Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے ایمان والو ! یاد کرو اللہ کی اس نعمت کو جو اس نے تم پر کی جب کہ تم پر حملہ آور ہوئے تھے بہت سے لشکر۔ بس ہم نے بھیجی ان پر تند ہوا اور ایسا لشکرجس کو تم نے نہیں دیکھا اور اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کام کرتے ہو دیکھنے والا ہے
ربط آیات گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس میثاق النبیین کا ذکر فرمایا ، جو اس نے اپنے انبیاء سے عالم ارواح میں لیا تھا۔ ان میں سے پانچ اولوالعزم انبیاء کا ذکر اللہ نے خاص طور پر کیا۔ ان سب سے یہ پکا عہد لیا گیا تھا کہ اگر پہلا نبی پچھلے نبی کا زمانہ پائے تو اس پر ایمان لائے اور اس کی تائید کرے اور مجموعی طور پر تمام انبیاء کا پختہ عہد یہ تھا کہ وہ نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جب انبیاء نے یہ عہد کرلیا تو ہر امتی رپ بھی یہ فرض عائد ہوجاتا ہے کہ وہ آخری نبی پر ایمان لائے اور اس کی تائید و نصرت کرے۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے یہ عہد اس لئے کیا تھا تاکہ سچے لوگوں کی سچائی اور کافروں کا کفر واضح ہوجائے اور پھر سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا بدلہ جنت کی صورت میں دیا جائے اور کافروں کو درد ناک عذاب کا مزہ چکھایا جائے۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے جنگ احزاب کے بعض واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے اور اہل ایمان کو مخاطب کر کے انہیں اپنی نعمت کی یاد دہانی کرائی ہے جو اس نے اس موقع پر مسلمانوں پر کی اور جس کی بدولت مسلمانوں کو کفار کے غلبے سے محفوظ رکھا۔ ان آیات کا گزشتہ آیات کے ساتھ ربط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس سچائی ، خلوص اور دین داری کو جانچنے کا اشارہ گزشتہ آیات میں کیا تھا۔ جنگ احزاب کے موقع پر اس کا امتحان ہو رہا تھا کہ کون دین حق کے ساتھ مخلص اور نبی کا سچا وفادار ہے اور کون منافق اور کافر ہے۔ جنگ احزاب یا جنگ خندق 5 ھ میں لڑی گئی۔ اس سے پہلے کفار جنگ بدر اور احد میں مسلمانوں کو مغلوب کرنے میں ناکام ہوچکے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہ تھی ، اسلام تقویت پکڑ رہا تھا اور یہی چیز کافروں کے لئے کہ ان روح بنی ہوئی تھی اور وہ مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے کے مناسب موقع کی تلاش میں تھے۔ اس دوران بنو نضیر کے بیس سردار مکہ میں قریش کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف اپنی مدد کا یقین دلایا۔ اس کے بعد بنو نضیر کا یہ وفد بنو عطفان کے پاس گیا اور قریش کی طرح انہیں بھی آمادہ جنگ کیا۔ پھر انہوں نے عرب کے بعض دیگر قبائل کو بھی ساتھ ملا لیا اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے تیار کرلیا۔ قریش مکہ پہلے ہی کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے ، وہ فوراً جنگ پر آمادہ ہوگئے۔ پروگرام کے مطابق یہ سارے قبائل مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے اور چند دن میں مدینہ کے قریب دس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا۔ یہ اتنا بڑا لشکر تھا کہ مدینے کی آبادی سے بھی زیادہ تھا۔ ادھر مدینے کی قیادت بھی بیدار مغز تھی اور ان کی انگلیاں ہمیشہ حالات کی نبض پر رہتی تھیں۔ جونہی کفار کا یہ لشکر مدینے کے قریب آیا مخبرین نے اس کی اطلاع مدینہ میں کردی۔ اطلاع پاتے ہی حضور ﷺ نے ہائی کمان کی مجلس شوریٰ منعقد کی اور دفاعی منصوبے پر صلاح و مشورہ شروع کردیا۔ غور و خوض کے بعد حضرت سلمان فارسی ؓ کی تجویز منظور کرلی گئی کہ مدینہ طیبہ کے گرد مناسب مقامات پر خندق کھود کر دشمن کو شہر میں داخلے سے روکا جائے ، اس منصوبے پر فوراً عمل شروع ہوگیا۔ حضور ﷺ نے دس دس آدمیوں کو چالیس چالیس گز کا ٹکڑا کھودنے کا حکم دیا چناچہ ساڑھے تین میل لمبی یہ خندق چھ دن میں مکمل کرلی گئی۔ خندق کی کھدائی کے دوران بھی بہت سے واقعات پیش آئے اور حضور 1 ؎ روح المعانی 551 ج 12 و خازن ص 332 ج 5 والحج سعود ص 302 ج 4 و مظہر ص 113 ج 7 (فیاض) علیہ السلام کے بعض معجزات بھی ظاہر وئے۔ فاقہ کی حالت میں لوگ پیٹ پر پتھرباندھ کر خندق کھودتے رہے۔ اتنے میں دشمن بھی خندق تک پہنچ گیا۔ اور مسلمانوں کا یہ دفاعی منصوبہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ اس خندق کو عبور نہیں کرسکتے تھے۔ اگر کسی نے کوشش کی تو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ محاصرہ پچیس دن یا ایک ماہ تک جاری رہا۔ مگر کفار اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس دوران میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد دو طریقوں سے کی۔ ایک تو ان کی امداد کے لئے فرشتوں کا لشکر بھیج دیا اور دوسرا سخت ہوا بھیجی جس سے کافروں کے خیمے اکھڑ گئے ، ہانڈیاں الٹ گئیں ، اونٹ بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح وہ محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔ فرشتوں کا لشکر اللہ نے میدان بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجا تھا۔ فرشتے براہ راست جنگ تو نہیں لڑتے مگر اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے مسلمانوں کے دل مضبوط کردیتا ہے۔ پھر جس شخص کو اعتماد ہو کہ اس کے ساتھ فرشتوں کی جماعت موجود ہے۔ اس کا حوصلہ بڑھ جائے گا اور مسلمانوں کے لئے دلوں میں اطمینان پیدا ہوجائے گا۔ بہرحال کافروں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور مسلمان ان کے شر سے مامون رہے۔ انعامات المیہ کا تذکرہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی انعام کا تذکرہ فرمایا ہے۔ یایھا الذین آمنوا اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو اذ جاء تکم جنود جب کہ تمہارے اوپر ہر طرف سے دشمن کے لشکر چڑھ آئے تھے۔ فارسلنا علیھم ریحا پس ہم نے ان پر ایک تیز ہوا بھیجی جس نے ان کے سارے نظام کو درہم برہم کردیا۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے اھلکت عاد بالدبور و نصرت بالصباح یعنی اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو مغرب کی طرف سے 1 ؎ تفسیر خازن 332 ج 5 و مظہری 113 ج 7 وحدراک ص 593 ج 3 (فیاض) گرم ہوا بھیج کر ہلاک کیا اور میری مدد مشرق کی طرف سے چلنے والی ہوا کے ساتھ کی یہ ہوا نہایت ٹھنڈی تھی۔ حملہ آور اسے برداشت نہ کرسکے۔ فرمایا اے ایمان والو میں نے تم پر دوسرا انعام یہ فرمایا و جنود الم تروھا اور تم پر ایسے لشکر بھیجے جسے تم نہیں دیکھ پاتے تھے۔ فرشتوں نے تمہارے دلوں کو مضبوط کیا جس کی وجہ سے تم دشمن کے خوف سے دلبرداشتہ نہ ہوئے اور بالآخر اللہ نے تیز اور ٹھنڈی مشرقی ہوا بھیج کر حملہ آوروں کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ و کان اللہ بما تعملون بصیرا اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ پھر فرمایا اس وقت کو یاد کرو اذ جاء و کم من فوقکم جب دشمن تم پر اوپر کی جانب سے چڑھ آئے و من اسفل منکم اور نچلی جانب سے بھی۔ مدینہ کی مشرقی جانب اونچی جگہ ہے جہاں غول ہیں۔ جب کہ مغربی حصہ نیچا ہے۔ دشمن دونوں طرف سے حملہ آور ہوئے تھے۔ تمہاری عورتیں ، بچے اور بوڑھے شہر میں تھے جن کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں تھا کیونکہ سارے مجاہدین دشمن کے مقابلے میں خندق کے اس پار مورچہ زن تھے ان حالات میں اس وقت کو دھیان میں لائو۔ و اذ زاغت الابصار جب کہ خوف اور دہشت کی وجہ سے تمہاری آنکھیں تھرا گئی تھیں۔ و بلغت العلوب الحناجر اور دل اچھل کر کلوں تک آ رہے تھے۔ اس موقع پر حضرت ابو سعید خدری نے عرض کیا ، حضور ﷺ ہمیں کوئی ورد بتائیں جس کے پڑھنے سے سکون حاصل ہو ، آ پنے فرمایا کہ یہ دعا پڑھو اللھم الستر عوراتنا و امن رو عاتنا پروردگار ! ہماری سرحدوں کی پردہ پوشی فرما اور ہمارے خوف کو امن میں تبدیل کر دے۔ غزوہ احد کے موقع پر بھی جب دشمن 1 ؎ تفسیر دارک 692 ج 3 و روح المعانی 051 ج 12 (فیاض) نے پلٹ کر حملہ کردیا تو مسلمانوں نے یہ دعا پڑھی تھی۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل یعنی ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ منافقوں کی بکواس فرمایا ، اس وقت تمہاری حالت یہ تھی و تظفون باللہ الظنونا اور تم طرح طرح کے گمان کر رہے تھے ، خاص طور پر منافقین اور کمزور دل لوگوں کے دلوں میں بہت سے وسوے آ رہے تھے کہ پتہ نہیں اب کیا ہوگا ؟ کیا مسلمان بالکل ہی ختم ہوجائیں گے ؟ مصیبت کے وقت خوف پیدا ہوجانا طبعی امر ہے اور یہ کمال کے منافی نہیں۔ سامنے دشمن کا لشکر جرار نظر آ رہا تھا۔ مسلمانوں کی تعداد بھی بالکل قلیل تھی اور سامان حرب بھی تھوڑا تھا۔ اور ادھر عورتیں اور بچے غیرمحفوظ نظر آتے تھے۔ ان حالات میں خوف و ہراس اور وساوس کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ فرمایا ھنالک ابتلی المومنون اس وقت مومنوں کو آزمایا گیا کہ اس قدر مشکل وقت میں یہ کس حد تک ثابت قدم رہتے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی گھبراہٹ کو سکون میں تبدیل کردیا۔ اس کے برخلاف منافقوں پر دہشت طاری ہوگئی۔ فرمایا و زلزلوا زلزالا شدیدا اور مومن اچھی طرح متزلزل کئے گئے مگر وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہے جس کی وجہ سے کفار کو شہر میں داخل ہونے کی جرأت نہ ہوئی۔ فرمایا اس وقت کو بھی یاد کرو و اذ یقول المنفقون والذین فی قلوبھم مرض جب کہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا کہہ رہے تھے ما وعدنا اللہ و رسولہ الا غرورا کہ ہم سے نہیں وعدہ کیا اللہ اور اس کے رسول نے مگر دھوکے گا۔ غزوہ احد کے موقع پر جب دشمن دوبارہ حملہ نہ کرسکا تو حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ انشاء اللہ آئندہ ہم کامیاب ہوں گے ، اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے منافق کہنے لگے کہ ہمارے ساتھ جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ خندق کھودتے وقت حضور ﷺ نے بعض پیشین گوئیاں بھی فرمائی تھیں کہ اللہ تعالیٰ ایران اور روم پر مسلمانوں کو غلبہ عطا کرے گا۔ خندق کی کھدائی کے دوران حضور نے ایک سخت چٹان پر کدال مارا تو فرمایا۔ اللہ اکبر ! مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ میں اس وقت وہاں کے سرخ محلات کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ نے دوسری ضرب لگائی تو چٹان کا ایک ٹکڑا علیحدہ ہوا۔ آپ نے فرمایا اللہ اکبر ! مجھے فارس دیا گیا ہے واللہ ! اس وقت میں مدائن کا سفید محل دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ نے تیسری ضرب لگائی اور فرمایا اللہ اکبر ! مجھے یمن کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ میں اس وقت صنعاء کے پھاٹک دیکھ رہا ہوں۔ اس قسم کی پیشین گوئیاں بھی منافقوں کو یاد آ رہی تھیں۔ کہنے لگے آپ روم اور ایران کی بات کر رہے ہیں اور ادھر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم بول و براز کے لئے بھی باہر نہیں نکل سکتے۔ اس بات کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ منافق کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جھوٹا وعدہ کیا ہے کہ فتح مسلمانوں کو حاصل ہوگی۔ حالانکہ ہم تو شدید ترین خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ بہرحال اس رکوع میں منافقین کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے اور ایمان والوں کو تسلی دی گئی ہے اور ان کی تعریف بھی کی گئی ہے کہ وہ ایسے کٹھن وقت میں ثابت قدم رہے۔
Top