Mualim-ul-Irfan - Az-Zukhruf : 9
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُۙ
وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ : اور البتہ اگر تم پوچھو ان سے مَّنْ : کس نے خَلَقَ السَّمٰوٰتِ : پیدا کیا آسمانوں کو وَالْاَرْضَ : اور زمین کو لَيَقُوْلُنَّ : البتہ وہ ضرور کہیں گے خَلَقَهُنَّ : پیدا کیا ان کو الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ : زبردست۔ غالب، علم والے نے
اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ کس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو تو البتہ ضرور کہیں گے کہ پیدا کیا ہے ان کو زبردست اور علم والے پروردگار نے
ربط آیات گزشتہ درس میں سورة الرخرف کا آغاز تھا ۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حقانیت و صداقت کے متعلق فرمایا کہ یہ کتاب مبین ہے ، یہ کتاب اللہ نے عربی زبان میں نازل فرمائی ہے اور یہ اس کے نزدیک لوح محفوظ میں محفوظ ہے اللہ نے فرمایا کہ اس کتاب کے منکرین کی قبیح حرکات کی وجہ سے ہم اس کے نزول کو موقوف نہیں کرنے دیں گے بلکہ اس نصیحت کی تکمیل ضرور کریں گے تا کہ کسی شخص کو بعد میں یہ عذر پیش کرنے کا موقع نہ ملے کہ اسے سمجھایا نہیں کیا ۔ بعض لوگ سلیمہ الفطرت بھی ہوتے ہیں جو حق بات کو فوراً قبول کرلیتے ہیں ، لہٰذا اللہ نے فرمایا کہ نصیحت کو روکا نہیں جائے گا ۔ اور اس سے مستفید ہونے کا پورا پورا موقع فراہم کیا جائے گا ، پھر اللہ نے حضور ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کو تسلی دی کہ وہ کفار و مشرکین کی زیادتیوں سے گھبرائیں نہیں بلکہ اپنا کام کرتے چلے جائیں ۔ اللہ نے سابقہ اقوام کی نافرمانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ان کے پاس اللہ کے رسول آئے تو انہوں نے ان کے ساتھ تمسخر ہی کیا ۔ پھر جب ان کی نافرمانی حد سے بڑھ گئی تو اللہ نے ان کی گرفت میں لے لیا ۔ وہ لوگ تو مشرکین مکہ سے زیادہ قوت ، زیادہ مال و دولت اور زیادہ جتھے والے تھے۔ جب وہ بھی عذاب الٰہی سے بچ نہ سکے تو یہ لوگ انہی کے نقش قدم پر چل کر کیسے بچ سکتے ہیں ؟ ان ہلاک شدہ قوموں کی کہانیاں تاریخ میں بھی محفوظ ہیں اور ان کے جستہ جستہ واقعات قرآن نے بھی بیان کردیے ہیں ۔ اس طرح یہ تسلی کا مضمون بھی آ گیا ہے۔ اللہ کی صفت خلق آج کے درس میں پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے بعض دلائل ذکر کے ہیں ، اور پھر شرک کی مختلف قسموں کا رد کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ولئن سالتھم من خلق السموات والارض اگر آپ ان کافروں اور مشرکوں سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے۔ تمہارے پائوں کے نیچے زمین ہے جس پر تم رہائش پذیر ہو اور جس پر تمام امور زندگی انجام دیتے ہو ، تماری ضروریات اسی زمین سے پوری ہوتی ہیں ، پھر تمہارے سامنے نظر آنے والانیلگون آسمان ہے ، اس میں سورج ، چاند ، ستارے اور سیارے نظر آتے ہیں ، ذرا بتلائو تو یہی کہ ان سب چیزوں کا خالق کون ہے ؟ اس کے جواب میں ایک موٹی عقل رکھنے والا آدمی بھی یہی کہے گا کہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا اللہ ہے لیقولن خلقھن العزیز العلیم ہر عاقل ، عالم ، جاہل ، چھوٹے بڑے کا یک ہی جواب ہے اور وہ لازما ً یہی کہے گا کہ ان اشیاء کو ان ذات خداوندی نے پیدا فرمایا ہے جو زبردست ، غالب اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ توحید کے چار درجات امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ توحید کے چار درجے ہیں ۔ جن میں سے دو درجوں میں تو سب برابر ہیں اور وہ درجوں میں لوگ اختلاف کرتے ہیں ۔ توحید کا پہلا درجہ خلق ہے۔ دہریوں کی ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر آپ کسی خطے اور کسی مذہب کے پیروکار سے پوچھ لیں خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی ہو ، ہندو ہو یا سکھ ، چینی ہو یا جاپانی ، مجوسی ہو یا صابی سب یہی کہیں گے کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے ۔ قرآن نے بھی اس حقیقت کو بار بار واضح کیا ہے اللہ خالق کل شی ( الزمر : 62) اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ توحید کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے یعنی اس کا وجود خود ہے نہ کہ کسی دوسری ہستی کا عطا کردہ ، لفظ اللہ اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور لفظ خدا کا مفہوم بھی یہی ہے کہ وہ خود بخود ہے اور اس کی ذات میں کسی دوسری ذات کا کوئی حصہ نہیں ۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی ایسی ہستی ہے جو خود بخود ہے ، اس کے علاوہ کوئی ہستی خود بخود نہیں ، بلکہ ہر چیز اللہ کی پیدا کردہ ہے ، ہر شے کا وجود اللہ کا عطا کرد ہ ہے۔ ان دو درجات کے علاوہ دو مزید درجات تدبیر اور عبادت ایسے میں آ کر لوگ شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز کی تدبیر بھی اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ کسی چیز کو پیدا کرنے کے بعد اسے بتدریج درجہ کمال تک پہنچاتا اللہ ہی کی صفت ہے مگر مشرک لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ بعض دوسری ہستیاں بھی ان کے کام بناتی ہیں ۔ بعض فرشتے جن ، انسان ( زندہ اور مردہ) شجر و حجر ، شمس و قمر ، ستارے اور سیارے بھی ان کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتے ہیں ۔ یہی شرک ہے جس میں لوگ آ کر پھنس جاتے ہیں۔ توحید کا چوتھا درجہ عبادت ہے ۔ جب ہر چیز کا خالق ، مالک ، مدیر اور متصرف اللہ وحدہٗ لا شریک ہے تو پھر عبادت بھی خالصتا ًاسی کو ہونی چاہئے مگر بعض عبادت میں بھی دوسروں کو شریک بنا لیتے ہیں ۔ بعض بتوں کے سامنے اور بعض قبروں ، شجر و حجر ، سورج اور چاند اور جنوں اور انسانوں کے سامنے سر نیاز خم کردیتے ہیں ۔ ان کی ایسی تعظیم کرتے ہیں جیسی اللہ کی ہونی چاہئے۔ ان کے سامنے نذر و نیاز پیش کرتے ہیں اور انہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں ، یہ شرک فی العبادت کا ارتکاب ہے جس میں اکثر لو گ مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان کفار و مشرکین سے پوچھیں کہ ارض و سماکا خالق کون ہے تو ضرور یہی جواب دیں گے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے ان کو پیدا فرمایا ہے۔ بین الطور گہوارہ توحید کے اس تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان پر کیے جانے والے بعض احسانات کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے الذی جعل لکم الارض مھد اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنا دیا ہے زمین کی تخلیق کے ذکر کے بعد اس سے حاصل ہونے والے مفادات کا ذکر ہو رہا ہے ۔ جس طرح بچے کو گہوارہ میں سلا کر اس کو حرکت دی جاتی ہے تو بچہ راحت محسوس کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر پھیلا کر زمین کو جھولے کی طرح متحرک کردیا ہے جو اس کے لیے بہت سے مفادات کا سبب بنتی ہے۔ قدیم یونانی ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ زمین ساکن ہے جب کہ جدید سائنسی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ زمین متحرک ہے اور یہ بیک وقت دو حرکتوں کے ساتھ اپنے سفر پر رواں دواں ہے۔ اس کی ایک حرکت اپنے محور کے گرد ہے جو چوبیس گھنٹوں میں پوری ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے دن رات آگے پیچھے آتے ہیں ۔ زمین کی دوسری حرکت سورج کے گرد ہے جو سال بھر میں مکمل ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے موسمی تغیرات واقع ہوتے ہیں ۔ چناچہ سال بھر کے موسم گرما ، سرما ، بہار اور خزاں زمین کی سورج کے گرد گردش کا نتیجہ ہیں غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو جھولے کی طرح متحرک بنا کر اس پر رہنے والوں کے لیے بہت سے مفادات وابستہ کردیتے ہیں ۔ دن کے وقت کام ، رات کو آرام مختلف موسموں میں مختلف قسم کے پھل ، پھول اور اناج کی پیداوار سب کچھ اللہ نے انسان اور دیگرجانداروں کی مصلحت کی خاطر قائم کیا ہے ۔ بہر حال زمین ایک گہوارے کی مثل جھول رہی ہے ، دیگر کروں کی طرح یہ بھی ایک کرہ ہے جو فضا میں معلق ہے جو لوگ زمین سے نکل کر فضا میں جاتے ہیں یا جو چاند پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ان کو زمین بھی چاند جیسا ایک کرہ ہی نظر آتی ہے۔ ابتداء میں زمین سورج ہی کا ایک حصہ تھی ، پھر اللہ نے اس کو سورج سے الگ کر کے نو کروڑ تیس لاکھ میل دور پھینک دیا ، چونکہ زمین سورج جیسے آگ کے بگولے سے الگ ہوئی ہے ، اس کا دلی حصہ تو ٹھنڈا ہوچکا ہے مگر اس کا اندرونی حصہ ابھی تک گرم ہے ، اور لاکھوں سال گزرنے کے بعد اب بھی بعض اوقات اس سے لاوار ابلنے لگتا ہے ۔ زمین کے ارد گرد چودہ کروڑ مربع میل رقبے میں پانی ہی پانی ہے اور صرف آٹھواں حصہ خشکی ہے۔ زمین کے ارد گرد پانی کی مثال ایسی ہے جیسے سخت گرمی میں پسینہ آجاتا ہے۔ اللہ نے اس زمین کے گرد چار پانچ سو میل تک ہوا کا خول چڑھا دیا ہے ۔ زمین کے اندر کی حقیقت کو سائنسدان پورے طریقے سے معلوم نہیں کر پائے۔ وہ صرف چھ تا آٹھ میل تک نیچے کی خبر لاسکتے ہیں اور مزید نیچے جانے کی کوشش کر رہے ہیں جسکے نتیجے میں مزید انکشافات کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ بہر حال اللہ نے فرمایا کہ اس کی ذات وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے گہوارہ بنا دیا ہے۔ وجعل لکھ فیما سبلا ً اور اس میں تمہارے لیے جگہ جگہ راستے بنا دیے ہیں ، جن کے ذریعے تم ایک خطے سے دوسرے خطرے کی طرف جاسکتے ہو ۔ اس زمین پر کہیں پہاڑ ہیں ، کہیں میدان ہیں ، کہیں جنگلات ہیں تو کہیں بڑے بڑے صحرا ہیں ۔ اسی زمین پر اللہ نے ندی نالے اور دریا بہا دیئے ہیں ۔ جن کے ذریعے تم زندگی کے مفادات حاصل کرتے اور ان میں سفر بھی کرتے ہو لعلکم تھتدون تا کہ تم راہ پائو ۔ بعث بعد الموت کی مثال اگلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعے بعث بعد الموت کا مسئلہ سمجھایا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے والذی نزل من السماء ماء بعدد اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے آسمان کی طرف سے ایک خاص اندازے کے ساتھ پانی نازل فرمایا ۔ سماء کے مختلف معانی آتے ہیں ، بادلوں اور فضاء کو بھی آسمان کہا جاتا یہ ، عربی میں چھت پر بھی سماء کا لفظ بولا جاتا ہے اور اوپر کی طرف ہمیں جو نیلگوں پردہ نظر آتا ہے اس کو بھی آسمان کہا جاتا ہے ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ اوپر فضاء سے بادلوں کی وساطت سے بارش کی صورت میں پانی نازل فرماتا ہے اور پھر اس عمل کے لیے عالم بالا کا حکم بھی شامل ہوتا ہے ، تو نزول رحمت ہوتا ہے ۔ فرمایا ہم نے آسمان کی طرف سے پانی نازل فرما فانشرنا بد بلدۃ میتا پھر اس کے ذریعے ہم نے مردہ شہر یعنی مردہ زمین کو زندہ کیا ۔ بارش کی عدم موجودگی میں زمین خشک ہوجاتی ہے ۔ اس کی روئیدگی ختم ہوجاتی ہے ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ بارش نازل فرماتا ہے تو زمین پھر سے زندہ ہوجاتی ہے ہمیں روئیدگی کی طاقت آجاتی ہے اور پھر اس میں پھل ، پھول ، پودے ، سبزیاں اور چارہ اور اناج پیدا ہوتے ہیں جن کے ذریعے انسان اور دیگر جاندار اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں ۔ ہر وہ زمین کی زندگی سے یہی مراد ہے کہ وہ سر سبز ہوجاتی ہے اور پیداوار دینے لگتی ہے۔ فرمایا جس طرح ہم پانی نازل فرما کر مردہ زمین کو حیات نو بخشتے ہیں کذلک نحرجون اسی طر ح تم نکالے جائو گے۔ مطلب یہ ہے کہ تم مر کر قبروں میں دفن ہوچکے ہو گے تو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمہیں دوبارہ زندہ کر کے قبروں سے نکال لے گا ۔ جو ذات خداوندی خشک زمین میں پانی برسا کر سبزی پیدا کرسکتی ہے وہ مٹی میں مدفون مردوں کو بھی دوبارہ زندگی بخشنے اور واں سے نکالنے پر قادر ہے۔ یہ بات ایک طرف قدرت کی دلیل ہے تو دوسری طرف بعث بعد الموت اور جزائے عمل کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اس سے غافل نہ ہوجانا ۔ پھر فرمایا والذین خلق ازواج کلھا اللہ کی ذات وہ ہے جس نے سب کے سب جوے پیدا کیے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت کی نشانی ہے کہ اس نے تمام جانداروں کو جوڑے جوڑے یعنی نر اور مادہ کی صورت میں پیدا کر کے ان کے اختلاط سے ان کی نسلوں کو آگے پھیلایا ہے ۔ جانداروں کے علاوہ پودے اور درخت بھی جوڑا جوڑا ہیں ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ نر کھجور کا بور جب مادہ کھجور کے درخت پر ڈالا جاتا ہے تو درخت پھل دینے لگتا ہے۔ جوڑا بایں معنی بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز کی ضد پیدا کی ہے جیسے سیاہی اور سفیدی ، نور اور ظلمت ، دنیا اور عقبیٰ ، نیکی اور بدی وغیرہ وغیرہ۔ بہر حال اللہ نے تفریق جنس یا تفریق نوح کو بھی اپنی قدرت کی نشانی بتلایا ہے۔ ذرائع نقل و حمل انسان کی افادیت کے لیے ذرائع نقل و حمل بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی اور اس کے انعامات میں سے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے وجعل لکم من الفلک والانعام اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشتیاں اور جانور پیدا فرمائے ہیں ۔ نزول قرآن کے زمانہ میں ذرائع نقل و حمل صرف دو قسم کے تھے یعنی بحری اور بری اس آیت میں اللہ نے انہی دو ذرائع کا ذکر فرمایا ہے کہ بحری راستے سے سفر کے لیے تمہارے لیے کشتیاں بنائیں ۔ اس زمانے میں باد بانی کشتیاں چلتی تھیں جن کا ذکر اللہ نے قرآن کے مختلف مقامات پر کیا ہے۔ دریائوں اور سمندروں کی لہروں کو چیرتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجانا بہت بڑی چیز تھا۔ کشتیوں کے بعد پھر سٹیمرآئے جو بھاپ سے چلتے تھے اور پھر تیل سے چلنے والے لاکھوں ٹن وزنی جہاز ایجاد ہوچکے ہیں اور شب و روز سطح آب پر رواں دواں ہیں ۔ اللہ نے اپنا یہ احسان جتلایا ہے کہ اس نے تمہارے لیے سمندری سفر کا بندوبست کردیا ۔ اگرچہ یہ کشتیاں اور جہاز انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں مگر اس کے لیے مادی وسائل ازقسم لکڑی ، لوہا وغیرہ اللہ تعالیٰ کا ہی پیدا کردہ ہے ، اور انسان کے ذہن میں عقل و فہم اور شعور بھی اللہ نے ہی ڈالا تو وہ ان کو تیار کرسکے۔ اللہ نے فرمایا کہ زمینی سفر کے لیے ہم نے تمہارے لیے جانور پیدا فرما دیے ۔ ظاہر ہے کہ نزول قرآن کے زمانہ میں نجی یا تجارتی نقل و حمل جانوروں کے ذریعے ہی ہوتا تھا ، جن میں اونٹ ، گھوڑے ، گدھے اور خچر خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ اونٹ کو تو صحرا کا جہاز کہا جاتا ہے ، جہاں وہ کئی کئی دن کچھ کھائے پئے بغیر سفر کرسکتا ہے۔ اگرچہ آج کے مشینی دور میں نقل و حمل کے لیے جانوروں کی افادیت قریباً قریباً ختم ہوچکی ہے ، تا ہم بعض علاقے آج بھی ایسے موجود ہیں ۔ جہاں سواری اور بار برداری کے لیے جانوروں سے ہی کام لیا جاتا ہے۔ بہر حال اللہ نے جانوروں کو پیدا کر کے انسان کی خدمت پر مامور کردیا ہے جو کہ نہ صرف ان کی خدمت بجا لاتے ہیں ، بلکہ بعض انسان کی خوراک بھی بنتے ہیں۔ سواری کی دعا فرمایا ایک تو یہ جانور بار برداری کا کام دیتے ہیں اور ان کا دوسرا فائدہ یہ ہے ما ترکبون کہ تم ان پر سواری کرتے ہو ۔ لتستو علی ظھورہ تا کہ تم برابر ہو کر بیٹھو ان کی پشت پر ۔ ثم تذکروا نعمۃ ربکم پھر اپنے پروردگار کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تمہارے لیے ان وحشی جانوروں کو مسخر کردیا ۔ فرمایا اذا ستویتم علیم جب تم ان جانوروں پر آرام سے سوار ہو جائو ۔ تو پھر اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرو و تقولو اور یوں کہو سبحن الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لیے اس سواری کو مسخر کردیا ، وگرنہ ہم تو اسے قابو کرنے والے نہیں تھے یعنی اس سواری پر تسلط حاصل کرنا ہمارے بس میں نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے اسے ہمارے لیے مسخر کردیا اس وقت تو جانوروں کی سواری کے متعلق اللہ نے یہ دعا سکھائی۔ اور حقیقت بھی ہے کہ اونٹ گھونٹ وغیرہ جیسے طاقتور اور خود سر جانوروں کو قابو کرنا انسانی استطاعت سے باہر ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے ساتھ ان جانوروں کی طبیعت میں یہ چیز ڈال دی ہے کہ وہ انسان کی خدمت پر مامور ہیں ، چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سو اونٹ کی ایک لمبی قطار کو دس سال کا بچہ جدھر چاہے ہانک کرلے جاتا ہے ، مگر وہ اف تک نہیں کرتے یہ اللہ کی مہربانی کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ آج کے دور میں زمینی نقل و حمل گاڑیوں ، ٹرکوں ، ٹرالوں ، ویگنوں اور کاروں کے ذریعے ہوتی ہے ۔ بحری سفر کے لیے بڑے بڑے جہاز اور ہوائی نقل و حمل کے لیے تیز رفتار ہوائی جہاز استعمال ہو رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ دعا اگرچہ جانوروں کی سواری کے متعلق ہے تا ہم یہی دعا ہر قسم کی بری اور ہوائی سواریوں کے لیے بھی مفید ہے۔ البتہ بحری سفر کے لیے قرآن میں یہ دعامذکور ہے۔ بِسْمِ اللہ ِ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰھَاط اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (ہود : 41) اللہ تعالیٰ کے اسم پاک کی برکت سے ہی اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے ، بیشک میرا پروردگار ، البتہ بڑا بخشش کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔ بہر حال تمام سواریاں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے رواں دواں ہے۔ دنیا میں کتنے واقعات پیش آئے ہیں کہ راہ چلتے حوادثات پیش آجاتے ہیں اور اچھی بھلی سواریاں بےقابو سے باہر ہو کر جانی اور مالی نقصان کا باعث بن جاتی ہے ۔ موٹر کاروں ، ٹرکوں ، ٹرالیوں ، ریل گاڑیوں میں ٹکر ہوجاتی ہے۔ ہوائی جہاز تباہ ہوجاتے ہیں ۔ بڑے بڑے بحری جہاز ڈوب جاتے ہیں ، جب تک اللہ تعالیٰ کی مہربانی شامل حال نہ ہو انسان بالکل بےبس ہے۔ فرمایا وانا الی ربنا لمنفقلبون بیشک ہم اپنے پروردگار کی طرف ہی پھر کر جانے والے ہیں ۔ جس طرح اس دنیا میں لوگ ایک مقام سے دوسرے مقام تک ان سواریوں پر سفر کرتے ہیں ۔ اسی طرح ایک دن آنے والا ہے جب یہی انسان انسانی کندھوں پر سوار ہو کر قبرستان کی طرف جا رہا ہوگا ۔ اور وہ حقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جانا ہے وہ مقررہ وقت پر سب کو اکٹھا کریگا اور پھر حساب کتاب اور جزائے عمل کی منزل آئے گی ۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس مادی سفر میں ساتھ ساتھ سفر آخرت کو بھی یاد رکھے اور اس کے لیے تیار کرے۔
Top