Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 4
وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً١ؕ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًا
وَاٰتُوا : اور دے دو النِّسَآءَ : عورتیں صَدُقٰتِهِنَّ : ان کے مہر نِحْلَةٍ : خوشی سے فَاِنْ : پھر اگر طِبْنَ : خوشی سے چھوڑ دیں لَكُمْ : تم کو عَنْ شَيْءٍ : کچھ مِّنْهُ : اس سے نَفْسًا : دل سے فَكُلُوْهُ : تو اسے کھاؤ هَنِيْٓئًا مَّرِيْئً : مزیدار، خوشگوار
اور دے ڈالو عورتوں کو ان کے مہر خوشی وخاطر سے اور اگر وہ خوش کرلیں تمہارے بےدل کو اس میں سے کسی چیز سے پھر تم اس کو کھائو خوش گوار اور خوش ہضم
رابطہ آیات ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے انسانی حقوق خصوصاً رشتہ داروں کے حقوق کی حفاظت کا حکم دیا۔ پھر یتیموں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ان کے مال مت کھائو ، یتیم لڑکیوں کے ساتھ ناانصافی سے منع فرمایا۔ اور ارشاد فرمایا کہ اگر تم یتیم لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی صورت میں ان سے حق و انصاف نہ کرسکو تو پھر ان کی بجائے دوسری عورتوں سے نکاح کرو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کسی ایک مرد کے لیے نکاح کی چار عورتوں تک تحدید کردی اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ تم سب بیویوں سے یکساں سلوک کرسکو۔ تعدد ازواج کی محض اجازت دی ہ کے اسے لازم قرار نہیں دیا نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر انصاف کو قائم نہ کر سوک تو پھر صرف ایک نکاح پر اکتفا کرو۔ البتہ لونڈیوں سے بغیر نکاح کے مستفید ہونے کا تذکرہ فرمایا۔ مہر کی اہمیت آج کی آیت بھی نکاح ہی سے متعلق ایک اہم مسئلہ مہر کے بارے میں ہے اللہ تعالیٰ نے نکاح میں مقرر کردہ مہر کو خوشظ دلی سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ حکم ہر نکاح کے ضمن میں ہے۔ خواہ یتیم لڑکی سے ہوا ہو یا عام عورت سے ، مہر سے متعلق بعض مسائل سورة بقرہ میں بھی بیان ہوچکے ہیں۔ اور کچھ ارشادات سورة احزاب میں بھی آئیں گے۔ اس سورة میں اس آیت کے علاوہ آگے جہاں محرمات نکاح کا ذکر آتا ہے۔ وہاں بھی مہر کا تذکرہ ہے۔ محرمات میں مائوں ، بیٹیوں ، بہنوں ، پھوپھیوں ، خالائوں ، بھتیجوں اور بھانجیوں وغیرہ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کے علاوہ تمہیں دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت ہے مگر ان تبتغوا باموالکم یعنی نکاح میں مال ضرورخرچ کرنا ہوگا اور اس سے مراد خاص طور پر حق مہر کی ادائیگی ہے ایک اور جگہ پر فرمایا قد علمنا ما فرضنا علیھم ہم جانتے ہیں دو چیزیں جو ہم نے مردوں پر فرض قرار دی ہیں اور فرائض میں سے مہر بھی ایک فرض ہے۔ مہرکانصاب مہر کے نصاب کے متعلق فقہائے کرام میں تھوڑا سا اختلاف پایاجاتا ہے امام شافعی (رح) اور بعض دیگر ائمہ کرام فرماتے ہیں کہ قلیل تر چیز بھی مہربن سکتی ہے۔ حتی کہ مٹھی بھر کھجوریں ، لوہے کی انگوٹھی ، ایک آنہ ، دو پیسے وغیرہ بھی مہر مقرر ہوسکتا ہے بشرطیکہ عورت اس پر رضا مند ہو۔ تاہم امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ مہر کی کم ازکم مقدار دس درہم کے برابر ہونی چاہیے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مہر کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے مال کا ذکر کیا ہے۔ ان تبتغوا باموالکم اور مال میں کچھ تو ہونا چاہیے۔ کم ازکم دس درہم کی چوریر ہو تو چورکو قطع ید کی سزا دی جاتی ہے۔ نیز ایک روایت میں صراحتاً بھی آتا ہے لامھر اقل من عشرۃ دراھم یعنی دس درہم سے کم مہر نہیں۔ لہٰذا مہر کی کم ازکم مقدار دس درہم ہے۔ نکاح میں مہر اگرچہ فرض ہے مگر بوقت نکاح اس کا تذکرہ ضروری نہیں۔ نکاح ایجاب و قبول کا نام ہے ، لہٰذا جابنین کی رضا مندی سے مہر کے بغیر بھی نکاح ہوجاتا ہے ، تاہم اسے یہاں میاں بیوی بعد میں بھی مقرر کرکے لے دے سکتے ہیں۔ مقررہ مہر میں کمی بیشی کی بھی اجازت ہے اگر زیادہ مقرر کای ہے تو باہمی رضا مندی سے کم بھی کیا جاسکتا ہے۔ یا کم ہے تو اسے زیادہ بھی کیا جاسکتا ہے تاہم احناب کے مطابق مہر کی کم ازکم مقدار دس درہم ہونی چاہیے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وزن کے حساب سے ایک درہم تین ماشہ ایک رتی کی برابر ہوتا ہے ، اس لحاظ سے دس درہم ساڑھے اکتیس ماشے بنتے ہیں۔ ایک توبہ بارہ ماشے کا ہے۔ لہٰذا مہر کی کم ازکم مقدار دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی کے برابر ہوئی۔ چاندی کے موجودہ بازاری نرخ کے مطابق اتنی چاندی کی قیمت ایک سو ساٹھ پینسٹھ روپے بنتی ہے۔ لہٰذا فقہ حنفی کے مطابق کم ازکم مہر کی مقدار یہ ہے البتہ زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اس زمانے میں بتیس روپے کو شرعی حق مہر سمجھا جاتا ہے جو کہ درست نہیں۔ ہر زمانے میں چاندی کے نرخ میں کمی بیشی سے مہر کا تعین سکہ رائج الوقت کے مطابق کیا جاسکتا ہے جو کہ ساڑھے اکتیس ماشے چاندی کی قیمت کے برابر ہونا چاہیے۔ اگر کسی نکاح میں اس سے کم مہر مقرر ہوا ہو تو اسے بعد میں پورا کرلینا چاہیے۔ صدقہ کا معنی اس آیت کریمہ میں مہر کے لیے صدقتھن کا لفظ استعمال ہوا ہے صدقات جمع کا صیغہ ہے اور اس کا واحد صدقۃ ہے جس کا معنی حق مہر ہے۔ محض اعراب کے فرق سے ایک لفظ صدقۃ ہے جس کا معنی صدقہ خیرات ہے اس کی جمع صدقات آتی ہے جو شخص صدقہ خیرات کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بری موت سے بچاتا ہے۔ صدقہ سے اچھی عاقبت کی امید ہوتی ہے اگر صدقۃ کی دال پرسکون آجائے تو اس کا معنی سختی ہوتا ہے عربی شاعر نے اپنے شاعر میں اس لفظ کو یوں استمال کیا ہے ؎ ولنا قناۃ من ردینۃ صدقۃ زوارہ کذلک حاملھا ازور ہمارے ردینی نیزے بڑے مضبوط اور ٹیڑھے ہی جو کسی کے قابو میں نہیں آتے۔ ان کے اٹھانے والے بھی بڑے ٹیڑھے لوگ ہیں۔ تحفہ کا معنی یہاں پر تحفظ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جس کا لغوی معنی عطیہ ہے عطیہ چونکہ اپنی خوشی سے دیا جاتا ہے ، اس لیے اس آیت میں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ عورتوں کے مہر خوشی خاطر سے ادا کردو وحدیث شریف میں آتا ہے مانحل والد والدہ کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اس سے اچھا عطیہ نہیں دیا کہ وہ اسے اچھا ادب سکھادے۔ حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ بشیر ؓ کی دو بیویاں تھیں دونوں سے الگ الگ اولاد تھی۔ ان میں سینعمان کی ماں نے اپنے خاوند سے فرمائش کی کہ وہ فلاں غلام اس کے بیٹے نعمان کو دے دے۔ اور اس ہبہ کا گواہ حضور ﷺ کو بنائے۔ چناچہ بشیر ؓ نے یہ قصہ نبی (علیہ السلام) کی خدمت میں بیان کیا اور کہا کہ میں نے یہ غلام نعمان کو دے دے ہے آپ گواہ بن جائیں تاکہ میری بیوی کو اطمینان حاصل ہوجائے۔ آپ نے پوچھا اکل ولدک نحلسہ مثل ھذا کیا تو نے باقی اولاد کو بھی ایسا ہی عطہ دیا ہے۔ جیسا کہ نعمان کو دیا ہے تو اس نے عرض کیا ، حضور ! ایسا تو نہیں ہے ، اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، جائو کسی اور کو گواہ بنائو میں اس ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔ آپ نے مزید فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ تمہاری ساری اولاد نیکی میں برابر رہے۔ عرض کیا ہاں فرمایا ساری اولاد میں صرف ایک بیٹے کو دینا زیادتی ہے یا تو دونوں بیویوں کی ساری اولاد کو ایسا غلام دو یا اس کو بھی واپس لے لو۔ غرض یہ پر نحلہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مہرکی ادائیگی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واتو النساء وصدقتھن بحلۃ اور دے ڈالو عورتوں کو ان کے مہر خوشی خاطر سے یعنی جو مہر مقرر ہوگیا ہے اسے خوش دلی سے ادا کرو اسے بوجھ نہ سمجھو۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے زکوۃ اور قربانی کے متعلق بھی فرمایا کہ ان کو تاوان نہ سمجھو۔ یہ عبادت ہے اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے لہٰذا طیبوا بھا نفسا یہ تمہارے ذمہ لازم ہے۔ اسے خوشی سے ادا کیا کرو ، مہر بھی ایک قسم کا عطیہ ہے جو کسی چیز کا معاوضہ نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ کسی چیز کی بیع ہے بلکہ بیوی کے ساتھ دب کوئی اور احسان کا معاملہ ہے۔ مہر ادا کرنے سے انسان عورت کے اعضائے مستورہ کا مالک نہیں بن جاتا۔ البتہ عقد نکاح کی وجہ سے اسے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے۔ بہرحال اللہ نے عورتوں کے حق میں یہ مہر مقرر کیا ہے۔ اسے خوش دلی سے ادا کرنا چاہیے یہ معاشرت کے اعتبار سے بھی ضروری ہے۔ مہر کی ادائیگی کے لیے معجل اور موجل دونوں صورتیں روا ہیں۔ یہ فوراً بھی ادا ہوسکتا ہے اور موخر بھی کیا جاسکتا ہے۔ مہرکا کچھ حصہ فوری اور کچھ حصہ بعد میں عندالطلب بھی ادا ہوسکتا ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ پورا مہر فوراً ادا کردیا جائے۔ بہت بڑا مہر مقرر کرکے زندگی بھر ادا نہ کرنا بڑی غلط بات ہے۔ یہ حقوق العباد کا مسئلہ ہے اور مقرر مہر ادا نہ کرنے کی صورت میں قیامت کے دن مواخذہ ہوگا۔ مہر بمطابق حیثیت مہر کے تقرر میں مبالغہ آرائی سے منع فرمایا گیا ہے۔ حضرت عمر ؓ کا قول ہے لاتقالو فی الصدقات لوگو ! مہر کے معاملہ میں مبالغہ آرائی نہ کرو۔ اگر مہر کی زیادتی عزت کا باعث ہوتی تو اللہ تعالیٰ یقینا پیغمبر (علیہ السلام) کو حکم دیتا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کریں۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کا حق مہر پانچ سو درہم سے زیادہ مقرر نہیں کیا۔ ماسوائے ام المومنین ام حبیبہ ؓ کے کہ ان کا نکاح حبشہ میں نجاشی نے کرایا تھا اور چار ہزار درہم مہر اپنی طرف سے ادا کیا تھا۔ بہرحال اگرچہ شریعت میں اس کی تحدید نہیں کی گئی مگر حد سے زیادہ مہر مقرر نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ بانبین کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ مہر زیادہ مقرر کرکے ادا نہ کرنا قیامت کو قابل مواخذہ ہے مہر بھی ایک قرض ہے لہٰذا اگر کوئی شخص بغیر ادا کیے مرگیا تو اس کے ترکہ میں سے دیگر قرض کی طرح ادا کیا جائے گا۔ وصیت پوری کی جائیگی اور پھر باقی مال حصہ داروں میں تقسیم ہوگا۔ مہر عورت کا مالی حق ہے اسی لیے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر عورت مہر کی وصولی سے قبل مرد کی قربت سے انکارکردے ، تو اس کو اختیار ہے بہرحال مہر حیثیت کے مطابق ہوناچاہیے۔ دس ، بیس یا پچاس ہزار روپے مہرمقرر کرنا جب کہ خاوند کی حثیت دو ہزار روپے کی بھی نہ ہو ، مناسب نہیں اور مرد پر خواہ مخواہ بوجھ ڈالنے والی بات ہے اس سے اعراض کرنا چاہیے۔ مہر کی معافی ہاںٖ ! اگر عورت خود برض اور غبت معاف کردے تو اس کو اجازت ہے فرمایا فان طبن لکم عن شیئی منہ نفسا یعنی اگر عورتیں تمہیں کسی چیز سے خوش کردیں۔ اپنی خوشی سے مقرر مہر میں سے آدھا ، چوتھائی دوتہائی یا کم وبیش معاف کردیں تو یہ تمہارے لیے جائز ہے۔ عورت کو حق حاصل ہے کہ چاہے تو سارے کا سارا مہر بھی خاوند کو ہبہ کردے اس کو ابراء کہتے ہیں۔ مگر عورت کو معاف کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح آپ دنیوی قانون سے تو بچ سکتے ہیں مگر اللہ کے ہاں معاف نہیں ہوگا اس معاملہ میں عورت پر نہ دبائو ڈالنا چاہیے اور نہ اسے الجھانا چاہیے وہ ازخود سارا یا کچھ حصہ معاف کردے تو اس صورت میں فرمایا فلکوہ پس اس کو کھائو ، کھانے سے مراد محض کھانا ہی نہیں بلکہ استعمال کرنا ہے۔ کیونکہ عورت نے جو چیز معاف کی ہے وہ ضروری نہیں کہ کھانے والی چیز ہی ہو۔ مثلاً زیور ، مکان زمین یا کارخانہ ہے تو وہ استعمال میں ہی آئے گا۔ اکل کا لفظ ان معنوں میں بیشتر مقامات پر استعمال ہوا ہے جیسے لاتاکلو الربو سود نہ کھائو لاتاکلو اموالکم بینکم بالباطل آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مست کھائو۔ الغرض فرمایا کہ اگر عورت مہر معاف کردے تو پھر تم وہ چیز اپنے تصرف میں لاسکتے ہو۔ ہمارے ملک میں بعض احکام شریعت رواج کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ عام طور پر عورتوں کو مکان یا زمین میں سے وراثت کا حصہ نہیں دیا جاتا۔ ان سے رسمی طور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر وہ باپ کی وراثت کے مکان یا زمین وغیرہ سے حصہ لینا چاہیں تو لے سکتی ہیں۔ وہ بھیرواج کے مطابق کہتی ہیں کہ نہیں بھائیوں کے پاس رہنے دو ۔ مہر کا مسئلہ کچھ ایسا ہی ہے۔ عورت سے کہہ دیا لینا ہے یا معاف کرنا ہے ، وہ بھی خاندان کے روبرو کہہ دیتی ہے کہ معاف کیا اگرچہ وہ دل سے راضی نہ ہو۔ یہ درست نہیں ہے۔ عورت کا حصہ وراثت سے ہو یا مہر ہو ، اسے پہلے ادا کرنا چاہیے اگر کوئی غیرمنقولہ جائیداد ہے اس کے نام رجسٹری کراناچاہیے۔ وہ اپنی ملکیت میں آنے کے بعد اگر خوشی سے واپس کرنا چاہے تو کردے۔ مگر بغیر ادا کیے ہی معاف کرالینا اس پر دبائو ڈالنے کے مترادف ہے۔ مہر کا تصرف جب مہر ادا کردیاجائے تو عورت اس کی مالک بن جاتی ہے لہٰذ اسے اس مال میں مکمل تصرف حاصل ہوتا ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر اس کے سرپرست بھی تصرف نہیں کرسکتے بعض آئمہ کرام تو یہ فرماتے ہیں کہ کم سن یا دوشیزہ لڑکی کا ولی اس کی ملکیت میں تصرف کرسکتا ہے مگر یہ بات درست نہیں۔ مہر کی مالکہ خواہ باکرہ ہو ثیبہ کم سن ہو یا عمر رسیدہ اسے مہررپ مکمل تصرف حاصل ہے اور اس کا یہ حق ضائع نہیں ہوناچاہیے۔ عورت مہرکیرقم کسی دوسرے رشتہ دار کو دے سکتی ہے۔ صدقہ خیرات کرسکتی ، اپنی ذات پر استعمال کرسکتی ہے اور اس کا کل یا جزو معاف بھی کرسکتی ہے۔ خوشگوار خوش ہضم فرمایا پس کھائو ھنیا خوشگوار مریا خوش ہضم مقصد یہ ہے کہ جو چیز تمہیں معاف کردی گئی ہے۔ اسے خوب مزے سیکھاسکتے ہو یا بلا جھجک استعمال کرسکتے ہو۔ چونکہ پہلے فلکوا آیا ہے لہٰذا اس نسبت سے ھنیاً مریاً آیا ہے ۔ شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) اس کا ترجمہ کرتے ہیں۔ کھائو اس کو رچتا بچتا عربی میں مرد الطعام اس کھانے کو کہتے ہیں جو ہضم ہو کر جزو بدن بن جائے۔ خوراک بننے اور ہضم ہونے میں کسی قسم کی دقت نہ ہو۔ الغرض فرمایا کہ معافی کی صورت میں تم مہر کا مال استعمال کرسکتے ہو۔
Top