Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ
: اور اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا
: کہ نہ
تُقْسِطُوْا
: انصاف کرسکوگے
فِي
: میں
الْيَتٰمٰى
: یتیموں
فَانْكِحُوْا
: تو نکاح کرلو
مَا
: جو
طَابَ
: پسند ہو
لَكُمْ
: تمہیں
مِّنَ
: سے
النِّسَآءِ
: عورتیں
مَثْنٰى
: دو ، دو
وَثُلٰثَ
: اور تین تین
وَرُبٰعَ
: اور چار، چار
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تمہیں اندیشہ ہو
اَلَّا
: کہ نہ
تَعْدِلُوْا
: انصاف کرسکو گے
فَوَاحِدَةً
: تو ایک ہی
اَوْ مَا
: یا جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: لونڈی جس کے تم مالک ہو
ذٰلِكَ
: یہ
اَدْنٰٓى
: قریب تر
اَلَّا
: کہ نہ
تَعُوْلُوْا
: جھک پڑو
اور اگر تم خوف کھائو کہ تم انصاف نہ کرسکوگے یتیم لڑکیوں کے بارے میں تو نکاح کرلو جو پسند ہو تم کو ان کے علاوہ عورتوں میں سے دو دو ، تین تین ، چار چار پس اگر تم خوف کھائو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے ، پس ایک عورت ہی کافی ہے (ان لونڈیوں سے فائدہ اٹھائو) جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہیں ، یہ بات زیادہ قریب ہے کہ تم ایک طرف نہ جھک پڑوگے
رابطہ آیات سورۃ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ، اور تمام انسانوں کا ایک ہی نفس سے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا۔ پھر اسی ایک نفس سے اسکا جوڑا پیدا کیا اور پھر تمام نسل انسانی کو پھیلایا۔ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے اور قرابت داروں سے حسن سلوک کی وصویت فرمائی۔ انسانی حقوق کی ادائیگی کا حکم فرمایا اور خاص طور پر یتیموں کے حقوق کی حفاظت کی اور تلقی کی کہ ان کے مال حیلے بہانے سے مت کھائو بلکہ بالغ ہونے پر ان کے مال ان کو واپس کردو۔ اور یتیم لڑکیوں سے نکاح یتیموں کے مال حق کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یتیم لڑکیوں کے نکاح کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ بخاری ، مسلم ، نسائی ، مستدرک حاکم اور حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں یہ روایت آئی ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے ان کے بھانجے عروہ (رح) بن زبیر ؓ نے اس آیت وان خفتم الا تفسطو فی الیتمی کے متعلق دریافت کیا ، تو آپ نے فرمایا یا ابن اختی یعنی اے میرے بھانجے ! اللہ تعالیٰ نے یہ آیت یتیم لڑکیوں کے بارے میں نازل فرمائی ہے اور اس کے ذریعے ان کے حقوق کو تحفظ دیا ہے۔ نزول قرآن کے زمانے میں بعض اوقات ایسا ہوتا تھا۔ کہ کوئی لڑکی یتیم ہوگئی ہے ، وہ خود بھی صاحب جمال ہے اور لڑکے میں مال بھی ملا ہے۔ اس پر مستزاویہ ہے کہ اس لڑکی کا سرپرست یا متولی اس کا قریبی رشتہ دار چچا زاد یا تایا زادہ وغیرہ بن گیا ہے۔ تو ایسی صورت میں سرپرست کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ وہ یتیم لڑکی سے خودہی نکاح کرلے تاکہ خوبصورت لڑکی بھی حاصل ہوجائے اور اس کا مال بھی قبضے میں رہے۔ وہ لوگ ان چیزوں کا لالچ تو کرلیتے تھے مگر نہ تو وہ ان کی حیثیت کے مطابق مہر دیتے تھے اور نہ ان سے حسن معاشرت رکھتے تھے۔ اس قباحت کے سدباب کے لیے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ اگر تم ایسی لڑکیوں کو پورا مہر ادا نہیں کرسکتے ، اور ان سے بہتر سلوک کے روادار نہیں ہوسکتے تو پھر ان سے نکاح بھی کرو۔ یہ ناجائز ہے۔ اس زمانے میں یتیم لڑکیوں سے ایک دوسری زیادتی بھی بسا اوقات کی جاتی تھی۔ لڑکی اگرچہ صاحب مال ہے مگر صاحب جمال نہیں۔ سرپرست خود تو اس سے نکاح کی خواہش نہیں رکھتا۔ مگر دوسری جگہ بھی نکاح کرنے سے پس وپیش کرتا ہے کہ لڑکی کے ساتھ اسے مال بھی محروم ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی قبیح حرکت سے بھی منع فرمایا کیونکہ اس سے یتیم لڑکیوں کو حق تلفی ہوتی تھی۔ چارعورتوں سے نکاح ارشاد باری تعالیٰ ہے وان خفتم الا تقسطو فی الیتمی اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرسکو گے۔ یعنی تم ان کو پورا (…………) نہیں کرسکو گے یا ان سے حسن سلوک نہیں رکھوگے تو پھر ان سے خود نکاح مت کرو۔ بلکہ دستور کے مطابق ان کے نکاح دوسری جگہ کردو اور ان کا مال بھی ان کی تحویل میں دے دو ۔ اس میں کسی قسم کی خیانت نہ کرو اور اگر تم خود نکاح کرنا ہی چاہتے ہو تو ان یتیم لڑکیوں کی بجائے فانکھو ماطاب لکم من النساء نکاح کرو دیگر ایسی عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں۔ اور پھر یہ بھی کہ تمہیں صرف ایک عورت کے لیے پابند نہیں کیا گیا بلکہ تمہیں توفیق ہے تو مثنی وثلث وربع دو دو تین تین اور چار چارعورتوں سے بھی بیک وقت نکاح کرسکتے ہو۔ مقصد یہ کہ یتیم لڑکیوں سے زیادتی نہ کرو بلکہ اس کے بدلے میں اگر تم مالی اور جسمانی لحاظ سے مضبوط ہو تو چار عورتوں تک نکاح میں رکھ سکے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اجازت فرمادی ہے۔ فطرت کے اعتبار سے انسان تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ادنی درجے کے لوگ جن کی قوت باہ معمولی قسم کی ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ ایک بیوی پر اکتفا کرتے ہیں۔ درمیانی قوت کے مالک لوگ دوسری بیوی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اگر وہ دوسرا نکاح نہ کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لہٰذا ایسے لوگوں کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت ہے اور اگر کوئی شخص جسمانی اور مالی اعلیٰ درجے کی طاقت رکھتا ہے حق و انصاف کے تقاضے پورے کرسکتا ہے تو پھر اسے چارعورتوں تک سے نکاح کی اجازت ہے تاکہ وہ اپنی فطری خواہش کی تکمیل شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے کرسکے۔ نکاح کی شرط بیک وقت چارعورتوں سے نکاح کی اجازت کو اللہ تعالیٰ نے انصاف کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔ فان خفتم الا تعدلو اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی صورت میں تم تمام بیویوں سے انصاف نہ کرسکو گے ۔ فواجدۃ تو پھر تمہارے لیے ایک بیوی ہی کافی ہے ، دوسرا نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر نکاح کرنا ہے تو پھر اس کے تمام تقاضے منجلہ انصاف ، مہر اور حسن معاشرت وغیرہ پورے کرنا ہوں گے۔ اور ایک بیوی کی صورت میں تم بیوی کے علاوہ اپنی نفسانی خواہش اوما ملکت ایمانکم ان لونڈیوں سے بھی پوری کہہ سکتے ہو جو تمہاری ملکیت میں ہیں۔ لونڈیوں سے نکاح کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ تمہاری ملکیت ہونا ضروری ہے۔ اگر ایسا ہے تو تم ان سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہو اور اگر اس کا نکا ح دوسرا جگہ کردو تو خود بھی فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ صرف خدمت لینے کے مجاز ہو۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان امتی کے لیے بیک وقت چارعورتوں سے نکاح کی اجازت فرمادی بشرطیکہ ایسا شخص بیویوں کے درمیان انصاف کرسکے۔ انصاف کی تفصیل آگے آئے گی اور اس سے مراد مکان ، لباس ، خوراک ، مہر ، لین دین ، شب باشی وغیرہ میں مساوات کا قیام ضروری ہے۔ البتہ دلی رغبت کسی ایک طرف ہونا یہ غیر اختیاری چیز ہے۔ اور مباح ہے۔ اور اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ بیویاں رکھ کر ان کے ساتھ انصاف نہیں کریگا ۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ایسے شخص کا آدھا جسم فالج زدہ ہوگا اور وہ سخت عذاب میں مبتلا ہوگا۔ تحدید نکاح اسلام نے چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دے کر اس اباحت کو چار تک گویا محدود کردیا ہے۔ کوئی مومن بیک وقت چار سے زیادہ نکاح نہیں کرسکتا۔ ہاں اگر کوئی بیوی فوت ہوگئی یا طلاق واقع ہوگئی تو اس کی بجائے اور نکاح کرسکتا ہے مگر بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا۔ یہ حرام ہے۔ زمانہ جاہلیت میں تو بیویوں کی کوئی حد مقرر نہ تھی ، ہر شخص جتنی چاہتا بیاہ لاتا ، مگر اسلام نے اس کو چار تک محدود کردیا۔ قبیلہ ثقیف کا عنیلان ثقفی ؓ جب مسلمان ہوا تو اس کے نکاح میں دس عورتیں تھیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا ان میں سے اپنی پسند کی چار عورتیں رکھ لو اور باقیوں کو آزاد کردو۔ چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اسی طرح قبیلہ اسد کے عمیر اسدی ؓ اسلام لائے تو ان کی آٹھ بیویاں تھیں۔ انہوں نے بھی چار کو فارغ کردیا اور چار اپنے پاس رکھ لیں۔ اسی طرح ایک اور صحابی کے متعلق آتا ہے کہ ان کے نکاح میں پانچ عورتیں تھیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا اختر اربعاً منھن ان میں سے چار کو اختیار کرلو اور ایک کو چھوڑ دو ۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ چار تک تحدید نکاح صرف امتی مسلمان کے لیے ہے۔ پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات اس تحدید سے متثنیٰ ہے یہ نبی کی خصوصیت ہے جسے اللہ نے سورة احزاب میں واضح فرمادیا ہے۔ نبی ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ بیویاں رکھ سکتا ہے ، اس پر کوئی پابندی نہیں۔ اور یہ اجازت ہر نبی کی شریعت میں موجود رہی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دو بیویاں تھیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) ، حضرت دائود (علیہ السلام) وغیرہ کی متعدد بیویاں تھیں اور اسی طرح نبی آخر الزمان نے اپنی زندگی میں کل پندرہ نکاح کیے۔ ان میں سے تیرہ بیویوں کے ساتھ آپ کی مقاربت بھی ہوئی اور وہ ایسے ہی الگ ہوگئیں۔ تاہم ایک وقت میں آپ کی زیادہ سے زیادہ نوبیویاں تھیں۔ مقصد یہ کہ نبی پرچار نکاح کی پابندی نہیں ہے۔ اسلام کے خلاف پراپیگنڈا مفسر قرآن مولانا عبیدا للہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ مغربی اقوام نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کے ہتھیار کو موثرطور پر استعمال کیا ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اسلام کی ترقی کو روکنے کے لیے اور حربہ کارگز ثابت نہیں ہورہا ہے تو انہوں نے اسلام کے مختلف مسائل کو بہانہ بناکر اس کے خلاف پراپیگنڈا کی مہم کو تیز تر کردیا اور دوسوسال تک مسلسل پراپیگنڈا کرنے کے بعد مسلمانوں کی صفوں میں انتشارپیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے اسلام کے مسئلہ تعداد ازواج کو سب سے زیادہ اچھالا۔ اور یہ پراپیگنڈا کیا کہ مسلمان عیاش رہیں ، رشوت پر ست ہیں ان کا اسلام ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ حالانکہ بات سیدھی سادھی ہے ، اسلام نے تعداد ازواج کو کوئی فرض واجب قرار نہیں دیا بلکہ محض اجازت دی ہے اور وہ بھی مشروط یعنی اگر کوئی شخص جسمانی اور مالی لحاظ سے اس قدر مضبوط ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھ سکتا ہے اور پھر ان کے درمیان انصاف بھی کرسکتا ہے تو اسے اجازت ہے ، لازم نہیں ہے۔ انگریز جرمن اور فرانسیسی اور دنیا بھر کے یہودیوں نے تعدد ازواج کے مسئلہ میں پیغمبر آخر الزمان ﷺ کی ذات کو خاص طور پر اپنے طعن کا نشانہ بنایا۔ اور یہاں تک پراپیگنڈا کیا کہ مسلمانوں کا پیغمبر (نعوذ باللہ) عیاش تھا۔ اس نے اپنے حرم میں بہت سی بیویاں رکھی ہوئی تھیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمام سابقہ انبیاء کی شرائع میں تعدد ازواج روا تھا۔ اور ہمارے نبی اکرم کو اللہ تعالیٰ نے خود قرآن پاک میں تحدید نکاح سے مستثنیٰ قرار دیدیا۔ جہاں تک (نعوذ باللہ) عیاشی کا تعلق ہے آپ کی پوری زندگی اس الزام کے خلاف بطور شہادت موجود ہے آپ (علیہ السلام) کی تمام بیویوں میں سے ایک کے سوا کوئی بھی دوشیزہ نہیں تھی۔ ساری بیویاں معمر اور بیوہ تھیں۔ کسی کا ایک خاوند فوت ہوچکا تھا اور کسی کے دوخاوند پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنی زندگی کا پچیس سے پچاس سالہ دور جو شباب کا دورکہلاتا ہے اپنے سے پندرہ سال بڑی ایک بیوہ عورت کے ساتھ گزار دیا۔ جب تک آپ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ ؓ زندہ رہیں آپ نے دوسرا نکاح نہیں کیا۔ تو کیا آپ کو بڑھاپے میں زیادہ بیویاں کرکے نفسانی خواہش کی تکمیل مقصود تھی ؟ ہرگز نہیں۔ آپ کا تعدد ازواج محض اسلام کی ترویج و ترقی کی خاطر تھا۔ اسلام کو گھر گھر پہنچانا تھا۔ لہٰذا آپ نے مختلف قبائل سے رشتہ ازواج قائم کرکے تبلیغ اسلام کا اہم فریضہ ادا کیا۔ قرآن پر حملہ مولانا سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ غیر مسلم اقوام نے پراپیگنڈا کے طور پر دوسرا حملہ اللہ کی آخری کتاب قرآن پاک پر کیا اور یہ مشہور کیا کہ قرآن پاک اپنے ماننے والو کو غیر مہذب بناتا ہے۔ چناچہ وزیراعظم برطانیہ گلیڈ سٹون نے برطانوی پارلیمنت میں قرآن ہاتھ میں لے کر کہا تھا کہ جب تک یہ کتاب دنیا میں موجود ہے ، انسان مہذب اور شائستہ نہیں بن سکتا۔ فحاشی ، عیاشی ، زنا ، شراب نوشی ان کے فیش میں داخل ہے مگر قرآن ان چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے لہٰذا یہ کتاب دنیا کو تہذیب یافتہ بنانے میں رکاوٹ ہے۔ اُدھر ہندوستان میں یوپی کے انگریز گورنر سرولیم مورنے حضور نبی کریم ﷺ کی سوانح حیات (محمد کی زندگی) لکھی جسے سرسید جیسا جدت پسند بھی پڑھ کر تڑپ اٹھا۔ اس کتاب میں مصنف نے لکھا تھا کہ انسانیت کی دشمن دو چیزیں ہیں اور وہ ہیں محمد کا قرآن اور اس کی تلوار۔ جبری مسلمان مولانا فرماتے ہیں کہ اسلام کا تیسرا مسئلہ جسے ان لوگوں نے تختہ مشق بنایا ، وہ یہ تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اس دین میں لوگوں کو جبراً مسلمان بنانا روا ہے۔ یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے جسے کوئی سلیم الفطرت آدمی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ خود قرآن پاک میں موجود ہے لا اکراہ فی الدین دین میں کوئی جبر نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی کو جبراً مسلمان نہیں بنایا۔ دنیا کے بڑے حصے میں مسلمان ایک عرصہ تک غالب رہے مگر کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔ ہمیشہ اسلام کی تعلیمات اور اپنا اخلاق وکردار پیش کرکے اسلام کی دعوت دی گئی ہے۔ مگر کسی کو مجبور نہیں کیا گیا۔ برصغیر میں کابل سے لے کر برما تک مسلمانوں کو آٹھ سو سال تک اقتدار حاصل رہا۔ مگر تاریخ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا کوئی ایک شخص بھی جبر واکراہ کی بناء پر حلقہ بگوش اسلام ہوا ہو۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک ، خلافت راشدہ اور عاجلم اسلام کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے مسلمانوں کی طرف سے جبر کا شائبہ تک نہیں ملے گا۔ برخلاف اس کے عیسایوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے سپین ، روس ، چین اور دیگر بہت سے ممالک میں مسلمانوں کو یا تو بالکل ختم کردیا یا انہیں اپنا دین چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ لونڈی غلام کا مسئلہ اسلام میں لونڈی غلام کا مسئلہ بھی ہمیشہ سے غیر مسلم اقوام کی طعن وتشنیع کا ہدف رہا ہے۔ اور یہ پراپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ اس کو اوسلام نے جائز قرار دیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نزول قرآن کے دور میں لونڈی غلام پوری دنیا میں موجود تھے یہ ایک بین الاقوامی رواج تھا جو ساری دنیا میں پایا جاتا تھا مسلمانوں نے اسے ایجاد نہیں کیا جنگ ہوتی مردوزن قیدی بنالیے جاتے ، پھر یا تو انہیں قتل کردیا جاتا یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جاتا یا پھر غلام اور لونڈی بتائے جاتے ۔ ان سے مشقت لی جاتی اور حسب ضرورت ان کی خرید وفروخت بھی ہوتی۔ اسلام نے لونڈی غلام کو فرض واجب قرار نہیں دیا بلکہ اس کی اجازت جاری رکھی۔ اگر دنیا بھر کے لوگ اس کاروبار کو ترک کردیں تو اسلام کو اس پر کوئی اصرار نہیں۔ چناچہ آج پوری دنیا میں لونڈی غلام کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ اب اہل اسلام بھی اسے ترک کرچکے ہیں۔ روم اور ایران میں ہزاروں سال تک لونڈی غلام کی خریدوفروخت ہوتی رہی تاہم اسلام نے اس رواج کو ختم کرنے کی متعدد بھر کوشش کی۔ لونڈی غلام کو آزاد کرانے والے کو بہت بڑے اجر وثواب کا مستحق ٹھہرایا گیا۔ چناچہ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ کتنے ہی صحابہ کرام ؓ نے کتنی بڑی تعداد میں غلام خرید خرید کر آزاد کیے۔ اس کے علاوہ اسلام نے لونڈی غلام کی آزادی کو تعزیرات میں شامل کردیا۔ چناچہ بلا عذرفرض روزہ توڑنے کا کفارہ دوسری تعزیرات کے ساتھ ایک غلام کی آزادی بھی رکھا۔ اسی طرح ظہار کے مسئلہ میں بھی اس کا کفارہ غلا مکی آزادی ہے تو بہرحال مقصد یہ کہ اسلام نیتو لونڈی غلام کو دنیا میں ختم کرنے کے لیے عملی قدم اٹھایا ، اور آج یہ بات بلا خوف تردید کی جاسکتی ہے کہ اس قبیح رواج کے خاتمے کی ابتدا اسلام نے ہی کی۔ بہرحال فرمایا کہ اگر تم زیادہ بیویوں میں انصاف قائم رکھنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو ایک بیوی پر اکتفا کردیا اپنی مملوکہ لونڈیوں سے استفادہ حاصل کرو۔ ذلک اونی الا تعولو یہ چیز زیادہ قریب ہے کہ تم ایک طرف نہ جھک پڑوگے بلکہ انصاف پر قائم رہو۔ یتیم لڑکیوں سے یا ایک سے زیادہ نکاح کرکے ان سے ناانصافی نہ کرو۔ اس سے بہتر ہے کہ ایک بیوی اور اگر میسر ہے تو لونڈی پر اکتفا کرو۔
Top