Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 4
وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً١ؕ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًا
وَاٰتُوا
: اور دے دو
النِّسَآءَ
: عورتیں
صَدُقٰتِهِنَّ
: ان کے مہر
نِحْلَةٍ
: خوشی سے
فَاِنْ
: پھر اگر
طِبْنَ
: خوشی سے چھوڑ دیں
لَكُمْ
: تم کو
عَنْ شَيْءٍ
: کچھ
مِّنْهُ
: اس سے
نَفْسًا
: دل سے
فَكُلُوْهُ
: تو اسے کھاؤ
هَنِيْٓئًا مَّرِيْئً
: مزیدار، خوشگوار
اور دے ڈالو عورتوں کو ان کے مہر خوشی وخاطر سے اور اگر وہ خوش کرلیں تمہارے بےدل کو اس میں سے کسی چیز سے پھر تم اس کو کھائو خوش گوار اور خوش ہضم
رابطہ آیات ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے انسانی حقوق خصوصاً رشتہ داروں کے حقوق کی حفاظت کا حکم دیا۔ پھر یتیموں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ان کے مال مت کھائو ، یتیم لڑکیوں کے ساتھ ناانصافی سے منع فرمایا۔ اور ارشاد فرمایا کہ اگر تم یتیم لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی صورت میں ان سے حق و انصاف نہ کرسکو تو پھر ان کی بجائے دوسری عورتوں سے نکاح کرو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کسی ایک مرد کے لیے نکاح کی چار عورتوں تک تحدید کردی اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ تم سب بیویوں سے یکساں سلوک کرسکو۔ تعدد ازواج کی محض اجازت دی ہ کے اسے لازم قرار نہیں دیا نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر انصاف کو قائم نہ کر سوک تو پھر صرف ایک نکاح پر اکتفا کرو۔ البتہ لونڈیوں سے بغیر نکاح کے مستفید ہونے کا تذکرہ فرمایا۔ مہر کی اہمیت آج کی آیت بھی نکاح ہی سے متعلق ایک اہم مسئلہ مہر کے بارے میں ہے اللہ تعالیٰ نے نکاح میں مقرر کردہ مہر کو خوشظ دلی سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ حکم ہر نکاح کے ضمن میں ہے۔ خواہ یتیم لڑکی سے ہوا ہو یا عام عورت سے ، مہر سے متعلق بعض مسائل سورة بقرہ میں بھی بیان ہوچکے ہیں۔ اور کچھ ارشادات سورة احزاب میں بھی آئیں گے۔ اس سورة میں اس آیت کے علاوہ آگے جہاں محرمات نکاح کا ذکر آتا ہے۔ وہاں بھی مہر کا تذکرہ ہے۔ محرمات میں مائوں ، بیٹیوں ، بہنوں ، پھوپھیوں ، خالائوں ، بھتیجوں اور بھانجیوں وغیرہ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کے علاوہ تمہیں دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت ہے مگر ان تبتغوا باموالکم یعنی نکاح میں مال ضرورخرچ کرنا ہوگا اور اس سے مراد خاص طور پر حق مہر کی ادائیگی ہے ایک اور جگہ پر فرمایا قد علمنا ما فرضنا علیھم ہم جانتے ہیں دو چیزیں جو ہم نے مردوں پر فرض قرار دی ہیں اور فرائض میں سے مہر بھی ایک فرض ہے۔ مہرکانصاب مہر کے نصاب کے متعلق فقہائے کرام میں تھوڑا سا اختلاف پایاجاتا ہے امام شافعی (رح) اور بعض دیگر ائمہ کرام فرماتے ہیں کہ قلیل تر چیز بھی مہربن سکتی ہے۔ حتی کہ مٹھی بھر کھجوریں ، لوہے کی انگوٹھی ، ایک آنہ ، دو پیسے وغیرہ بھی مہر مقرر ہوسکتا ہے بشرطیکہ عورت اس پر رضا مند ہو۔ تاہم امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ مہر کی کم ازکم مقدار دس درہم کے برابر ہونی چاہیے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مہر کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے مال کا ذکر کیا ہے۔ ان تبتغوا باموالکم اور مال میں کچھ تو ہونا چاہیے۔ کم ازکم دس درہم کی چوریر ہو تو چورکو قطع ید کی سزا دی جاتی ہے۔ نیز ایک روایت میں صراحتاً بھی آتا ہے لامھر اقل من عشرۃ دراھم یعنی دس درہم سے کم مہر نہیں۔ لہٰذا مہر کی کم ازکم مقدار دس درہم ہے۔ نکاح میں مہر اگرچہ فرض ہے مگر بوقت نکاح اس کا تذکرہ ضروری نہیں۔ نکاح ایجاب و قبول کا نام ہے ، لہٰذا جابنین کی رضا مندی سے مہر کے بغیر بھی نکاح ہوجاتا ہے ، تاہم اسے یہاں میاں بیوی بعد میں بھی مقرر کرکے لے دے سکتے ہیں۔ مقررہ مہر میں کمی بیشی کی بھی اجازت ہے اگر زیادہ مقرر کای ہے تو باہمی رضا مندی سے کم بھی کیا جاسکتا ہے۔ یا کم ہے تو اسے زیادہ بھی کیا جاسکتا ہے تاہم احناب کے مطابق مہر کی کم ازکم مقدار دس درہم ہونی چاہیے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وزن کے حساب سے ایک درہم تین ماشہ ایک رتی کی برابر ہوتا ہے ، اس لحاظ سے دس درہم ساڑھے اکتیس ماشے بنتے ہیں۔ ایک توبہ بارہ ماشے کا ہے۔ لہٰذا مہر کی کم ازکم مقدار دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی کے برابر ہوئی۔ چاندی کے موجودہ بازاری نرخ کے مطابق اتنی چاندی کی قیمت ایک سو ساٹھ پینسٹھ روپے بنتی ہے۔ لہٰذا فقہ حنفی کے مطابق کم ازکم مہر کی مقدار یہ ہے البتہ زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اس زمانے میں بتیس روپے کو شرعی حق مہر سمجھا جاتا ہے جو کہ درست نہیں۔ ہر زمانے میں چاندی کے نرخ میں کمی بیشی سے مہر کا تعین سکہ رائج الوقت کے مطابق کیا جاسکتا ہے جو کہ ساڑھے اکتیس ماشے چاندی کی قیمت کے برابر ہونا چاہیے۔ اگر کسی نکاح میں اس سے کم مہر مقرر ہوا ہو تو اسے بعد میں پورا کرلینا چاہیے۔ صدقہ کا معنی اس آیت کریمہ میں مہر کے لیے صدقتھن کا لفظ استعمال ہوا ہے صدقات جمع کا صیغہ ہے اور اس کا واحد صدقۃ ہے جس کا معنی حق مہر ہے۔ محض اعراب کے فرق سے ایک لفظ صدقۃ ہے جس کا معنی صدقہ خیرات ہے اس کی جمع صدقات آتی ہے جو شخص صدقہ خیرات کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بری موت سے بچاتا ہے۔ صدقہ سے اچھی عاقبت کی امید ہوتی ہے اگر صدقۃ کی دال پرسکون آجائے تو اس کا معنی سختی ہوتا ہے عربی شاعر نے اپنے شاعر میں اس لفظ کو یوں استمال کیا ہے ؎ ولنا قناۃ من ردینۃ صدقۃ زوارہ کذلک حاملھا ازور ہمارے ردینی نیزے بڑے مضبوط اور ٹیڑھے ہی جو کسی کے قابو میں نہیں آتے۔ ان کے اٹھانے والے بھی بڑے ٹیڑھے لوگ ہیں۔ تحفہ کا معنی یہاں پر تحفظ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جس کا لغوی معنی عطیہ ہے عطیہ چونکہ اپنی خوشی سے دیا جاتا ہے ، اس لیے اس آیت میں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ عورتوں کے مہر خوشی خاطر سے ادا کردو وحدیث شریف میں آتا ہے مانحل والد والدہ کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اس سے اچھا عطیہ نہیں دیا کہ وہ اسے اچھا ادب سکھادے۔ حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ بشیر ؓ کی دو بیویاں تھیں دونوں سے الگ الگ اولاد تھی۔ ان میں سینعمان کی ماں نے اپنے خاوند سے فرمائش کی کہ وہ فلاں غلام اس کے بیٹے نعمان کو دے دے۔ اور اس ہبہ کا گواہ حضور ﷺ کو بنائے۔ چناچہ بشیر ؓ نے یہ قصہ نبی (علیہ السلام) کی خدمت میں بیان کیا اور کہا کہ میں نے یہ غلام نعمان کو دے دے ہے آپ گواہ بن جائیں تاکہ میری بیوی کو اطمینان حاصل ہوجائے۔ آپ نے پوچھا اکل ولدک نحلسہ مثل ھذا کیا تو نے باقی اولاد کو بھی ایسا ہی عطہ دیا ہے۔ جیسا کہ نعمان کو دیا ہے تو اس نے عرض کیا ، حضور ! ایسا تو نہیں ہے ، اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، جائو کسی اور کو گواہ بنائو میں اس ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔ آپ نے مزید فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ تمہاری ساری اولاد نیکی میں برابر رہے۔ عرض کیا ہاں فرمایا ساری اولاد میں صرف ایک بیٹے کو دینا زیادتی ہے یا تو دونوں بیویوں کی ساری اولاد کو ایسا غلام دو یا اس کو بھی واپس لے لو۔ غرض یہ پر نحلہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مہرکی ادائیگی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واتو النساء وصدقتھن بحلۃ اور دے ڈالو عورتوں کو ان کے مہر خوشی خاطر سے یعنی جو مہر مقرر ہوگیا ہے اسے خوش دلی سے ادا کرو اسے بوجھ نہ سمجھو۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے زکوۃ اور قربانی کے متعلق بھی فرمایا کہ ان کو تاوان نہ سمجھو۔ یہ عبادت ہے اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے لہٰذا طیبوا بھا نفسا یہ تمہارے ذمہ لازم ہے۔ اسے خوشی سے ادا کیا کرو ، مہر بھی ایک قسم کا عطیہ ہے جو کسی چیز کا معاوضہ نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ کسی چیز کی بیع ہے بلکہ بیوی کے ساتھ دب کوئی اور احسان کا معاملہ ہے۔ مہر ادا کرنے سے انسان عورت کے اعضائے مستورہ کا مالک نہیں بن جاتا۔ البتہ عقد نکاح کی وجہ سے اسے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے۔ بہرحال اللہ نے عورتوں کے حق میں یہ مہر مقرر کیا ہے۔ اسے خوش دلی سے ادا کرنا چاہیے یہ معاشرت کے اعتبار سے بھی ضروری ہے۔ مہر کی ادائیگی کے لیے معجل اور موجل دونوں صورتیں روا ہیں۔ یہ فوراً بھی ادا ہوسکتا ہے اور موخر بھی کیا جاسکتا ہے۔ مہرکا کچھ حصہ فوری اور کچھ حصہ بعد میں عندالطلب بھی ادا ہوسکتا ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ پورا مہر فوراً ادا کردیا جائے۔ بہت بڑا مہر مقرر کرکے زندگی بھر ادا نہ کرنا بڑی غلط بات ہے۔ یہ حقوق العباد کا مسئلہ ہے اور مقرر مہر ادا نہ کرنے کی صورت میں قیامت کے دن مواخذہ ہوگا۔ مہر بمطابق حیثیت مہر کے تقرر میں مبالغہ آرائی سے منع فرمایا گیا ہے۔ حضرت عمر ؓ کا قول ہے لاتقالو فی الصدقات لوگو ! مہر کے معاملہ میں مبالغہ آرائی نہ کرو۔ اگر مہر کی زیادتی عزت کا باعث ہوتی تو اللہ تعالیٰ یقینا پیغمبر (علیہ السلام) کو حکم دیتا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کریں۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کا حق مہر پانچ سو درہم سے زیادہ مقرر نہیں کیا۔ ماسوائے ام المومنین ام حبیبہ ؓ کے کہ ان کا نکاح حبشہ میں نجاشی نے کرایا تھا اور چار ہزار درہم مہر اپنی طرف سے ادا کیا تھا۔ بہرحال اگرچہ شریعت میں اس کی تحدید نہیں کی گئی مگر حد سے زیادہ مہر مقرر نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ بانبین کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ مہر زیادہ مقرر کرکے ادا نہ کرنا قیامت کو قابل مواخذہ ہے مہر بھی ایک قرض ہے لہٰذا اگر کوئی شخص بغیر ادا کیے مرگیا تو اس کے ترکہ میں سے دیگر قرض کی طرح ادا کیا جائے گا۔ وصیت پوری کی جائیگی اور پھر باقی مال حصہ داروں میں تقسیم ہوگا۔ مہر عورت کا مالی حق ہے اسی لیے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر عورت مہر کی وصولی سے قبل مرد کی قربت سے انکارکردے ، تو اس کو اختیار ہے بہرحال مہر حیثیت کے مطابق ہوناچاہیے۔ دس ، بیس یا پچاس ہزار روپے مہرمقرر کرنا جب کہ خاوند کی حثیت دو ہزار روپے کی بھی نہ ہو ، مناسب نہیں اور مرد پر خواہ مخواہ بوجھ ڈالنے والی بات ہے اس سے اعراض کرنا چاہیے۔ مہر کی معافی ہاںٖ ! اگر عورت خود برض اور غبت معاف کردے تو اس کو اجازت ہے فرمایا فان طبن لکم عن شیئی منہ نفسا یعنی اگر عورتیں تمہیں کسی چیز سے خوش کردیں۔ اپنی خوشی سے مقرر مہر میں سے آدھا ، چوتھائی دوتہائی یا کم وبیش معاف کردیں تو یہ تمہارے لیے جائز ہے۔ عورت کو حق حاصل ہے کہ چاہے تو سارے کا سارا مہر بھی خاوند کو ہبہ کردے اس کو ابراء کہتے ہیں۔ مگر عورت کو معاف کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح آپ دنیوی قانون سے تو بچ سکتے ہیں مگر اللہ کے ہاں معاف نہیں ہوگا اس معاملہ میں عورت پر نہ دبائو ڈالنا چاہیے اور نہ اسے الجھانا چاہیے وہ ازخود سارا یا کچھ حصہ معاف کردے تو اس صورت میں فرمایا فلکوہ پس اس کو کھائو ، کھانے سے مراد محض کھانا ہی نہیں بلکہ استعمال کرنا ہے۔ کیونکہ عورت نے جو چیز معاف کی ہے وہ ضروری نہیں کہ کھانے والی چیز ہی ہو۔ مثلاً زیور ، مکان زمین یا کارخانہ ہے تو وہ استعمال میں ہی آئے گا۔ اکل کا لفظ ان معنوں میں بیشتر مقامات پر استعمال ہوا ہے جیسے لاتاکلو الربو سود نہ کھائو لاتاکلو اموالکم بینکم بالباطل آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مست کھائو۔ الغرض فرمایا کہ اگر عورت مہر معاف کردے تو پھر تم وہ چیز اپنے تصرف میں لاسکتے ہو۔ ہمارے ملک میں بعض احکام شریعت رواج کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ عام طور پر عورتوں کو مکان یا زمین میں سے وراثت کا حصہ نہیں دیا جاتا۔ ان سے رسمی طور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر وہ باپ کی وراثت کے مکان یا زمین وغیرہ سے حصہ لینا چاہیں تو لے سکتی ہیں۔ وہ بھیرواج کے مطابق کہتی ہیں کہ نہیں بھائیوں کے پاس رہنے دو ۔ مہر کا مسئلہ کچھ ایسا ہی ہے۔ عورت سے کہہ دیا لینا ہے یا معاف کرنا ہے ، وہ بھی خاندان کے روبرو کہہ دیتی ہے کہ معاف کیا اگرچہ وہ دل سے راضی نہ ہو۔ یہ درست نہیں ہے۔ عورت کا حصہ وراثت سے ہو یا مہر ہو ، اسے پہلے ادا کرنا چاہیے اگر کوئی غیرمنقولہ جائیداد ہے اس کے نام رجسٹری کراناچاہیے۔ وہ اپنی ملکیت میں آنے کے بعد اگر خوشی سے واپس کرنا چاہے تو کردے۔ مگر بغیر ادا کیے ہی معاف کرالینا اس پر دبائو ڈالنے کے مترادف ہے۔ مہر کا تصرف جب مہر ادا کردیاجائے تو عورت اس کی مالک بن جاتی ہے لہٰذ اسے اس مال میں مکمل تصرف حاصل ہوتا ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر اس کے سرپرست بھی تصرف نہیں کرسکتے بعض آئمہ کرام تو یہ فرماتے ہیں کہ کم سن یا دوشیزہ لڑکی کا ولی اس کی ملکیت میں تصرف کرسکتا ہے مگر یہ بات درست نہیں۔ مہر کی مالکہ خواہ باکرہ ہو ثیبہ کم سن ہو یا عمر رسیدہ اسے مہررپ مکمل تصرف حاصل ہے اور اس کا یہ حق ضائع نہیں ہوناچاہیے۔ عورت مہرکیرقم کسی دوسرے رشتہ دار کو دے سکتی ہے۔ صدقہ خیرات کرسکتی ، اپنی ذات پر استعمال کرسکتی ہے اور اس کا کل یا جزو معاف بھی کرسکتی ہے۔ خوشگوار خوش ہضم فرمایا پس کھائو ھنیا خوشگوار مریا خوش ہضم مقصد یہ ہے کہ جو چیز تمہیں معاف کردی گئی ہے۔ اسے خوب مزے سیکھاسکتے ہو یا بلا جھجک استعمال کرسکتے ہو۔ چونکہ پہلے فلکوا آیا ہے لہٰذا اس نسبت سے ھنیاً مریاً آیا ہے ۔ شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) اس کا ترجمہ کرتے ہیں۔ کھائو اس کو رچتا بچتا عربی میں مرد الطعام اس کھانے کو کہتے ہیں جو ہضم ہو کر جزو بدن بن جائے۔ خوراک بننے اور ہضم ہونے میں کسی قسم کی دقت نہ ہو۔ الغرض فرمایا کہ معافی کی صورت میں تم مہر کا مال استعمال کرسکتے ہو۔
Top