Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Hud : 12
فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ وَ ضَآئِقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ١ؕ اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِیْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌؕ
فَلَعَلَّكَ
: تو شاید (کیا) تم
تَارِكٌ
: چھوڑ دو گے
بَعْضَ
: کچھ حصہ
مَا
: جو
يُوْحٰٓى
: کیا گیا
اِلَيْكَ
: تیری طرف
وَضَآئِقٌ
: اور تنگ ہوگا
بِهٖ
: اس سے
صَدْرُكَ
: تیرا سینہ (دل)
اَنْ يَّقُوْلُوْا
: کہ وہ کہتے ہیں
لَوْلَآ
: کیوں نہ
اُنْزِلَ
: اترا
عَلَيْهِ
: اس پر
كَنْزٌ
: خزانہ
اَوْ
: یا
جَآءَ
: آیا
مَعَهٗ
: اس کے ساتھ
مَلَكٌ
: فرشتہ
اِنَّمَآ
: اس کے سوا نہیں
اَنْتَ
: کہ تم
نَذِيْرٌ
: ڈرانے والے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے
وَّكِيْلٌ
: اختیار رکھنے والا
شاید آپ چھوڑ دینے والے ہیں اس چیز کا کچھ حصہ جو آپ پر وحی کی جاتی ہے۔ اور تنگ ہو رہا ہے اس سے آپ کا سینہ اس اندیشہ سے کہ وہ کہیں گے کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا۔ آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا نگہبان ہے۔
فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ م بَعْضَ مَا یُوْحٰیٓ اِلَیْکَ وَضَائِقٌ م بِہٖ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ جَآئَ مَعَہٗ مَلَکٌطاِنَّمَآ اَنْتَ نَذِیْرٌط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ۔ (سورۃ ہود : 12) (شاید آپ چھوڑ دینے والے ہیں اس چیز کا کچھ حصہ جو آپ پر وحی کی جاتی ہے۔ اور تنگ ہو رہا ہے اس سے آپ کا سینہ اس اندیشہ سے کہ وہ کہیں گے کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا۔ آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا نگہبان ہے۔ ) اس آیت کریمہ پر سرسری نگاہ ڈالنے سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں کی مخالفت سے تنگ آ کر ایسا لگتا ہے کہ جس وحی کے پہنچانے کی ذمہ داری آپ پر عائد کی گئی ہے اس میں سے شاید وہ حصہ جسے مخالفین برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اس کے ابلاغ اور تبلیغ سے رک جانے والے ہیں اور ان کے تحقیرآمیز رویے کی وجہ سے آپ نفسیاتی طور پر اتنے متاثر ہو رہے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ کا سینہ تنگ ہوتا اور بھنجتا جا رہا ہے اور آپ پورے انشراحِ قلب سے شاید بات کہنے کی ہمت نہیں پا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مفہوم کو قبول کرنا وہ بھی اللہ کے آخری رسول سے متعلق ایمان سے کوسوں دور ہے۔ اللہ کا رسول انسان ہونے کے ناطے یقینا حالات سے متاثر ہوتا ہے لیکن قدرت جس طرح اس کی تربیت کرتی ہے اور روح القدس جس طرح اس کی تائید کرتے ہیں اور اللہ سے براہ راست تعلق جس طرح اس کو توانائی بخشتا ہے اور اللہ کی قدرت جس طرح اس کی حفاظت کرتی ہے اسے دیکھ کر یہ وہم بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ کبھی حالات سے اس طرح متأثر ہوسکتا ہے۔ ایک مومن بھی اظہار حق میں بےباک ہوتا ہے پیغمبر تو اس راستے کی ایک ایسی روشن مثال ہے جسے دیکھ کر امتیں حوصلہ پاتی ہیں اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے ابتدائی جملوں کا مفہوم وہ نہیں جو سرسری طور پر سمجھا جاتا ہے۔ چند تمہیدی باتیں اس آیت کو سمجھنے کے لیے تمہیدی طور چند باتوں کو سمجھنا ضروری ہے ان کا ادراک کیے بغیر آیت کا مفہوم متعین کرنا ممکن نہیں۔ ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے اپنے مخصوص اسالیب ہیں انھیں میں سے ایک اسلوب یہ ہے کہ قرآن کریم بعض دفعہ اپنے مخاطب سے جو بات کہتا ہے وہ درحقیقت مخاطب سے متعلق نہیں ہوتی بلکہ ان سے متعلق ہوتی ہے جن کی طرف روئے سخن ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں بظاہر تو آنحضرت ﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ وحی الہی کے کچھ حصے کے ابلاغ کو آپ شاید چھوڑ دینا چاہتے ہیں کیونکہ حالات اس کا تحمل نہیں کرسکتے اور آپ کا سینہ ان کی بعض تمسخر انگیز اور تحقیر پر مبنی باتوں سے اس قدر تنگ پڑگیا ہے کہ آپ کے لیے ان کے سامنے کلمہء حق کہنا مشکل ہو رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ بات مشرکین مکہ سے کہی جارہی ہے وہ لوگ اپنے کرتوتوں سے چونکہ اپنے آپ کو غضب الٰہی کا مستحق بنا چکے ہیں اس لیے وہ اس قابل نہیں رہے کہ اللہ انھیں خطاب سے عزت بخشے۔ اس لیے جو بات انھیں سنانی ہے وہ بھی ان سے رخ پھیر کر آنحضرت ﷺ سے کہی جارہی ہے لیکن وہ سخن شناس ہونے کے باعث سمجھ سکتے ہیں کہ بات کس سے کہی جارہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ” لعل “ اچھی یا بری امید کے اظہار کے لیے آتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ امید کا تعلق لعل کے اسم کے ساتھ ہی ہو۔ اس آیت میں بھی امید کا دائرہ اسم سے زیادہ وسیع معلوم ہوتا ہے کہنا شاید یہ ہے کہ مشرکین مکہ کو عرب کی سرزمین پر مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ ایک ایسے شہر کے باسی ہیں جو قریش کا صدر مقام ہے اور یہ قبیلہ اپنے مذہبی اقتدار، اپنی دولت و تجارت اور اپنے سیاسی دبدبے کی وجہ سے سارے عرب پر چھایا ہوا ہے۔ ان کی تائید اور مخالفت دونوں پورے عرب پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت اور دعوت کی مخالفت قریش نے جس قوت کے ساتھ کی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مکہ ہی نہیں بلکہ اس کا گردوپیش بھی دور دور تک آنحضرت ﷺ کی مخالفت میں اندھا ہو رہا ہے۔ قریش کے لیے پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنا اس لیے مشکل ہو رہا ہے کہ وہ اس میں اپنی مرکزیت اور قیادت کی موت دیکھ رہے تھے۔ وہ جس طرح کی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے تھے اس کو یکسر ترک کردینا ان کے لیے ممکن نہ تھا اور اللہ کا نبی انھیں بار بار اس بات کی وارننگ دے رہا تھا کہ اگر تم نے اپنے رویے میں کوئی صالح تبدیلی پیدا نہ کی تو اللہ کا عذاب تمہارے سر پر تلا کھڑا ہے وہ ان کے اعتقادات، ان کے طور اطوار اور ان کے تہذیب و تمدن میں سے ایک ایک بات پر تنقید کر کے یہ بتارہا تھا کہ تمہاری بنیادیں بیٹھ چکی ہیں، تمہارا تمدن بری طرح سڑ چکا ہے اگر اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو اس مذہب حق اور اس نظام صالح کو قبول کرو جسے میں خدا کی طرف سے لے کے آیا ہوں یہ تنقید جیسے جیسے بڑھتی جارہی تھی اور دعوت میں تیزی آتی جارہی تھی ویسے ویسے