Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
بیشک ہم نے پیش کی امانت آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر۔ پس انکار کیا انہوں نے کہ اھٹائیں اس کو اور اس سے ڈر گئے۔ اور اٹھا لیا اس کو انسان نے۔ بیشک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول اور عام مومنوں کو ایذاء پہنچانے سے منع فرمایا۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مثال دے کر سمجھایا۔ ان کو بھی لوگوں نے طرح طرح کے الزامات عائد کر کے تکلیف پہنچائی مگر اللہ نے آپ کو تمام الزامات سے پاک کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے نزدیک بڑے باعزت تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہیں۔ اور ہمیشہ سیدھی اور سچی بات کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو درست فرما دے گا اور ان کی غلطیوں کو معاف کر دے گا۔ پھر اللہ نے حتمی طور پر اعلان فرمایا کہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ یقینا کامیاب ہوگیا۔ انسان کا عمل امانت اب ان کی کامیابی یا ناکامی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اس بار امانت کا ذکر کیا جو انسان نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ، ارشاد ہوتا ہے انا عرضنا الامانۃ علی السمٰوٰت والارض والجبال بیشک ہم نے امانت پیش کی آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر فابین ان یجعلنھا پس انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کردیا واشفقن منھا اور اس سے ڈر گئے و حملھا الانسان اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ انہ کان ظلوما جھولا بیشک وہ بہت بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ اس آیت میں مذکورہ امانت کی تشریح مفسرین کرام نے مختلف طریقوں سے کی ہے اور امان تکا مصداق مختلف چیزوں کو ھٹہرایا ہے۔ عام طور پر امانت سے اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی لئے جاتے ہیں جن کی پابندی ہر انسان پر لازم ہے تاہم محدثین اور فقائے کرام نے امانت کے مختلف معانی متعین کئے ہیں۔ امام شافعی (رح) اور آپ کے پیروکار کہتے ہیں کہ امانت سے مراد تکلیف ہے جس کی وجہ سے انسان پر قانون کی پابندی لازم آتی ہے اور اس طرح وہ مکلف بن جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں امانت سے مراد فرائض ، واجبات ، احکام ، 1 ؎ مظہری ص 324 ج 7 و معالم التنزیل ص 581 ج 3 و ابو سعود ص 123 ج 4 شروع اور حدود وغیرہ کی پابندی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان احکام کی تعمیل کی صلاحیت نہ آسمان میں ہے ، نہ زمین میں ، نہ پہاڑوں میں اور نہ شجر و حجر میں ، لہٰذا انہوں نے اس بار امانت کو اٹھانے سے انکار کردیا اور انسان میں چونکہ یہ استعداد پائی جاتی ہے ، لہٰذا اس نے اس بار کو اٹھا لیا۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے پیروکار بھی اسی نظریہ کے قائل ہیں کہ اس امانت سے مراد وہ استعداد اور صلاحیت ہے جس کی بناء پر انسان مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ اگرچہ جنات بھی پابندی قانون کے مکلف ہیں ، مگر ان کی صلاحیت انسان کی نسبت کمزور ہے ، اس لئے جنات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں امام غزالی (رح) ، امام بیضاوی (رح) ، خواجہ محمد پارسا (رح) اور بعض دیگر مفسرین اس عہدہ تکلیف کا قلاوہ اپنے گلے میں ڈالنا مراد لیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قانون کی پابندی کو اپنے ذمے لے لیا جائے اور پھر اطاعت کی صورت میں اجر وثواب اور معصیت کی صورت میں عتاب کو قبول کرلینے کا نام امانت ہے۔ عرض اور ابی کا مفہوم اس آیت کریمہ میں آمدہ الفاظ عرضنا اور ابین خاص طور پر توجہ طلب ہیں۔ عرض کا معنی عام طور پر کسی چیز کو زبانی یا تحریری طور پر پیش کرنا ہوتا ہے اسی لئے تحریری طور پر پیش کی جانے والی درخواست کو عرضی بھی کہتے ہیں۔ تاہم امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت پیش کرنے کا مفہوم زبانی یا تحریری طور پر پیش کرنا نہیں بلکہ آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں کی استعداد اور صلاحیت کی طرف نسبت کرتے ہوئے پیش کرنا مراد ہے چونکہ ان میں اس عہدہ تکلیف کو اٹھانے کی صلاحیت نہیں تھی لہٰذا انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کردیا۔ اسی طرح یہاں پر ابی یا انکار کا معنی بھی زبان کے ذریعے انکار نہیں جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے بلکہ اس سے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں 1 ؎ بیضاری ص 453 ج 2 2 ؎ بیضاوی ص 452 ج 2 کا طبعی انکار مراد ہے۔ ان میں قابلیت ہی نہیں تھی کہ وہ بار امانت اٹھا سکتے ، لہٰذا ان ک یحالت یہ بتا رہی تھی کہ انہوں نے عمل امانت سے انکار کردیا۔ ان اشیاء کے برخلاف انسان میں استعداد اور صلاحیت موجود تھی کہ وہ احکام و شرائع کی پابندی کر کے اس امانت کا بوجھ اٹھا سکے۔ لہٰذا اس نے اس بوجھ کو اٹھا لیا یعنی اقرار کرلیا کہ دنیا کی زندگی مکلف بن کر گزارے گا اور پھر اس کے نتیجے میں جزا یا سزا کے لئے تیار ہے۔ عمل امانت کی علت اس آیت میں بار امانت کے اٹھانے کی علت اللہ نے یہ بیان کی ہے کہ انسان ظالم اور جاہل ہے۔ ظلوم اور جہول مبالغے کے صیغے ہیں یعنی انسان بڑا ہی ظالم اور جاہل ہے جس نے ایسی امانت کو اٹھا لیا جس کو آسمان ، زمین اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کردیا ، امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ظلوم اور جہول کے الفاظ انسان کی مذمت کے لئے نہیں آئے ، بلکہ ان کو عمل امانت کی علت کے طور پر لایا گیا ہے ظلوم سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جس میں عدل کی صلاحیت موجود ہو مگر وہ بالفعل انصاف نہ کرے۔ اس طرح جہول کا مطلب یہ ہے کہ اس میں حصول علم کی استعداد تو موجود ہو مگر وہ بالعقل علم کے ساتھ موصوف نہیں ہے مقصد یہ ہے کہ انسان اگر عملی طور پر عدل نہیں کرتا یا علم حاصل نہیں کرتا تو اس میں ان چیزوں کا مصداق بننے کی صلاحیت تو موجود ہے اور یہی استعداد و صلاحیت انسان کو مکلف بناتی ہے زمین ، آسمان ، پہاڑ ، دریا شجر و حجر وغیرہ عدل و علم کے حصول کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ لہٰذا وہ مکلف نہیں ہیں۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے ظلم اور جہالت کو حمل امانت کا علت کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ عہدہ تکلیف امام بغوی (رح) ، صاحب تفسیر مظہری اور بعض دوسرے مفسرین نے حمل امانت کو مثالی طور پر بیان کیا ہے۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت نقل کی 1 ؎ فتح الخیبر ص 12 2 ؎ معالم التنزیل ص 681 ج 3 3 ؎ مظہری ص… 4 ؎ قرطبی ص 752 ج 41 ہے کہ تخلیق کے بعد آدم (علیہ السلام) جنت میں آزادی سے ادھر ادھر گھومتے پھرتے تھے۔ انہوں نے وہاں ایک بڑی چٹان پڑی ہوئی دیکھی۔ فرشتے اس چٹان کے قریب سے گزر جاتے تھے مگر اس کے حجم اور بوجھ کے پیش نظر کوئی بھی اٹھانے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو فرشتوں ک یکم ہمتی پر حیرت ہوئی اور انہوں نے بغیر کسی کے کہے اس پتھر کو خود اٹھانے کی پیش کش کی۔ آپ نے اس چٹان کو گھٹنوں تک اٹھا کر پھینک دیا ، پھر دوبارہ کوشش کی تو کندھوں تک لے گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے اس پتھر کو اٹھا لیا ہے۔ تو اب یہ تمہاری اور تمہاری اوالد کی گردن پر قیامت تک رہے گا۔ یہ عہدہ تکلیف ہے جس کو تم نے برضا ورغبت اٹھا لیا ہے لہٰذا اب اسے زندگی بھر اٹھائے رکھنا ہوگا۔ اور اس بار امانت کو نیچے نہیں پھینکنا۔ چناچہ صحیح حدیث میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی آتا ہے ان الامانۃ نزلت فی جذر قلوب الرجال ثم علموا من القرآن والسنۃ یعنی تکلیف کی یہ امانت لوگوں کے دلوں میں اتاری گئی تھی ، پھر انہوں نے دنیا میں آ کر اس کی تفصیلات قرآن و سنت سے معلوم کیں۔ جنید بغدادی (رح) کی توضیح حضرت جنید بغدادی (رح) نے اس بار امانت کی توضیح اپنے انداز میں اس طرح بیان کی ہے کہ انسان نے ازل میں یہ امانت اٹھا تو لی تھی مگر دنیا میں آ کر وہ عرض میں مبتلا ہوگیا۔ اور اس کی توجہ فرض کی ادائیگی کی طرف نہ رہی۔ خدا تعالیٰ نے یہ بار امانت پیش کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی پیش کش بہت بڑی چیز تھی جس میں انسان کو بڑا ہی لطف و سرور آیا۔ اور اس نے فیصلہ کیا۔ خدا کی پیشکش کو ٹھکرانا نہیں چاہئے ، چناچہ وہ اسی سرور میں مست رہا۔ مگر یہ نہ سوچا کہ یہ ذمہ داری یا فرض مجھ سے پورا بھی ہو سکے گا یا نہیں۔ اب جو شخص اس ذمہ داری کو نہیں نبھائے گا۔ وہ قابل مواخذہ ہوگا۔ 1 ؎ خازن ص 082 ج 5 مجدد الف ثانی (رح) کا نظریہ اس ضمن میں حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذاتی تجلیات کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفاتی تجلیات تو بہت سی ہیں ، جن سے اللہ کے فرشتے اور باقی مخلوقات بھی مستفید ہوتی رہتی ہیں۔ مگر خدا تعلیٰ کی ذاتی تجلیات کا مورد صرف خاکی انسان ہی ہیں خاک میں اللہ نے ان تجلیات کو برداشت کرنے کی وہ صلاحیت رکھی ہے جو کسی دوسری مخلوق میں نہیں غالب نے یہ بات اپنے شعر میں اس طرح سمجھائی ہے ؎ لطافت بےکثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا کہتے ہیں کہ شیشے میں اس وقت تک عکس نظر نہیں آتا جب تک کہ اس کے پیچھے زنگار یعنی تانبے کی آکسائیڈ نہ لگائی جائے۔ اس طرح موسم بہار کی ہوا سے لطف اٹھانے کے لئے اس کے پیچھے چمن کا ہونا ضروری ہے۔ باد بہاری جب چمن سے ہو کر آئے گی تو پھول ، خوبصورت پتے اور ان کی خوشبو نظر آئے گی اور اگر اس کے پیچھے باغ کا زنگار ہ ینہ ہو تو یہ ہوا بےکار محض ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق مٹی سے کی ہے اور یہی وہ کثافت ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذاتی تجلیات کو برداشت کرنے کس استعداد بخشتی ہے۔ لہٰذا انسان کا خاکی ہونا ہی اسے بار امانت اٹھانے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اور مخلوق نے اس امانت کو نہ اٹھایا مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ امانت بصورت اوامر نواحی عام مفسرین امانت سے مراد اوامرو نواہی لیتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اعضاء آنکھیں ، زبان ، کان ، ناک ، دل ، اعضائے مستورہ اور دیگر قویٰ انسان کے پاس اللہ کی امانت ہیں۔ اگر اعضاء کو صحیح طریقے سے استعمال کرے گا۔ 1 ؎ روح المعانی ص 69 ج 22 تو اس امانت کا حق ادا ہوگا ، ورنہ نہیں۔ اعضاء کے علاوہ بہت سے احکام بھی امانت سے تعلق رکھتے ہیں۔ غسل جنابت ، حفاظت ناموس ، فرائض کی ادائیگی ، عہد و پیمان اور اوامر نواہی کی پابندی اسی امانت سے متعلق ہیں۔ اس امانت میں خیانت کرنا یعنی احکام و فرائض سے غفلت اور اوامرو نواہی کی عدم پابندی انسان کے لئے وبال جان ہوگی۔ اور اس امانت کی حفاظت کرنے پر اللہ نے درجات کی بلندی اور گناہوں کی معافی کا وعدہ فرمایا ہے۔ لہٰذا اس امانت کی پاسداری کرنی چاہئے۔ اس امان تکا حق نہ ادا کرنے والا آدمی منافق ہوگا۔ یا مشرک اور ہمیشہ کے لئے مبتلائے عذاب ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے کہ اگر انسان سے چار چیزوں کے علاوہ باقی ساری بھی فوت ہوجائیں تو اسے فکرمند نہیں ہونا چاہئے۔ ان میں سرفہرست امانت کی ادائیگی ہے۔ اگر اس کے پاس کوئی مال بطور امانت ہے تو اس کو واپس کرے ، کوئی وصیت ہے تو پوری کرے ، کوئی عہد و پیمان کیا ہے تو اس کو نبھائے ، یہ سب چیزیں امانت کا حصہ ہیں۔ فرمایا دوسر یچیز سچائی ہے تیسری اخلاق حسنہ ، اور چوتھی رزق حلال جو شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے اور وہ حلال روزی کماتا ہے اور استعمال کرتا ہے ، تو پھر اگر اس کے پاس اور کچھ بھی نہ رہے تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں ، کیونکہ دنیا میں ان چار چیزوں سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ شاہ عبدالقادر (رح) کی تفسیر شاہ عبدالقادر (رح) نے حمل امانت کی بات چند جملوں میں بڑے اچھے طریقے سے سمجھا دی ہے ، فرماتے ہیں کہ انسان نے اپنی جان پر ترس نہ کھایا اور اس بار امانت کو اٹھا لیا۔ نیز فرماتے ہیں کہ اپنی خواہش کو روک کر حکم کی تعمیل کرنا گویا امانت کا حق ادا کرنا ہے۔ انسان کے اپنے دل میں کوئی خواہش ہے اور اللہ کا حکم اس کے خلاف 1 ؎ مبھ عثیو ص 425 ج 3 2 ؎ موضح القرآن ص 215 ہے تو اگر وہ اپنی خواہش کے خلاف حکم پر عمل کرے گا تو اس نے امانت کی پاسداری کی ، اور ایسا کرنا بہت بڑا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں کا ذکر کای ہے مگر ان میں تو خواہش پائی ہی نہیں جاتی۔ یا اگر طبعی طور پر کوئی ہے تو وہ اس سے ادھر ادھر جانے کی طاقت ہی نہیں رکھتے اور اسی پر قائم رہتے ہیں۔ یہ انسان ہی ہے جو خواہش بھی رکھتا ہے اور پھر احکام الٰہی کی تعمیل بھی کرتا ہے ، اسی کا نام امانت کی ادائیگی ہے۔ امانت کا قانون بھی یہی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی امانت کو جان بوجھ کر ضائع کرے گا تو اسے اس کا بدلہ دینا پڑے گا۔ اور اگر کوئی امانت کسی شخص کے اختیار کے بغیر ضائع ہوجائے تو اس کا بدلہ دینا پڑے گا اور اگر کوئی امانت کسی شخص کے اختیار کے بغیر ضائع ہوجائے تو اس کا بدلہ نہیں دینا پڑتا۔ بہرحال شاہ صاحب (رح) کے نزدیک حمل امانت سے مراد احکام و شرائع کی پابندی ہے۔ مولانا عثمانی (رح) کی تشریح مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) نے مسلم شریف کی شرح میں اور یہاں حاشیے پر بھی عمل امانت کی نہایت عمدہتشریح کی ہے۔ لکھتے ہیں ” ستم کردیا۔ جو بوجھ آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں سے نہ اٹھ سکا ، اس کو اس نادان انسان نے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا “ اسی لئے تو شاعر لوگ کہتے ہیں۔ آسماں بار امانت نتوانت کشی قرعہ فال بنام من دیوانہ زدن یعنی امانت کے جس بوجھ کو آسمان و زمین نہ اٹھا سکے اس کو اٹھانے کا قرعہ مجھ نادان کے نام پر نکلا ہے۔ مولانا عثمانی (رح) فرماتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی ایک خاص امانت مخلوض کی کسی نوع میں رکھنے کا ارادہ کیا ، تاکہ اگر وہ چاہے تو اپنی کوشش ، کسب اور قوت بازو کے ذریعے اس امانت کو محفوظ رکھ کر اسے ترقی دے سکے اور اس سلسلہ میں اللہ کی ہر قسم کی صفات کا ظہور ہو۔ پھر اس نوع کے جو افراد 1 ؎ تفسیر عثمانی 455 2 ؎ تفسیر عثمانی 455 اس امانت کو پوری طرح محفوظ رکھیں اور ترقی دیں تو ان پر انعام و اکرام ہو ، اور جو غفلت اور شرارت سے اس امان تکو ضائع کردیں ان کو سزا دی جائے۔ اور جو لوگ اس بارے میں قدرے کوتاہی کریں۔ ان سے معافی کا معاملہ ہو۔ علامہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ امانت ایمان اور ہدایت کا تخم ہے جو قلوب بنی آدم میں بکھیرا گیا ہے اور جس کی وجہ سے انسان مکلف بنتا ہے۔ اسی لئے حدیث شریف میں آتا ہے کہ لا ایمان لمن لا امانۃ لہ جو امانت کا پاسدار نہیں وہ ایمان سے خالی ہے۔ انسانوں کے دلوں میں موجود ایمان کے بیج کی حفاظت اور نگہداشت کی جائے گی تو ایمان کا درخت اگے گا۔ گویا بنی نوع انسان کے قلوب اللہ کی زمینیں ہیں جن میں امانت کا بیج ڈال دیا گیا ہے۔ پھر بارش برسانے کے لئے رحمت کے بادل بھی وہی بھیجتا ہے۔ اور جن کے سینوں میں وحی الٰہی کی بارش ہوتی ہے ان کا ایمان پھلتا پھولتا ہے۔ لہٰذا ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ امانت الٰہی یعنی ایمان کے تخم کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے اور اسے ضائع نہ ہونے دے ایسا نہ ہو کہ امانت کا پودا اگنے کی بجائے اس کا بیج ہی سوخت ہوجائے۔ اس بات کی تصدیق حضرت حذیفہ ؓ کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امانت آسمان سے لوگوں کے قلوب پر نازل کی گئی ہے۔ پھر اس کی تشریح و تفسیر قرآن و سنت سے معلوم ہوئی ہے ، یہ امانت وہی تخم ہدایت ہے جو اللہ کی طرف سے قلوب رجال میں تہ نشین کیا گیا ہے۔ پھر علوم قرآن و سنت کی بارش ہوئی۔ اگر اس سے ٹھیک طور پر فائدہ اٹھایا جائے گا۔ تو ایمان کا درخت اگے گا ، پھلے پھولے گا تو انسان کو اس کے ثمر شیریں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔ اور اگر اس سے فائدہ اٹھانے میں انسان کوتاہی کرے گا ، تو ایمان کے درخت کو ابھرنے اور پھلنے پھولنے میں نقصان ہوگا۔ اور اگر اس 1 ؎ مظہری ص 324 ج 7 و خازن ص 972 ج 5 2 ؎ ابن کثیر ص 425 ج 3 معاملہ میں بالکل ہی غفلت برتی گئی تو سرے سے تخم ہی ضائع ہوجائے گا۔ آدمی کی استعداد خرا بہوجائے گی اور کفر اور شرک کی طرف چلا جائے گا۔ یہ امانت تھی جو اللہ نے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی مگر کسی میں بھی اس کو اٹھانے کی استعداد نہ تھی۔ ان میں سے ہر چیز بلسان حال کہہ دی تھی یعنی اس کی حالت بتلا رہی تھی کہ وہ اس کی اہل نہیں ہے ، یہ صرف انسان ہی تھا ، جو اپنی استعداد کے مطابق اس عظیم بار کو اٹھانے کا حوصلہ کرسکتا تھا ، درحقیقت اس عظیم امانت کا حق ادا کرنا اور مالک کی تخم ریز شدہ افتادہ زمین کو خون پسینہ ایک کر کے باغ و بہار میں تبدیل کرلینا ، اس ظلوم و جہول انسان کا ہی حصہ ہو سکتا تھا۔ سزا و جزا اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس بار امانت کو اٹھوانے کی غایت یہ ہے لیعذب اللہ المفقین والمنفقت تاکہ اللہ تعالیٰ سزا دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو جن کے دل میں بیماری ہے اور وہ اس امانت الٰہی کی حفاظت نہیں کرسکے وہ بلا شبہ سزا کے مستحق ہیں والمشرکین والمشرکت اور وہ مشرک مرد اور مشرک عورتیں بھی سزا کی مستحق ہیں جنہوں نے اللہ کی صفات اور عبادت میں دوسروں کو شریک کیا اور دلوں میں امانت کے بیج کو خراب کردیا۔ فرمایا و یتوب اللہ علی المومنین والمومنت اور اللہ تعالیٰ مہربانی کے ساتھ رجوع فرمائے گا ، مومن مردوں اور مومن عورتوں پر۔ جب اللہ کا کوئی بندہ اپنے گناہوں پر نادم ہو کر نہایت عجز و انکساری کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی مہربانی کے ساتھ اس کی طرف رجوع فرماتا ہے۔ اسی چیز کا نام توبہ ہے فرمایا و کان اللہ غفورا رحیما اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور ازحد مہربان ہے ، اگر انسان سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔
Top