Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 62
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (یقین کیا) بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاِذَا : اور جب كَانُوْا : وہ ہوتے ہیں مَعَهٗ : اس کے ساتھ عَلٰٓي : پر۔ میں اَمْرٍ جَامِعٍ : جمع ہونے کا کام لَّمْ يَذْهَبُوْا : وہ نہیں جاتے حَتّٰى : جب تک يَسْتَاْذِنُوْهُ : وہ اس سے اجازت لیں اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ : اجازت مانگتے ہیں آپ سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر فَاِذَا : پس جب اسْتَاْذَنُوْكَ : وہ تم سے اجازت مانگیں لِبَعْضِ : کسی کے لیے شَاْنِهِمْ : اپنے کام فَاْذَنْ : تو اجازت دیدیں لِّمَنْ : جس کو شِئْتَ : آپ چاہیں مِنْهُمْ : ان میں سے وَاسْتَغْفِرْ : اور بخشش مانگیں لَهُمُ اللّٰهَ : ان کے لیے اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
بیشک اہل ایمان وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور اس کے رسول پر۔ اور جب وہ اس (نبی) کے ساتھ ہوتے ہیں کسی اجتماعی معاملہ میں تو نہیں جاتے حتیٰ کہ آپ سے اجازت حاصل کرلیں۔ بیشک وہ لوگ جو آپ سے اجازت حاصل کرلیتے ہیں ، وہی ہیں جو ایمان لاچکے ہیں اللہ پر اور اس کے رسول پر۔ پس جب وہ اجازت طلب کریں آپ سے اپنے کسی کام کی غرض سے تو آپ اجازت دے دیں جس کو چاہیں ان میں سے اور بخشش مانگیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے
ربط آیات : گزشتہ درس میں کھانے کے آداب بیان ہوئے تھے کہ بعض معذوروں اور عام لوگوں کو کن کن کے گھروں سے بلا اجازت کھانا کھانے کی اجازت ہے ان میں ان قریبی رشتہ داروں کا ذکر تھا جن کے ساتھ صلہ رحمی ویسے بھی ضروری ہے ، لہٰذا ان کے گھروں سے کھانا کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ بیان ہوا کہ اکٹھے مل کر کھانا یا علیحدہ علیحدہ کھانا دونوں طرح جائز ہے۔ ضرورت کے مطابق جس طرح چاہو کھاسکتے ہو مگر مل کر کھانے میں برکت ہے۔ پھر تیسرا مسئلہ اللہ نے یہ بیان فرمایا کہ جب گھروں میں داخل ہو تو سلام کہہ کر داخل ہوا کرو کیونکہ سلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعائے خیر اور بابرکت وپاکیزہ چیز ہے۔ اب آج کے درس میں آداب رسالت کا یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ جب تم حضور ﷺ کی مجلس میں کسی اجتماعی غرض سے جمع ہو تو بلا اجازت مجلس سے اٹھ کر نہ جائو۔ حضور ﷺ کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی مومن آدمی کسی خاص کام کے لئے اجازت طلب کرے تو آپ جس کو چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے مغفرت کی دعا بھی کریں دوسرا مسئلہ امتیوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ رسول کے بلانے کو ایک دوسرے کے بلانے کی طرح معمولی حیثیت نہ دو بلکہ اسے خاص اہمیت دو اور نہ ہی نظر بچا کر مجلس سے کھسک جایا کرو۔ شرائط ایمان : ارشاد ہوتا ہے انما المومنون الذین امنوا باللہ و رسولہ بیشک پکے سچے ایماندار وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر۔ اس آیت کریمہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کو مومن کا خطاب دیا گیا ہے کیونکہ یہاں پر آداب رسالت بیان کرنا مقصود ہے۔ تاہم قرآن کے مختلف مقامات پر ایمان کے دیگر لازمی اجزاء کا ذکر بھی موجود ہے۔ مثلاً سورة البقرہ کے آخر میں چار اجزاء کا ذکر کیا گیا ہے کل امن……………ورسلہ (آیت 285) ایماندار کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ اسی طرح سور ۃ بقرہ کی ابتداء میں ہے وبالاخر ۃ ھم یوقنون (آیت 4) متقیوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں یعنی بعث بعدالموت پر بھی ان کا ایمان ہے۔ تو اللہ نے مومنوں کی یہ پانچ شرائط بیان کی ہیں۔ جب تک وہ ان پانچوں چیزوں پر ایمان نہیں لاتے ، اہل ایمان کہلانے کا حقدار نہیں ہیں۔ مومنوں کے لئے اجازت طلبی : فرمایا صحیح معنوں میں ایماندر وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں۔ اور اس ایمان کا تقاضا یہ ہے واذا کانوا معہ علی امر جامع کہ جب وہ کسی اجتماعی کام کے سلسلے میں اپنے نبی کے ساتھ ہوں یعنی آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوں۔ لم یذھبوا حتیٰ یساذنوہ تو وہ خود بخود اٹھ کر چلے نہیں جاتے یہاں تک کہ آپ سے جانے کی اجازت طلب کرلیں۔ امر جامع سے مراد مسلمانوں کے اجتماعی کام ہیں۔ جب بھی کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتاتو حضور ﷺ صحابہ کو جمع فرماتے ، اگر قرآن پاک کی کوئی سورة یا آیات نازل ہوتیں تو ہ بتادیتے ۔ کوئی دیگر اجتماعی ہدایات جاری کرنا ہوتیں تو وہ کردیتے یا پھر اگر کسی اہم معاملہ میں صحابہ کا مشورہو مطلوب ہوتا تو وہ طلب کرتے۔ سورة آل عمران میں اللہ کا ارشاد ہے وشاورھم فی الامر آپ اپنے صحابہ سے مشورہ کرلیا کریں فاذا عزمت فتوکل علی اللہ (آیت 159) پھر جب کسی کام کا عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ کام کر گزریں ہجرت سے پہلے چونکہ کفار کا غالبہ تھا اس لئے مسلمانوں کے اجتماعی امور میں مشاورت اور فیصلہ خفیہ طور پر کیا جاتا تھا۔ چناچہ قیام مکہ کے دوران آپ نے دارارقم کو مسلمانوں کا خفیہ مرکز بنایا۔ وہیں اجتماعی امور کے متعلق مشاورت ہوتی تھی اور آئندہ کے لئے لائحہ عمل کے متعلق ہدایات جاری ہوتی تھیں۔ کفار کے ہاتھوں مسلمانوں کے بچائو کے طریقے حبشہ کی طرف دو دفعہ ہجرت اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کے متعلق مشورے اسی مکان میں ہوتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لے گئے اور اسلامی ریاست قائم ہوگئی تو مسجد نبوی کو اسلام کا مرکز بنالیا گیا۔ اور وہیں صحابہ کا اجتماع ہوتا اور اہم فیصلے کیے جاتے اس وقت عام طور پر موضوعات بحث مختلف قائل میں تبلیغ ، ان کے ساتھ معاہدات ، کفار مکہ کی طرف سے حملے کا ئچائو ، جنگی حکمت عملی ، اور مختلف اطراف میں لشکروں کی رونگی ایسے اجتماعی امور تھے جن کے متعلق فیصلے کیے جاتے تھے۔ تو فرمایا کہ مومن وہ ہیں کہ جو ایمان لائے ہیں اللہ پر اس کے رسول پر اور جب وہ کسی اجتماعی کام کے سلسلے میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو بلا اجازت چلے نہیں جاتے۔ آگے اسی بات کو دوسرے انداز میں فرمایا ان الذین یستاذنونک بیشک وہ اللہ جو آپ سے جانے کی اجازت حاصل کرلیتے ہیں اولئک الذین یومنون باللہ ورسولہ ، یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔ پھر فرمایا فاذا ستاذنوک لبعض شانھم ، پس جب وہ آپ سے اجازت طلب کریں اپنے کسی ذاتی کام کی وجہ سے فاذن لمن شئت منھم تو آپ ان میں سے جس کو چاہیں اجازت دے دیں۔ یعنی اگر کوئی شخص معقول عذر پیش کرتا ہے اور اللہ کا نبی سمجھتا ہے کہ اس کا انفرادی کام زیر توجہ اجتماعی کام سے زیادہ ضروری ہے یا اس شخص کے چلے جانے سے اجتماعی کام میں کوئی رکاوٹ پڑنے کا خطرہ نہیں ہے تو یہ آپ کی صوابدید پر موف ہے کہ ایسے شخص کو اجازت دیں یا نہ دیں۔ یہ تو اس زمانے کی بات ہے جب حضور ﷺ بنفس نفیس صحابہ کرام ؓ میں موجود تھے ، مجلس مشاورت طلب کرتے تھے اور ایسے واقعات بھی پیش آجاتے تھے کہ کسی صحابی کو میٹنگ کے دوران ہی چلے جانے کی ضرورت پیش آجاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو حضور ﷺ کے بعد خلافت راشدہ اور بعد کے ادوار پر بھی منطبق کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی سلطنت میں جب کوئی امیر مجلس مشاورت منعقد کرے تو کسی کو بلا اجازت اٹھ کر نہیں چلے جانا چاہیے بکلہ صاحب صدر سے باقاعدہ اجازت طلب کرنی چاہیے۔ پھر معاملے کی نوعیت کے پیش نظر اگر کسی شخص کی غیر حاضری کو برداشت کیا جاسکتا ہو تو امیر اس کی اجازت دے سکتا ہے۔ فرمایا جب آپ کسی اجازت طلبی پر اجازت دے دیں واستغفر لھم اللہ تو پھر ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا بھی کریں اس میں یہ تبنیہ بھی پائی جاتی ہے کہ اگر اجازت طلبی میں ذرا بھی بہانہ سازی کو دخل ہوا یا اجتماعی معاملہ کسی شخص کی انفرادی ضرورت سے زیادہ اہم ہوا تو پھر ایسے شخص کے لئے اجازت حاصل کرنا کوتاہی ہوگی۔ اسی لئے فرمایا کہ ایسے شخص کی معمولی لغزش کے لئے اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست بھی کریں ان اللہ غفور رحیم بیشک اللہ تعالیٰ نہایت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔ جب کوئی شخص غلطی کرکے معافی طلب کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آکر اسے معاف بھی کردیتی ہے۔ رسول اللہ کا بلانا : اگلی آیت آداب رسالت کے سلسلہ میں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا نبی (علیہ السلام) کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کے بلانے کی طرح نہ سمجھو۔ اسی آیت کریمہ میں لفظ دعا استعمال ہوا ہے جو کہ تین مختلف معافی میں استعمال ہوسکتا ہے۔ پہلا معنی تو یہ ہے کہ جب اللہ کا نبی تمہیں بلائے تو اسے عام آدمی کے بلانے پر محمول نہ کرو بلکہ آپ کے ادب واحترام کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی اللہ کا رسول بلائے ، لبیک کہتے ہوئے فوراً حاضر ہوجائو اور دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کرو ، ورنہ ایمان کے ضیاع کا خطرہ ہے۔ دعا کا دوسرا معنی یہ ہوسکتا ہے کہ جب تم اللہ کے رسول کو پکارو تو آپ کے ادب واحترام کو پیش نظر رکھو۔ عام آدمیوں کی طرح نام لے کر اور بلند آواز سے مت پکارو بلکہ پست آواز کے ساتھ نام لینے کی بجائے ” یا رسول اللہ “ یا نبی اللہ کہہ کر پکارو۔ اس ادب کا ذکر سورة الحجرات میں بھی بیان ہوا ہے کہ اے ایمان والو ! لا ترفعوا……………………اعمالکم (آیت 20) نبی کی آواز سے اپنی آواز کو بلند نہ کرو۔ اور نہ آپ کو اس طرح بلند آواز سے پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے تمام اعمال ہی ضائع ہوجائیں۔ اس دعا کا تیسرا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضور ﷺ کی دعا کو عام آدمیوں کی دعا کی طرف مت سمجھو۔ آپ کی دعا تو مقبول ہے تمہارے کسی قول یا فعل سے نبی کی دل آزاری نہیں ہونی چاہیے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے منہ سے کوئی ایسی دعا نکل جائے جس سے تم ہلاک ہوجائو۔ اسی طرح اگر اللہ کے نبی تم سے خوش ہو کر تمہیں دعا دیں تو یہ تمہارے لئے بہت بڑی سعادت ہوگی۔ بہرحال یہ تینوں معافی ہوسکتے ہیں تاہم پہلا معنی زیادہ راجح ہے۔ فرمایا قدیعلم اللہ الذین یتسلون منکم لواذا بیشک اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر کھسک جاتے ہیں۔ یہاں پر ان منافقین کی مذمت بیان کی گئی ہے جو مسلمانوں کی مجلس میں آتو جاتے تھے مگر بےچین رہتے تھے اور کسی نہ کسی طرح نظر بچا کر چلے جاتے تھے۔ خاص طور پر جمعہ کے خطبہ میں بیٹھنا منافقوں پر بہت گراں گزرتا تھا مگر خطبہ شروع ہونے کے بعد کوئی شخص بلا اجازت نہیں جاسکتا تھا۔ جب کسی شخص کو خاص ضرورت پڑتی تو وہ اشارے کی ذریعیحضور ﷺ سے اجازت لے لیتا مگر منافق ایسا بھی نہیں کرسکتے تھے لہٰذا ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کسی کی اڑ لے کر اور نظر بچا کر سرک جائیں۔ جمعہ کے علاوہ دوسری مجالس کا بھی یہی حال تھا۔ منافق قسم کے لوگ جب موقع ملتا مجلس سے چلے جاتے حالانکہ اللہ نے نبی کی اجازت کے بغیر مجلس سے چلے جانے کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ فرمایا کہ نبی کی دعوت کو عام لوگوں کو دعوت نہ سمجھو کہ جب بلایا آگئے اور جب جی چاہا چلے گئے بلکہ نبی کی مجلس میں شریک ہو کر بغیر اجازت مت جائو۔ اللہ نے ان لوگوں کی نشاندہی بھی فرمادی ہے۔ جو بلا اجازت چلے جاتے ہیں۔ فرمایا کہ ایسے لوگ اگرچہ نبی سے آنکھ بچا کر کھسک جاتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ تو ایسے لوگوں کو خوب جانتا ہے کہ یہ کس قماش کے لوگ ہیں۔ اور ان کے دلوں میں کس حد تک ایمان راسخ ہے۔ آیت کے اگلے حصے میں حکم رسول کی مخالفت کرنے والوں کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
Top