قریش کے اعراض میں شدت اور مخالفت میں جارحیت پیدا ہوتی جار ہی تھی اور وہ فیصلہ کر رہے تھے کہ اس دعوت کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا جائے چناچہ ان حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ مشرکین مکہ اپنی مخالفت کو دیکھتے ہوئے اور ہر دوسرا شخص حالات کے تیوروں کو دیکھ یہ اندازہ کر رہا تھا کہ اب اللہ کے نبی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ دعوت الی اللہ کی ان باتوں کو سرِ عام کہہ سکے جنھیں سننا قریش کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے چناچہ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بعض تفسیری روایات میں کہا گیا ہے کہ بعض کفار نے آپ سے کہا کہ یہ قرآن جو آپ ہمیں پڑھ کر سناتے ہیں اس میں تو ہمارے خداؤں کو بہت برا بھلا کہا گیا ہے اس لیے ہم اس قرآن کو ماننا تو دور کی بات ہے سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں ہاں اگر آپ ایسا قرآن لے آئیں جس میں ہمارے خداؤں (بتوں) سے تعرض نہ کیا گیا ہو تو ہم آپ پر ایمان لاسکتے ہیں۔ اس مطالبے کے بعد ان کو یہ امید ہونے لگی کہ شاید نبی کریم ﷺ وحی الٰہی کی بعض باتوں کو کہنے میں تأمل کریں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جس رکنے کی بات کی گئی ہے اس کا ارادہ نبی کریم ﷺ نے نہیں فرمایا تھا البتہ مخالفین اپنی مخالفت کی شدت کو دیکھ کر اس بات کی امید کر رہے تھے اسی طرح حالات کے تیوروں کو پہچاننے والے محسوس کر رہے تھے کہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی دعوت میں تبدیلی پیدا کریں۔ جہاں تک دل کے تنگ اور طبیعت کے بھجنے کا تعلق ہے اس کا منشاء بھی آنحضرت ﷺ کا قلب مبارک نہیں بلکہ مخالفین کی ہر زہ سرائی تھی وہ جس طرح آپ کی غربت اور فقر کا مذاق اڑاتے تھے اور آپ پر ایمان لانے والوں کی توہین کرتے تھے اور بار باریہ بات کہتے کہ کسی معمولی حاکم کا نمائندہ بھی ایسا بےسروسامان نہیں ہوتا جیسے تم ہو۔ تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ تم احکم الحاکمین کے رسول ہو اس نے تمہیں انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے اور حال یہ ہے کہ تم نان شبینہ تک کے محتاج ہو۔ تمہاری حفاظت کے لیے تو فرشتے تمہارے ساتھ رہنے چاہیں کہ جو کوئی تمہاری شان میں گستاخی کرے تو وہ اسے اسی وقت سزا دیں اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ شخص اللہ کا رسول ہے اگر تم نے ایمان لانے میں تأمل کیا تو تم پر اللہ کا غضب ٹوٹ سکتا ہے۔ لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ فرشتہ ہونا تو دور کی بات ہے کوئی معمولی محافظ بھی تمہارے ساتھ نہیں۔ لوگ تمہارے راستے میں کانٹے بچھاتے ہیں، سر مبارک پر راکھ پھینکتے ہیں بڑھ بڑھ کے گستاخیاں کی جاتی ہیں لیکن کوئی روکنے کے لیے آسمان سے نہیں اترتا تو کیا رسول ایسے ہوتے ہیں یہ باتیں کہنے والے اور سننے والے یہ سمجھتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کی طبیعت پر نجانے ان باتوں سے کتنے زخم لگتے ہوں گے۔ آپ نجانے کس طرح ان چرکوں کو برداشت کرتے ہوں گے اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ آپ جس جرأت وجسارت کے ساتھ اپنی دعوت پیش کرتے تھے اس میں کمی آجائے گی اللہ نے اپنے رسول کو تسلی دیتے ہوئے اور بالواسطہ کفار کو تنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے پیغمبر ! آپ کو اللہ نے نذیر بنا کے بھیجا ہے۔ دنیا میں اس سے پہلے بھی اللہ کی طرف سے نذیر آتے رہے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ اہل دنیا نے کبھی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا انھوں نے خون جگر پی پی کر نہ صرف لوگوں کو سمجھایا بلکہ آنے والے خطرات سے انھیں آگاہ کیا انھیں اللہ کی ناراضگی سے ڈرایا ان کے بوسیدہ تمدن کی ناکامیوں سے انھیں خبردار کیا انھیں ان کے انجام کا آئینہ دکھاتے ہوئے ہوشیار کیا کہ اگر تم نے اپنا نظام نہ بدلا اور بنیادی اعتقادات تبدیل نہ کیے تو خود تمہارے اپنے اختلافات تمہارے لیے تباہی کا باعث ہوسکتے ہیں لیکن ان کی امتوں نے بجائے ان کی قدر کرنے اور ان پر ایمان لانے کے انھیں قتل تک کرنے سے گریز نہیں کیا لیکن انھوں نے کبھی بھی اللہ کی دعوت اور وحی الٰہی کے پیغام میں کمی بیشی کرنے کا تصور بھی نہ کیا۔ آپ اگر مخالفت کا شکار ہو رہے ہیں تو یہ اس راستے کی سنت ہے اور یہ اس دنیا کی ریت ہے ٹھیک کہا کسی نے ؎ زمانہ یوں ہی اپنے محسنوں کو تنگ کرتا ہے وہ درس صلح دیتے ہیں یہ ان سے جنگ کرتا ہے اور جہاں تک تعلق ہے مخالفین کے اندازوں اور گمانوں کا کہ شاید اللہ کا نبی ﷺ ان کی مخالفتوں سے تنگ آ کر اور ان کے تمسخر سے زچ ہو کر اپنی بات کہنے میں تأمل کرے انھیں شاید اندازہ نہیں کہ اہل دنیا عیش و عشرت میں پل کر فوجوں کے جھرمٹ میں رہ کر اور تخت پر متمکن ہو کر اس قدر جرأت اور بےخوفی سے بات نہیں کرتے جس طرح اللہ کا نبی کرتا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ کے لہجے میں مسکینی اور عاجزی نہیں ہوتی وہ اللہ کی طرف بلاتا ہے تو اس کے لیے التماس نہیں کرتا بلکہ وہ بےنوا ہو کر بھی بادشاہوں کی سطوتوں کو اچھالتا ہے۔ وہ بادشاہوں کے دربار میں بھی بظاہر بےسروسامان اور قوت و حشمت سے تہی دامن ہوتا ہے لیکن اس کے لہجے میں وہ اعتماد اور تمکنت ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا فرستادہ ہے وہ بظاہر تنہا ہوتا ہے لیکن اللہ کے حصار میں ہوتا ہے۔ وہ بظاہر بےسہارا ہوتا ہے لیکن عناصرِ قدرت اس کے ہم رکاب ہوتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) انتہائی بےسروسامان ہو کر بھی فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے اور فرعون ان سے مرعوب ہو ہوجاتا تھا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) درویشی اور مسکینی کی ایک نادر مثال تھے لیکن آپ نے حکمرانوں کے گریبانوں کو کھینچا بڑے سے بڑے حکمران کی برائیوں پر سرِ دربار نکیر فرمائی۔ اسی راستے میں اپنا سر کٹوایا لیکن آپ کے لہجے میں کبھی کمزوری نہ آئی۔ نبی کریم ﷺ چونکہ خاتم النبیین ہیں آپ کی بےخوفی اور جلالت شان کا تو پورا مکہ معترف تھا۔ اشرارِ قریش صحن حرم میں منڈلی جمائے بیٹھے ہوتے آپ ان کے سامنے نماز ادا فرماتے اور بارہا ان کے سامنے قرآن مجید پڑھتے اور انھیں نصیحت فرماتے۔ اور اگر کبھی کسی سرکش نے آپ پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو اللہ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ ابو جہل نے ایک دن قسم کھالی کہ اب اگر محمد ﷺ نے میرے سامنے اگر اللہ کو سجدہ کیا تو میں اس کا سر کچل ڈالوں گا۔ دوسرے ہی روز آپ اپنے معمول کے مطابق آئے اور آپ نے اس کے سامنے نماز پڑھی ابو جہل یہ دیکھ کر بھڑک اٹھا چناچہ جیسے ہی آپ سجدے میں گئے اس نے آگے بڑھ کر آپ پر حملہ کردیا لیکن جیسے ہی آپ کے قریب پہنچا فوراً ہاتھ مارتا اور چیختا ہوا پیچھے ہٹا لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے اس نے کہا میں جیسے ہی محمد ﷺ کے پاس پہنچا تو میں نے آگ کے شعلے اور پَر اور برچھے دیکھے جو میری طرف بڑھ رہے تھے پھر ایک اونٹ کو میں نے دیکھا جو منہ کھولے مجھے نگلنے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ شخص مجھ پر حملہ کرتا تو فرشتے اس کے پرزے اڑا دیتے۔ پیغمبر کا طنطنہ اور لہجے کی قوت کبھی ماند نہیں پڑتی وہ مخالفتوں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ نے اسے نذیر کے منصب پر فائز کیا ہے۔ نذیر کا کام ہے انذار کرنا، ڈرانا، ہوشیار کرنا، وارننگ دینا۔ یہ کام ظاہر ہے کہ مخالفین کے سامنے خوف زدہ لہجے میں نہیں کیے جاسکتے۔ اس امت کے اولیاء، صلحاء اور مصلحین پر آنحضرت ﷺ کا فیضان ہے کہ ان کا لہجہ کبھی سراسیمہ نہیں ہوتا۔ جہانگیر کے دربار میں بھی ان کی گردن نہیں جھکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ انھیں ملت کے سرمائے کی حفاظت کے لیے اٹھاتا ہے۔ اقبال نے مجدد صاحب کے بارے میں اظہار عقیدت کرتے ہوئے ٹھیک کہا ؎ وہ ہند میں سرمایہء ملت کا نگہباں اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے جس کے نَفَسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار جن علماء کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ حق کی حفاظت کی بجائے باطل کے ساتھ سازگاری رکھتے ہیں اور ہر کرسی نشین کے سامنے ان کا سر جھکنے لگتا اور لہجے میں لکنت آجاتی ہے اور اس کا علم و دانش باطل کی ترجمانی کرنا زیادہ پسند کرتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس صاحب علم کا تعلق علماء حق سے نہیں بلکہ اکبر کے نو رتنوں سے ہے۔ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ ” اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے “ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ نے دعوت الی اللہ کے کام میں جو جانفشانیاں دکھائی ہیں وہ بھی اللہ کی نگاہ میں ہیں اور جو کچھ مخالفین نے کیا ہے اور کر رہے ہیں اللہ اس سے بھی واقف ہے۔ آپ نے اپنی ہمت سے بڑھ کر اس مقصد کے لیے جان کھپائی ہے اس لیے آپ اللہ کے یہاں سرخرو ہیں۔ رہی یہ بات کہ لوگ ایمان لانے میں کیوں پس وپیش کر رہے ہیں تو آپ کو اس پر پریشان نہیں ہونا چاہیے لوگوں کو ایمان دینا یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہل مکہ کی مخالفت روزبروز زور پکڑتی جارہی ہے بلکہ اب تو یہ مخالفت جارحیت کی شکل اختیار کر رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں نے حق کے مقابلے میں اپنے سینے بند کرلیے ہیں۔ اور دعوت ایک بندگلی میں پہنچ گئی ہے۔ پروردگار فرماتا ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں آپ کو ان سے اثر قبول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ سب کا کارساز ہے وہ آپ کے لیے راستے کھولے گا اور آپ کی حفاظت فرمائے گا۔
Top