجدہ عبادت اور سجدہ تعظیمی کے درمیان فرق صرف نیت سے ہی ممکن ہے۔ اگر بوقت سجدہ نیت یہ ہے کہ یہ وہی سجدہ ہے جو حق تعالیٰ کے سامنے روا ہے تو پھر ایسا سجدہ غیر اللہ کے سامنے کفر اور شرک ہوگا۔ اور اگر سجدہ محض تعظیم و تکریم کے لیے ہے تو یہ پہلی امتوں میں جائز تھا۔ جیسے یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹوں کا یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ یا فرشتوں کا آدم (علیہ السلام) کو سجدہ۔ مگر ہماری شریعت میں ہر قسم کا سجدہ ناجائز ہے۔ خواہ وہ تعظیمی ہو یا عبادتی ہو۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کے سامنے سجدہ منع ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں حضور ﷺ کا فرمان ہے (3 ۔ ترمذی ص 187) “ لو کنت امرا احدا لامرت المراۃ ان تسجد لزوجہا ” یعنی اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کا بڑا حق رکھا ہے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے (4 ۔ مسند احمد ج 3 ص 159) “ لایصلح لبشر ان یسجد لبشر ” یعنی کسی انسان کے لیے لائق نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے۔ ایک صحابی نے حضور بنی کریم ﷺ سے عرض کیا۔ کہ حضرت ! ہم باہر جاکر دیکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ اپنے بادشاہوں کو سجدہ کرتے ہیں ، حالانکہ وہ تو باطل ہیں۔ اور آپ نبی برحق ہیں۔ تو ہم آپ کے سامنے کیوں سجدہ نہ کریں۔ حضور ﷺ نے منع فرما دیا اور کہا (1 ۔ بودازدج 1 ص 291) کہ دیکھو بھائی ! جب میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا تو کیا تم میری قبر پر سجدہ کرو گے۔ تو اس شخص نے کہا۔ حضور ! ہم ایسا نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا جس طرح میری قبر پر سجدہ حرام ہے۔ اسی طرح میرے سامنے سجدہ گرنا آج بھی حرام ہے خواہ تعظیمی ہی کیوں نہ ہو۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ بیان القرآن ) کہ اگر کسی نے قبر کو سجدہ کیا تو اس کو کفر اور شرک تو نہیں کہیں گے مگر اس کے حرام ہونے میں سب کا اتفاق ہے۔ اور اگر اس سجدہ سے مراد وہی سجدہ ہے جو بندے اپنے رب کے سامنے کرتے ہیں۔ تو ایسا کرنے والا کافر اور مرتد ہوجائے گا۔ اور اگر محض تعظیم کے لیے قبر۔ بادشاہ یا استاد کے سامنے کیا ہے۔ تو تمام صحابہ کرام ؓ آئمہ دین ، علمائے کرام اور سلف صالحین کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں۔ اگرچہ کفر کے درجے تک نہیں پہنچتا۔ فرشتوں کے سجدہ کی بعض توجیہات : بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں (3 ۔ ابن کثیر ج 1 ص 77 ، درمنثور ج 1 ص 50) کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ بمنزلہ قبلہ کے تھا۔ یعنی حقیقت میں سجدہ تو اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا گیا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) محض جہت تھے۔ جن کی طرف منہ کرکے سجدہ کیا گیا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ ہم آج بھی قبلہ کی طرف منہ کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اور اس سے مراد قبلہ کو سجدہ کرنا نہیں ہوتا۔ بلکہ سجدہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہوتا ہے اسی طرح فرشتوں نے بھی آدم (علیہ السلام) کی طرف منہ محض قبلہ ہونے کی حیثیت سے کیا تھا۔ سجدہ آدم (علیہ السلام) کو نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی تھا۔ بعض فرماتے ہیں (4 ۔ تفسیر مظہری ج 1 ص 56) کہ لادم کا “ ل ” سببی ہے۔ یعنی حکم یہ تھا کہ حق تعالیٰ کو سجدہ کرو۔ آدم (علیہ السلام) کی وجہ سے اور سبب سے۔ اور بعض فقہائے کرام فرماتے ہیں (5 ۔ ابن کثیر ج 1 ص 78 ، معالم النتزل ج 1 ص 21) کہ اس سجدہ میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ یعنی سجدہ عبادت تو اللہ تعالیٰ کے لیے تھا۔ اور تعظیم و تکریم آدم (علیہ السلام) کے لیے تھی گویا یہ خلافت کا تعظیمی سجدہ تھا۔ سجدہ خلافت یا سجدہ تعظیمی میں مسجود الیہ عرضی یا مجازی ہوتا ہے۔ حضرت مولانا نانوتوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ ) کہ سجدہ عبادت میں مسجود الیہ بالذات ہوتا ہے۔ اس ضمن میں مولانا عبید اللہ سندھی (رح) مفسر قرآن کی توجہیہ یہ ہے (2 ۔ الماد الرحمن فی تفسیر القرآن ج 1 ص 33) کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی اس زبردست تجلی کو سجدہ کیا تھا۔ جو آدم (علیہ السلام) کے قلب پر پڑ رہی تھی۔ یہی توجہیہ مولانا نانوتوی (رح) نے خانہ کعبہ کے متعلق اس وقت کی تھی جب ایک ہندو دیانند سرسوتی نے اعتراض پیش کیا تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہندو پتھر کی مورتیوں کے سامنے سجدہ کرتا ہے۔ تو مسلمان بھی پتھروں سے بنی ہوئی دیواروں والے مکان یعنی خانہ کعبہ کو سجدہ کرتے ہیں ۔ پھر ہندو اور مسلمان میں فرق کیا ہوا ؟ اس کے جواب میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) نے فرمایا (3 ۔ قبلہ نما) تھا کہ مسلمان اس مکان کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ اس تجلی الٰہی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ جو اس گھر پر پڑتی ہے۔ چونکہ یہ تجلی اعظم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ لہٰذا مسلمان پتھر کی دیواروں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کو کرتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی وقت خدانخواستہ بیت اللہ شریف کی دیواریں منہدم بھی ہوجائیں اور بظاہر وہاں کوئی چیز باقی نہ رہے تو بھی مسلمان اسی جہت میں سجدہ ریز ہوں گے۔ برخلاف اس کے ہندو اسی طرف سجدہ کریں گے۔ جس طرح ان کا بت رکھا ہوا ہوگا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ بت کے سامنے سجدہ کرنا دو مختلف چیزیں ہیں ۔ ابلیس کا انکار : الغرض ! جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا تو فسجدوا سب سے سجدہ کیا “ الا ابلیس ” سوائے ابلیس کے۔ یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ کرنے کا حکم تو فرشتوں کو دیا تھا۔ “ واذقلنا للمئکۃ اسجدوا ” مگر ابلیس کے انکار کا کیا مطلب ؟ تو مفسرین کرام فرماتے ہیں (4 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ج 1 ص 175) کہ سجدے کا حکم نہ صرف ملائکہ کو تھا۔ بلکہ جنات کو بھی تھا۔ اور ابلیس جنات میں سے ہے۔ بلکہ ابو الجنات تھا۔ اور جب کسی بڑے کو کوئی حکم دیا جاتا ہے ۔ تو اس کے ماتحت والے خود بخود اس حکم کے پابند ہوجاتے ہیں۔ سورة اعراف میں ابلیس کے متعلق آتا ہے کہ جب اس نے سجدہ نہ کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا “ ما منعک الا تسجد اذ امرتک ” جب میں نے تمہیں حکم دیا تو تو نے سجدہ کیوں نہ کیا ؟ معلوم ہوا کہ سجدہ کرنے کا حکم ابلیس کو بھی ہوا تھا اور نسلی طور پر یہ جنات میں سے تھا۔ جیسا کہ سورة کہف میں “ کا نہ من الجن ففسق عن امر ربہ ” وہ جنوں میں سے تھا۔ پس اپنے رب کے حکم سے باہر ہوگیا۔ مقصد یہ کہ سجدہ کا حکم فرشتوں اور جنات دونوں انواع کو ہوا تھا۔ فرشتے آدم (علیہ السلام) کے سامنے سربسجود ہوگئے۔ مگر ابلیس اور اس کی قوم نے انکار کیا ۔ حضرت یحییٰ منیزی (رح) خواجہ نظام الدین اولیاء (رح) کے خلیفہ اور بڑے پائے کے عالم اور بزرگ تھے انہوں نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے۔ کہ ابلیس نے ساتھ لاکھ سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی۔ مگر ایک ایک حکم کی سرتابی پر مردود ہوگیا۔ اور اتنے لمبے عرصے کی عبادت برباد ہوگئی۔ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 178) کہ محدث ابن ابی الدنیا نے اپنی کتاب مکاید الشیطان میں ایک روایت بیان کی ہے۔ مکاید الشیطان کا مطلب ہے۔ شیطان کی مکاریاں تو وہ فرماتے ہیں کہ کسی موقع پر ابلیس کی ملاقات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوگئی۔ ابلیس نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے پاس میری سفارش کریں۔ وہ میری توبہ قبول کرلے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سفارش کا وعدہ کیا۔ اور دعا میں مشغول ہوگئے۔ ادھر سے خدا تعالیٰ کا حکم ہوا۔ کہ میں ابلیس کی توبہ اس شرط پر قبول کرنے کو تیار ہوں کہ وہ آدم (علیہ السلام) کی قبر کو سجدہ کرے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ابلیس کو یہ شرط پیش کی تو کہنے لگا۔ کہ زندگی میں تو میں نے آدم کو سجدہ کیا اب اس کی قبر کو سجدہ کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ ابلیس اپنی بات پر پکا تھا۔ اس نے انکار کیا۔ “ ابی واستکبر وکان من الکفرین ” نہ صرف انکار کیا بلکہ تکبر بھی کیا۔ اور تھا انکار کرنے والوں میں۔ یہاں پر ایک اور مسئلہ بھی سمجھ لیں۔ آپ کے مشاہدہ میں بھی شاید آیا ہو کہ آج کل کے بعض مرید اپنے پیروں کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ مشر کا نہ فعل ہے۔ اگر نیت عبادت کی تھی۔ تو سجدہ کرنے والا کافر ہوگیا۔ اور اگر عبادت کی نیت نہ بھی تھی۔ محض تعظیم مقصود تھی تو اس کے حرام ہونے میں کسی عالم کو ، کسی بزرگ کو اختلاف نہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہ بھی شرک ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اور جو ایسا کرتا ہے اس کو روکنا چاہئے۔ حسد او لین گناہ ہے : مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 175) کہ ابن منذر (رح) نے عبادۃ بن ابی امیہ (رح) سے ایک روایت بیان کی ہے۔ کہ اس کائنات میں سب سے پہلا گناہ حسد تھا۔ جو ابلیس نے آدم (علیہ السلام) پر کیا۔ اور کہا “ انا خیر منہ ” میں اس سے بہتر ہوں “ وخلقتنی من نار وخلقتہ من طین ” مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔ لہٰذا میں اس سے افضل ہوں۔ میں کیوں اس کو سجدہ کروں۔ یہی ابلیس کی بھول تھی کہ اس نے اپنی شخصیت کی طرف دیکھا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر نگاہ نہ ڈالی ۔ لہٰذا مردود ٹھہرا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو کوئی بھی خدا تعالیٰ کے حکم کا انکار کرے گا۔ وہ ابلیس کی طرح کافر ہوجائے گا۔ ابلیس نے حسد کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ نہ کیا۔ “ وکان من الکفرین ” اور اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ کفر کرنے والا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا جنت میں : انکار ابلیس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیا “ وقلنا یادم اسکن انت وزوجک الجنۃ ” اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ حضرت حوا ؓ کی تخلیق کے متعلق دوسرے مقام پر فرمایا “ خلق منھا زوجھا ” آدم (علیہ السلام) کی وحشت کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں کی پسلیوں سے ان کا جوڑا پیدا فرمایا۔ اور آپ حضرت حوا ؓ سے مانوس ہوگئے۔ اس لیے فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ “ وکلا منھا رغد حیث شئتما ” اور تم اس میں سے کشادگی کے ساتھ کھاؤ جہاں سے چاہو۔ اس جنت کے متعلق بھی مختلف روایتیں ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جنت زمین پر تھی۔ مگر صحیح قول یہ ہے کہ جس جنت میں آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا ؓ کو رہنے کا حکم ہوا عالم بالا میں جنۃ الماوی ہے۔ جس کا ذکر قرآن پاک کے دوسرے مقامات پر آیا ہے۔ سورة نجم میں موجود ہے “ عند سدرۃ المنتھی ” جو کہ سدرۃ المتہی کے قریب ہے “ عند ھا جنۃ الماوی ” جو کہ سدرۃ المنتہی کے قریب ہے “ عندھا جنۃ الماوی ” یہ عالم بالا ہی کے متعلق ہے۔ شجر ممنوعہ : جنت میں سکونت اختیار کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور حوا ؓ کو یہ حکم بھی دیا کہ جہاں سے جتنا جی چاہے کھاؤ مگر “ ولا تقربا ھذہ الشجرۃ ” اس درخت کے قریب نہ جانا۔ اگر ایسا کرو گے “ فتکونا من الظلمین ” تو ظلم کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے ۔ اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرما دی۔ یہ کون سا درخت تھا جس کی مقاربت سے منع فرمایا گیا۔ اس کے متعلق مفسرین کرام کے کئی اقوال ہیں۔ بعض اسے کھجور کا درخت بتاتے ہیں بعض انجیر کا اور بعض انگور کا (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 79 ، درمنثور ج 1 ص 52) بائیبل کی روایت کے مطابق یہ نیکی اور بدی کی پہچان کا درخت تھا۔ اور بعض نے یہ توجیہہ (2 ۔ الہام الرحمن از حضرت سندھی (رح) ج 1 ص 35) کی ہے کہ آدم (علیہ السلام) اور حوا ؓ کے ملاپ یعنی مباشرت کو درخت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اس لحاظ سے پیدا ہونے والی اولاد کو پھل کہا گیا ہے۔ بعض مفسرین (3 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ص 190 ، ابن کثیر ج 1 ص 79) کا خیال ہے کہ شجر ممنوعہ گندم کا درخت تھا۔ مگر یہاں یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ گندم کا درخت نہیں بلکہ چھوٹا سا پودا ہوتا ہے۔ مفسرین نے اس اعتراض کا جواب بھی دیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ شاعر لوگ لطیفے کی زبان میں کہتے ہیں۔ ؎ بخورنان جواری گرجوار اللہ می خواہی کہ گندم کرو آدم (علیہ السلام) رابیرون از جنۃ الماوی اگر اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہو تو جوار کی روٹی کھاؤ ۔ جو قدرے ٹھنڈی ہوتی ہے۔ گندم گرم ہوتی ہے۔ اگر اس کی روٹی کھاؤ گے تو اس نے آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نکلوا دیا۔ مولانا رومی (رح) بھی فرماتے ہیں ۔ ؎ این عشق نیست این فساد گندم است۔ یہ عشق نہیں ہے بلکہ گندم کی گرمی کا اثر ہے۔ اور یہ اسی کا برپا کردہ فساد ہے۔ غرضیکہ گندم کے اس درخت کو دنیا کے گندم کے درخت پر قیاس نہیں کرنا چاہئے۔ امام ابو داؤد (رح) نے خود اپنا مشاہدہ نقل کیا ہے (4 ۔ ابوداؤد ج 1 ص 216) کہ انہوں نے مصر میں اتنا بڑا سنگترہ دیکھا جسے دو ٹکڑے کرکے بڑی مشکل سے اونٹ پر لادا گیا۔ اگر اس دنیا میں اتنا بڑا سنگترہ ہو سکتا ہے۔ تو جنت میں گندم کا درخت اتنا بڑا کیوں نہیں ہو سکتا۔ امام ابو داؤد (رح) نے یہ بھی بیان کیا ہے (1 ۔ ابوداؤد ج 1 ص 236) کہ انہوں نے دس بالشت لمبا کھیرا دیکھا ہے۔ یہ تر کی قسم کا کھیرا جو موسم گرما میں ہوتا ہے۔ اور بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے (2 ۔ ترمذی ص 326) کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے وقت انار کے دانے اتنے بڑے بڑے ہوں گے کہ ایک دانے کے نصف خول سے اتنا بڑا خیمہ بن سکے گا جس کے نیچے دس بیس آدمی ٹھہر سکیں۔ بہرحال یہ اعتراض معقول نہیں ہے۔ کہ گندم کا پودا ہوتا ہے۔ درخت نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ جنت میں گندم کا بہت بڑا درخت ہو۔ جس کے قریب جانے یا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ شیطانی وسوسہ : اللہ تعالیٰ کے حکم سے آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا ؓ جنت میں رہنے لگے۔ وہ بچوں کی طرح معصوم تھے۔ ابھی ان میں بیہمیت کا مادہ نہیں ابھرا تھا کہ شیطان نے آہستہ آہستہ وسوسہ ڈالنا شروع کیا۔ “ فازلھما الشیطن عنھا ” ان دونوں کو شیطن نے پھسلا دیا۔ دوسری جگہ آتا ہے ۔ “ فوسوس لھما الشیطن ” شیطان نے دونوں میں وسوسہ ڈالا۔ کس چیز کے متعلق وسوسہ ڈالا۔ اس میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ درخت کا پھل کھانے کے متعلق وسوسہ ڈالنا۔ دوسری جگہ موجود ہے کہ شیطان نے کہا کہ اس کو کھالو گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں رہ جاؤ گے۔ اور کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہوگا۔ بعض کہتے ہیں (3 ۔ درمنثور جق ص 53) کہ ضروری نہیں کہ وسوسہ دل کے اندر ہی ڈالا جائے۔ کوئی فعل سرزد کرنے سے بھی وسوسہ اندازی ہوتی ہے۔ بعض کہتے ہیں (4 ۔ الہام الرحمن فی تفسیر القرآن ج 1 ص 35) کہ شیطان ایک جنیہ کو پکڑ کر لایا۔ اور جنت کے دروازے پر اس سے مباشرت کی جسے آدم (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے۔ تو ان کے دل میں بھی ویسا ہی خیال پیدا ہوا۔ انہوں نے حضرت حوا ؓ کے ساتھ مقاربت کی۔ جس کا یہ نتیجہ ہوا۔ کہ جنت کا لباس اتر گیا اور وہ دونوں برہنہ ہوگئے۔ جنت سے خروج : شیطان کی وسوسہ اندازی کا نتیجہ یہ ہوا۔ کہ اس وسوسہ اندازی نے “ فاخرجھما مما کانا فیہ ” ان دونوں کو اسی جگہ یعنی جنت سے نکال دیا جس کے اندر وہ تھے۔ “ وقلنا اھبطوا ” اور “ ھم ” نے کہا اتر جاؤ “ بعضکم لبعض عدو ” بعض تمہارے بعض کے دشمن ہیں۔ شیطان تمہارا دشمن ہے اور تم اس کے دشمن ہو۔ “ ولکم فی الارض مستقر ” اور زمین میں تمہارے لیے ٹھکانا ہے۔ اب تمہاری رہائش زمین پر ہوگی۔ “ ومتاع الی حین ” اور ایک مدت تک فائدہ اٹھانا ہے۔ یعنی تمہاری اصل رہائش گاہ زمین ہی ہوگی۔ البتہ اگر زمین کو چھوڑ کر کہیں فضاؤں یا سمندروں میں جاؤ گے تو وہ عارضی قیام گاہ ہوگا۔ مستقل قیام زمین پر ہی کرو گے۔ زمین ہی اصل ٹھکانا ہے : آج کے دور میں جو پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہم زمین پر مستقل طور پر نہیں رہیں گے بلکہ چاند ، مریخ یا دوسرے سیاروں میں چلے جائیں گے۔ تو یہ محض شیطانی پراپیگنڈا ہے۔ چاند ہماری زمین سے قریب ترین سیارہ ہے۔ اور اس کا فاصلہ اٹھائی لاکھ میل ہے۔ مریخ تو یہاں سے پچاس کروڑ میل دور ہے۔ اور دوسرے سیارے اس سے بھی دور ہیں۔ فرض کرلیا کہ چاند پر رہائش کا بندوبست ہوجاتا ہے۔ وہاں ہوٹل قائم ہوجاتے ہیں۔ تو سائنسدانوں کا اپنا اندازہ یہ ہے کہ ایک پونڈ غذا کو چاند پر پہنچانے کے لیے تیس ہزار پونڈ خرچ ہوں گے۔ وہاں پہنچنے کا خصوصی لباس چار لاکھ روپے میں تیار ہوگا۔ یہ لباس تو راستے میں ہی جل جائے گا۔ چاند پر تو ایٹمی لباس پہننا ہوگا۔ وہاں کی گرمی کی مقدار تقریباً چالیس ہزار سنٹی گریڈ ہے۔ جہاں پر پانی تو کیا تابنا بھی پگھلنے لگتا ہے۔ چاند کے ایک طرف گرمی ہے۔ اور دوسری طرف اتنی سردی ہے۔ جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ لہٰذا ایسی جگہ پر رہنے کے لیے اتنا قیمتی لباس تیار کرانا ہوگا۔ ظاہر ہے ۔ خوراک اور لباس پر اتنی رقم خرچ کرکے رہائش پذیر ہوگا۔ اگر کوئی وہاں تک پہنچے گا بھی تو اس کا قیام بالکل عارضی ہوگا۔ آخر کار اسے زمین پر ہی آنا پڑے گا۔ اسی لیے فرمایا کہ تمہارا اصل ٹھکانا زمین پر ہی ہوگا۔ دوسری جگہ فرمایا “ منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری ” اے انسان ! ہم نے تمہیں اسی زمین سے پیدا کیا۔ اسی میں لوٹائیں گے۔ اور پھر قیامت کو دوسری مرتبہ اسی سے نکالیں گے۔ اسی لیے یہاں پر فرمایا ، کہ اے آدم اور حوا تم یہاں سے زمین پر اتر جاؤ ایک خاص مدت تک وہی تمہارا ٹھکانا ہوگی۔
Top