Mualim-ul-Irfan - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اَنْتُمُ : تم الْفُقَرَآءُ : محتاج اِلَى اللّٰهِ ۚ : اللہ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : سزاوار حمد
اے لوگو ! تم محتاج ہو اللہ کی طرف اور اللہ تعالیٰ ہی غنی اور تعریفوں والا ہے
گزشتہ آیات کی طرح آج کے درس میں بھی توحید کا اثبات ، شرک کا رد ، وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال کا بیان ہے۔ ساتھ ساتھ منکرین کے لیے جبر و تنبیہ کا پہلو بھی ہے۔ تمام بنی نوع انسان کو خطاب کرکے انہیں ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا جارہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے یایھا الناس ان تم للفقرا الی اللہ اے دنیا جہان کے لوگو ! تم سب کے سب اللہ تعالیٰ کی طرف محتاج ہو۔ فقار دراصل پشت کے مہرے کو کہا جاتا ہے جس شخص کا مہرہ ٹوٹا ہوا ہو اس کی کمر سیدھی نہیں ہوکستی اور اس لحاظ سے وہ محتاج ہوتا ہے۔ تو فرمایا تم سارے کے سارے اللہ کے دروازے کے فقیر ہو اور اپنی تمام حاجات اسی سے طلب کرتے ہو۔ سورة الرتین میں بھی فرمایا ہے آسمان اور زمین کی مخلوق اسی سے مانتی ہے مخلوق میں خواہ اللہ کے مقرب فرشتے ہوں یا جنات ہوں ۔ نبی ، ولی سب اللہ تعالیٰ کی عنایات کے محتاج ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ انسان تو زبان و دل سے مانگتے ہیں مگر شجر و حجر صرف زبان حال سے طلب کرتے ہیں۔ درخت پودے وغیرہ جن میں حس و حرکت نہیں جن کی زبان نہیں کہ وہ بول کر اپنی ضروریات کا اظہار کرسکیں۔ ان کی حالت اسی طرح جانور ، کیڑے مکوڑے چرند اور پرندے ہیں سمندروں کی لاتعداد مخلوق ہے سب کی حاجات ہیں اور وہ سارے کے سارے حال ہی سے اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات میں سوال کر رہے ہیں۔ اللہ کی مقرب مخلوق فرشتے بھی اللہ تعالیٰ سے ترقی و عروج اور انعامات کے طالب ہیں اور اپنے انداز سے درخواست کرتے ہیں۔ جنات کا اپنا انداز ہے غرضیکہ ساری مخلوق اسی کی محتاج ہے اور اسی کے آگے دست سوال دراز کئے ہوئے ہے۔ فرمایا وہ صرف ایک ہی ذات ہے جو کسی سے سوال نہیں کرتی ہے بلکہ سب اس کے سوالی ہیں۔ واللہ ھو الغنی الحمید اور وہ ذات خداوندی ہے جو بےنیاز اور تعریفوں والی ہے ، وہ ہستی تمام کمالات کے ساتھ متصف ہے ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ ساری مخلوق اسی سے استعانت کرتی ہے ، وہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے لہٰذا عبادت کے لائق بھی وہی ہے اس کے علاوہ کوئی ہستی عبادت کے لائق نہیں۔ غنی اور صمد وہ ذات ہے جس کی طرف قصد کیا جاتا ہے اور اس کو کسی قسم کا احتیاج نہیں ہوتا۔ ہندی زبان میں ایسی ذات کو ” نردھار “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ابن ماجہ شریف کی روایت (ابن ماجہ فیاض) میں آتا ہے من لم یسئل اللہ لغضب علیہ جو ذات اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتی اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے کہ مجھ سے سوال کیوں نہیں کرتا۔ ادھر انسان سے سوال کیا جائے تو وہ ناراض ہوجاتا ہے مگر رب تعالیٰ سے نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتا ہے کہ میرا بندہ ہو کر میرے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتا۔ ایک مشہور عربی شاعر عبید ابن ابرص کہتا ہے من یسئل الناس یحرموہ وساہل اللہ لا یخیب جو لوگوں سے مانگتا ہے تو لوگ اس کو محروم رکھتے ہیں اور جو اللہ سے طلب کرتا ہے وہ کبھی محروم نہیں رہتا۔ حضور ﷺ کے زمانے کے ایک عیسائی شاعر نے اپنے ممدوح لوگوں کے بارے میں کہا : سالنا فاعطیتمج وعدنا فعدتم ومن اکثر السال یوما سحرم ہم نے ایک دفعہ مانگا ، تم نے دے دیا ، ہم نے پھر طلب کیا تم نے پھر دے دیا اور جو زیادہ مانگے گا لوگ تنگ آکر اس کو محروم کردیں گے مگر خدا تعالیٰ سے جس قدر زیادہ مانگا جائے وہ خوش ہوتا ہے اور جو نہیں مانگتا اس پر ناراض ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ اللہ سے مانگنے والا کبھی محروم نہیں رہتا۔ لہٰذا اسی سے مانگنا چاہئے اور غیروں کی طرف سوالیہ نگاہوں سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ ارشاد ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے ان یشا یذھبکم و یات بخلق جدید کہ اگر چاہے تو تم سب کو صفحہ ہستی سے لے جائے اور تمہاری جگہ دوسری مخلوق کو لے آئے۔ ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ اللہ نے بعض اقوام کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ قوم عاد وثمود کی تباہی کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے۔ اللہ نے قوم عاد کے متعلق سورة الحاقہ میں فرمایا کہ ان ظالموں پر سات رات اور آٹھ دن تک سخت تند ہوا چلی تو وہ تباہ ہوگئے اور ان کی لاشیں کھجور کے تنوں کی طرح پڑی تھیں فل تری لھم من باقیہ (آیت 8) اب دیکھو کیا ان کا ایک فرد بھی نظر آرہا ہے ؟ سب ختم ہوگئے فرمایا وما ذلک علی اللہ بعزیز ایک قوم کو نابود کرنا اور دوسری قوم کو لے آنا اللہ کے لیے کچھ دشوار نہیں ہے انسانوں کے کام میں تو رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے ، ان کے وسائل میں کمی آڑے آسکتی ہے مگر اللہ تعالیٰ تو قادر مطلق اور تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ اس کا کوئی کام نہیں رکتا ، وہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو پھر اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی۔ محاسبہ اعمال کی فکر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال کا احساس دلایا ہے کہ مکحض دنیا کی رنگ رلیوں میں ہی الجھ کر نہ رہ جائو بلکہ آخرت کا بھی کچھ خیال کرو ہر شخص سے اس کے عمل کے بارے میں سوال ہوگا ، ایمان ، عقیدے ، اخلاق اور فکر کے بارے میں بازپرس ہوگی۔ اس وقت ہر شخص کو اپنے عقیدے اور عمل کی خود جوابدہی کرنا ہوگی اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اسی لیے فرمایا ولا تزر وازۃ وزرا اخری کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ وانتدع مثقلۃ الی حملھا اور اگر کوئی بوجھل کسی کو بوجھ اٹھانے کے لیے بلائے گا کہ ذرا میری مدد کرو لایحمل منہ شئی تو اس میں سے کوئی چیز بھی نہیں اٹھائی جاسکے گی اور مدد طلب کرنے والے کو مایوسی ہوگی۔ روایات میں آتا ہے کہ ہر خاوند اور بیوی اپنے اپنے بوجھ کی فکر میں ہوں گے۔ خاوند اپنی بیوی سے کہے گا کہ دیکھ ! میں نے دنیا میں تیرے ساتھ کتنا اچھا سلوک کیا ، تمہاری تمام فرمائشیں پوری کیں اور تمہیں کسی چیز کی کمی نہیں آے دی ، اب اپنی نیکیوں میں سے ایک نیکی مجھے دیدو۔ وہ کہے گی کہ میں تو خود اس معاملہ میں فکرمند ہوں ، تجھے کہاں سے دے دوں ؟ پتہ نہیں میرے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے ؟ اسی طرح ماں اپنے بیٹے سے کہے گی ! بیٹا میرا پیٹ تیرے لیے ظرف تھا جس میں تجھے نو ماہ تک اٹھائے پھری۔ پھر میری چھاتی تیرے لیے مشکیزہ بنی ہوئی تھی۔ تم جب چاہتے تھے سیراب ہوتے تھے ، میری گود تیرے لیے بطور گہوارہ تھی۔ جس میں تم آرام کرتے تھے۔ اب میری مدد کرو اور ایک نیکی مجھے دیدو۔ بیٹا ماں کے تمام احسانات کو تسلیم کرے گا مگر کہے گا کہ میں تو نیکیوں کے معاملہ میں خود پریشان ہوں نامعلوم میرے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے لہٰذا میں خود مجبور ہوں غرضکیہ قریبی عزیز بھی ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن جائیں گے اور کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا۔ ایک دوسرے سے بھاگیں گے کہ کہیں کوئی دوسرا نیکی نہ طلب کرلے۔ قرآن پاک نے اس صورت حال کا نقشہ اس طرح کینچا ہے یوم یفر المرء من اخیم وامہ وابیہ وصاحبتہ وبینہ لکل امری منھم یومذ شان یغنیہ قیامت والے دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا ، اپنی ماں اور باپ سے بھاگے گا ، اپنی بیوی اور بیٹے سے راہ فرار اختیار کرے گا۔ اس دن ہر شخص ایک ہی فکر میں مبتلا ہوگا اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ولو کان ذا قربی اگرچہ وہ قرابتدار ہی کیوں نہ ہو۔ ہر ایک کو اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرنا ہوگا۔ آگے نبی (علیہ السلام) کو تسلی دی گئی ہے کہ لوگ توحید کا انکار کرتے ہیں۔ شرک ، کفر اور معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں ، ضد اور تعصب کی بنا پر سمجھانے سے سمجھتے بھی نہیں بلکہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آپ دل برداشتہ نہ ہوں کیونکہ انما تنذر الذین یخشون ربھم بالغیب آپ ان لوگوں کو ڈر سناتے ہیں جو بغیر دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا کوئی رب ہے جو ہم سے ضرور باز پرس کرے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم اللہ اور اس کے نبی کی بات کو نہیں مانیں گے ، کلام الٰہی پر یقین نہیں کریں گے تو ہمارا ٹھکانہ کہاں ہوگا ؟ دنیا کا نظام تو ایسا ہی ہے کہ کسی نے اپنے پروردگار کو نہیں دیکھا ، نہ ملائکہ کو دیکھا ہے اور نہ جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کیا ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے تو نبی (علیہ السلام) پر نزول وحی کا مشاہدہ کیا مگر باقی سب لوگ تو ان تمام چیزوں پر ایمان بالغیب ہی رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اللہ کی ذات وحدہ لا شریک ہے ، اس کے انبیاء برحق ہیں اس کی کتابیں سچی ہیں اور پھر محاسبہ اعمال کا وقت آنے والا ہے تو فرمایا کہ آپ تو انہی کو ڈراسکتے ہیں جو ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ فرمایا محاسبہ اعمال سے ڈرنے والوں کی دوسری صفت یہ ہے واقاموا الصلوۃ کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں جو کہ ایمان کے بعد سب سے ضروری عبادت اور تمام عبادات میں سب سے زیادہ مقرب الی اللہ ہے۔ قیامت والے دن سب سے پہلے نماز ہی کے متعلق سوال ہوگا کہ اسے ادا کیا تھا یا نہیں۔ نیز فرمایا کہ ایمان لانے اور اعمال صالحہ انجام دینے کے بعد ومن تزکی فانما یتزکی لنفسہ جو شخص تزکیہ حاصل کرلے گا یعنی اپنے آپ کو پاک بنالے گا تو یہ اس کے اپنے نفس کے لیے ہی مفید ہوگا۔ شاہ عبدالعزیز تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں کہ تزکیہ سے مراد ظاہر باطن ہر طرح کی پاکیزگی شامل ہے۔ جسم ، لباس ، مکان اور ماحول کی پاکیزگی کے علاوہ فکر ، ذہن ، قلب ، دماغ اور روح کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص بظاہر پاک صاف ہے مگر اس کی خوراک اور لباس مال حرام سے ہے تو آدمی نجس ہے۔ ایسے شخص کی عبادت مقبول نہیں۔ دھوکہ ، فریب ، سود ، چوری اور سمگلنگ کی کمائی پاکیزہ نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے فرمایا کہ اگر کوئی شخص مکمل تزکیہ حاصل کرتا ہے تو اپنے ہی لیے حاصل کرتا ہے۔ اس کا فائدہ خود اسی کو ہوگا۔ خدا تعالیٰ کو ہمای عبادت و ریاضت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم اللہ کی خوشنودی کے لیے کام کریں گے اس میں ہمارا اپنا ہی بھلا ہے ، ہمیں ترقی نصیب ہوگی۔ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا اور خدا کی رحمت کے مقام میں جگہ ملے گی۔ غرضیکہ ہمیں اپنے آپ کو ، اپنی فکر کو ، اپنے ماحول کو ، شہر اور ملک کو ، مسجدوں اور مدرسوں کو پاک کرنا ہوگا۔ مسجدوں میں شور و شر کرنا ، بیہودہ غزلیں پڑھنا ، لڑائی جھگڑا کرنا ، دوسروں پر کیچڑ اچھالنا ، کسی پر اتہام لگانا یہ سب تزکیہ کے خلاف چیزیں ہیں۔ ہماری مسجدوں کو ان نجاستوں سے پاک صاف ہونا چاہئے۔ فرمایا جس نے تزکیہ حاصل کیا تو اپنے ہی فائدے کے لیے۔ یاد رکھو والی اللہ المصیر اور سب کو خدا تعالیٰ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے اور اپنی کارگزاری کا خود جواب دینا ہے اگر اس دنیا سے تزکیہ لے کر جائو گے تو انجام اچھا ہوگا اور اگر نجاست سے آلودہ ہو کر جائو گے تو بہت برا حشر ہوگا۔ اللہ کے سامنے سب کی پیشی ضروری ہے۔
Top