Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 202
وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ١ؕ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھا۔ ہے لِنَبِيٍّ : نبی کے لیے اَنْ يَّغُلَّ : کہ چھپائے وَمَنْ : اور جو يَّغْلُلْ : چھپائے گا يَاْتِ : لائے گا بِمَا غَلَّ : جو اس نے چھپایا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن ثُمَّ : پھر تُوَفّٰي : پورا پائے گا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور نہیں لائق نبی کے یہ بات کہ وہ خیانت کرے۔ اور جو شخص خیانت کرے گا تو وہ لائیگا اس چیز کو جو اس نے خیانت کی قیامت کے دن۔ پھر پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ہر نفس کو جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کے اخلاق عالیہ کا تذکرہ فرمایا تھا۔ کہ آپ کا حسن اخلاق کامیابی کی دلیل ہے۔ اسلام کی تبلیغ کے سلسلہ میں بھی اللہ کا عام قانون یہی ہے۔ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ۔ کہ تبلیغ اسلام کا فریضہ اچھے طریقے سے اور خوش اخلاقی سے انجام دو ۔ حضرات موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف روانہ کرتے وقت فرمایا تھا کہ تم ایک اکھڑ مزاج اور ظالم قوم کے پاس جا رہے ہو۔ فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی۔ لہذا فرعون کے ساتھ نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید وہ نصیحت حاصل کرجائے۔ غرضیکہ اسلام نے ہمیشہ خوش خلقی کی تعلیم دی ہے۔ حضور ﷺ کے صحابہ سے احد کے موقع پر جب لغزش ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ ان کو معاف کردیں ، ان کے لیے بخشش کی دعا کریں اور ان سے مشورہ بھی کرتے رہیں۔ کہیں دل برداشتہ ہو کر آپ صحابہ سے مشورہ کرنا ترک نہ کردیں بلکہ انہیں ہمیشہ اعتماد میں لے لیا کریں کیونکہ مشورہ بڑی اہم چیز ہے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ بھی فرمایا کہ مشورہ کے بعد جب آپ کسی معاملہ کے متعلق کوئی حتمی فیصلہ کرلیں تو پھر اللہ کے بھروسہ پر اسے انجام دے دیں۔ کیونکہ متوکلین اللہ کے محبوب ہیں۔ آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اعظم ﷺ کے اخلاق عالی کو ایک اور پہلو سے بیان فرمایا ہے۔ اللہ کا نبی جس طرح نرم مزاج اور رحم دل ہوتا ہے ، اسی طرح وہ امین اور دیانت دار بھی ہوتا ہے۔ کسی نبی کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ (نعوذ باللہ) خیانت کا مرتکب بھی ہوسکتا ہے ، نبی کے منصب کے خلاف ہے۔ اللہ کا نبی معصوم عن الخطایا ہوتا ہے۔ وہ امت کے لیے بہترین نمونہ ہوتا ہے۔ لہذا وہ کسی غیر اخلاقی فعل کا ارتکاب نہیں کرتا۔ شانِ نزول : ارشاد ہوتا ہے۔ وماکان لنبی ان یغل۔ یہ بات کسی نبی کے لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے یا کسی چیز کو چھپائے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق غزوہ بدر سے متعلق ایک واقعہ کے ساتھ ہے۔ جنگ بدر میں جو مال غنیمت مسلمانوں کو حاصل ہوا ، اس میں سے ایک کمبل یا چادر گم پائی گئی۔ اس کے متعلق لوگوں نے مختلف خیالات کا اظہار کیا۔ بعض نے کہا کہ شاید یہ چادر حضور ﷺ نے خود لے لی ہو۔ اس قسم کی بات اگر منافق کرے تو اس سے کچھ بعید کیونکہ انہیں تو بات کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہئے۔ البتہ اگر کسی مسلمان نے یہ بات کی ہوگی تو یہ سمجھ کر کہ حضور نبی کریم ﷺ کو کوئی بھی چیز حاصل کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ لہذا اسی حق کی بناء پر آپ نے یہ چادر لے لی ہوگی۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے نبی کی طرف سے ایسے فعل کے ارتکاب کی سختی سے تردید فرمائی۔ اور لوگوں کو خبردار کیا کہ تمہارا نبی اخلاق کے عالی مرتبے پر فائز ہے۔ لہذا یہ گمان بھی نہ کرنا کہ مسلمانوں کی اطلاع کے بغیر خود بخود بھی کوئی چیز اپنے لیے رکھ لے گا۔ غلول کا مفہوم : غلول اصل میں مال غنیمت میں سے کسی چیز کے چھپا لینے کو کہتے ہیں اس کے علاوہ غلول کا اطلاق مطلقاً خیانت پر بھی ہوتا ہے۔ یہ لفظ کسی دوسرے کے حق کے ضیاع پر بھی بولا جاتا ہے۔ ترمذی شریف میں حضور ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے۔ ان اللہ لا یقبل صلوۃ بغیر طھور ولا صدقۃ من غلول۔ یعنی اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا اور خیانت کے مال میں سے صدقہ قبول نہیں کرتا۔ مقصد یہ کہ غلول مطلقاً خیانت پر بھی بولا جاتا ہے اور مال غنیمت میں سے کسی چیز کے چھپا لینے کو بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ بھی جملہ مسلمانوں کے ساتھ خیانت کا ارتکاب ہوتا ہے اسلام نے اس ضمن میں بڑی واضح ہدایات دی ہیں۔ خیانت کبیرہ : حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ لایحل لامرء مسلم مال اخیہ الا بطیب نفسہ۔ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے۔ کہ کسی دوسرے مسلمان کے مال کو اس کی اجازت کے بغیر قبضہ میں لے۔ اگر اپنی خوشی سے ایک مسلمان دوسرے کو کوئی چیز دیتا ہے ، تو وہ جائز ہے اور چوری ، خیانت ، دغا بازی یا فراڈ سے کوئی چیز حاصل کرنا دوسرے بھائی کا حق ضائع کرنا ہے۔ مسلم شریف کی حدیث میں تو یہ بھی آتا ہے۔ کہ اگر کچھ آدمی اکٹھے کھجوریں کھا رہے ہوں۔ تو کسی کے لیے روا نہیں کہ وہ ایک کی بجائے دو دو کھجوروں کا لقمہ بنائے البتہ اگر اس کے شریک طعام اس کو اجازت دے دیں تو پھر جائز ہے۔ غرضیکہ کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کسی دوسرے بھائی کا حق بغیر اس کی اجازت کے حاصل کرے چہ جائیکہ اللہ کا نبی ایسا کام کرے۔ ترمذی شریف میں غزوہ خیبر یا کسی اور جنگ سے متعلق واقعہ آتا ہے حضور ﷺ کا کر کرہ نامی ایک غلام تھا۔ وہ جنگ میں مارا گیا۔ لوگوں نے کہا کہ اس کے لیے شہادت مبارک ہو۔ اس پر نبی (علیہ السلام) نے فرمایا۔ کلا۔ ہرگز نہیں ، وہ تو جہنمی ہے۔ اس غلام نے غنیمت کے مال میں سے ایک چادر غصب کی تھی ، وہ اس پر شعلے بن کر چمٹ رہی ہے۔ یہ سن کر لوگ سخت خوفزدہ ہوئے۔ اور جس کسی نے کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مال غنیمت میں سے تقسیم کیے بغیر حاصل کی ہوئی تھی سب واپس کردی۔ حضور ﷺ نے فرمایا اگر کسی شخص نے جوتے کا ایک تسمہ یا دو تسمے بھی ناحق وصول کیے ہیں۔ تو وہ بھی دوزخ میں لے جانے کا باعث ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ شراکا فی النار و شراکان فی النار۔ ایک شخص نے مشترکہ مال میں سے ایک معمولی دھاگا رکھ لیا تھا۔ جب حضور ﷺ کی وعید سنی تو وہ دھاگا لے کر حاضر ہوگیا۔ آپ نے فرمایا ، اب تو وہ مال تقسیم ہوچکا ہے۔ اس دھاگے کو میں اب باقی مسلمانوں میں کیسے تقسیم کروں۔ تم نے غلط کام کیا ہے۔ غرضیکہ آپ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ گویا خیانت کبیرہ گناہ ہے۔ تکبر ، غلول اور قرض : ترمذی شریف میں حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے۔ کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ من خرج روحہ الجسد وھو بری من ثلاث دخل الجنۃ الکبر والغلول والدین۔ یعنی جس شخص کی روح اس حالت میں اس کے جسم سے جدا ہوئی کہ وہ تین چیزوں سے پاک ہے یعنی تکبر ، خیانت اور قرض ، تو وہ شخص جنت کا حقدار ہے۔ تکبر صرف ذات باری تعالیٰ کو ہی سزاوار ہے۔ کسی انسان کے لیے یہ بہت ہی بری خصلت ہے۔ تکبر کا عام معنی ہے بطر الحق و غمط الناس یعنی سچی بات کو ٹھکرا دینا اور لوگوں کو حقیر جاننا۔ طاقت ، دولت ، اقتدار ، قومیت وغیرہ کی بناء پر دوسرے کو حقیر جاننا اور سچی بات کو ٹھکرا دینا تکبر کی نشانی ہے۔ یہ وہی بیماری ہے جو ابلیس کو لاحق ہوئی۔ ابی واستکبر وکان من الکفرین۔ ابلیس نے انکار کیا اور تکبر کیا جس کی وجہ سے وہ جہنمی ٹھہرا۔ اس نے کہا کہ میں ناری ہو کر خاکی کے سامنے کیسے جھک سکتا ہوں ، میں آدم کی تعظیم نہیں کرسکتا ، کیونکہ انا خیر منہ۔ میں اس سے اعلی ہوں۔ تکبر بہت بری بیماری ہے۔ اور اس کا علاج اس سے زیادہ مشکل ہے ، بزرگان دین فرماتے ہیں کہ ایک پہاڑ کو سوئی کے ساتھ اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہے مگر تکبر کو کسی کی طبیعت سے نکالنا بہت مشکل ہے۔ بزرگان دین لوگوں کی تربیت کرتے وقت سب سے آخر میں تکبر کو ان کے دل و دماغ سے نکالتے ہیں۔ یہ ایسی بیماری ہے۔ جس کا علاج بڑا مشکل ہے۔ فرمایا دوسری چیز غلول یعنی خیانت ہے جس کی وجہ سے لوگ جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں چلے جائیں گے۔ خیانت خواہ مال غنیمت سے ہو یا مطلق خیانت ، یہ بہرحال بہت بری خصلت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں داخلے کے لیے اس سے بریت ضروری ہے تیسری اہم چیز قرضہ ہے۔ فرمایا کسی شخص کے ذمہ قرضہ نہیں ہونا چاہئے جب کہ وہ زندگی کی آخری سانس لے رہا ہو۔ قرض دوسرے کا حق ہوتا ہے جسے لازماً واپس لوٹانا چاہئے اسے ادا کیے بغیر جان نہیں بچ سکتی ، آخرت میں پکڑا جائے گا۔ عورتوں کا مہر بھی انسان کے ذمہ قرضہ ہوتا ہے۔ جو لوگ ادا نہیں کرتے وہ مجرم ہیں اگر معاف بھی کرانا ہے تو عورت خوشی سے معاف کردے۔ اگر محض رواجی طور پر معافی کا لفظ ادا کردیا ، تو اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بڑے بڑے مالدار لوگ مہر ادا نہیں کرتے اور معافی کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قرض کو خدا بھی معاف نہیں کرتا جب تک حقدار اسے معاف نہ کردے۔ اسے معمولی بات سمجھ کر اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ بہتر ہے کہ ہر مسلمان حتی الامکان قرضہ لینے سے اجتناب کرے۔ اس کی بجائے تکالیف برداشت کرے صبر کرے مگر قرض نہ لے کیونکہ اس کی ادائیگی میں بڑی مشکلات پیش ا اتی ہیں۔ جب قرض ادا نہیں کرتا اور ٹال مٹول اور جھوٹے وعدے کرتا ہے تو مزید جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس سے بچنا چاہئے۔ اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو ان تین چیزوں یعنی تکبر۔ خیانت اور قرضہ سے بچ کر آگیا ، وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ خائن کی سزا : الغرض ! فرمایا کسی نبی کے یہ لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے۔ ومن یغلل۔ اور جو کوئی خیانت کا ارتکاب کرے گا۔ یات بما غل یوم القیمۃ۔ تو وہ خیانت شدہ چیز کو قیامت کے دن اپنے ساتھ لے کر آئے گا۔ اور پھر اس کی رسوائی ہوگی۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے۔ اے لوگو ! میں نے تم کو خبردار کردیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا اونٹ چوری کرے گا ، تو قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا۔ حتی کہ اگر کسی نے کسی دوسرے کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہے۔ تو زمین کا وہ ٹکڑا ساتوں زمین نیچے تک اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ جو اسے کھینچتا ہوا لائے گا۔ اسی طرح فرمایا۔ اگر کسی نے سو اونٹ چوری کیے ہیں ، تو سب کے سب اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا۔ بعض لوگوں نے اس اشکال اظہار کیا ہے۔ کہ زمین جیسی بڑی چیز یا سو اونٹ ایک آدمی کیسے اٹھا کر لائے گا۔ اس ضمن میں مولانا اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایسی باتیں مغربی ذہن کے انگریزی دان لوگ کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ کہ یہی سوال کسی صحابی نے حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا ، تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز کفار کے جسم اتنے بڑے بڑے ہوجائیں گے کہ ان کی ایک داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوگی اور ان کے بیٹھنے کی جگہ مدینہ سے ربذہ تک یعنی چھتیس میل لمبی چوڑی ہوگی۔ تو اتنے بڑے جسم کے لیے سو اونٹ یا کوئی بڑی چیز اٹھانا کیسے مشکل ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اٹھائی جانے والی چیز حقیقی نہ ہو بلکہ مثالی ہو۔ اونٹ سو ہوں یا ہزار مثالی رنگ میں پیش کرنا کونسا مشکل ہے۔ اور اگر کپڑے کا ایک گٹھا ہے تو بھی گھسیٹ کر لانا ہوگا۔ مقصد یہ ہے کہ۔ اس دن ہر برا فعل ظاہر کردیا جائے گا۔ انسان جس چیز کو زندگی بھر چھپائے پھرتا رہا ، قیامت کے دن سب کے سامنے ہوگی ، بہرحال حضور ﷺ نے فرمایا۔ بچ جاؤ ! میں نے تم کو خبردار کردیا ہے۔ جو کوئی خیانت سے کسی چیز پر قبضہ کرے گا۔ وہ سب قیامت کو ظاہر ہوجائے گا۔ جزائے عمل : فرمایا قیامت کے دن تمام پوشیدہ اعمال ظاہر کردینے کے بعد۔ ثم توفی کل نفس ما کسبت۔ ہر نفس کو اس کے عمل کے مطابق پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ وھم لایظلمون۔ اور کسی پر کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ کہ یہ تمہارے خود کردہ اعمال ہیں ، میں نے ان کو شمار کر رکھا ہے اب اس کا بھگتان کرو۔ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہوگا۔ کسی کا عمل کسی دوسرے کے ذمے نہیں لگایا جائیگا۔ اور ہر جرم کی سزا جرم کی سنگینی کے مطابق دی جائے گی۔ ۔ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں بیحد و بیشمار ہوں گی اس کی رحمت کے دروازے کھلے ہوں گے۔ نیکی کا اجر کم از کم دس گنا ہوگا جو بڑھ کر سات سو تک یا لاکھوں گنا تک بھی ہوسکتا ہے۔ نیک و بد برابر نہیں : آگے ارشاد ہوتا ہے۔ افمن اتبع رضوان اللہ کمن باء بسخط من اللہ۔ کیا وہ شخص جو اللہ کی رضا چاہتا ہے اس شخص کی مانند ہے جو اللہ کی ناراضگی لے کر لوٹا ہے۔ کفر ، شرک ، نافرمانی ، حق تلفی ، چوری ، خیانت وغیرہ خدا کی ناراضگی کے کام ہیں۔ جو شخص عمر بھر ان کاموں میں لگا رہا وہ اس شخص کی طرح کیسے ہوسکتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرتا ہے ، اس کے احکام پر عمل کرتا ہے۔ اور مخلوق خدا کی خدمت کرتا ہے۔ اللہ کی ناراضگی مول لینے والے کے متعلق فرمایا۔ وماواہ جھنم ایسے شخص کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ و بئس المصیر۔ اور یہ لوٹ کر جانے کی نہایت ہی بری جگہ ہے۔ نیکی اور بدی کے درجات : ہر نیک و بد کے متعلق فرمایا۔ ھم درجات عند اللہ۔ اللہ کے ہاں ان سب کے درجات ہیں۔ نیکی کے بھی درجات ہیں اور برائی کے بھی درجات ہیں۔ جس قسم کا عمل ہوگا ، اسی قسم کی جزا ہوگی۔ مجرمین میں سے چور ، ڈاکو اور خائن وغیرہ کا درجہ الگ ہوگا۔ کافر الگ ہوں گے۔ مشرک اور بدعتی اپنے درجے میں ہوں گے عیاشی ، فحاشی اور شراب نوشی کرنے والے اس درجہ میں ہوں گے۔ عیاشی ، فحاشی اور شراب نوشی کرنے والے اس درجہ میں ہوں گے۔ اور ان سے ایک ایک جرم کا مواخذہ کیا جائے گا۔ اور درجہ بدرجہ سزا دی جائیگی۔ اسی طرح نیکی کے بھی درجات ہوں گے۔ اللہ نے فرمایا ولکل درجت مما عملوا۔ ہر شخص کے درجات اس کے عمل کے مطابق ہوں گے۔ جس طرح دنیا میں اونچ نیچ ہے اسی طرح آخرت میں بھی تفاوت ہوگا۔ بعض لوگ نہایت بلند درجوں میں ہوں گے اور بعض نہایت ہی پستی میں ہوں گے۔ فرمایا۔ واللہ بصیر بما یعملون۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ لہذا وہ اعمال کے مطابق ہی جزا اور سزا کا فیصلہ کرے گا۔
Top