Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 63
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا١ؕ قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا١ۚ فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
لَا تَجْعَلُوْا : تم نہ بنا لو دُعَآءَ : بلانا الرَّسُوْلِ : رسول کو بَيْنَكُمْ : اپنے درمیان كَدُعَآءِ : جیسے بلانا بَعْضِكُمْ : اپنے بعض (ایک) بَعْضًا : بعض (دوسرے) کو قَدْ يَعْلَمُ : تحقیق جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ يَتَسَلَّلُوْنَ : چپکے سے کھسک جاتے ہیں مِنْكُمْ : تم میں سے لِوَاذًا : نظر بچا کر فَلْيَحْذَرِ : پس چاہیے کہ وہ ڈریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُخَالِفُوْنَ : خلاف کرتے ہیں عَنْ اَمْرِهٖٓ : اس کے حکم سے اَنْ : کہ تُصِيْبَهُمْ : پہنچے ان پر فِتْنَةٌ : کوئی آفت اَوْ يُصِيْبَهُمْ : یا پہنچے ان کو عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور نہ بنائو رسول کے بلانے کو اپنے درمیان ایک دوسرے کے بلانے کی طرح تحقیق اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ان لوگوں کو جو سرک جاتے ہیں تم سے نظر بچا کر۔ چاہیے کہ ڈرتے رہیں مخالفت کرنے والے اس (رسول) کے حکم سے کہ کہیں پہنچے ان کو فتنہ یا پہنچے ان کو درد ناک عذاب
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ نے اہل ایمان کو آداب رسالت سکھائے تھے ان میں سے ایک ادب یہ ہے کہ اگر مسلمان نبی کی مجلس میں کسی اجتماعی کام کے لئے شرکت کر رہے ہوں تو بغیر اجازت مجلس سے نہ جائیں بلکہ اللہ کے رسول سے اجازت طلب کریں۔ اور پھر آپ کو اختیار ہے کہ کسی کو اجازت دیں یا نہ دیں۔ اگر اجازت نہیں ملی تو ایسا شخص بیٹھنے کا پابند ہے۔ اللہ نے دوسرا ادب یہ سکھلایا کہ رسول کے بلانے کو عام لوگوں کے بلانے جیسا نہ سمجھو بلکہ فوراً تعمیل حکم کرتے ہوئے حاضر ہوجائو۔ پھر فرمایا کہ رسول کی دعا کو بھی عام آدمی کی دعا کی طرح خیال نہ کرو کیونکہ اللہ کا رسول جس شخص پر خوش ہو کر دعا کرے گا۔ وہ دعا یقینا مسجاب ہوگی۔ تیسرا ادب یہ فرمایا کہ جب تم کسی بات کے لئے رسول اللہ کو مخاطب کرو تو نہایت ادب واحترام کے الفاظ استعمال کرو اب آخر میں اللہ نے اپنے نبی کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو وعید سنائی ہے کہ اگر ایسا کرو گے تو یا تو دنیا کی کسی آزمائش میں مبتلا ہوجائو گے اور یا پھر آخرت کا عذاب چکھنا پڑے گا۔ رسول کی مخالفت پر وعید : اس سے پہلے آیت 54 میں گزر چکا ہے وان تطیعوہ تھتدوا اگر اللہ کے رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاجائو گے اور رسول کی اطاعت حقیقت میں اللہ ہی کی اطاعت ہے ، اس لئے مطاع حقیقی تو ذات خداوندی ہے اور رسول اس کا نائب ہے ، جو اس کے احکام کو دنیا میں نافذ کرنے والا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ پس چاہیے کہ ڈرتے رہیں وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں۔ اور خوف اس بات کا ہونا چاہیے ان تصیبھم فتنۃ کہ ان کو کوئی فتنہ لاحق نہ ہوجائے او یصیبھم عذاب الیم ، یا وہ کسی درد ناک عذاب کا شکار نہ ہوجائیں۔ امام ابوبکر حبصاص (رح) فرماتے ہیں کہ رسو ل کے حکم کی خلاف ورزی دو طریقے سے ہوتی ہے ۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ نبی کے حکم کو تسلیم ہی نہ کیا جائے اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اور خلاف ورزی کی دوسری صورت یہ ہے کہ تسلیم تو کیا جائے مگر اس پر عمل نہ کیا جائے۔ ایسا کرنے والا شخص منافق تصور ہوگا۔ بہرحال فرمایا کہ مخالفت کی صورت میں پہلے نمبر پر دنیاوی فتنوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے جس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ زر ، زن اور زمین کا فتنہ : حضر ت مولانا شیخ الاسلام (شبیر احمد عثمانی (رح) حاشیہ (ترمذی ص 338) قرآن میں لکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کئی قسم کے فتنوں کا باعث ہوگی ، جن میں بڑے بڑے فتنے ، مالی عورت اور زمین کے فتنے میں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے لکل امۃ فتنۃ وفتنا امتی المال یعنی ہر امت کا کوئی نہ کوئی خاص فتنۃ ہوتا ہے جب کہ میرے امت کا فتنہ مال ہے۔ صحیحین میں حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ لوگو ! میں تم پر تنگدستی کا اتنا خوف نہیں رکھتاجتنا ڈر اس بات کا رکھتا ہوں ان تبسط علیکم الدنیا قننا فسوفیھا (صحیحین) کہ تم پر دنیا پھیلا دی جائے گی اور تم اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے۔ اور وہ تم کو اس طرح ہلاک کردے گی۔ جس طرح پہلی قوموں کو ہلاک کیا ۔ مطلب یہ کہ تم پر مال کی بہتات ہوجائے گی اور تم اسی فتنے میں مبتلا ہو کر رہ جائو گے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان اس قدر تنگدستی کی حالت میں تھے کہ کسی کے پاس صرف ایک ہی چھوٹا سا کپڑا ہوتا تھا ، اور وہ اسی میں نماز پڑھتا تھا حالانکہ اس کپڑے سے اس کا پورا جسم نہیں ڈھانپا جاسکتا تھا۔ دوسرے نمبر پر عورت کا فتنہ ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان (ابن ماجہ ص 288) ہے۔ ماترکت بعدی فتنۃ اضر علی الرجال من النساء یعنی میرے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ہوگا۔ اس وقت پوری دنیا میں عریانی ، فحاشی ، گندے گانے ، ناچ گھر ، فلم انڈسٹری ، فوٹوگرافی ، تھیٹر اور کلب سارے کے سارے عورت کے فتنے کے اڈے ہیں۔ اب ٹی وی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے اور ہر گھر میں یہ فتنہ موجود ہے۔ اسی طرح زمین کا فتنہ بھی بہت بڑا فتنہ ہے۔ دیکھ لیں زمین کے معاملہ میں کس قدر فساد ہورہا ہے ۔ کہیں ذاتی زمین کا جھگڑا ہے اور بھائی بھائی آپس میں دست و گریبان ہیں ، کہیں پڑوسیوں سے زمین کا تنازعہ ہے کوئی ملک دوسرے ملک کا کچھ علاقہ ہتھیا لیتا ہے اور کوئی کسی کے مکان یا دکان پر قابض ہوجاتا ہے۔ یہ سب زمین کے فتنے ہیں اور ان کے تنازعات نسل درنسل چلتے ہیں حدیث (ترمذی ص 324) میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی ایک بالشت زمین اپنے ناجائز تصرف میں لائے گا تو قیامت والے دن ساتوں زمینوں کا اتنا حصہ اس کے گلے میں لٹکتا ہوگا اور لوگ دیکھیں گے کہ اس شخص نے دنیا میں اس قدر ناجائز قبضہ کیا تھا ، بلوچستان کے قاضی سربازی (رح) بڑے فاضل آدمی ہوئے ہی ، ان کا شعر ہے ؎ ہمہ آفاق پرز فتنہ وشرمے بینم فتنہ ہا بہر زمین وزن وزرمے بینم تین اطراف عالم کو فتنوں سے پر دیکھ رہا ہوں لیکن ان میں زیادہ تر فتنے زر ، زن اور زمین کی وجہ سے دیکھ رہا ہوں۔ باطل عقائد کے فتنے : دنیا میں باطل عقائد کے فتنے بھی عام ہیں ، حضور ﷺ (تو۔۔۔ ص 323) کا فرمان ہے انی اخاف علی امتی ائمۃ المضلین یعنی میں اپنی امت میں گمراہ پیشوائوں کا بڑا خطرہ محسوس کرتا ہوں۔ یہ بہتر فرقے گمراہی کا نتیجہ ہی تو ہیں۔ لوگوں کو غلط مسلک بتائے جاتے ہیں۔ جگہ جگہ شرک کے اڈے قائم ہیں ، کہیں مرزائیت کا فتنہ ہے جسے آج سے نوے سال قبل انگریز نے کھڑا کیا تھا۔ حضور ﷺ (مسند ابودائودالطیالسی ص 317 (فیاض) نے فرمایا کہ میر امت میں تیس برے دجال ہوں گے ، جن میں سے یقینا ایک مرز قادیانی بھی ہے۔ پاکستان میں ان کی دال نہیں گلی تو اب بیرونی ممالک میں پر پرزے نکال رہے ہیں ، اسرائیل کے ساتھ ان کا باقاعدہ گٹھ جوڑ ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک مرزائی بہت سی کلیدی آسامیوں پر فائز ہیں اور کسی بھی وقت مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ علماء سوء پیران سوء اور قبر پرستوں کا فتنہ الگ ہے جو لوگوں کو شرکیہ رسوم اور بدعت کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ دوسری طرف عیسائیت کا فتنہ ہے۔ اس وقت دنیا میں ان کی آبادی اڑھائی ارب ہے۔ بڑی بڑی حکومتوں کے مالک ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں مشنری جال پھیلارکھے ہیں جن میں غریب مگر بھولے بھالے مسلمانوں کو پھانس لیتے ہیں۔ مشنری اداروں نے سکول ، کالج ، ہسپتال قائم کر رکھے ہیں جو دراصل لوگوں کو عیسائی بنانے کے اڈے ہیں۔ کبھی بچوں کو کھلونے تقسیم کرکے عیسائیت کا پرچار کرتے ہیں اور کبھی بین الاقوامی سطح پر ایڈ کے نام پر غریب ملکوں کو اپنے دام میں پھنساتے ہیں۔ حکومتی جبر کا فتنہ : بعض حکومتیں بھی اپنے عوام کے لئے ظلم وستم کا باعث بنتی ہیں۔ اسی لئے حضور ﷺ نے یہ دعا سکھلائی ہے اللھم لا تسلط علینا من لا یرحمنا اے مولیٰ کریم ! ایسے لوگوں کو ہم پر مسلط نہ فرمانا۔ جو ہم پر رحم نہ کریں۔ اب روس کی طرف دیکھ لیں ، بہت سی مسلمان ریاستوں پر جبراً تسلط جمارکھا ہے۔ وہاں پر عبادت گاہوں کو گرادیا جاتا ہے ۔ چیکو سلوایہ اور البانیہ کے حکمران عیسائی ہیں مگر اشتراکی نظریات کے حامل ہیں ، وہ مسلمانوں کی تین فیصدی قلیل آبادی کو بھی مسلمانوں جیسے نام بھی نہیں رکھنے دیتے۔ تمام اشتراکی ممالک مشمولہ روس کی یہ مشترک پالیسی ہے کہ ان کے ملکی ناک کے خلاف کوئی شخص اپنے بچے کا نام نہیں رکھ سکتا۔ بچوں کو دینی تعلیم نہیں دی جاسکتی اور نہ کسی کو ملکی نصاب سے آگے بڑھنے دیا جاتا ہے۔ جب سپین (اندلس) پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا تو دو کروڑ مسلمانوں میں سے کچھ مارے گئے اور کچھ ملک بدر کردیے گئے۔ اس وقت صرف گیارہ ہزار باقی بچے تھے۔ جن کے گلے میں صلیب لٹکانا لازمی قرار دیا گیا اور گرجے میں جانے کا پابند کیا گیا۔ اس زمانے کے ایک مسلمان عبدالمومن نامی اپنی سرگزشت میں لکھتے ہیں کہ اس کے والدین اسے گھر کے بند کمرے میں دین کی ابتدائی تعلیم دیا کرتے تھے ، وہ مسلمان تھے مگر بظاہر اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کرتے تھے تاکہ عیسائیوں کے ظلم وستم سے بچ سکیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ جب میں شعور کو پہنچا تو میرے والدین نے مجھے ملک سے بھگا دیا تاکہ میں کسی اسلامی ملک میں جاکر دین کی تعلیم حاصل کرسکوں۔ آج میں دنیا میں بعض ممالک ایسے ہیں جہاں کے مسلمان دینی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے حتیٰ کہ کھلے بندوں نماز بھی نہیں پڑھ سکتے یہود اور ہنود کو دیکھ لیں۔ یہ بھی حکومت اور اکثریت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو دباتے ہیں۔ مسجدوں کو تالے لگ چکے ، مدرسے ویران ہوگئے ہیں اور مسلمان کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سب حکومتی فتنے ہیں جو کہ جگہ جگہ مشاہدے میں آتے ہیں۔ امام جعفر صادق (رح) سے منقول ہے کہ ایمان والو ! رسول کی مخالفت سے باز آجائو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر ظالم حاکم مسلط کردیئے جائیں جو تمہاری بےآبروئی کرنے لگیں۔ معاشی فتنے : دنیا میں لو معاشی فتنوں میں بھی مبتلا ہیں۔ کہیں نیشلزم کا فتنہ ہے اور کہیں سرمایہ داری نظام ہے جو امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی وغیرہ سمیت برصغیر کے ممالک میں بھی چل رہا ہے۔ کہیں دہریت ، الحاد اور کمیونیزم کا فتنہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظا م میں شخصی ملکیت کی کھلی چھٹی ہے مگر اس میں نہ کسب پر حلال و حرام کی پابندی ہے اور نہ اخراجات پر ۔ ارتکاز زر کی پوری آزادی ہے جس کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے دوسری طرف اشتراکی نظام ہے جہاں پر کوئی شخص کسی جائداد کا مالک نہیں ہوتا تمام وسائل آمدنی پر حکومت کی اجارہ داری ہوتی ہے اور عوام محض جانوروں کی طرح کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ملوکیت کا فتنہ اپنی جگہ قائم ہے اور اکثر مسلمان ملک اس فتنہ میں گرفتار ہیں۔ اب شارجہ میں ملوکیت کا جشن منایا جارہا ہے ہمارے صدر صاحب بھی وہاں گئے ہوئے ہیں۔ محض ذہنی عیاشی کے لئے کروڑوں ، اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں حالانکہ یہ رقم مسلمانوں کے اجتماعی امور پر صرف کی جاسکتی ہے اور دنیا کی مظلوم قوموں کی طرف دست تعاون بڑھایا جاسکتا ہے۔ شہنشاہ ایران نے اڑھائی ہزار سالہ جشن منایا تھا جس پر ستر کروڑ روپیہ خرچ ہوا۔ بتائو اس کا کیا فائدہ ہوا۔ اتنی پختہ ملوکیت والا بھی جب اللہ کی گرفت میں آیا تو پھر دنیا بھر میں مارا مارا پھرتا تھا ، کوئی ملک اسے خوش آمدید کہنے کے لئے تیار نہ تھا۔ متفرق فتنے : بعض دیگر فتنے ہیں جن (بخاری ص 942 ج 2) سے حضور ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ اللھم انی اعوذ بک من فتنۃ الفقر والفکر اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ پناہ پکڑتا ہوں تنگدستی اور کفر سے دعا میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ مولیٰ کریم میں پناہ پکڑتا ہوں فتنۃ القبر وفتنۃ المسیح الدجال قبر کے فتنہ سے اور دجال کے فتنہ سے یہ سب فتنے اپنے اپنے وقت پر آئیں گی حضور ﷺ (ترمذی ص 321) کا یہ بھی فرمان ہے کہ جوں جوں زمانہ قیامت کے قریب آتا جائے گا۔ فتنوں میں اضافہ ہوتا جائے گا ، جہالت ہوگی ، زلزلے آئیں گے ، شراب نوشی عام ہوگی ، قتل اور زنا کے جرائم بڑھ جائیں گے۔ دینی علم باقی نہیں رہے گا۔ حضور ﷺ (ترمذی ص 330 (فیاض) نے فرمایا لوگو ! بادروا بالاعمال فتنا کقطع الیل المظلم نیک اعمال کرلو پیشتر اس کے کہ فتنے تم پر رات کی تاریکی کی طرح چھا جائیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ بعض اوقات کسی شخص کا دل سخت ہوجاتا ہے اور وہ اطاعت سے محروم ہو کر گناہ کی دلدل میں پھنس جاتا ہے یہ شخصی فتنہ ہے۔ بال بچوں کا فتنہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ جب کوئی شخص خدا اور رسول کے حکم کے خلاف اہل و عیال کی فرمائشیں پوری کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے تو سمجھو کہ وہ فتنۃ الاھل والمال میں مبتلا ہوگیا۔ ریڈیو ، ٹی وی ، فحش گانے ، وی سی آر کے فتنے اسی قبیل سے ہیں۔ حضور ﷺ (مسلم ص 82 ج 1) کا فرمان ہے تعرض الفتن علی القلوب کا الحصیر عودا عودا بعض فتنے اسی طرح اٹھتے ہیں جس طرح چٹائی میں ایک ایک تنکا اکٹھا ہوتا رہتا ہے اور پھر مکمل چٹائی بن جاتی ہے۔ فرمایا بعض فتنے سمندر کی موجوں کی طرح اٹھتے ہیں۔ آج کل صحافت کا فتنہ بھی عام ہے۔ کہنے کو تو یہ معزز پیشہ ہے ، مگر اخبارات اور رسائل کے نصف حصے عریاں تصویروں سے مزین ہوتے ہیں حالانکہ صحافت کا اصل مقصد لوگوں کو دنیا کی تازہ ترین خبروں سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ فوٹو کے بغیر کوئی خبر چھپتی ہی نہیں۔ اب تو مولوی بھی فوٹو چھپوانے میں پیش پیش ہیں۔ ویڈیو کیسٹوں نے سو مسئلہ مزید آسان کردیا ہے اب مولوی صاحب کی پوری تقریر کی ویڈیو بن جاتی ہے حالانکہحضور ﷺ نے فرمایا (قرطبی ص 238 ج 14 و احکام القرآن للبصاص ص 373 ج 3 (فیاض) لعن اللہ المصورین تصویر کشی کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہے ۔ اب اس کام میں سب ننگے نظر آرہے ہیں اور کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔ یہ بھی بہت بڑا فتنہ ہے۔ خارجی فتنے : اندرونی فتنوں کے ساتھ ساتھ بیرونی فتنے بھی بڑی تعداد میں پیدا ہو رہے ۔ طوفان بادوباراں ، وبا ، زلزلے وغیرہ خارجی فتنے ہیں۔ امریکہ ریاست کو لمبیا میں آتش فشاں پھٹنے سے تین چار قصے مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے حتیٰ کہ وہاں سے لاشیں نکلنا بھی ممکن نہ رہا اور پورے علاقے کو اجتماعی قبرستان قرار دے دیا گیا۔ الجزائر میں بذرتہ کا زلزلہ آج سے بیس سال قبل آیا تھا جس میں پوری آبادی تباہ ہوگئی تھی ۔ ابھی قریب کا واقعہ ہے بشام کی چار ہزار آبادی بالکل فنا ہوگئی تھی۔ جاپان کے زلزلے میں تین لاکھ انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے 1935 ء میں کوئٹہ کے زلزلہ میں ڈیڑھ لاکھ جانیں تلف ہوگئی تھیں اور جو زخمی ہوئے وہ اس کے علاوہ تھے۔ پورا شہر کھنڈر بن گیا۔ غرضکیہ یہ خارجی فتنے ہیں جو دنیا میں برپا ہوتے رہتے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) کی توضیح : امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی حکمت کے مطابق بیان (بدوربازغہ ص 133 تاص 134 (فیاض) کرتے ہیں کہ فتنے یا شرتین قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلا شر یہ ہے کہ انسان کا اخلاق ہی بگڑ جائے اگرچہ شکل و صورت ٹھیک ٹھاک رہے۔ جس انسان یا قوم کا اخلاق بگڑ جائے اس کا کچھ وقار نہیں رہتا۔ فرماتے ہیں دوسرا شر یہ ہے کہ شیطان پورے معاشرے پر اپنا تسلط جمالے۔ ایسی صورت میں کوئی اکادکا آدمی گمراہ نہیں ہوتا بلکہ پورے ملک اور قوم پر شیطان حاوی ہوجاتا ہے۔ پھر جب کسی قوم کا اخلاق بگڑتا ہے تو پوران باطن بگڑ جاتا ہے ۔ اس وقت انسانوں کی ظاہری شکل و صورت تو انسانوں جیسی ہی ہوتی ہے مگر ان کا بطن خنزیروں ، کتوں اور بندروں کے مشابہ ہوجاتا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ دنیا میں تیسرا شر قرب قیامت میں آئے گا جب لوگوں کی ظاہری شکلیں بھی مسخ ہوجائیں گی۔ اس وقت خدا تعالیٰ سخت ناراضگی کی حالت میں ہوگا اور پھر جلد ہی کائنات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانات ، نباتات اور ہر چیز فنا ہوجائے گی۔ حتیٰ کہ زمین بھی درہم برہم ہوجائے گی۔ خلاصہ کلام : تو اللہ نے فرمایا خبردار ! اللہ کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ ورنہ کسی فتنے میں مبتلا ہوجائو گے۔ ان فتنوں کی اجمالی تفصیل میں نے عرض کردی ہے۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد دنیا میں فتنے ہی برپا ہو رہے ہیں دیکھیں اب حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کا مہینہ آرہا ہے ۔ لوگ طرح طرح کی باطل رسوم ادا کریں گے حالانکہ یہ آپ کے سچے دین اور عقیدے کی نفی ہوگی ۔ دعویٰ عاشق رسول ہونے کا ہے مگر کام وہ کرتے ہیں جن سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ رسول کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ کسی فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں یا آخرت میں عذاب الیم کا شکار نہ ہوجائیں۔ کہ رسول خدا کے حکم کی خلاف ورزی کی یہی سزا ہے۔ احساس ذمہ داری : آخر میں اللہ نے احساس ذمہ داری دلاتے ہوئے فرمایا الا ان للہ مافی السموت والارض آگاہ رہو کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز حقیقت میں خدا تعالیٰ ہی کی ہے۔ قدیعلم ما انتم علیہ وہ خوب جانتا ہے کہ تم جس حالت پر ہو۔ وہ تمہارے تمام اعمال اور کردار سے واقف ہے۔ یوم یرجعون الیہ فینبئھم بما عملوا جس دن سب لوگ اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے تو وہ انہیں ان کے تمام اعمال سے آگاہ کردیگا۔ اور بتادے گا کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے۔ اب ان کا نتیجہ بھگتو۔ فرمایا یہ نہ سمجھو کہ اگر دنیا میں مخلوق کی نگاہ سے اوجھل رہے تو قیامت میں بھی بچ جائو گے اور وہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا ، بلکہ تمہاری ساری کارگزاری اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کیونکہ واللہ بکل شیء علیم وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اس مالک حقیقی کی گرفت سے بچ نہیں سکو گے۔ واللہ اعلم بالصواب و صلی اللہ تعالیٰ علی النبی الامی وعلی الہ وصحبہ اجمعین
Top