Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ
: اور نہیں ہے
لِمُؤْمِنٍ
: کسی مومن مرد کے لیے
وَّلَا مُؤْمِنَةٍ
: اور نہ کسی مومن عورت کے لیے
اِذَا
: جب
قَضَى
: فیصلہ کردیں
اللّٰهُ
: اللہ
وَرَسُوْلُهٗٓ
: اور اس کا رسول
اَمْرًا
: کسی کام کا
اَنْ يَّكُوْنَ
: کہ (باقی) ہو
لَهُمُ
: ان کے لیے
الْخِيَرَةُ
: کوئی اختیار
مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ
: ان کے کام میں
وَمَنْ
: اور جو
يَّعْصِ
: نافرمانی کرے گا
اللّٰهَ
: اللہ
وَرَسُوْلَهٗ
: اور اس کا رسول
فَقَدْ ضَلَّ
: تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا
ضَلٰلًا
: گمراہی
مُّبِيْنًا
: صریح
اور نہیں ہے کسی مومن مرد اور نہ کسی مومنہ عورت کا کام کہ جب فیصلہ کر دے اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا تو ان کو کوئی اختیار باقی رہ جائے ان کے معاملے میں اور جو شخص نافرمانی کرے گا اللہ اور اس کے رسول کی ، پس بیشک وہ گمراہ ہوا صریح گمراہی
گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی ان صفات کا ذکر کیا جن کے ذریعے وہ کمال حاصل کرسکتے ہیں اور ان صفات کو اسلام کی بنیادی قدریں قرار دیا اس سے پہلے اللہ نے ازواج مطہرات کی حیثیت اور مرتبے کو بیان فرمایا اور ان کی کوتاہیوں پر تنبیہ فرمائی۔ پیشتر ازیں غزوہ خندق کے سلسلے میں منافقین کی مذمت بیان کی گئی تھی۔ اس سے بھی قبل اللہ نے نبی (علیہ السلام) کے حقوق کا ذکر کیا اور امت کو خبردار کیا کہ نبی کے اعزازو اکرام کو ملحوظ خاطر رکھیں اور قول و فعل سے کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے اللہ کے نبی کو اذیت پہنچے۔ اب آج کی آیات میں بھی یہی مضمون مختلف انداز میں بیان ہوا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وما کان لمومن ولا مومنۃ کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لائق نہیں اذا قضی اللہ و رسولہ امرا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا حتمی فیصلہ کردیں ان تکون لھم الخیر من امرھم تو ان کے پاس کوئی اختیار باقی رہ جائے۔ مطلب یہ کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد و زن کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنی مرضی سے ایسے فیصلے قبول کرلے یا رد کر دے۔ بلکہ اسے تو ہر حالت میں اللہ اور نبی کے فیصلے کو برحق جان کر اس پر عمل کرنا ہوگا۔ و من یعص اللہ و رسولہ اور جو شخص اللہ اور رسول کے خلاف کرے گا فقد ضل ضللا مبینا تو وہ صریح گمراہی میں جا پڑا۔ اسے فلاح نصیب نہیں ہو سکتی۔ شان نزول شان نزول کے اعتبار سے یہ آیات حضرت زید ؓ اور حضرت زینب ؓ کے بارے میں ہیں۔ حضرت زید کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ درس 2 میں اللہ کا یہ فرمان گزر چکا ہے کہ منہ بولے بیٹے کو اس کے حقیقی باپ کی طرف سے منسوب کر کے پکارو۔ اور اگر اس کے باپ کا اتہ پتہ معلوم نہ ہو تو اسے اپنا بھائی یا رفیق کہہ کرپکارو۔ حضور ﷺ نے حضرت زید ؓ کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور لوگ انہیں زید ابن محمد کہہ کر بلاتے تھے مگر مذکورہ آیات کے نزول کے بعد انہیں زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ درس نمبر 2 میں ہی یہ تفصیل بھی بیان ہوچکی ہے کہ حضرت زید ؓ کو حضرت خدیجہ ؓ نے عکاظ کی منڈی سے بطور غلام خریدا تھا۔ پھر جب آپ کا نکاح حضور ﷺ کے ساتھ ہوگیا تو انہوں نے یہ غلام حضور ﷺ کو ہبہ کردیا تھا۔ اس کے بعد حضرت زید ؓ کے والد اور چچا کو آپ کا علم ہوا تو و آپ کو لینے کے لئے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معاوضہ ادا کر کے بچے کو لے جانا چاہا۔ مگر آپ نے فرمایا کہ اگر یہ خود جانا چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر زید ؓ نے حضور کے اخلاق کریمانہ کی بدولت آپ کے ہاں سے جانے کا انکار کردیا۔ اس پر حضور ﷺ نے اعلان فرما دیا کہ آج سے میں نے زید ؓ کو آزاد کردیا ہے اور یہ میرا منہ بولا بیٹا ہے۔ اس اعلان پر حضرت زید ؓ کے والد اور چچا خوش ہو کر واپس چلے گئے۔ زید ؓ کا نکاح زینب ؓ سے حضرت زید ؓ کے حضرت زینب ؓ سے نکاح کے متعلق بھی درس نمبر 2 میں اشارتاً ذکر آ چکا ہے۔ جب حضرت زید ؓ آزاد ہوگئے تو حضور ﷺ نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب ؓ کو منتخب فرمایا۔ انکی والدہ کا تعلق تو قریش خاندان سے تھا مگر وہ بنی اسد کے خاندان میں بیاہی ہوئی تھیں اور وہ بھی عربوں کا ایک معزز خاندان تھا ، ادھر زید ؓ ایک آزاد شدہ غلام تھے ، اس لء نہ تو خود زینب اس رشتے پر رضامند ہوئیں اور نہ ان کے بھائی عبداللہ بن حجش ؓ کو یہ بات پسند آئی ، لہٰذا انہوں نے یہ رشتہ منظور نہ کیا ، مگر اس سلسلہ میں شاید اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ اور مصلحتیں بھی تھیں۔ خاندانی غرور وتکبر کو ختم کرنا بھی مقصود ہوتا ہے جہاں تک کفر کا تعلق ہے ، یہ بھی کوئی فرض واجب تو نہیں ہے۔ ایک متدین آدمی خواہ کمزور خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ اعلیٰ خاندان کی عورت کا کفو بن سکتا ہے اور پھر حضرت زید ؓ سے بڑا متدین کون وہ سکتا تھا جو غلاموں میں سب سے پہلے ایمان لائے اور حضور ﷺ کو سراپا اطاعت گزار ، وفادار ، سلیم الفطرت اور کمال درجے کی نیکی کے مالک تھے۔ زید ؓ اور زینب ؓ میں عدم مفاہمت بہرحال جب اس رشتہ کے سلسلہ میں حضرت زینب ؓ اور ان کے بھائی راضی نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما دیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کرلیں تو پھر کسی مومن مرد اور مومن عورت کو اختیار نہیں رہتا کہ وہ اس فیصلہ کو تسلیم نہ کریں اور اگر کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو صریح گمراہی میں جا پڑے گا۔ ان آیات کے نزول پر حضرت زینب ؓ اور ان کے بھائی عبداللہ سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ نکاح ہوجانا چاہئے ، لہٰذا ان دونوں نے بلا پس و پیش یہ رشتہ قبول کرلیا اور اس طرح حضرت زید ؓ کا نکاح حضرت زینب ؓ سے ہوگیا۔ یہ آیت کریمہ اگرچہ شان نزول کے لحاظ سے حضرت زید ؓ کے نکاح کے ضمن میں نازل ہوئی مگر اس کا اطلاق اللہ اور رسول کے ہر قسم کے احکام پر ہوتا ہے اور کسی بھی فیصلے کی خلاف ورزی کا کسی مومن کو اختیار نہیں اور جو ایسا کرے گا وہ گمراہی میں جا پڑیگا۔ اس قانون کے پیش نظر اگر ہم آج کے معاشرے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا۔ کہ بہت ہی کم لوگ ہوں گے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر چلتے ہیں ، وگرنہ اکثر لوگ نافرمانی کے کاموں میں ہی لگے ہوئے ہیں اور ہر معاملے میں احکام شریعت کو پس پشت ڈال کر مان مانی کر رہے ہیں۔ بیاہ شادی کا معاملہ ہو ، کوئی کھیل تماشے کی بات ہو یا کاروباری معاملات ہوں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ موجود ہے مگر اس کے باوجود ہم اس کی طرف توجہ کرنے کی بجائے غلط رسم و رواج کے پیچھے چل رہے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کو ہی اپنے لئے باعث عزت سمجھتے ہیں۔ بہرحال اس آیت کریمہ کے حکم کے مطابق حضرت زید ؓ کا نکاح حضرت زینب ؓ سے ہوگیا مگر ان دونوں کے مزاج میں ہم آہنگی پیدا نہ ہوسکی۔ حضرت زید ؓ دھیمے مزاج کے آدمی تھے۔ اس کے برخلاف حضرت زینب ؓ کے مزاج میں تیزی تھی۔ حضرت زینب ؓ ایک نیک سیرت خاتون تھیں اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں جب حضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت لگی تو بعض مخلص مسلمان مرد اور عورتیں بھی غلط پراپیگنڈا کا شکار ہوگئیں۔ ان میں حضرت زینب ؓ کی بہن بھی شامل تھیں اور ان پر حد بھی جاری کی گئی۔ مگر جب اس تہمت کا ذکر حضرت زینب ؓ کے سامنے کیا گیا تو انہوں نے کان پکڑ لئے اور کہنے لگیں ، پناہ بخدا ! بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟ انہوں نے ام المومنین عائشہ ؓ کی تعریف کی اور انہیں اس الزام سے بری الذمہ قرار دیا۔ بایں ہمہ آپ کے مزاج میں حدت تھی۔ لہٰذا حضرت زید ؓ کے ساتھ نباہ نہ ہوسکا۔ بات بات پر الجھائو پیدا ہونے لگا۔ تو حضرت زید ؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں ان حالات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ ہم میاں بیوی کے مزاج میں مطابقت پیدا نہیں ہوسکی۔ لہٰذا میں اسے طلاق دے دینا چاہتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ ہرچند حضرت زید ؓ کو سمجھاتے رہے کہ جلدی نہ کرو اور حتی الامکان نباہ کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں اسی بات کا ذکر کیا ہے و اذ تقول للذی انعم اللہ علیہ اور جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔ اس سے مراد حضرت زید ؓ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ احسان کیا کہ دشمنوں سے ان کی جان کی حفاظت کی۔ غلامی کی حالت میں حضرت خدیجہ ؓ جیسی نیک خاتون کی خدمت میں پہنچایا اور پھر حضور ﷺ کے سایہ عاطفت میں پہنچا دیا۔ اللہ نے یہ بھی احسان فرمایا کہ انہیں غلامی سے آزادی دلائی۔ حضور ﷺ کا منہ بولا بیٹا بنا دیا۔ اسلام کی دولت عطا فرمائی۔ غرضیکہ اس پر اللہ تعالیٰ کی کتنی مہربانی تھی۔ نیز فرمایا و انعمت علیہ اور آپ نے بھی اس پر احسان کیا ، یہ حضور ﷺ کا زید ؓ پر احسان تھا کہ آپ کی اچھے طریقے سے پرورش کی ، آزاد کر کے بیٹا بنا لیا ، پھر خاندان قریش میں اپنی پھوپھی زاد سے نکاح کرا دیا اور ہر طریقے سے آپ کا خیال رکھا۔ تو فرمایا کہ جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ اور اس کے رسول نے انعام کیا اسلک علیک زوجک اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھو ، طلاق دینے کا ارادہ نہ کرو واتق اللہ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو معمولی معمولی باتوں کو برداشت کرو اور کسی ممکنہ جھگڑے کی صورت میں خاموشی اختیار کرلیا کرو تاکہ بات بڑھنے نہ پائ۔ غرضیکہ حضور ﷺ کی ہرچند کوشش تھی کہ یہ نکاں قائم رہے اور طلاق تک نوبت نہ آئے۔ اللہ نے اس بات کا یہاں ذکر کیا ہے۔ حضور ﷺ کے دل میں خلش اللہ نے فرمایا کہ اس وقت کو بھی یاد کرو وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ اور آپ اپنے جی میں و بات چھپا رہے تھے جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا ہے و تخشی الناس اور آپ لوگوں سے خوفزدہ ہو رہے تھے واللہ احق حالانکہ اللہ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ حضور ﷺ کے دل میں کون سی بات تھی۔ جس سے آپ ڈر رہے تھے اور جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنا چاہتا تھا ؟ اس ضمن میں بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ حضور علیہ لاسلام کو اللہ نے بذریعہ وحی بتلا دیا تھا کہ زید ؓ اور زینب ؓ کا نباہ نہیں ہو سکے گا اور بالآخر ان میں علیحدگی ہوجائے گی اور زینب ؓ کو اللہ تعالیٰ آپ کی زوجیت میں دے 1 ؎ تفسیر عثمانی ص 945 دے گا۔ آپ کو اس بات کا خوف تھا کہ اس بارے میں لوگ کیا کہیں گے کہ جو نکاح انہوں نے زور دے کر کرایا تھا سا میں نباہ نہ ہوسکا اور بعض یہ بھی فرماتے ہیں کہ آپ کو یہ بھی خلش تھا کہ حضرت زینب ؓ کو ان کی مرضی کے خلاف نکاح پر مجبور کیا گیا۔ اس کے بعد اگر نوبت طلاق تک آگئی تو ایک آزاد کردہ غلام سے طلاق کا داغ قریش خاندان کی ایک عورت پر لگ جائے گا۔ یہ چیز حضور کے لئے تکلیف دہ تھی کہ اس طرح زینب ؓ کی پوزیشن معاشرے میں خراب وہ جائے گی یہ چیز تھی جس کا حضور ﷺ کو خوف تھا مگر اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کرنے والا تھا۔ بالآخر حضور ﷺ کافی غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ، کہ زینب ؓ کی دل شکنی کی تلافی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر زید ؓ اسے طلاق دے دے تو میں خود اس سے نکاح کرلوں گا۔ اس طرح زینب ؓ کو نبی کی زوجیت کا شرف حاصل ہوجائے گا اور طلاق کے صدمہ کو بھول جائے گی۔ پھر آپ کو یہ بھی خیال آتا تھا کہ اگر میں نے زینب ؓ سے نکاح کرلیا تو لوگ پھر اعتراض کریں گے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرلیا ہے ، اور اس بات کو عرب لوگ ناجائز سمجھتے تھے۔ ان حالات میں کافروں ، مشرکوں اور منافقوں۔ نیز یہودو نصاریٰ کی طرف سے تکلیف دہ پراپیگنڈہ کا خطرہ بھی تھا ، لہٰذا آپ خوف محسوس کر رہے تھے ، مگر اللہ نے فرمایا کہ لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ زید ؓ سے طلاق اور حضور سے نکاح بالآخر وہی بات ہوئی جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ جب حضرت زید ؓ اور زینب ؓ میں مفاہمت کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو انہوں نے ضحرت زینب ؓ کو طلاق دے دی۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا فلما قضی زید منھا و طرا پس جب حضرت زید ؓ نے حضرت زینب ؓ سے اپنی غرض کو پورا کرلیا یعنی کچھ عرصہ ازدواجی زندگی کے طور پر گزار لیا تو اللہ نے فرمایا زوجنکم تو ہم نے اس کا نکاح آپ سے کرا دیا ، اور اس سے مقصود آپ کے دل کی خلش کو دور کرنا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ متبنی کی مطلقہ سے نکاح کرلیا ہے۔ لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائھم اذا قضوا منھن و طرا تاکہ اہل ایمان پر اس بات میں کوئی حرج نہ ہو کہ وہ اپنے نہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرلیں جبکہ موخر الذکر ان سے اپنی غرض پوری کر چکیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے متبنی کی بیوی سے نکاح کو صراحت کے ساتھ قرار دیا اور اس طرح مخالفین کے گمراہ کن پراپیگنڈا کا رد بھی ہوگیا۔ فرمایا و کان امر اللہ مفعولا اور اللہ کا حکم پورا ہو کر رہے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صاولی طور پر متبنی کی مطلقہ سے نکاح کو جائز قرار دیا ہے اور حضرت زینب ؓ کا نکاح بھی آپ سے ہونا اللہ کی مشیت میں ہے اور ہو کر رہے گا۔ الغرض ! جب حضرت زید ؓ نے حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دی تو بعداز تکمیل عدت حضور ﷺ نے ان کو اپنی زوجیت میں لے لیا۔
Top