Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 26
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ١٘ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ
قَالَتْ : بولی وہ اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک يٰٓاَبَتِ : اے میرے باپ اسْتَاْجِرْهُ : اسے ملازم رکھ لو اِنَّ : بیشک خَيْرَ : بہتر مَنِ : جو۔ جسے اسْتَاْجَرْتَ : تم ملازم رکھو الْقَوِيُّ : طاقتور الْاَمِيْنُ : امانت دار
کہا ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے ، اے میرے باپ ! آپ اس شخص کو ملازم رکھ لیں ، بیشک ملازمت کے لیے بہتر آدمی وہ ہے جو طاقتور اور ایماندار ہو
ربط آیات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات زندگی میں سے رسالت کو اس کے بعد کے واقعات تو سورة الشعراء میں بیان ہوئے ہیں ۔ البتہ ابتدائی زندگی کے بیشتر واقعات یہاں اس سورة میں مذکورہ ہیں ۔ ان واقعات کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آمادہ نسلیں انت سے نصیحت حاصل کریں ۔ اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ، ان کی پرورش ، پھر آپ کے ہاتھوں ایک قبطی کا قتل ، فرعونیوں کا موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا مشورہ پھر ایک مومن آدمی کا موسیٰ (علیہ السلام) کو مطلع کرنا اور آپ کا مصر سے نکل کر مدین جانا ، وہاں دو عورتوں کی بکریوں کو پانی پلانا اور پھر لڑکیوں کے باپ کا آپ کو اپنے گھر طلب کرنا ، یہ سب واقعات بیان ہوچکے ہیں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات سن کر لڑکیوں کے باپ ( شعیب علیہ السلام) نے آپ کو تسلی دی کہ فکر نہ کرو ۔ اب تم فرعون کی عملداری سے نکل آئے ہو ، اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے تمہاری حفاظت کرے۔ ملازمت کے لیے سفارش شعیب (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے گھر بلایا اور ان سے ساری داستان سنی اور تسلی دی ۔ اس کے بعد آپ کو کھانا کھلایا گیا ۔ پھر ان خواتین میں سے ایک نے اپنے باپ سے اس طرح بات کی قالت احد ھما ان میں سے ایک کہنے لگے یابت استاجرہ اے ابا جی ! اس شخص کو اپنا نوکر رکھ لیں ، آپ بوڑھے ہوچکے ہیں ۔ بینائی بھی جاتی رہی ہے۔ کام کاج نہیں کرسکتے لہٰذا بکریوں کی دیکھ بھال کے لیے اس شخص کو اپنے ہاں ! جیر رکھ لیں تو بڑا اچھا ہوگا ۔ اس عور ت کا نام یہاں ذکر نہیں کیا گیا ، تا ہم تفاسیر 1 ؎ اس کا نام صفور بیان کیا گیا ہے جب کہ چھوٹی بہن کا نام شرفا تھا۔ تو صفورا نے سفارش کی کہ یہ شخص غریب لوطن ہے ، اس کے ساتھ بہت سے حادثات پیش آئے ہیں جن کی وجہ سے خوفزدہ ہے تو آپ اس کی بکریاں چرانے پر نوکر رکھ لیں ۔ اس کی مصروفیت کا سامان پیدا ہوجائیگا اور ہمیں سہولت حاصل ہوجائے گی۔ شرائط ملازمت آگے اس خاتون نے ایک بڑا عمدہ جملہ کہا ان خیر من استاجرت لقوی الامین اسے باپ ! آپ جو بھی نوکر رکھیں اسے طاقتور اور 1 ؎۔ کبیر ص 042 ج 42 و طرب ی ص 66 ج 02 امانتدار ہونا چاہئے ۔ ملازمت کے لیے ایسا ہی آدمی بہتر ہے ۔ حضرت عمر ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم ہے کہ یہ شخص ان صفات کا حامل ہے تو لڑکی نے بتایا کہ جب اس شخص نے بڑا وزنی پتھر کنوئیں کے منہ سے ہٹایا تو میں سمجھ گئی کہ بھوکا پیاسا ہونے کے باوجود یہ شخص دس آدمیوں پر بھاری ہے ، اور امانت دار اس طرح ثابت ہوا کہ جب میں اسے کنوئیں سے بلا کر گھر لا رہی تھی تو اس کے آگے آگے چل رہی تھی ۔ اتفاقاً ہوا کی تیزی سے میرے جسم کا کپڑا ذرا اڑا تو اس نے کہا کہ تم میرے پیچھے پیچھے چلو اور جہاں راستہ تبدیل کرنا ہو مجھے آواز دے دینا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ملازمت کی شرائط میں یہ چیز ضروری ہے کہ امیدوار کی قوت صلاحیت کا جائزہ لیا جائے اور دوسرا یہ کہ وہ دیانت دار بھی ہو۔ صحت بطوربنیادی حق کام کاج کرنے کے لیے صحت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر ملازم کی صحت اچھی نہیں ہوگی تو وہ اپنے فرائض بطریق احسن انجام نہیں دے سکے گا ۔ آج کل اقوام (U.N.O) والے انسانوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں ، حالانکہ یہ حقوق تو ڈیڑھ ہزار سال پہلے اللہ کے قرآن اور نبی کے فرمان نے واضح کردیئے تھے ابن آدم کے بنیادی حقوق خوراک ، پانی ، لباس اور مکان ہیں ۔ اس کے علاوہ فرائض کی ادائیگی کی حد تک تعلیم بھی فرض عین ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمۃ ہر ہر دو وزن مسلمان پر علم وہ حصو ل فرض ہے۔ اسی طرح انسان کی صحت بھی ان حقوق میں شامل ہے کہ اس کے بغیر نہ عبادت ہو سکتی ہے اور نہ روزگار کے سلسلے میں امور ضرور یہ انجام دیے جاسکتے ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ مزدور یا کسان کو کام پر لگائو تو درمیان میں وقفہ بھی دو تا کہ وہ آرام کرسکے ، مسلسل بارگاہ گھنٹے مزدور سے کام لینا زیادتی ہے ۔ اسے مہذب سوسائٹی میں جانے کا موقع ملنا چاہئے ، تعلیم حاصل کرنے کا وقت ملنا چاہئے ، عبادت کے لیے وقفہ چاہئے۔ یہ سب چیزیں اس کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں اگر وہ آخرت کی فکر نہیں کرے گا تو ہمیشہ کے لیے گھاٹے میں پڑجائے گا ۔ پرانے زمانے میں روم اور ایران والے اپنے غلاموں اور نوکروں سے گھوڑے بیل کی طرح کام لیتے تھے اور انہیں خوراک بھی معمولی فراہم کرتے تھے۔ یہ تو ظلم کی بات ہے ، لہٰذا یہ زمیندار ، دکاندار ، کارخانے دار کا فرض ہے کہ وہ مزدوروں سے کام لیتا ہے تو ان کے حقوق کا بھی خیال کرے۔ مزدور کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ امانتدار ہو ، اگر اس میں یہ صفت پائی جاتی ہے تو وہ اپنے کام میں کوتاہی نہیں کریگا۔ وقت کو ضائع نہیں ہونے دیگا ۔ مالک کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کریگا ۔ اس کے بر خلاف بد دیانت ملازم کا … ہوگا ، مالک کی چوری کریگا ۔ وقت ضائع کریگا ، اور حیلے بہانے سے کام سے جی چرائے گا یہ دو شرطیں ضروری ہیں ، جن کی عدم موجودگی میں دنیا میں فتنے پیدا ہو رہے ہیں ۔ مالک شاکی ہے کہ مزدور کام نہیں کرتے اور مزدور نالاں میں کہ مالک معاوضہ پورا نہیں دیتا ، آج ہر کارخانے ، ہر دفتر اور دکان پر مالک اور نوکر کے درمیان کش مکش جا ری ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ فریقین نقصان اٹھا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کی مجموعی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے ، بہر حال صلاحیت اور دیانت مزدور کی ضروری شرائط ہیں ۔ دوسری طرف مالک پر بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، ان کا ذکر بھی شعیب (علیہ السلام) کے بیان میں آ گیا ہے کہ میں تم پر مشقت نہیں ڈالوں گا اور یہ کہ تو مجھے نیکی والوں میں پائے گا ۔ اور تیسری ذمہ داری خود حضور ﷺ نے واضح کردی کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ جب کسی مزدور سے مشقت کا کام لو تو اس میں خود بھی اس کا ہاتھ بٹائو ، اس کو ایسا کام نہ دو جو اس کی قوت اور صلاحیت سے زیادہ ہو ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ جب کسی شخص کو کام پر لگاتے تو گھروالوں کو تاکید کرتے کہ مزدور کی مزدوری بر وقت اور پوری پوری ادا کرنا ۔ غرضیعہ مالک بھی نیکی والا ہونا چاہئے ، جو غریبوں کا استحصال نہ کرے بلکہ ان کے جائز حقوق ادا کرے اسی لیے شعیب (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بتلا دیا کہ میں تجھ پر ناجائز مشقت نہیں ڈالوں گا اور تم مجھے نیکی والوں میں پائو گے۔ تین صاحب فراست ہستیاں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت 1 ؎ میں آتا ہے کہ تین ہستیاں بڑی ہی صاحب فراست ہوتی ہیں ۔ ایک شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی صفورا ہے جس نے اپنی ذہانت سے جان لیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) طاقتور اور امانتدار ہیں۔ دوسری ہستی حضرت یوسف (علیہ السلام) خریدو ہے جس نے گھر والوں کو کہا کہ اس غلام کو اچھے طریقے سے رکھنا عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَـآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا (یوسف : 12) شاید کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم سے اپنا بیٹا بنا لیں اور پھر یوسف (علیہ السلام) اس پر پورے اترے انہوں نے اپنی صلاحیت کی بناء پر مالک کا سارا کاروبار سنبھال لیا ۔ فوطیفار کا تمام تجارتی کاروبار یوسف (علیہ السلام) کے ہاتھ میں تھا ۔ آپ نے تمام نظم و نسق اس ذہانت سے چلایا کہ آمدنی میں تین گنا اضافہ ہوگیا۔ فرماتے ہیں کہ تیسری صاحب فراست ہستی حضر ت ابوبکر صدیق ؓ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں حضرت عمر ؓ کو خلیفہ نامزد کر کے بہت بڑی فراست کا ثبوت دیا ۔ بعد میں اس انتخاب نے ثابت کردیا کہ آپ امت کے حق میں بہترین آدمی تھے۔ شعیب (علیہ السلام) کے حالات صاحب تفسیر مظہری اور بعض دیگر مفسرین 2 ؎ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) معمر ہوچکے تھے اور اکثر گریہ کرتے رہتے تھے حتیٰ کہ آنکھوں کی بینائی بھی جاتی رہی۔ اللہ نے فرمایا ، شعیب ! روتے کیوں ہو ؟ کیا جنت کا شوق ہے یا جہنم کا خوف ہے ؟ تو آپ نے عرض کیا ، پروردگار ! شوقا الی لقائک تیری ملاقات کے شوق میں روتا رہتا ہوں ۔ اس پر اللہ نے وحی نازل فرما کر آپ کی حوصلہ افزائی فرمائی ھنیالک لقاری یا شعب یعنی اے شعیب ! تمہیں میری ملاقات مبارکہ ہو ، وہ یقینا تمہیں نصیب ہوگی ۔ اسی واسطے میں نے تیری خدمت کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیج دیا ہے۔ دوسری روایت میں آتا ہے کہ میں نے اپنے کلیم کو تیری خدمت پر مامور کردیا ہے۔ بعض کہتے ہیں ۔ 1 ؎۔ کشاف ص 404 ج 3 و کبیر ص 242 ج 42 و مدارک ص 332 ج 3 تے معالم التنزیل ص 131 ج 3 ، خازن ص 171 ج 5 والسراج المنیرص 59 ج 3 ( فیاض) کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی طرح اللہ نے شعیب (علیہ السلام) کی بینائی بھی لوٹا دی تھی۔ اسباب ……سے استفادہ مفسرین کرام بیان کرن کرتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ عالم اسباب میں ضروری اور جائز اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ۔ بو قت ضرورت موسیٰ (علیہ السلام) کا ملازمت اختیار کرنا بالکل درست تھا ، البتہ بعض ہستیوں کے ترک اسباب کا ذکر بھی ملتا ہے اور وہ اسی صورت میں ہے جب کہ برداشت کا مادہ باجر تم موجود ہو ، مثلاً پرانے زمانے کے جو پائے علم اسباب کو اختیار نہیں کرتے تھے تا کہ ان سے حصول علم میں کمی نہ آجائے ۔ ایسی حالت میں وہ دست سوال بھی دراز نہیں کرتے تھے بلکہ اللہ کے بھروسے پر اشتغال علم میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے ۔ مثال کے طور پر امام بخاری عبد الرزاق ابن ہمام اور ابن جریر طبری کا نام پیش کیا جاسکتا ہے جنہوں نے حصول علم کے لیے طویل سفر کیے مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا ۔ آج تو دینی مدارس میں طالب علموں کے لیے خاطر خواہ انتظامات ہوگئے ہیں اور انہیں لباس ، خوراک ، رہائش اور دوسری ضروریات زندگی دستیاب ہیں مگر سلف صالحین تو کسی سرکاری آدمی کی سرپرستی بھی قبو ل نہیں کرتے تھے۔ امام ابن جریر گھر سے نکلے تو والد نے چھوٹے چھوٹے دو صد کلچے تیار کر کے ساتھ دے دیئے۔ چناچہ آپ نے دو سو روز تک انہی کلچوں پر گزارہ کیا اور کسی سے کھانے کا سوال نہ کیا ۔ امام جاحثہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ یادہ وقت تحصیل علم میں صرف کرتے تھے اور کچھ وقت نکال کر علاقے میں مچھلی فروخت کرتے تھے ، اور اس طرح اپنے ضروری اخراجات پورے کرتے تھے ، بہر حال ظاہر ی اسباب کا اختیار کرنا جائز ہے ، اور اگر ایسا کرنا حصول علم یا جہاد میں شرکت کے منافی ہو تو اسباب کا ترک کرنا بھی روا ہے بشرطیکہ برداشت کا مادہ موجود ہو ۔ اور اس سلسلے میں مزدوری یا ملازمت کرنا بھی بالکل جائز ہے۔ حضرت موسیٰ اور خضر (علیہما السلام) کے سفر کے واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مسافری کی حالت میں بوقت ضرورت کھانا طلب کرنا بھی جائز ہے۔ اللہ کے یہ برگزیدہ بندے جب اس بستی میں پہنچے تو انہیں بھوک لگ رہی تھی ۔ انہوں نے بستی والوں سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے مہمان نوازی سے انکار کردیا ۔ اس کے باوجود خضر (علیہ السلام) نے اس بستی میں ایک کرتی ہوئی دیوار کو سیدھا کردیا اور اس پر اجرت بھی نہیں لی تھی ۔ مطلب یہ کہ بوقت ضرورت کھانا طلب کرنا جائز ہے۔ نکاح میں پیش کش جب شعب (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کے عادت سے واقف ہوئے اور ان کی لڑکی نے سفارش بھی کی قان انی رید ان انکحک حدی بنتی ھتین تو کہنے لگے میں چاہتا ہوں کہ پنی ان بیٹیوں میں سے ایک کے ساتھ تمہارا نکاح کر دوں ۔ مگر شرط یہ ہے کہ علی ان تاجرنی تمنی حج تم آٹھ سال تک ہماری ملازمت کرو یعنی بکریوں کی دیکھ بھال کرو۔ یہ بات تو نکاح کے لیے ضروری ہے۔ قال اتمتت عشر فمن عنک اور گر آپ آٹھ کی بجائے دس سال پورے کردیں تو یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے وما رید ان اشق علیک میں اپنی طرف سے تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا اور پانچویں بات یہ کہ سبجدنی ان شاء اللہ من الصلحین تم مجھے نیکیوں میں سے پائے گا ۔ میں تمہارے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کروں گا ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مصلحت خداوندی کے تحت ملازمت کے دس سال پورے کیے۔ شاہ عبد القادر دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے ساتھ بھی اس قسم کے حالات پیش آئے ۔ آپ کو مکہ مکرمہ سے تنگ کر کے نکالا گیا مگر اللہ نے پورے آٹھ سال کے بعد آپ کا تسلط مکہ پر جما دیا ۔ ایک سال کی مشرلیں کو رعایت دی گئی کہ اس سال وہ حج کرلیں اور آئندہ سال انہیں بیت اللہ شریف میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ پھر آپ نے دسویں سال حجۃ الوداع ادا کیا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ ؓ آپ کے ہمراہ تھے اور اس طرح س سال کے عرصہ میں اس کو مکمل غلبہ اور مشرکین کا مکمل خاتمہ ہوگیا ۔ 1 ؎۔ موضح القرآن ص 905 ( فیاض) حق خدمت بطور حق مہر اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا دس سال تک بکریاں چرانا ان کی طرف سے نکاح کے لیے حق مہر تصور ہوگا یا نہیں ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اگر وہ بکریاں موسیٰ (علیہ السلام) کی ہونے والی بیوی کی تھیں تو پھر تو دس سال کی مزدوری حق مہر میں شمار ہو سکتی ہے کیونکہ حق مہر بیوی کا حق ہوتا ہے ۔ اور اگر بکریاں اس کے والد کی تھیں تو یہ حق مہر نہیں بن سکتا ، اس سلسلے میں فقہائے احناف کا مسلک یہ ہے کہ بیوی کے والد کی مزدوری حق مہر نہیں بن سکتا کیونکہ حق مہر نکاح کا لازمی جزو ہے اگرچہ بوقت نکاح اس کا تقرر ضروری نہیں مگر ہے الزم جو بعد میں بھی بطور مہر مثلی ( خاندان کی عورتوں کے عام مہر کی مقدار کے برابر ادا کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان بھی ہے سورة النساء میں اللہ نے محرمات نکاح کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ ان محرمات کے علاوہ تم باقی عورتوں سے نکاح کرسکتے ہو ان تبتغواباموالکم ( آیت : 42) بشرطیکہ تم نکاح کے لیے اپنا ما ل خرچ کرو یعنی حق مہر ادا کرو ۔ اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ حق مہر میں چونکہ مال کا ذکر ہے اس لیے حق مہر کی مقدار کم از کم دس درہم تو ہونی چاہئے کہ جس مقدار کی چوری پر قطع دید کی سزا دی جاسکتی ہے اس کے بر خلاف دیگر ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ ہر وہ حق مہردرست ہے جس پر فریقین راضی ہوجائیں خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی ہو۔ تا ہم امام ابوحنیفہ کی رائے زیادہ قرین قیاس ہے۔ البتہ امام بیضاوی 1 ؎ لکھتے ہیں کہ وہ بکریاں اس لڑکی کی تھیں جس سے نکاح ہونا ہے۔ حق مہر میں مزدوری درست ہے لیکن عام طور پر ایسا خیال نہیں کیا جاتا بلکہ یہی سمجھا جاتا ہے کہ بکریاں اس کے والد کی ملکیت تھیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی دس سال کی اجرت کا حساب لگا کر اگر وہ اس کی اجرت اپنی بیٹی کو ادا کردیں تو حق مہر ادا ہوجائے ، ورنہ باپ کی بکریاں چرانا بیٹی کا حق مہر نہیں بنتا ۔ البتہ متعلقہ عورت کی ذاتی مزدوری کرنا حق مہر میں شمارہو گا ۔ فقہائے کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ 1 ؎۔ بیضاوی ص 391 ج 2 ( فیاض) ایسی صورت میں میں رو کے ذمے کوئی معیوب کا م مثلاً کپڑے دھونا ، کھانا پکانا گھر میں جھاڑو وغیرہ دینا نہیں لگانا چاہئے کہ یہ ادب کے خلاف ہے ، البتہ گھر سے باہر والے کام مثلاً کھیتی باڑی کرنا ریوڑ چرانا ، تجارت کرنا وغیرہ امور سونپے جاسکتے ہیں ۔ مفسرین کرام یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ ممکن ہے شعیب (علیہ السلام) کی شریعت میں حق خدمت بطور حق مہر شمار ہوتا ہے ، لہٰذا دس سال کی مزدوری حق مہر میں شمارہو گی۔ بعض فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ کسی معینہ وقت کے لیے مزدوری کرنے کو حق مہر شمار کیا جاسکتا ہے جب کہ بعض دوسرے اصحاب کا خیال ہے کہ حق خدمت بطور مہر شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حق مہر کے لیے مال کا ہونا ضروی ہے جو بوقت نکاح یا بعد میں بیوی کو ادا کیا جائے اور مزدوری جو پھر نقد مال نہیں ہے جو قابل انتقال ہو لہٰذا اسے حق مہر کے طور پر نہیں تسلیم کیا جاسکتا ۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ کسی نکاح کی شرائط میں سے اگر کوئی شخص غیر مناسب ہو جیسے وٹہ سٹہ کی شادی ، تو ایسی صورت میں ایسی شرط تو بالکل ہوگی مگر نکاح ہوجائے گا ، گویا باطل شرط سے نکاح فاسد نہیں ہوتا ۔ تکمیل معاہدہ جب شعیب (علیہ السلام) نے اپنی بیٹی کے نکاح کے لیے اپنی طرف سے شرائط پیش کردیں کہ تم میری آٹھ یا دس سال تک ملازمت کرو میں تم پر کوئی مشقت نہیں ڈالوں گا ، اور تم مجھے انشاء اللہ صالحین میں سے پائو گے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پیش کش کو قبول کرلیا۔ قال ذلک بینی و بینک یہ میرے و تمہارے درمیان معاہدہ ہوگیا ایما لاجلین قضیت فلا عدوان علی میں آٹھ یا دس سال کی جو بھی مدت پوری کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہیں ہونی چاہئے یہ معاملہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں واللہ علی ما نقول وکیل ہم جو بات کر رہے ہیں ۔ اس پر اللہ نگہبان ہے ، ہم اس کی ذات پر بھروسہ کر کے یہ معاملہ طے کر رہے ہیں ، وہی ہمارا حامل و ناصر ہوگا ۔
Top