Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 77
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَةً١ۚ وَ قَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ١ۚ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍ١ؕ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ١ۚ وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى١۫ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قِيْلَ : کہا گیا لَھُمْ : ان کو كُفُّوْٓا : روک لو اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتُوا : اور ادا کرو الزَّكٰوةَ : زکوۃ فَلَمَّا : پھر جب كُتِبَ عَلَيْهِمُ : ان پر فرض ہوا الْقِتَالُ : لڑنا (جہاد) اِذَا : ناگہاں (تو) فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان میں سے يَخْشَوْنَ : ڈرتے ہیں النَّاسَ : لوگ كَخَشْيَةِ : جیسے ڈر اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَشَدَّ : زیادہ خَشْيَةً : ڈر وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب لِمَ كَتَبْتَ : تونے کیوں لکھا عَلَيْنَا : ہم پر الْقِتَالَ : لڑنا (جہاد) لَوْ : کیوں لَآ اَخَّرْتَنَآ : نہ ہمیں ڈھیل دی اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : مدت قَرِيْبٍ : تھوڑی قُلْ : کہ دیں مَتَاعُ : فائدہ الدُّنْيَا : دنیا قَلِيْلٌ : تھوڑا وَالْاٰخِرَةُ : اور آخرت خَيْرٌ : بہتر لِّمَنِ اتَّقٰى : پرہیزگار کے لیے وَ : اور لَا تُظْلَمُوْنَ : نہ تم پر ظلم ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
کیا نہیں دیکھا آپ نے ان لوگوں کو کہ ان سے کہا گیا کہ روکو اپنے ہاتھوں کو اور قائم کرو نماز کو اور دیتے رہو زکوٰۃ پس جب فرض کی گئی ان پر لڑائی ، تو اچانک ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو ڈرتے ہیں لوگوں سے ، جیسا کہ اللہ سے ڈرنا ہوتا ہے یا اس سے بھی زیادہ ڈر۔ اور ان لوگوں نے کہا ، اے ہمارے پروردگار ! تو نے کیوں فرض قرار دے دیا ہے ہمارے اوپر لڑائی کو۔ کیوں نہیں تو نے موخر کیا ہمیں تھوڑی مدت تک۔ اے پیغمبر ! آپ کو دیجیے ، فائدہ دنیا کا بہت تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ڈرتا ہے ، اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا ایک دھاگے کے برابر بھی
ربط آیات یہآیات بھی جہاد ہی سے متعلق ہیں اور یہ سلسلہ اس سورة مبارکہ میں دور تک چلا جائے گا۔ گزشتہ رکوع کی ابتداء میں اہل ایمان کو اپنے دفاع کی تلقین کی گئی تھی اور حکم دیا گیا تھا کہ موقع کی مناسبت سے گروہوں کی شکل میں حملہ کرو یا یکبارگی پوری قوت میدان میں لے آؤ ، دشمنکا مقابلہ بہرحال کرنا ہے ، پھر جہاد سے اعراض کرنے والوں کا تذکرہ فرمایا کہ منافق لوگ حیلے بہانے سے جہاد میں شرکت سے گریز کرتے ہیں۔ اسبابِ قتال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا ایک مقصد تو اللہ کے دین کو غالب کرنا اور دوسرا مظلوموں کو ظلم سے نجات دلانا ہے۔ اس کے بعد جہاد کی غرض وغایت بیان فرمائی کہ اہل ایمان کے راستے میں ، اس کے دین کے قیام اور اسے غالب بنانے کے لیے جنگ کرتے ہیں۔ برخلاف اس کے کافر ، مشرک ، منکرِ دین و توحید شیطان کے راستے میں لڑتے ہیں وہ دنیا میں شیطانی پروگرام کو غالب کرنا چاہتے ہیں۔ ملوکیت یا ڈکٹیٹر شپ اسی طاغوتی پروگرام کا حصہ ہے۔ شیطانی پروگرام اللہ کے دین کی بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرنا چاہتا ہے جن کی بنیاد ملک گیری ، نسل پرستی ، زبان یا علاقائیت پر ہوتی ہے اور مقصود مال و دولت ، اقتدار اور شہرت ہوتی ہے۔ مسلمان صرف خدا کے دین کی بلندی کے لیے جہاد کرتا ہے اس کے پیش نظر ہمیشہ کلمۃ اللہ ہی العلیا ہوتا ہے۔ فتنہء و فساد کی بیخ کنی اور مظلوموں کی مدد اس کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ یہی عظیم مقصد انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کے مقاصد میں بھی داخل ہے۔ بہرحال وہاں پر جہاد کی ترغیب اور اس راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اور آج کی آیات میں جہاد کے مبادی کا ذکر کیا گیا ہے۔ جہاد کی عدم اجازت مکی زندگی کے تیر ، چودہ سال اہل ایمان کو لڑائی کرنے کی اجازت نہیں تھی ، کیونکہ اس وقت مسلمان کمزور تھے اور ایسی حالت میں طاقتور دشمن سے مقابلہ مناسب حال نہیں تھا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے الم تر کیا نہیں دیکھا تم نے اے مخاطب ! یہ بات بعض گزشتہ دروس میں بھی بیان ہوچکی ہے کہ ہیاں دیکھنے سے مراد رؤیت بصری نہیں بلکہ رویت قلبی ہے جس کی بنیاد علم پر ہوتی ہے۔ امام ابن جریر (رح) اور بعض دوسرے اہل لغت نے بھی یہی فرمایا ہے کہ رؤیت ہمیشہ چشم دید ہی نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات یہ علمی رؤیت بھی ہوتا ہے۔ اس کی کئی ایک مثالیں پہلے بھی گزر چکی ہے اور آئندہ بھی قرآن پاک میں آتی رہیں گی جیسے ” الم تر الی الذینخرجوا من دیارہم “ (سورۃ بقرہ) یا سورة فجر میں یوں آتا ہے ” الم ترکیف فعل ربک بعادٍ سورة فیل میں بھی ہے ” الم ترکیف فعل ربک باصحب الفیل “ اسی طرح اس آیت میں بھی الم تر کا لفظ ہے اور مقصد ان تمام کا رویت قلبی ، یا ردیت علمی ہے نہ کہ عینی مشاہدہ بہرحال فرمایا کیا آپ نے نہیں دیکھا الی الذین قیل لہم ان لوگوں کی طرف کہ جن کو کہا گیا کفوا ایدیکم اپنے ہاتھ روک لو۔ ابھی دشمن کے مقابلے میں ہاتھ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ مکی دور میں ایمان والوں کو بڑی بڑی تکالیف برداشت کرنا پڑیں ، و ہ ان مصائب سے تنگ آ کر دشمنان دین سے ٹکرا جانا چاہتے تھے مگر اللہ نے فرمایا کہ ابھی قتال کی اجازت نہیں ہے ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے فرمایا کہ اس امت میں میں اولین شخص ہوں جس نے ایک کافر پر ہاتھ اٹھایا۔ واقعہ یوں ہوا کہ حضور ﷺ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کسی درے میں نماز ادا کرر ہے ہیں کہ ایک کافر کو علم ہوگیا ، وہ نماز کی حالت میں ہی مسلمانوں پر حملہ آور ہونا چاہتا تھا ، حضرت سعد ؓ کے قریب ہی اونٹ کے جبڑے کی ہڈی پڑی تھی۔ آپ نے اٹھا کر کافر کے سر پر دے ماری جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ تاہم مکہ کے قیام کے دوران صبرو تحمل ہی کی تلقین کی جا رہی تھی۔ مسلمانوں پر عرصہء حیات تنگ کیا جا رہا تھا۔ انہیں دو دفعہ ہجرت پر بھی مجبور کیا گیا ، ان مہاجرین میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی شامل تھے ، مگر جلد ہی واپس آگئے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہاتھ روک رکھے تھے اور اس کے لیے مناسب موقع کا انتظار تھا۔ ابتدائی تربیت کسی انقلابی پروگرام کو عملی جامہ پہنچانے کے لیے تربیت یافتہ جماعت کی تشکیل ضروری ہے۔ تربیت کے بغیر کام شروع کرنے سے کامیابی کے امکان روشن نہیں ہوتے۔ مکی دور میں اگرچہ مسلمان ظلم و ستم کانشانہ بن رہے تھے اور وہ کفار کا مقابلہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ انہیں میدان جنگ میں لانے سے پیشتر ان کی تربیت کرنا چاہتا تھا تاکہ جس وقت اصل مقصد کی طرف رجوع کریں تو انہیں ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے تربیت کے لیے یہ دو اصول بتائے واقیموالصلوٰۃ واتوا الذکوٰۃ یعنی نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ گویا یہ تمہارا تربیتی نصاب ہے جب ان پر کار بند ہوجاؤ گے تو تمہارے اندر ایک تربیت یافتہ جماعت تیار ہوجائے گی جو دشمن سے ٹکر لے سکے گی۔ سورة مزمل مکی زندگی کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے وہاں بھی یہی بات سمجھائی گئی ہے ” قم الیل کہ آپ رات کو اٹھ کر نماز پڑھا کریں تاکہ ابتدائی تربیت مکمل ہو سکے۔ جب یہ تربیت مکمل ہوجائیگی تو پھر جنگ کرنے کی اجازت بھی دیدی جائے گی۔ ساتھ یہ بھی فرمایا لا الہ الا ہو فاتخذہ وکیلاً معبود برحق اللہ کی ذات ہے اور اسی کو کارساز پکڑو تاہم اس کے ساتھ ساتھ ظاہری اسباب و علل کی بھی ضرورت ہے۔ سامان ضرب و حرب کبھی اکٹھا کرنا ہوگا ، تاکہ دشمن پر بھرپور وار کیا جاسکے۔ اور اس ضمن میں فرمایا ” خذوا حذرکم “ اپنے دفاع کا سامان کرلو ” واعدوا لہم ما استطعتم من قوۃ “ بھی فرمایا کہ پوری طاقت کے ساتھ دشمن کے مقابلے کے لیے تیار ہوجاؤ ۔ بہرحال مکی زندگی میں مسلمانوں کو تربیت پر ہی زور دیا گیا۔ عام مادی زندگی میں تربیت سے مراد فوجی تربیت ہوتی ہے۔ جس کا اہتمام دنیا کے تمام ممالک اپنی فوج کے لیے کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اولین تربیت یا ٹریننگ وردی پہن کر خاص قسم کی ورزش یا پریڈ کرنا ہوتا ہے اس کے ساتھ اسلحہ کے استعمال کی ٹریننگ ہوتی ہے مگر اس ٹریننگ کے ذریعے نہ تو تعلق باللہ پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی مظلوم کو ظلم سے نجات دلانے کا جذبہ۔ جب تک یہ دو چیزیں کسی قوم میں نہیں پائی جائیں گی امن کا قیام ممکن نہیں۔ امریکہ اور روس جیسی بڑی طاقتیں دنیا میں امن قائم کیوں نہیں کرسکیں ؟ وجہ یہی ہے کہ ان کے تربیتی پروگرام میں وہ چیزیں شامل ہی نہیں جو امن وامان کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ ان سے قیام امن کی امید محض عبث ہے۔ یہ لوگ تربیت کے لیے لاکھ کالج اور یونیورسٹیاں بنا لیں ، فوج جمع کر کے اسلحہ کے انبار لگا لیں ، مگر قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ قرآن پاک کی اصطلاح میں یہ غیر مہذب لوگ ہیں ، کیونکہ اللہ کے نزدیک مہذب وہ قوم اور جماعت ہوگی جو اس کے مقرر کردہ تربیتی نصاب کا کورس مکمل کریگی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نماز قائم کرو ، اس کے ذریعے تعلق باللہ قائم ہوگا اور پھر زکوٰۃ دو کہ اس کے ذریعے تمہارے اندر مستحقین کے لیے جذبہ ہمدردی پیدا ہوگا۔ جب تم یہ تربیت مکمل کرلو گے ، تو پھر اس قابل ہوجاؤ گے کہ دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ کر کے اللہ کے دین کو غالب کر دو اور مظلوم کو ظلم سے نجات دلا دو ۔ ان دو اصولوں کے بغیر انسانی ہمدردی پیدا نہیں ہو سکتی ، دنیا میں شرو فساد کا بازار گرم رہیگا ، بدکاری اور عیاشی ہوگی اور نسل بگڑے گی ، لہٰذا اللہ کے دین کے قیام اور دنیا میں امن وامان کے دور دورہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ تربیت کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ بہرحال مسلمانوں کی مکی زندگی ان کیل یے تربیتی دور تھا تاکہ ابتدائی ٹریننگ حاصل کر کے جماعت المسلمین کو مضبوط بنایا جاسکے جو آگے چل کر دین کے غلبہ کے لیے عملی قدم اٹھا سکے۔ نماز ام العبادات نماز انسان کی بدنی عبادت اور جامع العبادات ہے۔ نماز کو ام العبادات المقربہ الی اللہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ کا قرب دلانے والی عبادات کی جڑ اور بنیاد ہے یہ جماعت میں اتحاد فکر پیدا کرتی ہے مسلمانوں کو تنظیم اور ڈسپلن کا درس دیتی ہے۔ یہی نماز اجتماعیت ، مساوات طہارت اور انسانی ہمدردی سکھاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة حاقہ میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن جب مواخذہ ہوگا ، تو نافرمانوں سے پوچھا جائیگا کہ تم دوزخ میں کیسے پہنچے ہو ، تو وہ کہیں گے۔ ” انہ کان لایومن باللہ العظیم ولا یحض علی طعام المسکین “ پہلی بات تو یہ کہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں تھا۔ اگر ایمان مضبوط ہوتا تو نماز ادا کرتا۔ اور دوسری بات یہ کہ مساکین کو خود کھانا کھلانا تو کجا کسی کو کھلانے کی ترغیب بھی نہیں دیتا تھا۔ گویا خدا کا بھی دشمن اور انسانی سوسائٹی کا بھی دشمن۔ سورة مدثر میں بھی اسی قسم کے الفاظ آتے ہیں کہ جب اہل جنت مجرمین سے پوچھیں گے کہ تم دوزخ میں کس طرح آگئے تو وہ کہیں گے ” لمنک من المصلین “ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے ” و لم نک نطعم المسکین “ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ بہرحال نماز ایک بنیادی عبادت اور اہل ایمان کی اولین تربیت کا ایک حصہ ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد عمر بھر نماز ادا نہیں کرتی۔ دس بیس سال گزر جاتے ہیں مگر نماز کا خیال تک نہیں آتا۔ دنیا کے باقی تمام امور شان و شوکت سے انجام دیے جاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے حق کی پروا نہیں کی جاتی۔ نجات تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ، اگر ایمان موجود ہے تو ہو سکتا ہے کہ نجات حاصل ہوجائے مگر مجرم اور باغی ہونے میں تو کوئی شک نہیں۔ نماز تعلق باللہ کی استواری کا بہترین ذریعہ ہے انسان اس کے بغیر طہارت پر قائم نہیں رہ سکتا۔ جب کوئی شخص نماز میں مناجات کرتا ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے ، تو گویا اللہ تعالیٰ کی صفت کے ساتھ مل جاتا ہے۔ اسی لیے نماز میں قرآن پاک پڑھنے کا ثواب سب سے زیادہ ہے۔ نماز کے علاوہ قرآن پاک پڑھنے کا ثواب صدقہ خیرات سے بھی زیادہ ہے بلکہ نفلی روزے سے بھی تلاوت کا ثواب زیادہ ہے۔ قرآن پاک ایک ورد بھی ہے اور ہمارا مکمل پروگرام بھی۔ اس لحاظ سے نماز کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی تربیت کا دوسرا جزو زکوٰۃ کی ادائیگی ہے۔ یہ مکی دور کے ابتداء میں ہی فرض ہوگئی تھی مگر اس کا نصاب مدنی زندگی کے دوسرے سال میں مقرر ہوا۔ مکی زندگی میں زکوٰۃ کی ادائیگی صرف اس حد تک تھی کہ اپنے مال کا کچھ حصہ غرباء و مساکین اور دیگر نیکی کے کاموں پر خرچ کیا جائے۔ مالی عبادات میں سے زکوٰۃ اہم ترین عبادت ہے۔ کیونکہ یہ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق مطلوب ہے تو اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنا بھی لازم ہے۔ اس لیے مالی عبادات میں زکوٰۃ سرفہرست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة توبہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ اگر یہ لوگ کفر شرک سے تائب ہو کر ایمان میں داخل ہوجائیں تو پھر ان کو دو لحاظ سے پرکھاجائے گا فان تابوا اگر وہ توبہ کرلیں ” واقاموا الصلوٰۃ واتوالزکوۃ فاخوانکم فی الدین “ اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ یہ بھی فرمایا ” فخلوا سبیہم “ پھر ان کا راستہ چھوڑ دو ۔ یہ اب تمہارے بھائی ہیں۔ اب یہ تمہاری سوسائٹی کے رکن ہیں۔ انکی جان و مال محفوظ ہے مقصد یہ کہ نماز اور زکوٰۃ ایمان لانے کی ظاہری علامات ہیں۔ انہیں علاماتِ فارقہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہی کے ذریعے مسلم اور غیر مسلم میں امتیاز کیا جاسکتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے ذریعے انسان کو دو فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس میں پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ انسان کی اپنی تہذیب نفس ہوتی ہے۔ روحانی پاکیزگی اور طہارت حاصل ہوتی ہے۔ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے ” لن تنالوا البرحتی تنفقوا مما تحبون “ اپنی بہترین اور پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہی اصل نیکی ہے اس سے بخل جیسی رذیل خصلت دفع ہوتی ہے بخت بہت بری بیماری ہے حضور ﷺ نے فرمایا 1 ؎ مسند احمد ص 308 ج 3 وکنزالعمال ص 257 ج 3 (فیاض) ای داء ادواء من البخل بخل سے بڑھ کر کونسی روحانی بیماری ہے۔ جو اس سے بچ گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ فرمایا ” ومن یوق شح نفسہ فاولیک ہم المفلحون فرمایا تہذیب نفس کے لیے زکوٰۃ کی ادائیگی نہایت ضروری ہے۔ کوئی انسان محض اچھے لباس ، اچھے مکان اچھی سواری کے ذریعہ شائستہ اور مہذب نہیں بن جاتا بلکہ مہذب وہ ہے جسے شریعت مہذب قرار دے دے۔ اور وہ ایسا شخص ہے جس کے دل و دماغ میں رذائل کی جگہ پاکیزہ خصائل پیدا ہوجائیں اور یہ چیز زکوٰۃ کی ادائیگی سے بطریق احسن حاصل ہوجاتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کا دوسرابڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک انسان کا تعلق دوسرے انسان کے ساتھ درست ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مال دار کے مال میں یتیم ، مسکین اور نادار کا حق رکھا ہے۔ فرمایا ” فی اموالہم حقٌ معلوم للسائل والمحروم “ جب تک اس حق کو ادا نہیں کرے گا ، اللہ کے ہاں مجرم تصور ہوگا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ تہذیب نفس اور انسانی ہمدردی زکوٰۃ کے دو بڑے فوائد ہیں مگر آج مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ شادیوں پر لاکھوں روپے اڑا دیں گے۔ اپنی نام و نمود کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ مگر اللہ کی مقرر کردہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے لیت و لعل کرتے ہیں۔ لڑائی سے اعراض مکی دور میں ایسے ایماندار بھی موجود تھے۔ جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر ان کے خلاف جہاد کرنے پر بھی آمادہ تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے روک دیا۔ کیونکہ ” قدجعل اللہ لکل شیئٍ قدراً “ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے ، لہٰذا قبل از وقت کوئی کام انجام دینا مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا۔ پھر جب مسلمانوں کی ابتدائی تربیت مکمل ہوگئی ، ایک مضبوط جماعت تیار ہوگئی جو دشمن سے ٹکر لے سکے۔ تو پھر فلما کتب علیہم القتال مدنی دور میں جب ان پر لڑائی فرض کردی گئی۔ اذا فریقٌ منہم یخشون الناس کخشیۃ اللہ تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے اواشد خشیۃ یا اللہ کے خوف سے بھی زیادہ ڈرتا ہے مقصد یہ کہ اب جب کہ لڑائی لازمی قرار دے دی گئی ہے تو ایک فریق کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسا گروہ ہے جو جہاد سے گریز کر رہا ہے۔ منافقین کے متعلق تو پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ جہاد کا اعلان ان پر گراں گزرتا تھا اور وہ ہر حیلے بہانے سے اس میں شرکت سے گریز کرتے تھے ابھی پچھلے رکوع میں گزر چکا ہے ” وان منکم لمن لیبطن “ تم میں سے ایسے بھی ہیں جو پیھچے رہ جاتے ہیں یا تاخیر کرتے ہیں کیونکہ وہ جہاد میں شرکت پر آمادہ نہیں ہوتے۔ تاہم اکثر مفسرین کرام جن میں امام ابو منصورما تریدی (رح) اور صاحب معالم التنزیل بھی شامل ہیں ، فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جس فریق کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے مراد کمزور ایمان والے لوگ ہیں اگرچہ وہ منافق نہیں مگر ان پر لڑائی گراں گزرتی ہے وقالوا ربنا لم کتبت علینا القتال اور وہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہم پر لڑائی کیوں فرض کردی ہے۔ زبان سے ایسا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دل سے لڑائی کو بُرا نہیں سمجھتے بلکہ اس کی مشکلات کو دیکھ کر خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور ان کی زبان سے بےساختہ اس قسم کے الفاظ نکل جاتے ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ جہاد پر ان کا اعتقاد ہی نہیں رہا ، تو انہوں نے ایک فرض کا انکار کردیا اور مجرمین کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ بعض اوقات بات زبان تک بھی نہیں آتی بلکہ محض دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں کہ شاید ہم دشمن کا مقابلہ نہ کرسکیں اور مغلوب ہوجائیں یا مارے جائیں اسے حدیث نفس کہتے ہیں۔ اور یہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے۔ تاہم ایسی باتوں کو جی میں نہیں لانا چاہیے۔ پھر وہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں لولا اخرتنا الی اجلٍ قریبٍ اے اللہ ! ہمیں کچھ مزید مہلت دے دی ہوتی تاکہ ہمیں دشمن سے مقابلہ نہ کرنا پڑتا کیونکہ اس میں مال و جان کا ضیاع ہے۔ دنیا بمقابلہ آخرت لوگوں کے اس قسم کے خیالات کے متعلق حکم ہوا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے متاع الدنیا قلیلٌ دنیا کی زندگی کا فائدہ تو بالکل تھوڑا ہے۔ یہ زندگی کتنی لمبی ہو سکتی ہے ، دس ، بیس ، پچاس یا سو سال ، اسے آخر کار ایک دن ختم ہونا ہے۔ تم زندگی کے اس معمولی سے فائدے کی خاطرآخرت کے اجر عظیم سے محروم ہونا چاہیے ہو۔ یاد رکھو ! والاحدۃ خیر لمن السقی خدا تعالیٰ سے خوف کھانے والے ، کفر ، شرک اور معصیت سے بچنے والے کے لیے آخرت ہے اسے اس دنیا کی کچھ پروا نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ جسے آخرت میں بہتری حاصل ہوگئی ، اسے ابدی راحت نصیب ہوگئی۔ ولا تظلمون فتیلاً اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائیگا۔ ایمان اور جہاد کا پورا پورا بدلہ دیاجائے گا ، اس لیے تم جہاد سے روگردانی کر کے اپنے اجر میں کمی کیوں کرتے ہو۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہ بات لطیف پیرائے میں بتا دی ہے کہ دل میں برے وسوسے نہ آنے دو ۔ اگرچہ ان کا مؤاخذہ نہیں ہے ، پھر بھی حتی الامکان ان کو قریب نہ پھٹکنے دو ، بلکہ جہاد پر کمربستہ ہو کر اللہ کی دائمی رحمت میں داخل ہوجاؤ ۔ موت سے مفر نہیں آگے فرمایا ، یہ دنیا کی زندگی بالکل عارضی ہے۔ یہ بہرطور ختم ہونے والی ہے۔ این ماتکونوا یدرککم الموت تم جہاں بھی ہو گے موت تمہیں پا لے گی اور تم اس سے بچ نہیں سکتے۔ گزشتہ سورة میں بھی گزر چکا ہے کہ اگر تم لڑائی میں شامل نہ بھی ہو تو تمہارے پاس کیا گارنٹی ہے کہ تم ہمیشہ زندہ رہو گے۔ ہو سکتا ہے کہ جنگ میں شریک ہونے والوں سے پہلے تمہیں موت آجائے۔ جس چیز سے انسان بھاگتا ہے وہی اس کے پیش آتی ہے۔ موت کا فرشتہ تو بہرصورت پہنچ جائے گا ولو کنتم فی بروجٍ مشیدۃٍ اگرچہ تم مضبوط اور مستحکم قلعوں میں کیوں نہ بند ہوجاؤ ۔ حضرت مولانا انور شاہ صاحب کاش میری (رح) فرماتے ہیں مضبوط دیواریں اور قلعے فرشتوں کے سامنے ہوا میں اڑنے والے پرندوں کی مانند ہیں۔ جس طرح پرندوں کو ہوا چیرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی اسی طرح ملک الموت اور دوسرے فرشتے بلا روک ہر مقام پر پہنچ جاتے ہیں لہٰذا تمہیں موت سے ہرگز خوف نہیں کھانا چاہیے اور جہاد کے لیے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیے۔
Top