Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 69
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِیْمَ كُنْتُمْ١ؕ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ قَالُوْۤا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِیْهَا١ؕ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًاۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو تَوَفّٰىھُمُ : ان کی جان نکالتے ہیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے ظَالِمِيْٓ : ظلم کرتے تھے اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں فِيْمَ : کس (حال) میں كُنْتُمْ : تم تھے قَالُوْا كُنَّا : وہ کہتے ہیں ہم تھے مُسْتَضْعَفِيْنَ : بےبس فِي : میں الْاَرْضِ : زمین (ملک) قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اَلَمْ تَكُنْ : کیا نہ تھی اَرْضُ : زمین اللّٰهِ : اللہ وَاسِعَةً : وسیع فَتُھَاجِرُوْا : پس تم ہجرت کر جاتے فِيْھَا : اس میں فَاُولٰٓئِكَ : سو یہ لوگ مَاْوٰىھُمْ : ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَسَآءَتْ : اور برا ہے مَصِيْرًا : پہنچے کی جگہ
بیشک وہ لوگ جن کو فرشتے وفات دیتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنی جانوں پر زیادتی کرتے ہیں (فرشتے) کہتے ہیں کہ تم کس بات میں تھے۔ وہ کہتے ہیں ، ہم زمین میں کمزور تھے (فرشتے) کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے۔ پس یہی لوگ ہیں کہ جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بُری جگہ ہے لوٹنے کی
ہجرت کی فرضیت گزشتہ درس میں مجاہدین اور قاعدین کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا اور مجاہدین کی فضیلت اور اجر عظیم کا ذکر تھا۔ اب جہاد کے ساتھ ساتھ ہجرت کی ضرورت اور اس کی فرضیت کا تذکرہ ہے۔ اور بوقت ضرورت ہجرت نہ کرنے والوں کی سزا کا بیان ہے جس طرح بعض حالات میں جہاد فرض کفایہ سیفرض عین بن جاتا ہے اسی طرح بعض اوقات ہجرت بھی فرض عین کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے جب کسی مقام میں کفار کو اس قدر غلبہ حاصل ہوجائے کہ مومن اپنے دین کے شعار پر عمل نہ کرسکے ، تو مومن پر فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے گھر بار ، کاروبار ، وطن ، عزیز و اقارب وغیرہ کو اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جائے جہاں وہ دین کے احکام پر آسانی سے عمل پیرا ہو سکے۔ چناچہ مکہ مکرمہ میں ایسے حالات پیدا ہوچکے تھے کہ کفار نہ تو مسلمان کو نماز پڑھنے دیتے تھے۔ اور نہ ہی اسلام کے کسی دیگر شعار کو انجام دینے کی اجازت دیتے ۔ اس کے علاوہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلّم اور آپ کے متبعین کو طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے۔ ان حالات میں اہل اسلام نے مکہ سے ہجرت کر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ چناچہ نبوت کے چھٹے سال مسلمانوں کا ایک گروہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا۔ وہ سنتے تھے کہ حبشہ کا بادشاہ رحم دل ہے اور وہ تعرض نہیں کرے گا اس لیے امید کرتے تھے کہ وہاں جا کر مسلمان سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ اس کے بعد پھر دوسرا قافلہ بھی حبشہ چلا گیا ، مگر وہاں جا کر بھی اسلام کی پوری طرح آبیاری نہ ہوسکی۔ آخر مکی دور کے تقریباً تیرہ سال پورے ہونے پر اللہ عتالیٰ کا حکم آ گیا کہ پیغمبر (علیہ السلام) اور آپ کے ماننے والے مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ اس حکم کی تعمیل میں کئی جماعتیں مدینہ منورہ روانہ ہوئیں اور پھر خود حضور ﷺ بھی حضرت صدیق اکبر ؓ کی معیت میں مدینہ پہنچ گئے آپ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور وقتاً فوقتاً چھوٹی چھوٹی جماعتیں مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچتی رہیں۔ اس طرح جس آدمی کو موقع ملتا وہ کفار کے حصار کو توڑ کر مدینہ منورہ پہنچ جاتا۔ اور اس طرح کفار کے ظلم و ستم سے بچ جاتا۔ حضرت عمر ؓ نے حضو ر (علیہ السلام) سے پہلے بیس آدمیوں کی جماعت کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ کوتاہی کی سزا جب ہجرت فرض ہوجاتی ہے تو پھر صاحب استطاعت کو دارالکفر میں ٹھہرے رہنے کی اجازت نہیں ہوتی اور اگر وہ جان بوجھ کر بلاعذر ہجرت نہیں کرتا تو جہنم کا مستحق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں سخت وعید فرمائی ہے۔ البتہ بعض کمزور طبقوں کو ہجرت سے اس بناء پر مستثناء قرار دیا گیا ہے۔ کہ سفرہ جرت ان کے بس میں نہیں ہوتا بعض جسمانی طور پر اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ سواری پر بھی سفر نہیں کرسکتے۔ بعض کے پاس زاد راہ نہیں ہوتا اور بعض راستے سے ناواقف ہوتے ہیں اور اس معاملہ میں انہیں کسی کا تعاون بھی حاصل نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ معذور سمجھے جاتے ہیں اور عنداللہ ماخوذ نہیں ہوتے بہرحال بلاعذر ہجرت سے گریز کرنے والوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ان الذین توفہم الملئکۃ بیشک وہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں ان حالات میں ظالمی انفسہم کہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہوں۔ توفی کا معنی کسی چیز کو پورے طریقے سے قبض کرلینا ہوتا ہے۔ یہ لفظ موت پر بھی بولا جاتا ہے اور اس کے بعض دیگر معانی بھی ہیں۔ اپنی جانوں پر ظلم کا مطلب یہ ہے کہ ان پر ہجرت فرض ہوچکی تھی۔ مگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے عاید کردہ فرائض مثلاً نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ وغیرہ ادا نہیں کرتا ، وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔ اسی طرح ہجرت بھی فرض تھی مگر اس فرض کو انجام نہ دینے والا ظالموں کی فہرست میں آ گیا۔ تو فرمایا اس قسم کے مجرم لوگوں کی جب فرشتے روح قبض کرتے ہیں قالوا فیم کنتم تو ان سے کہتی ہیں ، تم کس حال میں تھے۔ تم پر ہجرت فرض ہوچکی تھی ، مگر تم نے دارالکفر کو کیوں نہ چھوڑا۔ تو وہ لوگ جواب دیتے ہیں قالوا کنا مستضعفین فی الارض ہم زمین میں کمزور خیال کیے جاتے تھے۔ فرشتے پھر سوال کرتے ہیں قالوا الم تکن ارض اللہ و اسعۃً گیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی فتھاجروا فیھا کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے۔ یہ درست ہے کہ تم کفار کے مقابلے میں کمزور تھے مگر کیا چلنے پھرنے سے بھی معذور تھے۔ تم میں اتنی ہمت تو تھی کہ اس مقام سے چلے جاتے ، پھر تم نے اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت کیوں نہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا فاولیک ماوہم جہنم کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے وساء ت مصیراً اور وہ لوٹ کر جانے کی بہت بُری جگہ ہے غرضیکہ فرض عین کے ہر تارک کے لیے یہی حکم ہے۔ معذوروں کے لیے رعایت فرمایا اس حکم سے یہ لوگ مستثنا ہیں الا المستضعفین من الرجال والنساء والولدان مردوں ، عورتوں اور بچوں میں سے کمزور طبقہ ، بعض اتنے معمر ہوتے ہیں کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوتے ہیں اور بعض عورتوں بچوں کے ساتھ جانے والا کوئی نہیں ہوتا یا راستے کا علم نہیں ہوتا فرمایا لایسطیعون حیلۃً ایسے کمزور لوگ ہجرت کر جانے کی کوئی تدبیر نہیں پاتے۔ ان کے پاس ہجرت کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا ولایھتدون سبیلاً انہیں راستے کا علم بھی نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ اللہ کے ہاں معذور تصور ہوں گے اور ان پر ہجرت نہ کرنے کی صورت میں کوئی گناہ نہیں ہوگا البتہ استطاعت رکھنے کے باوجود ہجرت سے گریز کرنے والا کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ان معذور اور کمزور لوگوں کے متعلق فرمایا فاولیک عیسیٰ اللہ ان یعفو عنہم امید ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا کیونکہ وہ مجبور ہیں۔ و کان اللہ عفواً غفوراً ۔ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا اور بہت زیادہ بخشش کرنے والا ہے۔ ہجرت کی برکات فرمایا و من یھاجر فی سبیل اللہ جو شخص اللہ کے راستے میں ہجرت کرے گا یجد فی الارض مرغماً کثیراً وہ زمین میں بہت جگہ پائے گا۔ مرغماً اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی بھاگ کرچلا جائے اور رغام مٹی کو بھی کہتے ہیں اور رغم کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے مخالف کی ناک پر مٹی مل کر چلا جائے بہرحال مراغم کا معنی جائے ہجرت ہے کہ جو شخص ہجرت کے ارادے سے نکلے گا وہ ضرور مناسب جگہ تلاش کرلے گا۔ اس کے علاوہ وسعۃً اسے وسعت بھی میسر آجائے گی۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں کشادگی پیدا فرما دیں گے ، گویا اللہ تعالیٰ ہجرت کے نتیجہ میں ممکنہ تکالیف کو دور فرمادیگا۔ ہجرت کا معاملہ بڑا دشوار ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ شان الھجرۃ لشدیدٌ جب آدمی اپنا کاروبار ، زمین ، مکان وغیرہ چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو بعض اوقات نئی جگہ پر اسے آب وہوا موافق نہیں آتی اور انسان طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مکہ سے مدینے جانے والے بہت سے مہاجرین بخار میں مبتلا ہوگئے تھے۔ بعض اوقات غذا موافق نہیں آتی ، زبان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور دیگر کئی قسم کی پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں اس لیے ہجرت کا معاملہ بڑا دشوار ہے۔ مگر اس کا اجر بھی بہت بڑا ہے۔ مقاصد ہجرت ہجرت دو مقاصد کے لیے ہوتی ہے۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ مسلمان ایسے دارالکفر میں ہیں جہاں وہ دین کے شعار پورے نہیں کرسکتے ، اس لیے انہیں ایسی جگہ پر ہجرت کرنا فرض عین ہوجاتا ہے۔ جہاں مسلمانوں کی مرکزی قوت موجود ہو اور وہ اپنے دینی فرائض آزادی کے ساتھ پورے کرسکیں۔ حضور ﷺ کے مدینہ طیبہ پہنچنے پر وہاں مرکزی قوت میسر آگئی تھی وہ دارالحجرت قرار پایا۔ چناچہ اس دور میں مسلمانوں کا مرکزی مقام پر پہنچنا ضروری ہوگیا تھا۔ اسی مشن کے تحت صحابہ کرام ؓ اور خود حضور ﷺ نے بھی ہجرت کی۔ اس سے پہلے جدالانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی عراق سے ہجرت کی تھی۔ اگر کسی مقام پر اسلام کی مرکزی قوت ضائع ہوجائے تو اس کی بحالی کے لیے بھی ہجرت ناگزیر ہوجاتی ہے ، یہ ہجرت کا دوسرا مقصد ہے۔ قریبی زمانہ میں اس کی مثال حضرت سید احمد بریلوی (رح) اور شاہ اسماعیل شہید (رح) کی ہجرت ہے۔ یہ بزرگ دہلی سے ہجرت کر کے سرحد پہنچے تاکہ وہاں مرکز اسلام قائم کر کے ہندوستان میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرسکیں۔ انہوں نے ہجرت کے لیے بڑا طویل اور کٹھن راستہ اختیار کیا۔ رائے بریلی سے دہلی پہنچے وہاں سے کلکتہ ، پھر مدارس اور پھر سندھ سے ہوتے ہوئے قندھار گئے ، قندھار سے پشاور آئے اور اس طرح انہوں نے تقریباً اڑھائی تین ہزار میل کا سفر طے کیا ، یہاں سے وہ کشمیر جاکر اسے مرکز بنانا چاہتے تھے مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ انہوں نے چار سال تک انتھک جدوجہد کی مگر مسلمانوں کی بدبختی اور ان کی نالائقی اور جاسوسی کی وجہ سے کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکے اور جام شہادت نوش فرما گئے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) کے زمانے میں جب انگریز نے ہندوستان میں غلبہ حاصل کرلیا تو شاہ صاحب نے اپنے فتویٰ کے ذریعے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے دیا تھا۔ بہرحال یہ وہ مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے ہجرت ضروری ہوجاتی ہے۔ مہاجر کے لیے اجر و ثواب آیت کے اگلے حصے میں مہاجر کی فضیلت اور اس کے لیے اجرو ثواب کا ذکر ہے۔ و من یخرج من بیتہ مھاجراً الی اللہ ورسولہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی طرف اپنے گھر سے مہاجرین کر نکلا ثم یدری کہ الموت پھر راستے میں اس کو موت نے پا لای۔ فقد وقع اجرہ علی اللہ پس اس کا اجر اللہ پر واقع ہوگیا۔ یعنی مہاجر گھر سے چل کر اگر جائے ہجرت پر نہ بھی پہنچ سکے تو اسے ہر ہجرت کا ثواب حاصل ہوجائے گا۔ مکی دور میں جب ہجرت کا اعلان ہوا تو ایک ضعیف اور بیمارش خص بھی ہجرت کے لیے تیار ہوگیا۔ وہ خود تو چل پھر نہیں سکتا تھا ، اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ مجھے کسی طرح یہاں سے نکال کرلے چلو۔ انہوں نے ہر چند کہا کہ تم سفر کے قابل نہیں ہو ، لہٰذا تم ہجرت سے مستثنیٰ ہو ، مگر بوڑھا بضد تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف ضرور ہجرت کریگا۔ بالآخر اس کے بیٹے اسے اٹھا کر چل پڑے۔ ابھی مکہ سے چند میل دور تنعیم کے مقام پر آئے تھے کہ بوڑھے کا انتقال ہوگیا۔ کافروں نے خوب تمسخر اڑایا مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی کہ جو کوئی ہجرت کے لیے چل نکلے ، پھر اسے راستے میں موت آجائے ، تو اس کا اجر وثواب اللہ پر واقع ہوگیا۔ یعنی خداوند کریم اسے ہجرت کا پورا پورا بدلہ عطا فرما دیں گے۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ ہجرت کے ثواب کا حقدار وہی شخص ہے ، جو خالص نیت سے اللہ کی رضا ، اس کے رسول کے اتباع اور دین کی بلندی کے لیے ہجرت کرتا ہے جو شخص کسی دیگر نیت سے ہجرت کریگا ، اللہ تعالیٰ اس کی کوئی ذمہ دار قبول نہیں کریگا۔ بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ مکہ سے ایک شخص عورت کی خاطر ہجرت کر کے گیا ، حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص دنیا یا عورت کی خاطر ہجرت کے جائے گا اسے وہی کچھ ملیگا۔ وہ آخرت میں اجر وثواب کا مستحق نہیں ہوگا۔ ہجرت وسیع معنوں میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ہر مقدس سفر کا حکم ہجرت کے سفر کا ہی ہے جو شخص خالص نیت سے حج کے سفر پر روانہ ہوتا ہے ، جہاد کے لیے نکلتا ہے یا دین کی تعلیم کی خاطر گھر سے چلتا ہے ، پھر راستے میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ واقع ہوگیا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ہجرت بعض دیگر وجوہات سے بھی فرض ہوجاتی ہے۔ مثلاً کوئی مسلمان کسی مقام میں گناہ میں مبتلا ہے اور اس سے بچ نہیں سکتا۔ تو اس کے لیے لازم ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ جائے تاکہ وہ گناہ سے بچ جائے یا کسی جگہ مسلمان کو رزق حلال نصیب نہیں ، وہ ایسی جگہ پھنسا ہوا ہے۔ جہاں اسے سو فیصدی حرام رزق حاصل ہوتا ہے تو ایسے شخص کے لیے بھی ہجرت فرض ہوجاتی ہے آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دنیاوی اشغال میں اس قدر منہمک ہو کہ خدا کی طرف توجہ دینا نصیب نہیں ہوتا ، تو اسے چاہئے کہ مسجد میں اعتکاف بیٹھے تاکہ اپنے رب سے تعلق پیدا کرسکے۔ بہرحال فرمایا جو کوئی شخص اپنے گھر سے ہجرت کے لیے نکلے گا تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف جائے اور پھر اسے راستے میں موت آجائے گی تو اسے اللہ تعالیٰ ہجرت کا پورا ثواب عطا کریں گے وکان اللہ غفوراً رحیماً اللہ تعالیٰ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ وہ ایسے لوگوں پر خاص مہربانی فرمائے گا
Top