Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 6
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں اَزْوَاجَهُمْ : اپنی بیویاں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ ہوں لَّهُمْ : ان کے شُهَدَآءُ : گواہ اِلَّآ : سوا اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں (خود) فَشَهَادَةُ : پس گواہی اَحَدِهِمْ : ان میں سے ایک اَرْبَعُ : چار شَهٰدٰتٍ : گواہیاں بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ لَمِنَ : کہ وہ بیشک سے الصّٰدِقِيْنَ : سچ بولنے والے
اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر اتہام لگاتے ہیں بدکاری کا اور نہیں ہیں ان کے لئے گواہ سوائے اپنی جانوں کے ، پس گواہی ان میں سے ایک کی چار مرتبہ گواہی دے اللہ کا نام لے کر کہ بیشک وہ سچا ہے
ربط آیات : سورۃ ہذا کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے زنا ، فحاشی اور بدکاری وغیرہ سے متعلق تین قوانین کا ذکر کیا ہے۔ اس سے پہلے حد زنا اور حد قذف کا ذکر ہوچکا ہے۔ اور آج کے درس میں لعان کا بیان آرہا ہے۔ پہلے حد زنا بیان ہوئی تھی جس کے مطابق غیر شادی شدہ زنا کار مرد یا عورت کو سوکوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ، شادی شدہ محصن کی سزا کا ذکر قرآن میں نہیں کیا گیا۔…البتہ سنت میں ایسے مرد یا عورت کی سزا سنگساری مقرر کی گئی ہے اور خود حضور ﷺ کے زمانے میں اس سزا پر عمل درآمد ہوا۔ یہ سزا سرعام دینے کا حکم ہے تاکہ تمام لوگوں کو اس قبیح جرم کے مرتکب کا پتہ چل جائے اور انہیں عبرت حاصل ہو۔ پھر حد قذف کے متعلق فرمایا کہ اگر کوئی آدمی کسی پاکدامن مردیا عورت پر زنا کا اتہام لگائے اور پ ھر اسے چار گواہوں کے ذریعے ثابت نہ کرسکے تو اتام لگانے والے کو اسی درے مارنے کی سزا دی جائے گی ، یہ حد قذف کہلاتی ہے۔ لعان کا بیان : اب تیسرے نمبر پر لعان کا بیان ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی خاوند اپنی بیوی پر زنا کا اتہام لگائے اور اس کی دو صورتیں ہیں یا تو اس نے خود اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ ناشائستہ حالت میں دیکھا ہوا اور یا پھر اس کی بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے۔ جب کہ خاوند کئی سال سے بوجوہ اس کے قریب نہ گیا ہو۔ ایسی صورت میں اسے یقین ہوگا کہ یہ بچہ اس کا نہیں بلکہ زنا کا نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر میاں بیوی کے درمیان اس معاملہ میں گواہ لانا قریباً قریباً ناممکن ہے۔ اگر خاوند نے بیوی کو خود برائی کرتے دیکھا ہے تو جب وہ گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر میاں بیوی کے درمیان اس معاملہ میں گواہ لانا قریباً قریباً ناممکن ہے۔ اگر خاوند نے بیوی کو خودبرائی کرتے دیکھا ہے تو جب وہ گواہوں کو تلاش کرے گا۔ مجرمین اپنا کام ختم کرچکے ہوں گے۔ لہٰذا عینی گواہوں کا حصول بڑا ہی مشکل ہے۔ اور اگر بدکاری کا علم حمل کے نمایاں ہونے یا بچے کی پیدائش پر ہوا ہے تو گواہوں کو پیش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے لعان کا قانون بیان فرمایا ہے جس کی رو سے میاں بیوی کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ اس قسم کے واقعات خود حضور ﷺ کے زمانے میں بھی پیش آئے جن کا تذکرہ صحیحین اور بعض دوسری کتب احادیث میں موجود ہے۔ ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ، حضور ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی غیرمرد کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں پائے تو وہ کیا کرے ؟ اگر کوئی غیرت مند آدمی اس بدکار شخص کو قتل کردے تو کیا قاتل کو بھی قصاص میں قتل کیا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ اگر وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی خاموش رہتا ہے تو وہ ہر وقت غصے میں بھرا رہے گا۔ جس کی وجہ سے کسی وقت بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔ حضور ﷺ نے سائل سے فرمایا کہ زنا کے الزام کے لئے چار گواہوں کی ضرورت ہے اگر کوئی شخص الزام لگانے کے بعد گواہ پیش نہیں کرتا تو وہ خودحد قذف کا مستحق ٹھہرے گا۔ حدیث (تفسیر ابن کثیر ص 266 ج 3 وقرطبی ص 183 ج 12 و بخاری ص 695 ج 7 (فیاض) کے الفاظ ہیں فحد فی ظھرک تیری پیٹھ پر درے لگیں گے۔ صحیح حدیث میں سا قسم کا واقعہ حضرت سعد بن عبادۃ ؓ کا بھی ملتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا ، حضرت ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھے گا تو وہ گواہ تلاش کرنے کے لئے جائیگا یا تلوار سے اس آدمی کا سر قلم کردے گا ؟ حضور ﷺ نے انصار مدینہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ دیکھو ! تمہارا سردار یہ بات کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ سردار بڑا باغیرت آدمی ہے اور اس کے لئے ایسی صورت حال ناقابل برداشت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ بڑا غیرت مند ہے تو میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ سب سے زیادہ غیرت والا ہے ، مگر مسئلہ یہی ہے کہ ایسے اتہام کے ثبوت کے لئے چار گواہی لازمی ہیں ، ورنہ نہ تو مجرم کو سزا دی جاسکتی ہے اور نہ ہی متعلق شخص خود قانون کو ہاتھ میں لے سکتا ہے۔ ایسے معاملے کو عدالت میں لے جانا ہوگا۔ ثبوت پیش کرنا ہوگا اور عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہوگا۔ مرد کی پانچ قسمیں : ایسے ہی معاملے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے والذین یرمون ازواجھم جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کا اتہام لگاتے ہیں ، یعنی انہیں شواہد وقرائن کی بناء پر یقین ہے کہ ان کی بیویاں گناہ میں ملوث ہوتی ہیں۔ اور اس کی دو ہی صورتیں ہیں ، جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ ناشائستہ حالت میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یا بیوی سے قربت کے بغیر اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے یا پیدائش متوقع ہے ، مگر اس شخص کے پاس اس اتہام کے ثبوت کے لئے چار عینی گواہ موجود نہیں ہیں ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم یعنی اپنی ذات کے سوا ان کے پاس کوئی دوسرا گواہ موجود نہیں۔ تو ایسی صورت میں متعلق شخص معاملے کو عدالت میں لے جائے گا۔ عدالت فریقین کو طلب کرکے کاروائی کا آغاز کریگی۔ پہلے مرد سے پوچھا جائے گا کہ اس کا الزام کس حد تک درست ہے۔ اگر وہ اپنے دعویٰ سے پھرجائے تو عدالت اسے جھوٹا قرار دے کر حد قذف جاری کرے گی جس کے مطابق اسے اسی درے مارے جائیں گے۔ پھر عورت سے پوچھا جائے گا اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کی سزا دی جائے گی اور اگر وہ انکار کرے تو اگلی کاروائی ہوگی۔ جب مرد اپنی بات پر اصرار کرے کہ اس کی بیوی نے فی الواقعہ زنا کا ارتکاب کیا ہے اور عورت مسلسل انکار کرے ۔ تو پھر فشھادۃ احدھم اربع شھدت باللہ عدالت مرد سے کہے گی کہ وہ کھڑا ہوکرچار دفعہ اللہ کے نام کی قسم اٹھا کر کہے کہ اس کا الزام درست ہے انہ لمن الصدیقن اور وہ اپنی بات میں سچا ہے۔ والخامسۃ ان لعنت اللہ علیہ ان کان من الکذبین ، اور پانچویں دفعہ اللہ کی قسم کھا کر کہے گا کہ اگر وہ اس معاملہ میں جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ یہ پانچ قسمیں اٹھانے کے بعد وہ شخص بری ہوجائے گا اور اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی۔ عورت کی پانچ قسمیں : اس کے بعد حاکم عورت کی طرف متوجہ ہوگا اور پوچھے گا کہ کیا تو خاوند کی طرف سے لگائے گئے الزام کو تسلیم کرتی ہے ؟ اگر وہ گناہ کا اقرار کرلے تو اسے رجم کرنے کی سزا دی جائے گی ، اور اگر عورت الزام کو تسلیم کرنے سے انکار کردے تو فرمایا ویدرئواعنھا العذاب ان تشھد اربع شھدت باللہ یہ بات اس سے عذاب ہٹا دے گی کہ وہ اللہ کے نام کی چار قسمیں کھا کر کہے انہ لمن الکذبین کہ ان کا خاوند جھوٹا ہے یعنی اس (عورت) پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ درست نہیں ہے والخامسۃ ان غضب اللہ علیھا ان کان من الصدقین۔ اور پانچویں دفعہ قسم اٹھا کر یہ کہے کہ اس (عورت) پر اللہ کا غضب ہو اگر اس کا خاوند سچا ہے۔ لعنت اور غضب میں فرق : یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرد کی قسم کے بارے میں اللہ نے لعنت کا ذکر کیا ہے جب کہ عورت کے لئے غضب الٰہی تجویز کیا ہے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ لعنت کے مقابلے میں غضب الٰہی زیادہ شدید امر ہے لعنت کا معنی اللہ کی رحمت سے دوری ہے اور یہ لفظ عام طور پر شیطان یا کسی دوسرے کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ وہ ملعون ہے یعنی رحمت الٰہی سے بعید ہے۔ اور غضب سے مراد یہ ہے کہ ایسا شخص نہ صرف رحمت سے محروم ہے بلکہ اس پر اللہ کی ناراضگی بھی ہے۔ تو فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے غضب کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ لعنت تو ایک معمولی چیز ہے جو عورتیں خود بھی ایک دوسری پر بھیجتی رہتی ہیں۔ جونہی دوسری عورت سے ناراضگی ہوئی تو جھٹ اس کو ملعون کہہ دیا ، لہٰذا عورتیں لعنت سے زیادہ شدید سزا کی مستحق ہی۔ صحیحین کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری اکثریت جہنم میں جائیگی ۔ ایک عورت نے عرض کیا ، حضور ! اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمہاری زبانوں پر لعنت بہت زیادہ ہوتی ہے بعض عورتوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے کہ وہ بات بات پر لعنت بھیجتی ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ تم اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔ اسی لئے اللہ نے عورت کی زبان سے بوقت قسم غضب کا لفظ نکلوایا ہے ، شاید کہ وہ ڈر جائے اور اگر واقعی گنہگار ہے تو گناہ کا اقرار کرکے آخرت میں غضب الٰہی سے بچ جائے۔ میاں بیوی میں جدائی : اب صورت حال یہ ہوگئی کہ خاوند نے پانچ قسمیں کھا کر بیوی پر زنا کا الزام لگایا اور بیوی نے پانچ قسمیں اٹھا کر اپنی بریت کا اظہار کیا۔ اب قاضی کا فیصلہ یہ ہوگا کہ وہ میاں بیوی میں جدائی کردیگا۔ قاضی کا یہ حکم طلاق بائن کے قائم مقام ہوگا اور یہ مردوزن دوبارہ نکاح بھی نہیں کرسکیں گے۔ ہاں ایک صورت ہے کہ اگر کسی وقت مرد اپنے الزام کو واپس لے لے اور عدالت میں یہ بیان دے کہ اس نے بیوی پر اتہام لگاتے وقت جھوٹ بولا تھا ، تو قاضی اس شخص کو حد قذف یعنی اسی کوڑوں کی سزا دے گا اور اس کے بعدوہی مردوزن دوبارہ نکاح کرسکیں گے۔ اس بارے میں کچھ فقہی اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ میاں بیوی کی طرف سے پانچ پانچ قسمیں اٹھانے کے بعد جب لعان مکمل ہوگیا تو عورت خود بخود مرد سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئی۔ اب نہ کسی طلاق کی ضرورت ہے اور نہ قاضی کے فیصلے کی۔ اگر عورت کے پاس بچہ موجود ہے یا ابھی پیدا ہونے والا ہے تو وہ ماں کا تصور ہوگا ، خاوند کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا ، نہ تو بچہ اس کی نسل میں شمار ہوگا۔ اور نہ وہ مرد کی وراثت کا حقدار ہوگا۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) اور بعض دوسرے فقہائے کرام کا مسلک یہ ہے۔ کہ محض لعان کی تکمیل پر جدائی نہیں ہوجاتی بلکہ لعان کے بعد یا تو خاوندخود طلاق دے دے یا قاضی جدا کردے۔ صحیح حدیث میں بھی ایسا ہی آتا ہے کہ اس قسم کے ایک کیس میں ثم فرق بینھما خود حضور ﷺ نے میاں بیوی میں تفریق کرادی تھی۔ امام صاحب (رح) کے مسلک کے مطابق اگر نہ خاوند طلاق دے اور نہ قاضی تفریق کرے تو پھر متعلقہ عورت اپنے خاوند کے نکاح سے باہر نہیں نکلے گی۔ بلکہ بدستور نکاح میں رہے گی۔ اور ادھر یہ ہے کہ مذکورہ شخص لعان کے بعد اس عورت سے مباشرت بھی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ حرام ہے۔ اب نکاح فسخ نہیں ہوا اور مباشرت حرام ہے تو مزید پیچیدگی پیدا ہوگی ۔ اور اگر اس حالت میں میاں بیوی میں سے کسی ایک کی موت واقع ہوجائے تو دوسرے کو وراثت کا حق حاصل ہوگا۔ کیونکہ ان کا نکاح قائم ہے۔ البتہ بچہ عورت کا تصور ہوگا۔ اور مرد کی وراثت کا حقدار نہیں ہوگا۔ قانون لعان کی افادیت : آگے فرمایا ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمۃ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس مہربانی تمہارے شامل حال نہ ہوتی ، اور یہ بھی وان اللہ تراب حکیم ، بیشک اللہ تعالیٰ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور حکمت والا ہے ، تو تمہارے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہوجاتیں مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لعان کا ایسا حکیمانہ قانون وضع فرمایا ہے کہ جس کے ذریعے ایک تو مردوزن کے درمیان پردہ پوشی قائم رہتی ہے اور دوسرے دنیاوی مشکلات بھی آسان ہوجاتی ہیں۔ اگر یہ قانون نہ ہوتا اور خاوند کی طرف سے لگائے گئے الزام کو بیوی قبول نہ کرتی تو عمر بھرکے لئے عداوت کا دروازہ کھلا رہتا اور زوجین میں سے کسی ایک بھی سکھ کا سانس نصیب نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ مہربانی فرمائی ہے کہ تم اس قانون کو اپنے اوپر نافذ کرو گے تو تمہاری سو سائٹی پاک رہے گی اور تمہاری نسلیں اور اخلاق بھی نہیں بگڑیں گے۔ کسی قانون کی افادیت جبھی ہوتی ہے جب اس پر عمل کیا جائے۔ قانون کی محض تلاوت کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا ، لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ اللہ کے جاری کردہ قانون پر عمل کرکے دنیا وآخرت کی بہتری حاصل کرلو۔
Top