Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 83
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ١۫ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ؕ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَ : پختہ عہد بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : بنی اسرائیل لَا تَعْبُدُوْنَ : تم عبادت نہ کرنا اِلَّا اللّٰہَ : اللہ کے سوا وَبِالْوَالِدَیْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَاناً : حسن سلوک کرنا وَذِیْ الْقُرْبَى : اور قرابت دار وَالْيَتَامَى : اور یتیم وَالْمَسَاكِیْنِ : اور مسکین وَقُوْلُوْاْ : اور تم کہنا لِلنَّاسِ : لوگوں سے حُسْناً : اچھی بات وَاَقِیْمُوْاْ الصَّلَاةَ : اور نماز قائم کرنا وَآتُوْاْ الزَّکَاةَ : اور زکوۃ دینا ثُمَّ : پھر تَوَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے اِلَّا : سوائے قَلِیْلاً : چند ایک مِّنكُمْ : تم میں سے وَاَنتُم : اور تم مُّعْرِضُوْنَ : پھرجانے والے
اور اس واقعہ کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور قرابت داروں کے ساتھ۔ اور یتیموں کے ساتھ اور مساکین کے ساتھ۔ اور کہو لوگوں کے لیے نیک بات اور نماز کو قائم رکھیں۔ اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ پھر پھرگئے تم (اے بنی اسرائیل) مگر بہت تھوڑے تم میں سے اور تم اعراض کرنے والے ہو
ربط آیات : ان آیات میں بنی اسرائیل کی مختلف خرابیاں بیان ہو رہی ہیں۔ پچھلے درس میں ان کے ان غلط عقائد کا رد تھا کہ یہودیوں اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص جنت میں نہیں جاسکتا یہ اللہ تعالیٰ پر افتراء ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایسا کوئی عہد نہیں کیا۔ البتہ خود اللہ تعالیٰ نے توراۃ میں جو عہد بنی اسرائیل سے لیا تھا۔ اس کا ذکر ہے اور وہ ایسا عہد تھا۔ جو کہ نہ صرف توراۃ میں تھا۔ بلکہ تمام سابقہ انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں میں بھی موجود تھا اور اس کی تمام باتیں حضور نبی کریم ﷺ کی شریعت میں بھی آگئی ہیں ۔ توحید کے دو پہلو : اس آیت میں جس عہد کا ذکر آرہا ہے ۔ وہ عہد توحید ہے۔ ارشاد ہوتا ہے “ واذا اخذنا میثاق بنی اسرائیل ” اس واقعہ کو یاد کرو۔ جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا۔ میثاق پختہ عہد کو کہتے ہیں۔ جو بڑا مضبوط اور پکا ہو۔ اور وہ عہد یہ تھا کہ “ لاتعبدون الا اللہ ” تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔ “ لاتعبدون ” کا لفظی معنی تو یہ ہے کہ تم عبادت نہیں کرو گے اور یہ خبر کی صورت ہے۔ مگر حقیقت میں یہ حکم ہے یعنی “ لاتعبدوا الا اللہ ”۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ایسی بات کو خبر کی شکل میں ذکر کرنے کا مقصد اس میں زور پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دو پہلو ہیں۔ مثبت پہلو تو پہلے گزر چکا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ “ اعبدوا ربکم ” اپنے رب کی عبادت کرو۔ اس کی توحید کو تسلیم کرو۔ وحدانیت کا دوسرا پہلو منفی ہے ۔ یعنی “ لاتعبدون الا اللہ ” اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ جہاں تک پہلے حصے کا تعلق ہے۔ وہ تو واضح ہے۔ اور اس میں اختلاف بھی پیدا نہیں ہوتا کہ بھی اپنے رب کی عبادت کرو۔ مگر توحید کے دوسرے حصے میں جاکر اکثر گڑ بڑ پیدا ہوتی ہے۔ اور لوگ شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اور یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب لوگ حقیقی رب کی عبادت کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی عبادت بھی کرنا شروع کردیتے ہیں۔ بائیبل میں اگرچہ بہت کچھ تحریف ہوچکی ہے۔ مگر توحید کا مسئلہ آج بھی اس میں موجود ہے۔ اور وہ اس طرح ہے کہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر خدا کے غیر کی عبادت نہ کرو۔ سجدہ نہ کرو۔ صرف خداوند جو بنی اسرائیل کا خدا ہے۔ اس کی عبادت کرو۔ مقصد یہ کہ توحید ایک ایسا مسئلہ ہے۔ جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی شرائع میں قدر مشترک کے طور پر موجود رہا ہے آیت زیر درس میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کے مختلف عہد : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے مختلف اوقات میں مختلف عہد لیے منجملہ ان کے توراۃ میں یہ عہد تھا۔ جسے قرآن پاک نے بیان کیا “ واذا اخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور ” یعنی اے بنی اسرائیل اس بات کو یاد کرو۔ جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا۔ اور تمہارے سروں پر کوہ طور کو معلق کردیا تھا۔ نیز یہ بھی کہ “ خذوا ما اتینکم بقوۃ ” جو کچھ ہم نے عطا کیا ہے۔ اس کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ اور اس کے مطابق عمل کرو۔ اور پھر یہ بھی کہا تھا “ واذکروا ما فیہ ” جو کچھ ہم نے توراۃ میں نازل کیا ہے اس کو یاد کرو۔ توراۃ میں یہ عہد بھی لیا تھا۔ کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب لوگوں کے سامنے ظاہر کرو گے۔ چھپاؤ گے نہیں۔ یہ لوگ اصل احکام کو چھپا لیتے تھے۔ اور ان کی جگہ خود ساختہ مسائل لوگوں کو بتاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم “ لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ ” پر عمل نہیں کرتے تھے۔ معرفت الہیٰ : الغرض ! اس مقام پر جس عہد کا ذکر ہے وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔ بلکہ صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنا۔ عبادت کے لیے ضروری ہے۔ کہ جسکی عبادت کرتا ہے۔ اس کی صحیح پہچان بھی ہو۔ اسی لیے سب سے پہلے رب تعالیٰ کی پہچان کرائی گئی ہے۔ “ الحمدللہ رب العالمین (1) الرحمن الرحیم (2) ملک یوم الدین (3) یہ سب اللہ تعالیٰ کی پہچان ہی تو ہے۔ یعنی رب وہ ہے جو ان صفات کا مالک ہے۔ “ الذی خلقکم والذین من قبلکم ” وہی تمہارا بھی خالق ہے۔ اور تم سے پہلے آنے والے لوگوں کا بھی وہی مالک ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات کا جاننا بھی ضروری ہے۔ مثلاً خدا تعالیٰ علم محیط کا مالک ہے۔ اسے ذرے ذرے کا علم ہے “ انک بکل شیء محیط ” اس صفت کی پہچان ہوگئی تو توحید سمجھ میں آجائے گی۔ اسی طرح قادر مطلق ہونا بھی۔ اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ میں سے ہے۔ “ ان اللہ علی کل شیء قدیر ” وہ قادر مطلق ہے۔ جو چاہے کرتا ہے۔ اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی صفت یہ ہے۔ کہ وہ واجب الوجود ہے۔ اس کو وجود اپنی ذات سے ہے۔ باقی تمام چیزوں کا وجود مستعار ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔ وہ خالق ہے۔ کسی چیز کا حکم دینا یا کسی چیز سے منع کرنا بھی اس کی صفت ہے۔ اس کے علاوہ ان چیزوں کی پہچان بھی ضروری ہے جن کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر جائز نہیں مثلاً اللہ تعالیٰ عاجزی اور جہالت سے پاک ہے۔ رافضیوں کا عقیدہ بالکل باطل ہے جو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو بدا بھی ہوتا ہے۔ یعنی پہلے وہ کام کرلیتا ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ کام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ یا جس طرح یہودیوں کا باطل عقیدہ ہے کہ بعض کا م کرکے اللہ تعالیٰ نادم بھی ہوتا ہے۔ توراۃ کے پہلے باب میں موجود ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرکے خود پچھتایا ۔ تو ایسی بیہودہ باتوں کا جاننا بھی ضروری ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ ؓ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا۔ تو فرمایا (1 ۔ مسلم ج 1 ص 37) بھائی ! سب سے پہلے ان لوگوں کو توحید اور رسالت کی دعوت دینا “ فاذا اعرنوا اللہ عزوجل ” جب وہ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح سے پہچان لیں ، تو پھر انہیں خدا تعالیٰ کے احکام یعنی نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کے احکام بتلانا کہ اس خدا تعالیٰ نے تم پر فرائض عائد کیے ہیں۔ انہیں انجام دینا لازم ہے۔ والدین سے حسن سلوک : بہرحال عہد کا پہلا حصہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ اور اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرو۔ عہد کا دوسرا حصہ فرمایا “ وبالوالدین احسانا ” ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ والدین کے ساتھ نیکی کرنا صرف بنی اسرائیل کی شریعت میں ہی ضروری نہیں تھا۔ بلکہ یہ تو شریعت محمدیہ کا بھی ایک لازمی جزو ہے۔ “ وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ و بالوالدین احسانا ” یعنی خدا تعالیٰ کا یہ اٹل فیصلہ ہے۔ کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ گویا اللہ تعالیٰ کے حق کا ذکر کیا۔ اور پھر ساری مخلوق میں والدین کو سب سے اول نمبر پر شمار کیا۔ یہ احکام تمام انبیاء (علیہم السلام) کے شرائع میں موجود رہے ہیں۔ توراۃ اور قرآن پاک میں بھی موجود ہیں۔ یہاں سوال پید اہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن سلوک کے سلسلے میں والدین کو کیوں مقدم رکھا ہے۔ مفسرین کرام بیان کرتے ہیں (1 ) کہ جس طرح اللہ تعالیٰ خالق اور حقیقی مربی ہے ۔ اسی طرح والدین بھی اس مادی دنیا میں اولاد کی پرورش میں حصہ لیتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا حق مقدم رکھا ہے۔ والدین جو احسان اولاد کے ساتھ کرتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کسی پر مہربانی فرما کر اس سے معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ اسی طرح والدین کے اپنی اولاد پر بےمثال احسان ہوتے ہیں۔ لہٰذا ماں باپ کے حقوق کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں پر فوقیت دی ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ ماں اور باپ میں سے کون مقدم ہے۔ تو اس کے متعلق حدیث پاک میں آتا ہے (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 313) کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا۔ رسول اللہ میں کس کے ساتھ اچھا سلوک کروں۔ آپ نے فرمایا “ امک ” یعنی اپنی ماں کے ساتھ ، اس شخص کے تین بار کے سوال کے جواب میں آپ نے ماں کا ذکر کیا ۔ حتیٰ کہ چوتھی دفعہ پوچھنے پر آپ نے فرمایا “ اباک ” یعنی اپنے باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ گریا خدمت کے سلسلے میں ماں کو باپ سے بھی مقدم رکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کی پیدائش اور پرورش میں ماں زیادہ تکالیف برداشت کرتی ہے۔ لہٰذا خدمت کی زیادہ حقدار بھی وہی ہے۔ قرآن پاک نے ماں کے متعلق فرمایا “ حملتہ امہ وھنا علیٰ وھن ” یعنی ماں نے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر بچے کو پیٹ میں رکھا۔ اسی لیے محدثین عظام فرماتے ہیں (1 ۔ کوکب الدری ج 2 ص 17) کہ اگر ماں اور باپ دونوں کو پیاس لگی ہوئی ہو۔ تو پہلے ماں کو پانی پلاؤ۔ کہ خدمت میں اس کا حق فائق ہے۔ مگر جہاں ادب و احترام مقصود ہوگا تو وہاں باپ مقدم ہوگا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 313) کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی ایک صورت ترک ایذا ہے۔ ماں باپ کو قول سے یا فعل سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ کیونکہ یہ احسان کے خلاف ہے۔ بلکہ اولاد کا فرض ہے کہ اپنے جسم اور مال کے ساتھ ماں باپ کی خدمت کرے۔ اگر والدین مالی طور پر ضرور ت مند ہیں ۔ تو ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔ ورنہ جسمانی طور پر تو لازماً ان کو راحت پہنچائیں ۔ مثلاً ان کی سٹھی چاپی کریں۔ ان کو کھلائیں پلائیں۔ ان کو نہلائیں دھلائیں وغیرہ وغیرہ۔ ماں باپ کی فوتگی کے بعد ان کے لیے بخشش کی دعا کرنا بھی ان کی خدمت کے مترادف ہے۔ ان کے لیے استغفار کرو۔ صدقہ و خیرات کرو۔ تاکہ ان کے لیے آخرت میں راحت کا سبب بنے حضور ﷺ کا ارشاد ہے (3 ۔ ابوداؤد ج 2 ص 344 ، ابن ماجہ ص 260) کہ اگر ماں باپ نے کوئی وصیت کی ہے۔ تو اولاد کو چاہئے کہ اسے پورا کریں۔ حتیٰ کہ ماں باپ کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک بھی ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سمجھا جائے گا۔ مسلم اور ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے (4 ۔ مسلم ج 2 ص 314 ، جمع الفوائد ج 2 ص 169 بحوالہ مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد) کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ گدھے پر سوار کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک بدوملا ۔ آپ نے اپنا گدھا اس بدو کو دے دیا۔ آپ کے سر پر پگڑی تھی۔ وہ بھی بدو کے سر پر رکھ دی۔ ساتھیوں نے عرض کیا۔ حضرت ! آپ کے پاس یہی ایک گدھا تھا۔ جو سواری کے کام آتا تھا مگر آپ نے اس دیہاتی کو دے دیا۔ دیہاتی لوگ تو معمولی چیز پر بھی راضی ہوجاتے ہیں۔ آپ نے اپنی قیمتی سواری تک دے دی۔ تو حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ بھائی ! اس کا باپ میرے والد کا دوست تھا۔ اور حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ باپ کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا باپ کے ساتھ نیکی میں شریک ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بعض حدود بھی متعین ہیں۔ سورة لقمان میں واضح ہے۔ “ وان جاھدک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما وصاحبھما دی الدنیا معروفا ”۔ اگر ماں باپ تمہیں شرک پر آمادہ کریں تو پھر ان کی اطاعت نہیں کرنی۔ البتہ دنیا میں ان سے اچھا سلوک کرو مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 313) کہ اگر والدین ترک فرض پر مجبور کریں ، تو ان کی بات نہیں ماننی چاہئے۔ مثلاً کسی پر حج فرض ہوگیا ہے۔ مگر ماں باپ روکتے ہیں۔ تو ان کی بات کی پروا نہیں کی جائے گی۔ قربانی واجب ہے۔ اگر والدین اس سے روکیں تو نہیں رکنا۔ البتہ اگر سنت موکدہ کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالیں۔ تو ان کے کہنے پر ایک دو دفعہ ٹالا جاسکتا ہے تاہم سنت مؤکدہ کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ نفلی عبادت کے متعلق مفسرین کرام فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 213) کہ اگر ماں باپ روکتے ہیں ، تو قطعی طور پر رک جاؤ ۔ ماں باپ کی بات مانو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مسجد میں جا کر نفل پڑھنا چاہتا ہے۔ اور والدین کہتے ہیں کہ ان کو تنہائی میں وحشت ہوتی ہے ۔ لہٰذا نوافل کے لیے مسجد میں نہ جاؤ۔ تو ماں باپ کی خدمت مقدم ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔ کفر و شرک پر آمادگی تو کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ۔ اس کے علاوہ اگر ماں باپ بدعات پر آمادہ کریں تو ان کی اطاعت نہیں کرنا ہوگی۔ مثلاً وہ کہیں کہ قبر پر سجدہ کرو۔ یا داتا صاحب بکرا چڑھاؤ۔ فلاں جگہ نیاز دے کر آؤ۔ تو ایسی باتوں کو نہیں ماننا۔ بلکہ ایسی چیزوں کی مخالفت ضروری ہوجاتی ہے۔ تاہم ان تمام تر حدود وقیود کے باوجود والدین سے حسن سلوک ہر حالت میں لازم ہے۔ “ وبالوالدین احسانا ” کا یہی مطلب ہے۔ قرابتداروں کے حقوق : والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بعد فرمایا “ وذی القربی ” یعنی قرابتداروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو۔ قرابتداروں کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم محرم کا قرابتداروں کی ہے۔ یعنی وہ قرابتدار جو آپس میں محروم ہوں اور جن کا آپس میں نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مثلاً بھائی ، بہن ، چچا ، بھتیجی ، پھوپھی بھتیجا وغیرہ۔ قرابتداروں کی دوسری قسم غیر محرموں کی۔ جیسے ماموں زاد ، خالہ زاد ، چچا زاد وغیرہ فرمایا ان سب کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ کسی کو ایذاء نہ پہنچاؤ۔ رضاعی ماں کی خدمت کرو۔ دور والے رشتہ داروں کی مالی خدمت زیادہ موزوں ہے۔ ایک مالدار شخص اپنے محتاج عزیزوں کی خبرگیری نہیں کرے گا۔ تو مجرم ٹھہرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئے گا فرمایا “ وات ذالقربی حقہ ” قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے۔ تو ان کی امداد کرو۔ یہ ان کا حق ہے۔ یتیم ، مسکین اور فقیر : اس کے بعد فرمایا “ والیتمی والمسکین ” یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھی نیک سلوک کرو۔ یتیم وہ نابالغ بچہ ہوتا ہے۔ جس کے سر پر والدین کا سایہ نہ ہو۔ اس کی پرورش کرنے والا کوئی نہ ہو۔ اس کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ہے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔ کہتے ہیں کہ جانوروں میں یتیم وہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کی ماں موجود نہ ہو۔ باقی چیزوں میں یتیم وہ چیز ہے۔ جس کی نظیر نہ ہو۔ اور وہ نادر چیز ہو جیسے دریتیم۔ نادر قسم کا عمدہ بیمثال موتی۔ مسکینوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جس کا خرچ اس کی آمدنی سے پورا نہ ہوتا ہو۔ بیچارہ کثیر العبال ، محنت ، مشقت کرتا ہے۔ مگر جو کچھ کماتا ہے۔ اس میں گذر اوقات نہیں ہوتی۔ ایسا شخص بھی حسن سلوک کا مستحق ہے۔ اس کی مدد کرنی چاہئے۔ محتاجوں میں ایک قسم فقیر کی بھی ہے۔ اور فقیر ایسے شخص کو کہا جاتا ہے۔ جو بالکل ہی نادار ہو۔ اور جس کے پاس دو وقت کا کھانا بھی میسر نہ ہو۔ ایسا شخص بھی حقدار ہے۔ اس کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہئے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے بنی اسرائیل ! اس وقت کو یاد کرو۔ جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا۔ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ماں باپ کے حسن سلوک سے پیش آؤ قرابتداروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو گزشتہ سے پیوستہ : ان آیات میں بنی اسرائیل کی خرابیوں کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے ان کی حیلہ سازی کے ذریعے احکام شریعت سے اعراض کا ذکر ہوچکا ہے۔ ان کی مفسدانہ باتوں اور انبیاء (علیہم السلام) کی ایذاء رسانی کا ذکر بھی آیا ہے۔ بنی اسرائیل نے آزادی حاصل کرنے کے بعد خود شریعت کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے توراۃ عنایت فرمائی۔ پھر خود ہی کہنے لگے کہ ہم اس پر عمل نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا تھا۔ جب انہوں نے لیت و لعل کیا۔ تو ان کے سروں پر کوہ طور معلق کرکے انہیں ڈرایا گیا۔ اس عہد کی تفصیلات سورة اعراف میں آئی ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ درس میں عرض کیا تھا۔ کہ یہ دوسرا عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے تورات کے ذریعے بنی اسرائیل سے لیا۔ اور وہ یہ تھا کہ “ لاتعبدون الا اللہ ” یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔ اور ماں باپ ، قربتداروں ، یتیموں اور مسکینوں سے حسن سلوک سے پیش آنا اس سلسلے میں حضور نبی کریم ﷺ سے منقول ہے (1 ۔ مسلم ج 1 ص 62) کہ ایک شخص نے عرض کیا ، حضرت ! “ ای الاعمال افضل ” زیادہ بہتر عمل کونسا ہے۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا “ الصلوٰۃ لوقتھا ” یعنی نماز اپنے وقت پر ادا کرنا۔ اس شخص نے دوبارہ عرض کیا۔ حضور ! اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے۔ تو خاتم النبین صلی اللہ علیہ ولسم نے فرمایا “ برا الوالدین ” یعنی والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ کہ یہ بنیادی چیز ہے۔ اس شخص نے سہ بارہ پوچھا کہ اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے تو آپ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ۔ تہذیب اخلاق : اصل بات یہ ہے کہ علم سے دو چیزیں پیدا ہوتی ہے۔ تہذیبِ اخلاق اور اجتماعی حقوق تہذیب اخلاق میں آگے دو چیزیں پائی جاتی ہیں۔ یعنی اصلاح عقیدہ اور اعمال صالحہ ، جب تک عقیدے کی اصلاح نہیں ہوگی کوئی بھی عمل قبول نہیں ہوگا۔ لہٰذا سب سے پہلے اصلاح عقیدہ ضروری ہے۔ اور اس میں بنیادی چیز توحید ہے۔ جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ “ لاتعبدون الا اللہ ” اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی کی عبادت نہ کرو۔ جب عقیدہ درست ہوجائے تو پھر اعمال صالحہ بھی مقبول ہوں گے تہذیب اخلاق کا دوسرا جزو اجتماعی حقوق ہیں ۔ ان کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اور اس میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت حاصل ہے۔ ماں باپ کو اپنے بچوں کی اچھی تربیت کا صلہ ملنا چاہئے ۔ اولاد کی پرورش کے لیے والدین کو بڑی تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ اس کی مکافات یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ قرآن پاک کی بیشتر سورتوں میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کے احکام موجود ہیں۔ اجتماعی حقوق میں قرابتداروں کا حق بھی ہے۔ اس کے بعد یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کی تائید ہے۔ یہ لوگ اپنے گھر کے ہوں ، گلی محلے یا شہر یا ملک کے۔ سب کے سب اجتماعی حقوق میں آتے ہیں۔ چونکہ یہ بھی انسان کے ساتھ احسان کرتے ہیں۔ اس لیے اجتماعی طور پر اس کا بدلہ دینا بھی ضروری ہے اس کو عدل کہتے ہیں۔ عدل اور احسان تقویٰ کے دو اجزاء ہیں لہٰذا یہ سب چیزیں تہذیب اخلاق میں آجاتی ہیں۔ یہ ایک بنیادی تعلیم ہے۔ جو محض بنی اسرائیل کے لئے خاص نہیں ہے۔ بلکہ ہماری امت کے لیے بھی یکساں طور پر قابل عمل ہے۔ حسن کلام : الغرض ! آیت زیر درس کے پہلے حصے کی تشریح گزشتہ درس میں پیش کردی تھی جس میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا تھا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ والدین ، قرابتداروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ آج آیت کے دوسرے حصہ کا ذکر ہے۔ “ وقولوا للناس حسنا ” اور کہو لوگوں کے لیے اچھی بات ، مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 316 پارہ نمبر 1) کہ کوئی فرد واحد عام لوگوں کے ساتھ نہ بدنی نیکی کرسکتا ہے۔ اور نہ مالی نیکی کرسکتا ہے۔ ایسے افعال دو محدود لوگوں کے ساتھ ہی انجام دے سکتا ہے۔ مثلاً والدین کی خدمت مالی اور بدنی دونوں طریقوں سے کرسکتا ہے۔ اس طرح قرابتداروں اور دوستوں کی مالی اعانت کرسکتا ہے ، مگر یہ دونوں چیزیں عوام الناس کے لیے انجام دینا ممکن نہیں ہوتا۔ چناچہ اجتماعی نیکی حاصل کرنے کے لیے “ قولوا للناس حسنا ” کا حکم دیا۔ کہ اگر تم بدنی اور مالی خدمت نہیں کرسکتے۔ تو عام لوگوں کو اچھی بات ہی کہہ دو ۔ اچھی بات کرنے کے مختلف طریقے ہیں ، مثلاً حضور ﷺ فرماتے ہیں (2 ۔ ترمذی ، ابوداؤد ج 2 ص 35 ، مسند احمد ج 2 ص 168 ، بخاری ج 2 ص 921 ، مسلم ج 1 ص 48) جب آپس میں ملو تو ایک دوسرے کو سلام کرو۔ اور پھر اچھا مسلمان وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے۔ “ علی من عرفت ومن لم تعرف ” جس کو پہچانتے ہو اس کو بھی سلام کرو۔ اور جس کو نہیں پہچانتے اس کو بھی سلام کرو۔ بخاری شریف اور مسلم شریف کی روایتوں میں آتا ہے (3 ۔ بخاری ج 2 ص 921 ، مسلم ج 1 ص 48) کہ سلام جو ہے یہ “ من خیر خصال الایمان اوقال اسلام ” ایمان کی بہترین خصلتوں میں سے ہے ، یا فرمایا اسلام کی بہترین خصلتوں میں سے ۔ سلام کرنے کی حکمت نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی (4 ۔ ترمذی ص 375 ، ابوداؤد ج 2 ص 350) کہ ایسا کرنے سے محبت بڑھتی ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں مقام عطا کرے گا جب کوئی سلام کرے تو اس کو اچھے طریقے سے جواب دو ۔ قرآن پاک میں موجود ہے “ دروھا ” سلام کا جواب ویسے ہی لوٹا دو یا اس سے بہتر لوٹاؤ۔ فرمایا اگر ایک شخص تمہیں “ السلام علیکم ” کہتا ہے تو تم اسے بہتر لوٹاؤ اور کہو “ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ” صرف السلام علیکم کہنے والے کو دس نیکیاں ملیں گی اور وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے والے کو تیس نیکیاں حاصل ہوں گی۔ کسی کی نیکی کی طرف راہنمائی کرنا اور برائی سے روکنا یہ بھی حسن کلام میں داخل ہے جب دو مسلمان آپس میں ملیں تو نرمی کے ساتھ نیکی کی دعوت دیں۔ آپس میں دوستی کا اظہار کریں۔ اور ایک دوسرے کی خیر و عافیت دریافت کریں۔ جب ایک مسلمان دوسرے کو پکارے ، تو اچھے لقب سے پکارے قرآن پاک میں موجود ہے۔ “ ولاتنابزوا بالالقاب ” ایک دوسرے کو برے القاب سے مت پکارو۔ یہ سب باتیں “ قولوا للناس حسنا ” میں داخل ہیں۔ اسی طرح فرمایا کسی غیر حاضر بھائی کا ذکر کرو تو اچھے طریقے سے کرو۔ اس کو برائی کی ساتھ یاد نہ کرو۔ اگر کوئی مسلمان تم سے مشورہ طلب کرے تو اس کو صحیح صحیح مشورہ دو ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے (1 ۔ ترمذی ص 400) “ المستشار مؤتمن ” جس سے مشورہ طلب کیا جائے اسے امین سمجھا جاتا ہے ، اگر وہ غلط مشورہ دے گا تو خائن متصور ہوگا۔ اگر کسی کو دیکھو کہ وہ نادانستہ طور پر منکرات میں پڑا ہوا ہے۔ تو اسے حسن اخلاق کے ساتھ روکنے کی کوشش کرو۔ مگر اس سلسلے میں سختی نہیں کرنی چاہئے۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 318 پارہ 1) کہ سختی اور نرمی دونوں اپنے اپنے مقام پر روا ہیں۔ تبلیغ وتعلیم کرتے وقت ہمیشہ نرم رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ قرآن پاک کا مطالعہ کیجئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو فرعون کی طرف تبلیغ کے لیے بھیجا تو فرمایا “ فقولا لہ قولا لیتنا ” اس سے نرم لہجے میں بات کرنا “ لعلہ یتذکرا و یخشی ” شاید کہ وہ نصیحت پکڑے یا اس کے دل میں خوف خدا پیدا ہوجائے۔ خود حضور ﷺ کے متعلق قرآن پاک نے بیان کیا ہے۔ “ فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ” اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ نرم مزاج ہیں۔ “ ولو کنت فظا غلیظ القلب ” اگر آپ سخت مزاج ہوتے “ لا نفضوا من حولک ” تو لوگ آپ کے اردگرد سے پھرجاتے۔ کیونکہ سخت مزاج شخص سے لوگ دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے آپ کو نرم مزاج بنایا۔ آپ کو حسن کلام کی توفیق بخشی اور اسی طرح لوگوں کو آپ کے گرد جمع کیا۔ جب کسی کے ساتھ بحث و تمحیص کی نوبت آجائے۔ تو فرمایا “ ادفع بالتی ھی حسن ” تو اچھے طریقے سے دفاع کرو۔ مناظرے کے وقت بھی اخلاق کا دامن نہ چھوڑو۔ اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ نہ ہی گالی گلوچ تک نوبت پہنچنی چاہئے۔ بلکہ نہایت احسن طریقے سے گفتگو ہونی چاہئے۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (1 ) “ ما دخل الرفق فی شیء الا زانہ ” جس چیز میں نرمی آجائے گی وہ اسے زینت بخشے گی۔ اور جس چیز میں سختی آئے گی۔ وہ اسے عیب دار کردیگی۔ “ ما دخل الخرق فی شیء الاشانہ ”۔ فرمایا ہر جگہ نرمی ہی سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ بعض مقامات پر سختی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ مثلاً تعزیر کے طور پر سزا مطلوب ہو یا جہاد میں کفار سے مقابلہ ہو تو وہاں پر سختی کرنا پڑے گی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی (علیہ السلام) کر حکم دیا “ جاھد الکفار والمنفقین ” آپ کافروں کے ساتھ جہاد کریں۔ “ واغلظ علیھم ” اور ان پر سختی کریں۔ کفار کے ساتھ جہاد تلوار کے ذریعے ہوگا اور منافقوں کے ساتھ زبانی طور پر ، یعنی ان کے نفاق کو کھول کر بیان کریں تاکہ دوسرے مسلمان ان سے بچ سکیں۔ یہ دونوں طریقے سختی کے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نرمی ملحوظ رکھتے ہوئے شریعت کی حدود کا بھی خیال رکھا جائے۔ نرمی بھی اس وقت تک ہی گوارا ہے جب تک شریعت کی حدود کے اندر ہو۔ اگر ایسی نرمی برتنے سے شریعت کے اتباع میں فرق آتا ہو تو ایسی نرمی جائز نہیں۔ اگر ایسا کرنے لگ جائیں گے تو شریعت کے احکام پر عمل ناممکن ہوجائے گا۔ ایسی نرمی جس سے دین میں مداہنت پیدا ہوتی ہو تو وہ حرام ہے۔ امام محمد باقر “ قولوا للناس حسنا ” کا معنی یہ کرتے ہیں۔ کہ لوگوں سے ایسی اچھی بات کہو ، جو تمہیں خود بھی پسند ہے۔ جو خود پسند نہیں کرتے وہ بات دوسروں کو کیوں کہتے ہو۔ فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 319 ، پارہ 1) کہ اچھی بات میں دعوت الی اللہ ، دعوت الی التوحید ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر شامل ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد الٰہی ہے۔ “ ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین ” اس سے اچھی طات کیا ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ خود نیک عمل کرتا ہے اور زبان سے یوں کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار ہوں۔ گویا یہ سب سے اچھی بات ہے ، اسی کو فرمایا “ قولوا للناس حسنا ”۔ جب نبی کریم ﷺ نے جنگ خیبر میں جھنڈا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ میں دیا تو فرمایا (1 ۔ بخاری ص 1 ص 525 ، مسلم ج 2 ص 279) “ فو اللہ لان یھدی اللہ بک رجلا واحدا خیر لک من ان یکون حمر النعم ” یعنی اے علی ! اگر تمہاری وجہ سے ایک آدمی کو بھی ہدایت نصیب ہوجائے۔ تو یہ بات تمہارے لیے عمدہ قسم کت اونٹوں سے بہتر ہے۔ مقصد یہ کہ لڑائی اصل مقصود نہیں بلکہ اس کے ذریعے اسلام کے راستے میں درپیش رکاوٹوں کو دور کرتا ہے۔ یعنی “ وقتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ” کفار سے اس وقت تک جنگ کرو ، جب تک تمام فتنے ختم نہ ہوجائیں گویا لوگوں کو ایمان کی دعوت دینا بھی “ قولوا للناس حسنا ” میں داخل ہے۔ نماز اور زکوٰۃ : بنی اسرائیل کے عہد کا اگلا حصہ یہ تھا “ واقیموا الصلوٰۃ واتوا الزکوۃ ” یعنی نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ نماز بدنی عبادت ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ حجۃ اللہ البالغہ ص 1 ص 73 اسرار صلوٰۃ) کہ نماز “ ام العبادات لمقربۃ ” ہے۔ یعنی جو عبادت انسان کو اللہ تعالیٰ سے قریب تر کرنے والی ہیں۔ ان کی بنیاد اور جڑ نماز ہے۔ نماز کے ذریعے تعلق باللہ استوار ہوتا ہے۔ انسان دن میں پانچ مرتبہ اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ نماز کو قائم کرو۔ اس میں کوتاہی نہیں آنی چاہئے۔ مالی عبادتوں میں زکوٰۃ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں پاکیزگی اور طہارت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ زکوٰۃ بخل کو دور کرکے غرباء اور مساکین سے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ جو کہ تہذیب اخلاق کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت قرآن پاک کی اس آیت سے واضح ہوتی ہے۔ “ لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون ” یعنی تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیز خرچ نہ کرو۔ اور یہ مقصد زکوٰۃ سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ بشرطیکہ مال کمانے اور اس کے خرچ کرنے میں حلال و حرام کی تمیز روا رکھی جائے۔ اگر یہ تمیز اٹھ جائے تو روحانیت کیسے آئے گی۔ ہمارے ملک میں سارا معاشی نظام سرمایہ دارانہ ہے۔ جس میں سود کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سود کی موجودگی میں تقویٰ کیسے حاصل ہوگا۔ اور پاکیزگی کیسے پیدا ہوگی۔ دوسری طرف کفر و الحاد ہے ، جس کی بنیاد انکار خدا پر ہے۔ ہر دو نظام ہائے معاش کا مقصد حصول دولت ، عیاشی اور فحاشی ہے۔ سب کی سوچ دنیا تک محدود ہے۔ صنعت و حرفت ، سائنس اور ٹیکنالوجی غرض مادی ترقی منتہائے مقصود ہے۔ لہٰذا انہیں انسانیت کی ترقی کا کوئی علم نہیں کہ وہ کیسے حاصل کی جاسکتی ہے جس پر آخرت اور دائمی زندگی کا دارومدار ہے۔ بہرحال یہاں پر نماز اور زکوٰۃ دونوں عبادات کا ذکر ہے۔ ایک جسمانی عبادت ہے اور دوسری مالی عبادت۔ قرآن پاک میں ان دونوں کا اکٹھا ذکر تیس مرتبہ آیا ہے۔ بنی اسرائیل کو بھی تاکید تھی کہ ہر حالت میں نماز پڑھو اور اگر مال نصاب تک پہنچ جائے تو اس کی زکوٰۃ بھی ادا کرو۔ نماز کی اس قدر تاکید ہے کہ کسی حالت میں بھی معاف نہیں ہے۔ “ فان خفتم فرجالا اور کبانا ” پس اگر کسی قسم کا خوف ہو تو بھی نماز معاف نہیں ہے تم پیدل ہو یا سواری پر ہو۔ نماز بہرحال پڑھنی پڑے گی۔ سورة مائدہ میں بنی اسرائیل سے یہی فرمایا “ لئن اقمتم الصلوٰۃ واتیتم الزکوٰۃ وامنتم برسلی وحزرتموھم ” یعنی اگر تم نماز قائم کرتے رہو گے ، زکوٰۃ ادا کرتے رہو گے۔ اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے۔ تو میری مہربانیاں تمہارے شامل حال رہیں گی۔ مگر بنی اسرائیل نے اس کی کچھ پروانہ کی۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی نہ کی۔ بلکہ “ ثم تولیتم ” پھر اے نبی اسرائیل ! تم پھرگئے “ الا قلیلا منکم ” مگر تم میں سے بہت تھوڑے ایسے تھے جو اس عہد پر قائم رہے ۔ “ وانتم معرضون ” اور تم اعراض کرنے والے ہو۔ تم نے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے احکام سے اعراض کیا۔ اور آج بھی ایسا ہی کر رہے ہو۔ تمہیں علم نہیں کہ اس کا نتیجہ کتنا برا نکلے گا اور تمہارا حشر کتنا عبرتناک ہوگا۔
Top