Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ
: دن
يَجْمَعُ
: جمع کرے گا
اللّٰهُ
: اللہ
الرُّسُلَ
: رسول (جمع)
فَيَقُوْلُ
: پھر کہے گا
مَاذَآ
: کیا
اُجِبْتُمْ
: تمہیں جواب ملا
قَالُوْا
: وہ کہیں گے
لَا عِلْمَ
: نہیں خبر
لَنَا
: ہمیں
اِنَّكَ
: بیشک تو
اَنْتَ
: تو
عَلَّامُ
: جاننے والا
الْغُيُوْبِ
: چھپی باتیں
(اس دن کو یاد کرو) جس دن اللہ سارے رسولوں کو اکٹھا کریگا ، پس فرمائیگا (ان سے) کہ تم کو کب جواب دیا گیا (تمہاری امتوں کی طرف سے) وہ (رسول) کہیں گے ، ہم کو کچھ علم نہیں ، پس پوشیدہ باتوں کو جاننے والا تو ہی ہے
ربط آیات گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے وصیت کے متعلق احکام صادر فرمائے اور اس سے پہلے اہل کتاب اور مشرکین کی خود ساختہ نیازوں کا رد تھا۔ قسم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احرام کی حالت میں شکار کی ممانعت کا بیان بھی ہوچکا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اور محاسبے کے عمل کے متعلق ارشاد فرما رہا ہے۔ اس ضمن میں یہ پہلا رکوع تمہیدی ہے اور اگلے رکوع میں اس بات چیت کا ذکر ہے جو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ہوگی۔ یہاں پر مسیح (علیہ السلام) کا خاص طور پر اس لئے ذکر ہے کہ دنیا میں لوگ آپ کو الہ تسلیم کرتے تھے۔ بہرحال یہاں پر اللہ تعالیٰ نے رسولوں کا اجمالی طور پر ذکر فرمایا ہے ، قیامت کے محاسبے سے خبردار کیا ہے اور اس دن کی کیفیت کو ظاہر کیا ہے۔ تمام انبیاء سے سوال ارشاد ہوتا ہے یوم یجمع اللہ الرسل اس دن کو تصور میں لائو جس دن اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو اکٹھا کرے گا اور محاسبہ ہوگا رسل رسول کی جمع ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جتنے بھی نبی اور رسول انسانوں کی راہنمائی کے لئے اپنا حکم اور شریعت دے کر مبعوث فرمائے ، سب کو جمع فرما کر محاسبے کا عمل شروع کریگا فیقول ماذا اجبتم اور کہے گا تم کو کیا جواب دیا گیا ، یعنی جس قوم کی طرف تمہیں مبعوث کیا گیا تھا اور جس کو تم نے دین کی دعوت دی تھی ، اس قوم نے اس دعوت کا کیا جواب دیا۔ قالولا علم لنا رسول جواب دیں گے ہمیں کچھ علم نہیں انک انت علام الغیوب تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا تو ہی ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے دریافت کرنے پر انبیاء کا مطلق لاعلمی کا اظہار قابل توجہ ہے ، کیونکہ دور سے مقام پر قرآن پاک میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ ہراست میں سے رسول کو اٹھائے گا اور وہ اپنی اپنی امت کے حق میں گواہی بھی دینگے مگر یہاں پر کسی چیز کے علم سے مطلقاً انکار کردیا گیا ہے۔ اس کی توجیہہ میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ میدان محشر کی کارروائی بڑی وسیع ہوگی اور اس کی مختلف کیفیتیں ہوں گی ، وہاں پر ایک وقت ایسا بھی ہوگا جب ہر طرف دہشت طاری ہوگی اور جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں موجود ہے دعویٰ الرسل یومئذ نفسی نفسی رب مسلم اس وقت تما م انبیاء بھی نفسی نفسی پکار رہے ہوں گا اور کہیں گے۔ اے پروردگار ! آج بچا لے۔ اس آیت میں جس لاعلمی کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایسے ہی موقع کی بات ہے کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ ہر شخص خوف میں مبتلا ہوگا حتی کہ جب انبیاء سے اللہ تعالیٰ ان کی امتوں کے متعلق سوال کریں گے تو وہ لاعلمی کا اظہار کردیں گے۔ پھر جب سکون ہوجائے گا۔ تو انبیا (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے سوالات کا جواب بھی دیں گے اور اپنی اپنی امت کے حق میں گواہی بھی دیں گے اور عرض معروض بھی کریں گے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس اظہار لاعلمی کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مولا کریم ! تیرے علم کے مقابلے میں ہمارا علم تو محدود ہے اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ تمام پوشیدہ باتوں کو تو ہی جاننے والا ہے۔ اسی بنا پر وہ کہیں گے کہ لاعلم لنا ہمیں کچھ علم نہیں یعنی بہت ہی قلیل علم ہے ، گویا اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے سامنے اپنے علم کو نفی پر محمول کریں گے اور اس لاعلمی کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم جب تک دنیا میں رہے ہمارا علم تو ظاہری چیزوں تک ہی محدود تھا پوشیدہ باتوں تک تو ہماری علمی رسائی نہیں تھی۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ کس شخص کے دل میں صحیح ایمان اور سچی تصدیق موجود ہے اور کون شخص حقیقی ایمان سے محروم ہے۔ علم غیب خاصہ خداوندی ہے علم غیب خاصہ خداوندی ہے اور یہ مخلوق میں سے کسی دوسری ہستی کو حاصل نہیں۔ حتی کہ انبیاء (علیہم السلام) بھی ہر چیز کو نہیں جانتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ الہام کشف یا وحی کے ذریعے ظاہر نہ کر دے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش ہوا آپ نے فرمایا عالم الغیب اللہ تعالیٰ کی ذات ہے انما انا بشر 1 ؎ مسلم ص 101 ج 1 (فیاض) میں ایک انسان ہوں اور انسان عالم الغیب نہیں ہوا کرتے میں تو فریقین کے ظاہری بیانات اور گواہان کی شہادت پر فیصلہ کرتا ہوں ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی چرب زبان ہو اور اپنے معاملے کو اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہو جب کہ دوسرا آدمی اپنا موقف بہتر طور پر پیش نہ کرسکے ، ظاہری حالات کے مطابق اگر میرا فیصلہ غیر مستحق آدمی کے حق میں ہوجائے تو فرمایا اس شخص کو وہ چیز نہیں لینی چاہئے اگر ایسا کریگا تو وہ چیز اس کے حق میں جہنم کا ٹکڑا ہوگی۔ احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ قیامت کے دن کچھ لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے ، آپ ان کی نشانیوں سے سمجھیں گے کہ آپ کی امت کے لوگ ہیں مگر فرشتے ان کو ہانک کر دور لے جائیں گے۔ آپ فرمائیں گے کہ فرشتو ! یہ تو میرے ساتھی معلوم ہوتے ہیں ، تو فرشتے جواب دیں گے انک لا تدری ما احدثوا بعدک حضور ! بیشک آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کون کونسی نئی باتیں دین میں نکال لی تھیں۔ انہوں نے بدعات ایجاد کیں اور نئے نئے شوشے چھوڑے۔ اس پر نبی (علیہ السلام) فرمائیں گے سحق سحقا لمن غیر بعدی ان کو دور لے جائو جنہوں نے میرے بعد دین کو تبدیل کردیا گویا جب تک آپ دنیا میں تشریف فرما ہے معلوم تھا کہ یہ لوگ کیا کرتے تھے مگر بعد میں ان لوگوں نے دین کے چشمہ کو صاف نہیں رہنے دیا۔ اگلے رکوع میں مسیح (علیہ السلام) کے متعلق بھی آ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کو سوال کریں گے اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو ، تو عیسیٰ (علیہ السلام) یہی جواب دیں گے۔ مولا کریم ! مجھے ایسی ناحق بات کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ، اگر میں نے کوئی ایسی بات کی ہے تو تو اسے جانتا ہے کیونکہ تو علام الغیوب ہے۔ میں تو اپنی زندگی میں انہیں تیری توحید کی طرف ہی دعوت دیتا رہا ہوں۔ ” فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم “ جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو پھر تو ہی ان کا نگران تھا ، مجھے کیا علم کہ انہوں نے میرے بعد کیا کیا۔ بہرحال جب اللہ تعالیٰ تمام ابنیاء سے دریافت کریں گے کہ تمہاری امتوں نے میری دعوت کا کیا جواب دیا تو سب متفقہ طور پر اپنی عاجزی کا اظہار کریں گے اور اپنے محدود علم کے پیش نظر عرض کریں گے کہ مولا کریم ! تمام مخفی چیزوں کا علم تیرے پاس ہے۔ تیرے سوا کوئی غیب دان نہیں۔ یہ تو ہی جانتا ہے کہ ہماری امتوں کے لوگوں نے ہمارے بعد کیا کیا گل کھلائے یہ تو ہی جانتا ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ایمان کس حد تک راسخ تھا ان میں سے کون صحیح معنوں میں ایماندار تھا اور کون منافق تھا۔ غرضیکہ علم غیب کے خاصہ خداوندی ہنے کی تصریح قرآن پاک میں تین سو سے زیادہ آیات میں موجود ہے۔ جو شخص علم غیب کی صفت کسی مخلوق میں مانے گا وہ مشرک ہوجائے گا۔ ہر شخص کا محاسبہ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ سوال و جواب کا تذکرہ کر کے اللہ تعالیٰ نے تمام امتوں کو بھی بات سمجھائی ہے کہ ہر شخص کا فر داً فرداً محاسبہ ہونے والا ہے سورة اعراف میں موجود ہے ” فلنسئلن الذین ارسل الیھم ولنسئلن الرسلین “ ہم ان لوگوں سے بھی باز پرس کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور خود رسولوں سے پوچھ گچھ ہوگی بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ وہ وقت آ رہا ہے جب اللہ تعالیٰ ہر شخص سے براہ راست سوال کریگا اور درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ سورة نحل میں ہے ” یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا “ ہر شخص خود آ کر اپنے معاملات کا جواب دیگا۔ وہاں کوئی وکیل پیش ہو کر جواب دعویٰ داخل نہیں کرے گا ، بلکہ ہر بات کا خود ہی جواب دینا ہوگا۔ صحیح حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کسی انسان کا قدم نہیں ہلنے پائے گا جب تک کہ چند باتوں کے متعلق اس سے پوچھ گچھ نہ کرلی جائے گی انسان سے اس کے وجود کے متعلق سوال ہوگا کہ تجھے وجود جیسی نعمت دے کر دنیا میں بھیجا گیا تھا تو نے اس کا کیا کیا۔ پھر عمر جیسی قیمتی نعمت کے متعلق پوچھا جائے گا ، خاص طور پر جوانی کی عمر کے متعلق سوال ہوگا کہ اسے کہاں خرچ کیا۔ شباب کا زمانہ بڑا قیمتی زمانہ ہوتا ہے۔ بچپن اور بڑھاپا تو ناقص ہوتے ہیں مگر جوانی کے دوران انسان سب کچھ کرسکتا ہے زندگی کا لطف بھی اسی دور میں حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے روایت میں آتا ہے کہ جنتی لوگ ہمیشہ شباب کی حالت میں رہیں گے کیونکہ یہ بہترین زمانہ ہوتا ہے ، تو شباب کے متعلق پوچھا جائے گا کہ اسے کہاں بوسیدہ کیا۔ اسی طرح مال کے متعلق بھی سوال ہوگا کہ دنیا میں تو نے اسے کہاں سے حاصل کیا تھا اور کہاں خرچ کیا تھا۔ ان سب باتوں کے متعلق فرداً فرداً اور براہ راست سوالات ہوں گے۔ مسیح (علیہ السلام) کی بشریت اب اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان انعامات کا تذکرہ کیا ہے۔ جو اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر کئے۔ چونکہ دنیا میں بہت سے لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کے قائل ہیں اس لئے انہیں یہ بتلانا مقصود ہے کہ مسیح (علیہ السلام) بھی اللہ کے عاجز بندے ہیں۔ انہیں بھی اللہ تعالیٰ کے انعامات کی ضرورت ہے اور وہ خودالہ نہیں ہے ارشاد ہوتا ہے۔ اذ قال اللہ یعیسی ابن مریم جب اللہ تعالیٰ مسیح (علیہ السلام) سے خطاب کریں گے اے عیسیٰ مریم کے فرزند ! یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو ابن مریم کو کہہ پکاریں گے اور آگے انہی آیات میں جہاں آپ کے حواریوں نے مائدہ کے نزول کی درخواست کی تو وہاں بھی انہوں نے آپ کو مریم کے فرزند ہی کہہ کر پکارا مریم عورت ہے ، پہلے اسی سورة میں گزر چکا ہے ۔ ” وامہ صدیقۃ آپ کی والدہ بڑی راست ساز خاتون تھیں۔ سورة آل عمران میں گذر چکا ہے۔ ” واصطفک علی نسآء العلمین “ یعنی فرشتوں نے حضرت مریم سے کہا کہ اللہ نے تمہیں جہاں بھر کی عورتوں میں منتخب کیا ہے اور تمہیں فضیلت بخشی مقصد یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ابن اللہ نہیں بلکہ ابن مریم میں مگر عیسائیوں نے کس قدر ظلم کیا ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو الوہیت کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ زیادتی کی حد یہ ہے کہ عیسائیوں نے اپنی لغات میں عیسیٰ کا معنی ابن اللہ کیا ہے۔ حالانکہ ایسا کہنا خالصاً شرکیہ بات ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) ایک خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ حوائج البصری رکھتے تھے ، کھاتے پیتے تھے ، موت اور زندگی آپ کے ساتھ ساتھ ہے مگر اس کے باوجود لوگوں نے آپ کو انسانیت کی صف سے نکال کر الوہیت کی مسند پر بٹھا دیا۔ امام بخاری نے لکھا ہے کہ قیامت کے دن تمام لوگوں کو ان کے باپ کی نسبت سے پکارا جائے گا۔ صرف مسیح (علیہ السلام) کو ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا مسیح ابن مریم اور پھر سب کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ کر محاسبے کا عمل شروع ہوگا۔ ویسے عام قانون بھی یہی ہے ادعوھم لا بآء ھم تاکہ لوگوں کو باپوں کی نسبت سے پکارو ، فلاں ابن فلاں۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مسیح ابن مریم کہہ کر ان کی الوہیت کی نفی فرما دی ہے۔ انعامات الٰہی فرمایا اے عیسیٰ ابن مریم اذکرو نعمتی علیک وعلی والد تک میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیں۔ یہ بھی فرمایا ان ھو عبد انعمنا علیہ مسیح (علیہ السلام) خدا کے بندے اور رسول ہیں ان پر ہم نے اپنے احسانات کئے۔ سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ان کو اپنا منتخب بندہ یعنی رسول بنایا۔ معجزانہ طور پر بغیر باپ کے پیدا کرنا بھی اللہ کا احسان ہے۔ آپ کو بچپن میں ہی نبوت عطا کی گئی ، دیگر معجزات دیئے گئے اور پھر سب سے آخر میں دشمنان جان کے ہاتھوں سے محفوظ رکھا گیا ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسانات ہیں۔ فرمایا تیری والدہ پر یہ احسان کیا کہ اسے برگزیدہ بنایا اور بغیر خاوند کے بچہ عطا کیا۔ لوگوں کی تذلیل و توہین سے محفوظ رکھا ، اس کی عزت اور عصمت کو وحی کے ذریعے کتابوں میں نازل فرمایا۔ تیری والدہ پر یہ بھی احسان کیا کہ اس کی پرورش غیر معمولی طریقے سے ہوئی۔ بےموسم پھل اور خوردو نوش کی دیگر چیزیں غیر معمولی طریقے سے مہیا کیں ، یہ سب کچھ قرآن پاک میں موجود ہے۔ آگے عیسیٰ (علیہ السلام) پر کئے گئے احسانتا کی مزید تفصیل بیان فرمائی۔ اذایذتک بروح القدس جب میں نے تیری تائید پاک روح کے ساتھ کی۔ روح القدس کا عام معنی جبرائیل (علیہ السلام) کیا جاتا ہے۔ اللہ نے اسے تائید کے لئے مقرر کیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے لئے بھی جبرئایل ہی نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماری تھی۔ بشیا سویاً جبرائیل ہی بن کر آئے تھے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہر موقع پر جبرائیل (علیہ السلام) کی تائید حاصل رہی۔ البتہ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی روح القدس کی تائید سے مراد ملاء اعلیٰ کی مسلسل توجہ اور دعا لیتے ہیں۔ ملاء اعلیٰ کے فرئاض میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بعض اچھی چیزوں کی اچھائی پر اتفاق کرتے ہیں اور اچھے کام انجام دینے والوں کے حق میں دعائیں کرتے ہیں۔ اسی طرح برے کاموں کو بھی اپنے پیش نظر رکھتے ہیں اور ان کے مرتکبین کے لئے بد دعا کرتے ہیں تو شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ملا د اعلیٰ کی دعا یا بدعا کو روح القدس کی تائید سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بچپن اور ادھیڑ عمر میں کلام فرمایا۔ اے مسیح (علیہ السلام) تکلم الناس فی المھد وکھلا آپ لوگوں سے کالم کرتے تھے۔ گہوارے میں اور ادھیڑ عمر میں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن کے کلام کا ذکر تو سورة مریم میں موجود ہے۔ قال انی عبداللہ اتنی الکتب وجعلین نبیاً آپ نے پیدائش کے پہلے دن ہی اعلان کردیا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں ، مجھے کتاب دی گئی ہے اور نبی بنایا گیا ہے۔ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا معجزہ تھا جو ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوا ۔ وگرنہ چند گھنٹے عمر کا بچہ کیسے کلام کرسکتا ہے۔ تاہم معجزانہ طور پر کلام کرنے والے دنیا میں چند اور بچے بھی ہوئے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بچپن میں قوت گویائی عطا فرمائی۔ مسیح (علیہ السلام) بھی انہیں میں شامل ہیں۔ ادھیڑ عمر میں کلام کرنے سے متعلق اشکال پیدا ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) تو ابھی ادھیڑ عمر کو پہنچے بھی نہیں تھے کہ عین شباب کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا۔ بعض فرماتے ہیں کہ ادھیڑ عمر تیس سال بعد شروع ہوجاتی ہے جب کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا رفع الی السماء 33 سال کی عمر میں ہوا۔ لہٰذا ادھیڑ عمر کا کلام بھی ثابت ہوتا ہے۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ادھیڑ عمر چالیس سال کے بعد شروع ہوتی ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی اٹھا لیا گیا۔ لہٰذا ادھیڑ عمر میں ان کا کلام ثابت نہیں ہوتا ، البتہ یہ آپ کے دوبارہ نزول کی طرف اشارہ ہے کہ جب آپ دوبارہ زمین پر آئیں گے تو نکاح بھی کریں گے ، بچے بھی ہوں گے اور اس دوران آپ ادھیڑ عمر کو بھی پہنچیں گے اور اس عمر میں آپ کا کلام دوبارہ نزول کے بعد ہوگا۔ بہرحال مفسرین فرماتے ہیں کہ جس طرح آپ ادھیڑ عمر میں نبوت و رسالت کا کلام کرتے تھے اسی طرح اللہ نے گہوارے میں بھی اعلان نبوت فرما دیا۔ لہٰذا یہاں پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں زمانوں کا اکٹھا ذکر کیا ہے۔ کتاب و حکمت کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اے عیسیٰ (علیہ السلام) میرا یہ انعام بھی یاد کرو۔ واذ علمتک الکتب والحکمۃ جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دی مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ کتاب سے مراد لکھنا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے بغیر استاد کے عیسیٰ (علیہ السلام) کو تحریر کرنا سکھایا اور بعض فرماتے ہیں کہ کتاب سے مراد تمام کتب سماویہ ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کردیا اور ان کتابوں میں قرآن پاک بھی آتا ہے۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوگا تو وہ قرآن کی تعلیم کسی استاذ سے حاصل نہیں کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ خود انہیں سکھا دے گا اور حکمت سے مراد حضور ﷺ کی سنت ہے۔ دوبارہ نزول پر عیسیٰ (علیہ السلام) حضور نبی کریم ﷺ کے نائب کی حیثیت سے آپ کی سنت اور قرآن پاک کے مطابق فیصلے کریں گے اور قرآن کے علاوہ سنت کا علم بھی اللہ تعالیٰ براہ راست عیسیٰ (علیہ السلام) کو سکھائیں گے بہرحال بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ کتاب سے مراد مطلقاً لکھنا ہے اور حکمت سے مراد دانشمندی کی باتیں ہیں۔ ان دونوں چیزوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر احسان کے طور پر کیا ہے۔ فرمایا تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دی والتورئۃ والا نجیل اور تورات اور انجیل کی تعلیم بھی دی۔ تورات تو عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ تاہم آپ کا فرمان ہے کہ میں تورات کے بعض احکام منسوخ کرتا ہوں اور تورات کی بعض حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتا ہوں۔ مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تورات کا مکمل علم عطا فرمایا تھا۔ جہاں تک انجیل کا تعلق ہے ، وہ تو خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی۔ اس کی اصل زبان آراہی سریانی یا عبرانی تھی مگر اب وہ اصل انجیل موجود نہیں ، البتہ اس کے تراجم دنیا کی ہر زبان میں دستیاب ہیں۔ انجیل میں تغیر و تبدیل کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ ایک کاتب کو ایک سو بیس انجیلوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اب بھی پانچ مشہور انجیلیں تو دنیا میں موجود ہیں۔ اگرچہ ان میں اصل انجیل کے کچھ احکام بھی موجود ہیں تاہم اس کا اکثر حصہ تحریف و تغیر کا شکار ہوچکا ہے۔ انجیل معنی بشارت تورات کا معنی قانون ہے جب کہ انجیل کا معنی بشارت ہے۔ اسی طرح زبور کا معنی صحیفہ اور قرآن کا معنی پڑھی جانے والی کتاب ہے انجیل اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی اور اس کا نام بشارت اس لحاظ سے ہے کہ آپ کے فرائض میں داخل تھا کہ آپ بنی اسرائیل کو دین اور شریعت کی تعلیم دیں۔ نیز جاں بھی جائیں نبی آخر الزمان (علیہ السلام) کی بشارت لوگوں کو سنائیں ، چناچہ سورة صف میں آپ کا اعلان موجود ہے ” ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “ میں اپنے بعد آنے والے عظیم ال شان رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہوگا۔ انجیل میں اسے فار قلیط کے لفظ سے تعبیر کیا گیا اور سریانی زبان میں اس کا معنی ستو وہ جاں ہے جو کہ احمد کا ہم معنی لفظ ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ سینٹ پال کی اولاد عیسائیوں نے انجیل سے فار قلیط کا لفظ بھی تبدیل کردیا تاکہ آخری رسول اور آخری امت کے متعلق انجیل میں موجود پیش گوئیوں کو چھپایا جاسکے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر کئے گئے بعض احسانات کا تذکرہ کیا ہے۔ آگے آپ کے بعض معجزات کا تذکرہ آ رہا ہے ، وہ بھی اللہ کا انعام ہے۔ اس کے بعد اگلے رکوع میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال و جواب کا ذکر آئیگا۔
Top