Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 36
فَلَمَّا جَآءَ سُلَیْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ١٘ فَمَاۤ اٰتٰىنَِۧ اللّٰهُ خَیْرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰىكُمْ١ۚ بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِیَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آیا سُلَيْمٰنَ : سلیمان قَالَ : اس نے کہا اَتُمِدُّوْنَنِ : کیا تم میری مدد کرتے ہو بِمَالٍ : مال سے فَمَآ : پس جو اٰتٰىنِۦ اللّٰهُ : مجھے دیا اللہ نے خَيْرٌ : بہتر مِّمَّآ : اس سے جو اٰتٰىكُمْ : اس نے تمہیں دیا بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم بِهَدِيَّتِكُمْ : اپنے تحفہ سے تَفْرَحُوْنَ : خوش ہوتے ہو
پھر جب آیا ( ملکہ سبا کا قاصد) سلیمان (علیہ السلام) کے پاس تو آپ نے کہا ، کیا تم میری مدد کرتے ہو مال کے ساتھ پس جو اللہ نے مجھے دیا ہے وہ بہتر ہے اس سے جو تمہیں دیا ہے ، بلکہ تم لوگ اپنے تحائف کے ساتھ خوش ہو
ربط آیات ملکہ سبا نے اپنے درباریوں سے سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے موصولہ خط کا ذکر کیا اور ان سے مشورہ طلب کیا کہ ہمیں اس خط کا کس طریقے سے جواب دینا چاہیے ۔ درباریوں نے کہا کہ ہمارے پاس جدید اسلحہ سیل یس بہترین فوج ہے۔ رسد و کمک کی بھی کمی نہیں یعنی ہم خط بھیجنے والوں سے ٹکر لینے کے لیے پوری طرح تیار ہیں ۔ مگر فیصلہ تیرے ہاتھ میں ہے ، جو تو چاہے گی ہم تعمیل کریں گے ۔ اس کے بعد ملکہ نے یہ رائے ظاہر کی کہ درس عالم بتا لی ہے کہ جب بھی کوئی بادشاہ کسی دوسرے ملک پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے اور اس کے باعث لوگوں کو ذلیل کر کے رکھ دیتا ہے لوندا جنگ کوئی اچھی چیز نہیں ۔ اس سے حتیٰ الامکان بچنام چاہئے ، ملکہ نے یہ خود ہی یہ راہ نکالی کہ میں ان کی طرف تحائف بھیج کر معلوم کرتی ہوں کہ وہ کس قسم کے لوگ ہیں ، اور کیا چاہتے ہیں۔ قافلہ سبالی آمد اور واپسی جیسا کہ میں نے کل عرض کیا تھا ملکہ نے بہت سے گراں قیمت تحائف دے کر ایک قافلہ سلیمان (علیہ السلام) کی طرف روانہ کیا تحائف میں زر و جواہرات کے علاوہ بہت سے لونڈی غلام بھی تھے جنہیں بحری راستے سے روانہ کیا گیا ۔ فلما جاء سلیمن جب یہ قافلہ سلیمن (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو اس سے پہلے آپ ان پر رعب و دبدبہ قائم کرنے کے لیے بہت سے انتصار کرچکے تھے جنہیں دیکھ کر اہل قافلہ کو اپنے تحائف پر سخت ندامت ہوئی ، تا ہم وہ سلیمان (علیہ السلام) کے دربار میں پہنچ گئے ۔ ان کے تحائف دیکھ کر آپ نے فرمایا قال اتمدونن بمال کیا تم لوگ اس مال و دولت کے ذریعے میری مدد کرنا چاہتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مجھے ان چیزوں کی قطعاً حاجت نہیں کیونکہ فما اتن للدخیر مما اتکم اللہ تعالیٰ نے مجھے تم سے بہتر عطا کر رکھا ہے۔ تم نے راستے دیکھا کہ جس سڑک پر سے تم گزر کر آئے ہو وہ سونے کی اینٹوں کی بنی ہوئی ہے جس پر میرے مویشی بوں و بزاز کرتے ہیں ۔ بھلا مجھے تمہاری ان پانچ سو سنہری اینٹوں کی کیا ضرورت ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ تمہیں تو اللہ نے نے صرف دنیا کا مال دیا ہے ، لیکن مجھے اس مال کے علاوہ علم ، دین ، شریعت اور نبوت بھی عطا فرمائی ہے ، لہٰذا مجھے جو کچھ عطا کیا گیا ہے وہ تم سے بدرجہا بہتر ہے جہاں تک فوج ، لشکر اور سامان ضرب و تربت کا تعلق ہے تو میرے پاس نہ صرف انسانوں کی کثیر تعداد میں فوج ہے بلکہ جنات اور پرندوں کے لشکر بھی ہیں ۔ اللہ نے تمام جانور بھی میرے تابع کردیئے ہیں ، لہٰذا نہ تو تم مال میں مجھ سے زیادہ ہو اور نہ میدان جنگ میں میرا مقابلہ کرسکتے ہو ۔ بل انتم بھم تیکم تفرحون بلکہ تم لوگ اپنے تحائف کے ساتھ خوش ہو۔ فرمایا ارجع الیھم واپس جائو اپنے بھیجنے والوں کی طرف ہمیں ان تحائف کی ضروت نہیں ہے ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ لوگ مطیع ہو کر ہمارے پاس چلے آئیں ۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے فلنا تینھم بجنود لا قیل لھم بھا تو پھر ہم سبا والوں کی طرف ایسا لشکر لائیں گے جس کا وہ مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ ہم ان پر حملہ آور ہوں گے ولنخر جنھم منھا اذلۃ اور انہیں ان کے ملک سے نکال دیں گے بےعزت کر کے وھم صغرون اور وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیں گے۔ ان کی سلطنت بھی چھین جائیگی اور ان کی قیدی بھی بنا لای جائیگا ۔ جب سبا کا یہ قافلہ دھمکی آمیز پیغام لے کر اپنے ملک واپس پہنچا تو ملکہ کو سارے حالات سے آگاہ کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کو تحائف کی ضرورت نہیں ہے ، اللہ نے انہیں بہت کچھ دیا ہے ، وہ تو صرف اطاعت چاہتے ہیں ۔ بلکہ دانشمند تھی فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گئی اور جنگ و جدل کی بجائے اطاعت گزاری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ۔ چناچہ ملکہ نے روانگی کی تاریخ مقرر کی اور بمع اپنے درباریوں کے شام و فلسطین کے سفر پر روانہ ہوگئیں تا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس خود حاضر ہو کر اپنی اطاعت گزاری کا یقین دلا سکیں۔ تخت بلقیس کا حصول اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کو ظاہری اور باطنی قوی سے نوازا تھا۔ سلسلہ وحی بھی جاری تھا ، جونہی مکہ کا قافلہ سبا سے روانہ ہوا اللہ نے سلیمان (علیہ السلام) کو اطلاع دے دی ۔ جس طرح آپ نے پہلے قافلے والوں پر اپنی برتری کا اظہار کیا تھا ، اسی طرح خودمل کہ کے سامنے بھی اس کا اظہار ضروری سمجھا اور اس کا طریقہ یہ اختیار کیا قال یایھا الملوا فرمایا ، اے میرے دربار والو ! ایکم یاتینی بعرشھا قبل ان یاتونی مسلمین تم میں سے کون ہے جو ملکہ بلقیس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے وہ لوگ مطیع ہو کر میرے پاس پہنچیں ؟ مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ جان لیں کہ سلیمان (علیہ السلام) صرف بادشاہ ہی نہیں بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ما فوق العادت قوت بھی رکھتے ہیں ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ تخت بلقیس کو اس کے اطاعت گزار ہو کر آنے سے پہلے لانا ضروری تھا کیونکہ اس کے ایمان سے آنے کے بعد اس کے کسی مال پر تصرف کرنا روا نہیں تھا۔ حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے من قال لا الہ الا للہ عصم منی ما لہ ونفسہ جس شخص نے کلمہ پڑھ لیا ، اور مسلمان ہوگیا تو اب اس کا مال و جان میری طرف سے محفوظ ہوگیا۔ مد مقابل کی حیثیت حربی کافر کی ہو تو اس کے مال و جان میں تصرف روا ہے اسی لیے دوران جنگ حاصل ہونے والی کسی ایسی چیز کی مال غنیمت کہتے ہیں اور یہ مسلمانوں کے لیے جائز ہوتی ہے۔ ایسا مال یا تو مجاہدین میں تقسیم ہوجاتا ہے یا پھر بیت المال میں جمع ہوجاتا ہے۔ البتہ جب کوئی شخص ، قوم یا قبیلہ اطاعت گزار بن جاتا ہے تو پھر اس کی مرضی کے بغیر اس کے مال و جان میں تصرف روا نہیں ہوتا ۔ سرکش جن کی پیش کش بہر حال حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا کہ اہل سبا کے فرمانبردار بننے سے پہلے پہلے بلقیس کا تخت کون لائے گا ؟ آپ کے دربار میں انسان اور جناب سب موجود تھے ، چناچہ قال عفریت من الجن ایک سر کش جن کہنے لگا انا اتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک میں وہ تخت لے آئوں گا قبل اس کے آپ اپنے مقام سے اٹھ کھڑے ہوں ۔ مطلب یہ تھا کہ میں دربار برخاست ہونے سے پہلے پہلے تخت بلقیس کو حاضر کر دوں گا ۔ اور سابقہ یہ بھی کہا وانی علیہ لقوی امین میں اس کام کے لیے کام بھی رکھتا ہوں اور امانتدار بھی ہوں ۔ یعنی وہ تخت بعینہٖ اصلی حالت میں پیش کر دوں گا ۔ راستے میں اسکی چیز میں تصرف نہیں کروں گا ۔ یہاں پر جن کے لیے سرکش کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن انسانوں کی نسبت زیادہ لطیف اور زیادہ طاقتور ہے۔ اس لحاظ سے اس سرکش کہا گیا ہے مگر اس وقت سارے جن سلیمان (علیہ السلام) کے تابع تھے اور آپ کے سامنے سر کشی کرنے یا حکم عدولی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اللہ نے سلیمان (علیہ السلام) کو اختیار دے رکھ تھا کہ اگر جنوں میں سے کوئی بھی آپ سے سرتابی کرے تو آپ جو چاہیں اسے سزا دے سکتے ہیں ۔ چناچہ جن آپ کے مکمل مطیع تھے آپ کے حکم سے بڑی بڑی عمارات تعمیر کرتے تھے ، سمندر سے بڑی بڑی چیزیں نکالتے تھے اور حسب ضرورت دھاتوں کو ڈالنے کا کام بھی کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ بعض دیگر امور بھی انجام دیتے تھے ۔ جو عام طور پر انسانوں کی طاقت سے باہر ہوتے ہیں ، موجودہ زمانے میں تو بھاری کاموں کے لیے بڑی بڑی مشینری ایجاد ہوچکی ہے مگر سلیمان (علیہ السلام) یہ سارا کام جنوں سے لیتے تھے ، ان کی اس طاقت اور زور آوری کی وجہ سے ہی اس جن کو سر کش جن کہا گیا ہے ، کہ اس نے دربار برخواست ہونے سے قبل تخت بلقیس لے آنے کی پیش کش کی ۔ عالم کتاب انسان کی پیش کش جن کی اس پیش کی کے بعد قال الذی عندہ علم من الکتب کہا اس نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ انا اتیک بہ قبل ان یرید الیک طرفک میں وہ تخت لے آتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے یعنی میں آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت کو حاضر کردیتا ہوں۔ یہ شخص کون تھا ؟ اس کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ تا ہم صحیح بات یہی ہے کہ وہ انسان ہی تھا۔ اس کا نام آصف ابن برخیا تھا ، اور وہ سلیمان (علیہ السلام) کا وزیر تھا۔ یہ شخص آسمانی کتابوں کا عالم تھا۔ نہایت نیک اور صاحب کرامت آدمی تھا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ شخص صدیقین میں سے تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ آنکھ جھپکنے میں تخت کا حاضر کردینا صوفیائے کرام کی اصطلاح کے مطابق تصرف تھا جس کا تعلق عملیات سے ہوتا ہے ۔ بعض لوگ ایسے ایسے عمل کرتے ہیں جن کی وجہ سے بعض اوقات ناممکن بھی ممکن ہوجاتا ہے۔ عملیات کے ذریعے بیماری کو بھی سلب کیا جاسکتا ہے بعض تعویذ کرتے ہیں اور بعض کلام پڑھ کر پھونک مارتے ہیں جس کا فوراً اثر ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ سانپ کے کاٹے کا دم کرتے ہیں جس سے زہر کا اثر فوراً زائل ہوجاتا ہے یہ میمریزم کی طرز کی چیز ہے جس میں عامل اپنی نگاہ کو کسی خاص چیز پر مرتکز کرکے اپنی ساری طاقت لگا دیتا ہے جس سے اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔ معمولی بےہوش ہوجاتا ہے۔ پھر وہ باتیں کرنے لگتا ہے اور بعض چیزوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے تو بعض کہتے ہیں کہ یہ کوئی اس قسم کی بات تھی تا ہم زیادہ تر مفسرین اسے آصف بن برخیا کی طرف منسوب کرتے ہیں جو نیک آدای تھا ، کتب سماویہ کا علم رکھتا تھا اور اس کے پاس اسم اعظم کا علم تھا۔ حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے پاک میں ایسے نام بھی ہیں کہ اذ ا دعی بہ اجاب وانا سئل بہ اعصی جب کوئی شخص کسی ایسے نام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور جب وہ کوئی چیز طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ عطافرماتے ہیں ۔ اسم عظمہ کی برہ ت تو بعض کہتے ہیں کہ اس عالم کتاب شخص نے اسم اعظم کے ذریعے دعا کی تو اللہ نے بلقیس کا تخت فوراً حاضر کردیا ۔ اسم اعظم کو کسی خاص اسم کے ساتھ متقین نہیں کیا گیا بلکہ اجمالی طور پر ہی کیا گیا ہے کہ یہ فلاں کلمات میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی مبہم رکھا گیا ہے جیسے لیلۃ القدر اور جمعہ کے دن قبولیت دعا کا وقت مبہم رکھا گیا ہے تاکہ متلاشیان خود اس کی تلاش کریں ۔ چناچہ بعض اسے یاحی یا قیوم میں بتلاتے ہیں اور بعض یا ذالجلال والا کرام میں بعض اسے سورة آل عمران کی ابتدائی آیت الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم پر محمول کرتے ہیں ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس شخص نے بارگاہ رب العزت میں اس طرح مالی یا الھنا والہ کل شی الھا واحد لا الہ لانت ائتنی بعرشھا اے ہمارے اور ہر چیز کے اکیلے معبود ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، مجھے بلقیس کا تخت لادے۔ اسم اعظم کے پڑھتے کے لیے بعض شرائط بھی ہیں مبتلا یہ کہ عقیدہ صحیح اور رزق حلال ہو اور انسان پوری دلجمعی کے ساتھ اللہ کے سامنے عاجزی اور نیاز مندی کا اظہار کرتے ہونے پڑھے تو اس کے اثرات ضرور ظاہر ہوں گے۔ تو بعض نے تخت بلقیس کی آمد کو اسم اعظم کی برکت قرار دیا ہے ، تا ہم صحیح ترین بات یہی ہے کہ یہ شخص مومن اور صاحب کرامت آدمی تھا جس کی دعا سے تخت فوراً حاضر کردیا گیا ۔ معجزہ اور کرامت اس بات پر سب متفق ہیں کہ اگر نبی کے ہاتھ پر کوئی خرق عاد ت بات ظاہر ہو تو وہ معجزہ کہلاتی ہے اور اگر کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے کرامت کہا جاتا ہے نیز جو ایسی چیز ہی کی موجودگی میں امتی کے ہاتھ پر ظاہر ہو وہ نبی کے اتباع اور اس کی برکت سے ہوگی ۔ معجزہ اور کرامت انسان کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ جسے وہ انسان کے ہاتھ پر ظاہر کردیتا ہے۔ عام طور پر معجزہ یا کرامت غیر اختیاری چیز ہوتی ہے ، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کسی وقت کسی کو کوئی معجزہ یا کرامت عطا کر کے حسب ِ ضرورت ظاہر کرنے کا اختیار دے دے تو ایسا بھی ممکن ہے۔ اسکی مثال موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات ہیں جنہیں اللہ نے عطا فرمایا اور حسب ِ ضرورت فرعون کے سامنے ظاہر کرنے کی اجازت بھی ہر حمت فرمائی۔ بہر حال معجزہ یا کرامت اللہ کا فعل ہوتا ہے نہ کہ کسی بندے کا ۔ قرآن میں تصریح موجود ہے وَمَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰ یَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہ (الرعد : 83) کسی رسول کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی نشانی پیش کرسکے مگر اللہ کے حکم سے تمام معجزات اور کرامت اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے سے ظاہر ہوتے ہیں کوئی نبی یا ولی جب چاہے اپنے اختیار سے ایسا نہیں کرسکتا ۔ بہر حال یہ شخص صاحب کرامت تھا اور سلیمان (علیہ السلام) کی موجودگی میں اس کی حیثیت معجزے کی تھی۔ آپ خود بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسی دعا کرسکتے تھے مگر اہل سیا کو یہ باور کرنا مقصود تھا کہ اگر سلیمان (علیہ السلام) کا ایک متبع ایسا کرسکتا ہے تو آپ کی حیثیت تو بہر حال اس سے اعلیٰ وارفع ہے۔ صاحب تفسیر مظہری اور بعض دوسرے اصحاب فرماتے ہیں کہ علم من الکتب سے جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو میں نے عرض کردی کہ یہ کام آصف ابن برخیا کے ذریعے ہوا جو سلیمان (علیہ السلام) کا وزیر ، کامل الایمان ، متقی ، پرہیز گار اور صاحب کرامت شخص تھا۔ صاحب تفسیر کبیر امام رازی (رح) نے عقلی بات کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ سورج زمین سے تیرہ لاکھ بڑا سیارہ ہے جو کہ ایک سکینڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کی مسافت طے کرتا ہے ۔ جب اللہ نے اتنا بڑا اور اتنا تیز رفتار نظام قائم کر رکھا ہے تو اس کے مقابلے میں یمن اور شام کا فاصلہ ہی کتنا ہے کہ اس پر حیرانگی کا اظہار کیا جائے کہ تخت بلقیس آنکھ جھپکنے میں کیسے پہنچ گیا ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو یہ ایک نہایت ہی معمولی سا کام ہے جو ہوگیا ۔ وہاں پر ظاہری اسباب تو نہیں تھے۔ زمین کو شق کیا گیا یا وہ تخت ہوا کے دوش پر لایا گیا ، جیسے بھی ہوا یہ کرامت تھی اور فی الواقعہ ایسا ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری فلما راہ مستقر عندہ جب سلیمان (علیہ السلام) نے تخت بلقیس کو اپنے سامنے موجود پایا ۔ قال ھذا من فضل ربی کہنے لگے یہ میرے پروردگار کے فضل سے ہے کہ اللہ نے میرے ایک ساتھی کے ہاتھ پر یہ کام ظاہر کردیا ۔ اصل بات یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اس مافوق العادت کو نہ اپنا کمال ظاہر کیا ہے ، نہ آصف کا اور نہ کسی فوج کا ، بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے کہ اس کی مہربانی سے بنوا پھر خود ہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ مہربانی اس لیے کی ہے لیبلونیء اشکرو ام انفر تا کہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اس کا شکرہ ادا کرتا ہوں یا ناشکر گزاری کرتا ہوں حقیقت یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) قدم قدم پر اللہ کا شکریہ ادا کرتے تھے ۔ اللہ نے حضرت دائود (علیہ السلام) سے بھی فرمایا تھا اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ (سبا : 31) اے دائود (علیہ السلام) کے گھر والوں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہو ، مگر میرے بندوں میں شکر ادا کرنے والے بہت تھوڑے ہیں ۔ بہر حال انبیاء کا یہ خاندان اللہ کا ہمیشہ شکر ادا کرتا تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے یہ بھی کہا ومن شکر فانما یشکر لفنہ جو کوئی شکر ادا کرتا ہے تو اس کا فائدہ خود اس کی ذات کو ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو تو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ شکر ادا کیا جائے تو اللہ راضی ہوتا ہے ۔ اس کا اعلان ہے لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراہیم : 7) اگر تم میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو میں مزید انعامات سے نواز دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو پھر میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے ۔ ناشکری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور آفتیں اور مصیبتیں آتی ہیں ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کا ہر ہر نعمت پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ فرمایا جو شکریہ ادا کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہوتا ہے ومن کفرفان ربی غنی کریم اور جس نے نا شکری کی تو میرا پروردگار ، تو اس شکر یہ اور تعریف سے مستغنی ہے۔ اس کسی کی تعریف کی حاجت نہیں ۔ وہ ہر حالت میں تعریفوں والا ہے اور بڑا ہی عزت والا ہے۔ اس طرح گویا سلیمان (علیہ السلام) نے خود اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر یہ ادا کیا ۔ اس کی تعریف کی اور پھر شکریہ کا فلسفہ بھی بیان کردیا۔
Top