Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور نہ دوبیوقویوں کو اپنے مال جو کہ اللہ نے تمہارے لیے قیام اور گزران کا ذریعہ بنائے ہیں اور ان کو کھلاتے رہو ان مالوں سے اور پہناتے رہو اور کہو ان سے معقول بات
ربط آیات انسان کی تخلیق اور اس کے اجتماعی حقوق کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے مال کھانے سے منع فرمایا نیز یہ کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ ناانصافی مت کرو اگر تم ان کے حقوق ادا نہ کرسکتے ، مقررمہر نہیں دے سکتے اور ان کے ساتھ معاشرتی سلوک بھی نہیں کرپاتے تو پھر ان کی ساتھ نکاح نہ کرو ، بلکہ ان کے بجائے دوسری عورتوں سے نکاح کروجو تم کو پسند ہوں۔ اس کے بعدتعدد ازواج کا مسئلہ بھی بیان فرمادیا اور یہ بھی واضح کردیا کہ زیادہ عورتوں کی صورت میں اگر تم ان کے درمیان انصاف نہ کر سوکو تو پھر ایک ہی نکاح کافی ہے اس سے زیادہ مت کرو ، البتہ تم اپنی مملوکہ لونڈیوں سے بغیر نکاح کے استفادہ حاصل کرسکتے ہو۔ اگلی آیت میں اللہ نے یہ تلقین فرمائی کہ عورتوں کے مہرخوش دلی سے اداکرو۔ یہ تمہارے ذمہ ان کا حق ہے۔ اگر وہ اپنی خوشی سے مہر کا کچھ حصہ یا پورے کا پورا معاف کردیں یاعطیہ دے دیں یا وصول ہی نہ کریں تو وہ تمہارے لیے حلال طیب ہے اسے کھا سکتے ہو استعمال میں لاسکتے ہو۔ ابتدائے سورة سے لے کر دس آیتوں تک یتیموں کے متعلق ہی احکام آرہے ہیں۔ اس کے بعد وراثت کے مسائل بیان ہوں گے۔ مال کی حفاظت یتیموں کے اموال اور عورتوں کے صر کی ادائیگی کے سلسلے میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ کیا یہ رقوم ہر حالت میں متعلقین کی تحویل میں دے دی جائیں خواہ وہ اس کی حفاظت کے اہل ہوں یا نہ ہوں ؟ یتیموں کے مال کی ادائیگی کے وقت کا بیان تو اگلی آیت میں آرہا ہے ، تاہم درمیان میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً مال کے متعلق فرمایا ولا توتوا السفھا اموالکم بیوقوفوں کو اپنے مال نہ سپرد کرو۔ رضائے جمع ہے سفیہ کی اور سفیہ بےعقل یا بیوقوف شخص کو کہا جاتا ہے ۔ ایسا انسان جو اپنے نفع نقصان کو نہیں سمجھ سکتا۔ پہلے پارے کے آخری رکوع میں آتا ہے۔ ومن یرغب عن ملۃ ابراھیم الا من سفہ نفسہ یعنی ملت ابراہیمی س وہی شخص اعراض کرے گا جس نے اپنے آپ کو بےقوف بنالیا۔ کوئی دانا اور سمجھ دار آدمی ایسی غلط بات نہیں کرسکتا اور اب اس آیت میں ارشاد ہے کہ اپنے مال بےعقلوں یا بیوقوفوں کے سپردنہ کرو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ مفسر قرآن فرماتے ہیں کہ یہاں پر بےقوفوں سے مراد عورتیں اور بچے ہیں۔ اور منشائے ایزدی یہ ہے کہ لوگو ! اپنی موجودگی میں اپنا مال ومتاع اپنے بیوی بچوں کے سپرد نہ کر بیٹھو۔ عورتیں فطر تاً کم عقل ہوتی ہیں اور بچے نادان ہوتے ہیں اگر تم اپنی زندگی میں مال تقسیم کرکے خود فارغ ہو کر بیٹھ جائو گے تو یہ تمہارے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔ تم خود مالک تھے ، عورتوں اور بچوں کے کفیل تھے مگر اب مال تقسیم کرکے خود ان پر بوجھ بن جائو گے۔ اسی لیے وراثت یا مال کی تقسیم زندگی میں کردینا پسندیدہ فعل نہیں ہے۔ فقہائے کرام ، محدثین اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس قسم کی تقسیم انسان کے مرنے کے بعد ہی ہونی چاہیے اور اس کا مفصل فکر آگے اسی سورة میں آرہا ہے۔ غرض یہ کہ فرمایا بےقوفوں کو اپنے مال نہ دو التی جعل اللہ لکم قیما وہ مال جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قیام اور گزر ان کا ذریعہ بنایا ہے مقصد یہ ہے کہ جو مال تمہارے پاس جائز ذرائع سے پہنچا ہے ، وراثت سے حصہ ملا ہے ، تجارت کی ہے ، مزدوری وغیرہ کی ہے اور تمہارے گزر اوقات کا انحصار اسی پر ہے تو اسے بیوقوفوں کے سپرد کرکے ضائع نہ کرلو۔ وہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے اس کی حفاظت نہیں کرسکتے جس کا نتیجہ یہ ہوگا۔ کہ تم مال سے محروم ہو کر مشکلات کا شکار ہوجائو گے۔ مال کا حسن وقبح قرآن پاک میں اس بات کا کثرت سے تذکرہ آتا ہے کہ اکثر مالدار لوگ سرکشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور لوگوں کے حقوق ادا نہیں کرتے۔ جب مال کی محبت حد سے بڑھ جاتی ہے تو حلال و حرام کی تمیز اٹھ جاتی ہے اور پھر انسان وجمع فاوعی کا مصداق بن جاتا ہے۔ و ہ ہر وقت مال جمع کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے اور پھر جب بہت سا مال جمع ہوجاتا ہے تو اس پر فخر کرنے لگتا ہے۔ مشرکین اور دیگر فرمان لوگ یہی کہتے تھے۔ نحن اکثر اموالا واولادًہمارے پاس مال بھی بہت ہے اور ہمارے نوجوان بیٹے بھی ہیں ، ہمیں کس بات کی پرواہ ہے۔ اللہ کے باغی یہاں تک کہہ دیتے ہیں وما نحن بمعذبین ہم کچھ بھی کرتے رہیں ہم عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مقصد یہ کہ مال کی وجہ سے ہی بعض اوقات انسان خدا تعالیٰ کا باغی ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مال کے ایک دوسرے پہلو کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے انما اموالکم واولادکم فتنۃ بیشک تمہارے مال اور اولاد تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ مال واولاد کے ذریعے انسان اور تقرب الٰہی حاصل نہیں کرسکتا ، اس کے لیے تو ایمان اور عمل صالح کی ضرورت ہے مگر مال واولاد کے ذریعہ اللہ تعالیٰ آزمائش کرتا ہے کہ ان نعمتوں کے حاصل ہونے پر وہ اللہ کا مزید شکر گزار بندہ بنتا ہے یا اس کا باغی بن جاتا ہے۔ جائز طریقے سے کمایا ہوا مال تو بلاشبہ نعمت الٰہی ہے مگر ناجائز طریقے سے حاصل کردہ یہی مال انسان کے لیے وبال جان ہے اگلے جہان میں اسے اس کا حساب چکانا ہوگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے نعم المال للرجل الصالح مال اچھی چیز ہے۔ لیکن نیک انسان کے لیے اور نیک وہی ہوگا۔ جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور قیامت پر ایمان رکھتے ہوئے سب سے پہلے اللہ کا حق اداکرے اور پھر اس کے عطا کردہ مال میں سے مخلوق کا حق ادا کرے ، وہی اچھا ساتھی ہے ۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ مال اس شخص کے لیے اچھا ہے لمن ادی حق اللہ جو اللہ کا حق ادا کرتا ہے اور بندوں کا حق بھی ادا کرتا ہے۔ اگر ایسا نہیں کرتا ، تو وہی مال انسان کے لیے سرکشی اور اکڑ کا باعث بنے گا۔ حضرت ابوذرغفاری ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ ان سے کسی نے دریافت کیا کہ انہیں بیت المال سے کچھ وظیفہ ملتا ہے کیا وہ قبول کرلیں ؟ سائل کو شبہ تھا کہ بیت المال کے مال میں ایسا مال نہ ہو کہ کسی کے ساتھ زیادتی کرکے حاصل کیا گیا ہو۔ آپ نے فرمایا کہ یہ مال لے لیا کرو۔ جب کہ یہ تمہارے لیے زندگی میں باعث اعانت ہو۔ البتہ یاد رکھو اذاکان ثمناً لدینکجب یہی مال تمہارے دین کی قیمت بن جائے۔ یعنی بیت المال کے عمال اس وظیفے کے بدلے تم سے کوئی خلاف شروع کام لینا چاہئیں۔ فدعہ پھر اس کو چھوڑ دو ۔ یہ حرام ہے۔ ملکیت اور تصرف حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا یہ ارشاد ہے کہ عورتیں اور بچے بےسمجھ ہوتے ہیں اس لیے مال ان کے سپرد مت کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں مال کی ملکیت حاصل ہونے سے روک رکھو ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ مال کے مالک تو وہی ہوں گے مگر انہیں اس میں تصرف سے روکو کہ کہیں غلط تصرف سے مال کو ضائع نہ کردیں۔ اگر عورتوں کو مال پر مکمل تصرف حاصل ہوگا تو وہ اسے فیشن اور دیگر فضول کاموں پر خرچ کریں گی۔ اور اگر مال بچوں کے ہاتھ میں آگیا تو وہ کھیل تماشے پتنگ بازی ، آتش بازی وغیرہ میں اڑادیں گے لہٰذا انہیں بھی مال پر مکمل کنٹرول نہ دو ۔ بعض لوگ قیمتی مال کو رسومات باطلہ پر ضائع کردیتے ہیں یا پھر بدعات پر خرچ کر ڈالتے ہیں ، قبروں کی پختگی ، ان پر گنبدوں کی تعمیر ، چادر پوشی ، قوالی اور چڑھاوے کی نذر کردیتے ہیں۔ یہ سب ب سمجھی کی باتیں ہیں۔ شادی اور غمی کی فضول رسومال مال کا خواہ مخواہ ضیاع ہے اور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں نہیں آنا چاہیے جو اسراف کے مرتکب ہوں۔ مشکوۃ شریف میں حضرت سفیان ثوری (رح) کی روایت موجود ہے الحال لایحتمل سرفاً یعنی حلال مال اسراف کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی لاتسرفواً فضول خرچی نہ کرو۔ دوسرے مقام پر فرمایا ان المیذ دین کانواخوان الشطین فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں۔ بلاوجہ تقریبات کا اہتمام چراغاں ، قمقمہ بازی ، جھنڈیاں بےتحاشا کھانے ، سب فضول خرچی میں داخل ہیں۔ جو کوئی مال کو غلط مقام پر خرچ کرے گا قیامت کے دن مواخذے میں آئے گا۔ اسی لیے فرمایا کہ مال کو بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو۔ یہ تمہارے لیے ذریعہ گزران ہے ، غلط ہاتھوں میں دے کر اسے ضائع نہ کرو۔ فرمایا مال کو اپنے پاس رکھو ، اس پر اپنا تصرف قائم رکھو مگر کسی کا حق ضائع نہ کرو۔ بیوی بچے تمہاری کفالت میں ہیں تو ان کی جائز ضروریات پوری کرو وارزقوھم فیھا اس مال میں سے ان کی خوراک کا بندوبست کرو۔ واکسوھم انہیں بھی پہنائو۔ مگر فضول کاموں کے لیے مال مت دو ۔ مسلم شریف کی روایت میں حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے نھی عن اضاعۃ المال حضور نے مال کے ضیاع سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا مال کو ضائع نہ کرو بلکہ اس کی حفاظت کرو اور جائز امور پر خرچ کرو۔ دعا کی نامقبولیت امام شافعی (رح) نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے تین قسم کے آدمی ایسے ہیں جن کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ فرمایا پہلی قسم کا شخص وہ ہے جس کی عورت بدکار ہے نہ وہ اسے برائی سے رو سکتا ہے اور نہ علیحدہ کرتا ہے ایسے شخص کو چاہیے کہ ایسی عورت کو اپنے پاس نہ رکھے۔ اگر عورت تائب ہوجائے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے طلاق دے۔ فرمایا جو ایسا نہیں کرتا وہ دیوث ہے اور اس کی دعا مستجاب نہیں ہوتی۔ حضور ﷺ نے فرمایا دوسرا شخص جس کی دعا قبول نہیں ہوتی ، وہ ہے جو اپنا مال بیوقوف کے سپرد کردیتا ہے جو اسے ضائع کردیتا ہے یہ شخص گنہگار ہوگا اور اس کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔ فرمایا تیسرا آدمی وہ ہے جو قرض دیتا ہے مگر اس پر گواہ نہیں بناتا۔ اس کوتاہی کی وجہ سے اکثر جھگڑے پیدا ہوتے ہیں جن کی نوبت قتل وغارتگری تک پہنچتی ہے۔ مقدمات قائم ہوتے ہیں۔ اور لوگ سخت پریشان ہوتے ہیں فرمایا ایسے شخص کی دعا بھی مستجاب نہیں ہوتی۔ خوش کلامی فرمایا عورتوں اور بچوں کو کھلائو اور پہنائو۔ ان کی ضروریات زندگی پوری کرو ، انہیں تنگ نہ کرو۔ ضرورت کے مطابق خرچہ بھی ادا کرو مگر مال ان کے تصرف میں نہ دوکر ضائع کردیں گے ، البتہ وقولوا لھم قولاً معروفاً انہیں دستور کے مطابق اچھی بات کہو۔ ان کو سمجھا دو کہ یہ مال تمہارا ہی ہے مگر ہم اس کی حفاظت کریں گے ، اسے ضیائع سے بچائیں گے ، تجارت میں لگا کر منافع حاصل کریں گے اور تمہیں اس سے فائدہ ہوگا۔ اگر تم مال کو کھیل تماشے میں ضائع کردو گے تو خالی ہاتھ رہ جائو گے۔ غرض یہ کہ ان سے اچھی بات کہو کہ ان کی دل شکنی بھی نہ ہو اور مال بھی بچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے ۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے وہ مدت بیان فرمائی ہے جب یتامیٰ اس عمر کو پہنچ جائیں کہ ان کا مال ان کے حوالے کیا جاسکے۔ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
Top