Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 37
اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآئِنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜیْطِرُوْنَؕ
اَمْ عِنْدَهُمْ : یا ان کے پاس خَزَآئِنُ : خزانے ہیں رَبِّكَ : تیرے رب کے اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ : یا وہ محفاظ ہیں۔ داروغہ ہیں
کیا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا یہ لوگ غلبہ والے ہیں
پھر فرمایا ﴿ اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىِٕنُ رَبِّكَ ﴾ (کیا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں) اگر ان کے پاس رحمت الٰہیہ کے خزانے ہوتے تو جسے چاہتے نبوت دے دیتے۔ اس آیت میں مشرکین مکہ کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ اگر نبی اور رسول بنانا ہی تھا تو محمد بن عبداللہ کو کیوں بنایا مکہ معظمہ اور طائف میں بڑے بڑے مالدار اور سردار پڑے ہیں ان میں سے کسی کو نبوت ملنا چاہیے تھا بطور سوال ان کا جواب دے دیا (جواستفہام انکاری کے طور پر ہے) ۔ ﴿اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَؕ0037﴾ کیا ان کے پاس حکومت اور طاقت اور ایسا غلبہ ہے کہ اپنے اختیار سے کسی کو نبوت دلا دیں جب یہ دونوں باتیں نہیں ہیں تو انہیں کیا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کی رسالت پر اعتراض کریں اور اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو نبوت ملنے کے لیے پیش کریں۔ سورة الانعام میں فرمایا ﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ 1ؕ﴾ (اللہ خوب جانتا ہے جہاں چاہے کر دے اپنی رسالت کو) ۔
Top