بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
اے ایمان والو ! نہ آگے بڑھو اللہ سے اور اس کے رسول سے ، اور ڈرو اللہ سے ، بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
نام اور کوائف اس سورة مبارکہ کا نام سورة الحجرات ہے جو کہ اس کی آیت 4 میں آمدہ لفظ سے مآخوذ ہے ۔ حجرات حجرۃ کی جمع ہے جس کا معنی کمرہ یا مکان ہوتا ہے ۔ اس سورة مبارکہ میں ان کمروں کا ذکر ہے جو حضور ﷺ نے مسجد نبوی کے ارد گرد تعمیرکرائے تھے اور جن میں امہات المومنین رہائش پذیر تھیں ۔ ان کے علاوہ بعض دوسرے حضرات بھی ان مکانات میں رہتے تھے۔ یہ سورة ہجرت کے بعد مدنی زندگی میں سورة مجادلہ کے بعد نازل ہوئی ۔ اس سورة مبارکہ کی اٹھارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں ۔ یہ سورة 342 الفاظ اور 1476 حروف پر مشتمل ہے۔ بقیہ سورتوں کے ساتھ ربطہ اس سورة مبارکہ کا سابقہ دو سورتوں کے ساتھ خصوصی ربط ہے۔ سور ۃ فتح اور سورة محمد میں جہاد کا موضوع غالب ہے جس سے اصلاح عالم مقصود ہے جب کہ اس سورة میں رسول کریم ﷺ اور مسلمانوں کی جماعت کے حقوق و آداب کا ذکر ہے ۔ گویا اس سورة میں وہ اصول اور وہ ضابطے بیان کیے گئے ہیں جن سے اصلاح نفس ہوتی ہے۔ اس طرح ان تین سورتوں میں اصلاح عالم اور اصلاح نفس کا پروگرام بیان کردیا گیا ہے اور یہی ان سورتوں کا آپس میں ربط ہے۔ مضامین سورة امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے حاشیہ فتح الرحمان میں اس سورة کا خلاصہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اس میں بعض آداب کی تعلیم دی گئی ہے۔ مثلا ً یہ کہ اللہ کے نبی کے اوامرو نواہی سے پہلے کوئی بات نہ کی جائے اور نہ نبی کے سامنے آواز بلند کی جائے ۔ اس سورة میں یہ اصول بھی بیان کیا گیا ہے کہ کسی فاسق آدمی کی خبر کی تحقیق کرلی جائے اور بغیر تحقیق ایسی خبر پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔ اگر مسلمانوں کا آپس میں جھگڑا ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کرا دینی چاہئے۔ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ ٹھٹا نہ کریں اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کریں ۔ اس سورة میں غیبت کی سخت الفاظ میں ممانعت کی گئی ہے اور دوسرے شخص پر بد گمانی کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ نسب کی وجہ سے دوسرے کو حقیر جاننا اور اپنے نسب پر فخر کرنا قبیح بات ہے ، اللہ نے اس سے بھی منع فرمایا ہے ۔ پھر آخر میں منافقوں کی بعض خصلتوں کا ذکر کرکے ان کو زجر و توبیخ کی گئی ہے۔ درحقیقت یہ سورة مسلمانوں کے شہر ی قوانین (Cilvil Law) پر مشتمل ہے ۔ اس سے پہلی دو سورتوں میں جنگ اور صلح کے قوانین (Law of The War and Pace) کا ذکر تھا جب کہ یہ سورخ مبارکہ غیر حربی قوانین پر مشتمل ہے ، غرضیکہ اس سورة میں معاشرتی زندگی کے بارہ میں بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں اگر ان میں تین ضمنی اصول بھی شامل کرلیے جائیں تو کل تعداد پندرہ ہوجائے گی ۔ معاشرتی زندگی کا انحصار انہی اصولوں پر ہے ۔ ان پر عمل پیرا ہونے سے قوم اور ملک میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ جس سے داخلی اور خارجی اصلاح ممکن ہوتی ہے ۔ انہی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے انسان فتنہ و فساد اور جنگ وجدل سے بچ سکتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی کی صورت میں معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور نوبت زوال تک پہنچ جاتی ہے۔ پیش قدمی کی ممانعت آج کی آیت میں دو بڑے بڑے اصولوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلا اصول یہ ہے یایھا الذین امنوا لا تقدموا بین یدی اللہ ورسولہ اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کرو یعنی ان کے حکم اور ان کی اجازت سے کسی معاملہ میں آگے نہ بڑھو۔ جب کسی معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم موجود ہو یا ایسا حکم متوقع ہو تو پھر اپنی رائے کو دخل نہ دو بلکہ اللہ اور پیغمبر کے فرمان کو توجہ سے سنو اور پھر اس پر بلا چون و چرا عمل پیرا ہو جائو ۔ گویا اپنی خواہشات اور آراء کو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے تابع بنا لو ۔ غرضیکہ پہلے اصول میں نبی کریم ﷺ کے آداب اور حقوق اور پھر مسلمانوں کے آپس میں برادرانہ تعلقات قائم کرنے کے طور طریقے ، مسلمانوں کے جماعتی نظام کی بنیاد ، اس میں خرابی کی صورت میں اس کا علاج وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ تمام جھگڑوں اور تنازعات کی بنیادی وجہ خود غرضی اور خود رائی ہوتی ہے جس کا علاج پہلے ہی اصول میں بتا دیا گیا ہے۔ اگر مسلمان اپنی شخصی آراء اور اغراض کو کسی بلند ترین معیار کے تابع کردیں تو کوئی جھگڑا فساد نہیں ہوگا ۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں لا تقولوا خلاف الکتب والسنۃ یعنی اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت کے خلاف کوئی کام نہ کرو ۔ اگر اپنے تمام امور کتاب و سنت کے تابع بنا لو گے تو تمہارے تمام حالات درست ہوجائیں گے ، تہذیب و تمدن میں ترقی نصیب ہوگی اور اللہ کے ہاں بھی اجر کے مستحق بن جائو گے۔ بعض احکام کی تکمیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، مگر اس سے بد دل نہیں ہونا چاہئے خواہ اس سلسلہ میں کتنی ہی تکلیف اٹھانی پڑے۔ اس کا نتیجہ بہر حال اچھا نکلے گا ۔ دنیا و آخرت کی فلاح کا مدار اللہ اور اس کے رسول کی اتباع پر ہی ہے۔ بہر حال فرمایا کہ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو یعنی اپنی رائے کو ان کے حکم پر مقدم نہ رکھو ، اور ہمیشہ انہی کے تابع فرمان رہو۔ تقویٰ معنی خوف خدا اس آیت کریمہ میں دوسرا اصول یہ بیان کیا گیا ہے ۔ واتقو اللہ اللہ سے ڈرتے رہو ۔ خدا خوفی بہت بلند اصول ہے جس کی وجہ سے انسان کو فلاح نصیب ہوتی ہے قرآن پاک میں تقویٰ اختیار کرنے کی بڑی تلقین کی گئی ہے۔ مثلاً سورة بقرہ میں ارشاد ربانی ہے واتقو اللہ لعلکم تفلحون ( آیت : 189) اللہ سے ڈر جائو تا کہ تم فلاح پا جائو ۔ نیز فرمایا واتقوا اللہ واعلموا ان اللہ مع المتقین ( آیت : 194) تقویٰ اختیار کرو ، بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے۔ سورة الطلاق میں ہے ومن یتق اللہ یجعل لہ من امرہ بشرا ( آیت : 4) جو اللہ سے ڈرتا ہے ، تقویٰ اختیار کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانی پیدا کردیتا ہے۔ اسی سورة کی آیت 20 میں ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرتا ہے یجعل لہ مخرجا ً اللہ اس کے لیے نکلنے کی راہ پیدا کردیتا ہے۔ ویرزقہ من حیث لا یحتسب ( آیت : 3) اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے ، جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا ۔ شیخ عبد القادر جیلانی (رح) نے اپنی مشہور و معروف کتاب غنیۃ الطالبین میں تقویٰ کی تعریف میں یہ آیت نقل کی ہے ان اللہ یامر بالعدل والاحسان ویتای ذی القربیٰ وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی ( النحل : 90) یعنی تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ عدل اور احسان کیا جائے ، قرابتداروں کی مدد کی جائے ، فحاشی ، منکرات اور بغاوت سے اپنے آپ کو بچایا جائے۔ مطلب یہ کہ تقویٰ نیکی اختیار کرنے کا نام ہے ۔ انسان کفر ، شرک ، نفاق اور کبائر سے بچ جائے ، پھر مشتبہات سے بھی پرہیز کرے ، تو وہ کمال درجے کا متقی ہے ۔ سورة توبہ میں اللہ نے ایمان والوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی بیان کی ہے والحفظون لحدود اللہ ( آیت : 112) وہ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں اور یہ بھی تقویٰ میں شما ر ہوتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ” تقویٰ محافظت بر حدود شرع است “ یعنی شریعت ک حدود کی حفاظت کرنا ہی تقویٰ ہے۔ جس نے شریعت کے احکام کی پابندی کی وہ متقی ہے۔ اس کے علاوہ اپنے آپ کو دوسروں سے کم ترسمجھنا ، عاجزی اور انکساری اختیار کرنا اور عدل و انصاف کو اختیار کرنا بھی تقویٰ میں شامل ہے تو اللہ نے یہاں دوسرا اصول تقویٰ بیان فرمایا ہے جس کی وجہ سے اطاعت کامل ہوتی ہے اور انسان اغراض و خواہشات کے شر سے محفوظ رہتے ہیں ۔ فرمایا یہ بات بھی مد نظر رکھو ان اللہ سمیع علیم بیشک اللہ تعالیٰ ہر بات کو سنتا ہے اور کائنات میں واقع ہونے والی تمام حرکات و سکنات کو جانتا ہے ۔ کوئی چیز اس کے احاطہ سے باہر نہیں ہے تو اس سورة مبارکہ کی پہلی آیت میں یہ دو ضابطے بیان کردیے ہیں جن پر تہذیب و تمدن کا انحصار ہے ، نیز جن پر جماعتی ، مملکتی اور عام معاشرے کے نظم و نسق کے استحکام اور بقاء کا انحصار ہے۔ اور وہ ضابطے یہی ہیں کہ انسان اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے آگے نہ بڑھے ۔ بلکہ متعلقہ حکم معلوم کر کے عملی پیش قدمی کرے ، اور دوسرا ضابطہ تقویٰ ہے ، آج کے زمانہ میں تقویٰ تو کم ہی نظر آتا ہے ، بیشتر لوگ فسق و فجور میں ہی مبتلا ہیں ۔ لاکھوں میں ایک آدھ ہی ملے گا جو اپنی خواہشات اور اغراض کو اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر قربان کر دے ۔ اگر یہ بنیادہی خراب ہوگی تو معاشرتی نظام کیسے درست رہ سکتا ہے ؟
Top