Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ : دن يَجْمَعُ : جمع کرے گا اللّٰهُ : اللہ الرُّسُلَ : رسول (جمع) فَيَقُوْلُ : پھر کہے گا مَاذَآ : کیا اُجِبْتُمْ : تمہیں جواب ملا قَالُوْا : وہ کہیں گے لَا عِلْمَ : نہیں خبر لَنَا : ہمیں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
(اس دن کو یاد کرو) جس دن اللہ سارے رسولوں کو اکٹھا کریگا ، پس فرمائیگا (ان سے) کہ تم کو کب جواب دیا گیا (تمہاری امتوں کی طرف سے) وہ (رسول) کہیں گے ، ہم کو کچھ علم نہیں ، پس پوشیدہ باتوں کو جاننے والا تو ہی ہے
ربط آیات گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے وصیت کے متعلق احکام صادر فرمائے اور اس سے پہلے اہل کتاب اور مشرکین کی خود ساختہ نیازوں کا رد تھا۔ قسم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احرام کی حالت میں شکار کی ممانعت کا بیان بھی ہوچکا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اور محاسبے کے عمل کے متعلق ارشاد فرما رہا ہے۔ اس ضمن میں یہ پہلا رکوع تمہیدی ہے اور اگلے رکوع میں اس بات چیت کا ذکر ہے جو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ہوگی۔ یہاں پر مسیح (علیہ السلام) کا خاص طور پر اس لئے ذکر ہے کہ دنیا میں لوگ آپ کو الہ تسلیم کرتے تھے۔ بہرحال یہاں پر اللہ تعالیٰ نے رسولوں کا اجمالی طور پر ذکر فرمایا ہے ، قیامت کے محاسبے سے خبردار کیا ہے اور اس دن کی کیفیت کو ظاہر کیا ہے۔ تمام انبیاء سے سوال ارشاد ہوتا ہے یوم یجمع اللہ الرسل اس دن کو تصور میں لائو جس دن اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو اکٹھا کرے گا اور محاسبہ ہوگا رسل رسول کی جمع ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جتنے بھی نبی اور رسول انسانوں کی راہنمائی کے لئے اپنا حکم اور شریعت دے کر مبعوث فرمائے ، سب کو جمع فرما کر محاسبے کا عمل شروع کریگا فیقول ماذا اجبتم اور کہے گا تم کو کیا جواب دیا گیا ، یعنی جس قوم کی طرف تمہیں مبعوث کیا گیا تھا اور جس کو تم نے دین کی دعوت دی تھی ، اس قوم نے اس دعوت کا کیا جواب دیا۔ قالولا علم لنا رسول جواب دیں گے ہمیں کچھ علم نہیں انک انت علام الغیوب تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا تو ہی ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے دریافت کرنے پر انبیاء کا مطلق لاعلمی کا اظہار قابل توجہ ہے ، کیونکہ دور سے مقام پر قرآن پاک میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ ہراست میں سے رسول کو اٹھائے گا اور وہ اپنی اپنی امت کے حق میں گواہی بھی دینگے مگر یہاں پر کسی چیز کے علم سے مطلقاً انکار کردیا گیا ہے۔ اس کی توجیہہ میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ میدان محشر کی کارروائی بڑی وسیع ہوگی اور اس کی مختلف کیفیتیں ہوں گی ، وہاں پر ایک وقت ایسا بھی ہوگا جب ہر طرف دہشت طاری ہوگی اور جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں موجود ہے دعویٰ الرسل یومئذ نفسی نفسی رب مسلم اس وقت تما م انبیاء بھی نفسی نفسی پکار رہے ہوں گا اور کہیں گے۔ اے پروردگار ! آج بچا لے۔ اس آیت میں جس لاعلمی کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایسے ہی موقع کی بات ہے کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ ہر شخص خوف میں مبتلا ہوگا حتی کہ جب انبیاء سے اللہ تعالیٰ ان کی امتوں کے متعلق سوال کریں گے تو وہ لاعلمی کا اظہار کردیں گے۔ پھر جب سکون ہوجائے گا۔ تو انبیا (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے سوالات کا جواب بھی دیں گے اور اپنی اپنی امت کے حق میں گواہی بھی دیں گے اور عرض معروض بھی کریں گے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس اظہار لاعلمی کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مولا کریم ! تیرے علم کے مقابلے میں ہمارا علم تو محدود ہے اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ تمام پوشیدہ باتوں کو تو ہی جاننے والا ہے۔ اسی بنا پر وہ کہیں گے کہ لاعلم لنا ہمیں کچھ علم نہیں یعنی بہت ہی قلیل علم ہے ، گویا اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے سامنے اپنے علم کو نفی پر محمول کریں گے اور اس لاعلمی کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم جب تک دنیا میں رہے ہمارا علم تو ظاہری چیزوں تک ہی محدود تھا پوشیدہ باتوں تک تو ہماری علمی رسائی نہیں تھی۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ کس شخص کے دل میں صحیح ایمان اور سچی تصدیق موجود ہے اور کون شخص حقیقی ایمان سے محروم ہے۔ علم غیب خاصہ خداوندی ہے علم غیب خاصہ خداوندی ہے اور یہ مخلوق میں سے کسی دوسری ہستی کو حاصل نہیں۔ حتی کہ انبیاء (علیہم السلام) بھی ہر چیز کو نہیں جانتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ الہام کشف یا وحی کے ذریعے ظاہر نہ کر دے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش ہوا آپ نے فرمایا عالم الغیب اللہ تعالیٰ کی ذات ہے انما انا بشر 1 ؎ مسلم ص 101 ج 1 (فیاض) میں ایک انسان ہوں اور انسان عالم الغیب نہیں ہوا کرتے میں تو فریقین کے ظاہری بیانات اور گواہان کی شہادت پر فیصلہ کرتا ہوں ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی چرب زبان ہو اور اپنے معاملے کو اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہو جب کہ دوسرا آدمی اپنا موقف بہتر طور پر پیش نہ کرسکے ، ظاہری حالات کے مطابق اگر میرا فیصلہ غیر مستحق آدمی کے حق میں ہوجائے تو فرمایا اس شخص کو وہ چیز نہیں لینی چاہئے اگر ایسا کریگا تو وہ چیز اس کے حق میں جہنم کا ٹکڑا ہوگی۔ احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ قیامت کے دن کچھ لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے ، آپ ان کی نشانیوں سے سمجھیں گے کہ آپ کی امت کے لوگ ہیں مگر فرشتے ان کو ہانک کر دور لے جائیں گے۔ آپ فرمائیں گے کہ فرشتو ! یہ تو میرے ساتھی معلوم ہوتے ہیں ، تو فرشتے جواب دیں گے انک لا تدری ما احدثوا بعدک حضور ! بیشک آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کون کونسی نئی باتیں دین میں نکال لی تھیں۔ انہوں نے بدعات ایجاد کیں اور نئے نئے شوشے چھوڑے۔ اس پر نبی (علیہ السلام) فرمائیں گے سحق سحقا لمن غیر بعدی ان کو دور لے جائو جنہوں نے میرے بعد دین کو تبدیل کردیا گویا جب تک آپ دنیا میں تشریف فرما ہے معلوم تھا کہ یہ لوگ کیا کرتے تھے مگر بعد میں ان لوگوں نے دین کے چشمہ کو صاف نہیں رہنے دیا۔ اگلے رکوع میں مسیح (علیہ السلام) کے متعلق بھی آ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کو سوال کریں گے اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو ، تو عیسیٰ (علیہ السلام) یہی جواب دیں گے۔ مولا کریم ! مجھے ایسی ناحق بات کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ، اگر میں نے کوئی ایسی بات کی ہے تو تو اسے جانتا ہے کیونکہ تو علام الغیوب ہے۔ میں تو اپنی زندگی میں انہیں تیری توحید کی طرف ہی دعوت دیتا رہا ہوں۔ ” فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم “ جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو پھر تو ہی ان کا نگران تھا ، مجھے کیا علم کہ انہوں نے میرے بعد کیا کیا۔ بہرحال جب اللہ تعالیٰ تمام ابنیاء سے دریافت کریں گے کہ تمہاری امتوں نے میری دعوت کا کیا جواب دیا تو سب متفقہ طور پر اپنی عاجزی کا اظہار کریں گے اور اپنے محدود علم کے پیش نظر عرض کریں گے کہ مولا کریم ! تمام مخفی چیزوں کا علم تیرے پاس ہے۔ تیرے سوا کوئی غیب دان نہیں۔ یہ تو ہی جانتا ہے کہ ہماری امتوں کے لوگوں نے ہمارے بعد کیا کیا گل کھلائے یہ تو ہی جانتا ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ایمان کس حد تک راسخ تھا ان میں سے کون صحیح معنوں میں ایماندار تھا اور کون منافق تھا۔ غرضیکہ علم غیب کے خاصہ خداوندی ہنے کی تصریح قرآن پاک میں تین سو سے زیادہ آیات میں موجود ہے۔ جو شخص علم غیب کی صفت کسی مخلوق میں مانے گا وہ مشرک ہوجائے گا۔ ہر شخص کا محاسبہ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ سوال و جواب کا تذکرہ کر کے اللہ تعالیٰ نے تمام امتوں کو بھی بات سمجھائی ہے کہ ہر شخص کا فر داً فرداً محاسبہ ہونے والا ہے سورة اعراف میں موجود ہے ” فلنسئلن الذین ارسل الیھم ولنسئلن الرسلین “ ہم ان لوگوں سے بھی باز پرس کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور خود رسولوں سے پوچھ گچھ ہوگی بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ وہ وقت آ رہا ہے جب اللہ تعالیٰ ہر شخص سے براہ راست سوال کریگا اور درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ سورة نحل میں ہے ” یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا “ ہر شخص خود آ کر اپنے معاملات کا جواب دیگا۔ وہاں کوئی وکیل پیش ہو کر جواب دعویٰ داخل نہیں کرے گا ، بلکہ ہر بات کا خود ہی جواب دینا ہوگا۔ صحیح حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کسی انسان کا قدم نہیں ہلنے پائے گا جب تک کہ چند باتوں کے متعلق اس سے پوچھ گچھ نہ کرلی جائے گی انسان سے اس کے وجود کے متعلق سوال ہوگا کہ تجھے وجود جیسی نعمت دے کر دنیا میں بھیجا گیا تھا تو نے اس کا کیا کیا۔ پھر عمر جیسی قیمتی نعمت کے متعلق پوچھا جائے گا ، خاص طور پر جوانی کی عمر کے متعلق سوال ہوگا کہ اسے کہاں خرچ کیا۔ شباب کا زمانہ بڑا قیمتی زمانہ ہوتا ہے۔ بچپن اور بڑھاپا تو ناقص ہوتے ہیں مگر جوانی کے دوران انسان سب کچھ کرسکتا ہے زندگی کا لطف بھی اسی دور میں حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے روایت میں آتا ہے کہ جنتی لوگ ہمیشہ شباب کی حالت میں رہیں گے کیونکہ یہ بہترین زمانہ ہوتا ہے ، تو شباب کے متعلق پوچھا جائے گا کہ اسے کہاں بوسیدہ کیا۔ اسی طرح مال کے متعلق بھی سوال ہوگا کہ دنیا میں تو نے اسے کہاں سے حاصل کیا تھا اور کہاں خرچ کیا تھا۔ ان سب باتوں کے متعلق فرداً فرداً اور براہ راست سوالات ہوں گے۔ مسیح (علیہ السلام) کی بشریت اب اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان انعامات کا تذکرہ کیا ہے۔ جو اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر کئے۔ چونکہ دنیا میں بہت سے لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کے قائل ہیں اس لئے انہیں یہ بتلانا مقصود ہے کہ مسیح (علیہ السلام) بھی اللہ کے عاجز بندے ہیں۔ انہیں بھی اللہ تعالیٰ کے انعامات کی ضرورت ہے اور وہ خودالہ نہیں ہے ارشاد ہوتا ہے۔ اذ قال اللہ یعیسی ابن مریم جب اللہ تعالیٰ مسیح (علیہ السلام) سے خطاب کریں گے اے عیسیٰ مریم کے فرزند ! یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو ابن مریم کو کہہ پکاریں گے اور آگے انہی آیات میں جہاں آپ کے حواریوں نے مائدہ کے نزول کی درخواست کی تو وہاں بھی انہوں نے آپ کو مریم کے فرزند ہی کہہ کر پکارا مریم عورت ہے ، پہلے اسی سورة میں گزر چکا ہے ۔ ” وامہ صدیقۃ آپ کی والدہ بڑی راست ساز خاتون تھیں۔ سورة آل عمران میں گذر چکا ہے۔ ” واصطفک علی نسآء العلمین “ یعنی فرشتوں نے حضرت مریم سے کہا کہ اللہ نے تمہیں جہاں بھر کی عورتوں میں منتخب کیا ہے اور تمہیں فضیلت بخشی مقصد یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ابن اللہ نہیں بلکہ ابن مریم میں مگر عیسائیوں نے کس قدر ظلم کیا ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو الوہیت کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ زیادتی کی حد یہ ہے کہ عیسائیوں نے اپنی لغات میں عیسیٰ کا معنی ابن اللہ کیا ہے۔ حالانکہ ایسا کہنا خالصاً شرکیہ بات ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) ایک خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ حوائج البصری رکھتے تھے ، کھاتے پیتے تھے ، موت اور زندگی آپ کے ساتھ ساتھ ہے مگر اس کے باوجود لوگوں نے آپ کو انسانیت کی صف سے نکال کر الوہیت کی مسند پر بٹھا دیا۔ امام بخاری نے لکھا ہے کہ قیامت کے دن تمام لوگوں کو ان کے باپ کی نسبت سے پکارا جائے گا۔ صرف مسیح (علیہ السلام) کو ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا مسیح ابن مریم اور پھر سب کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ کر محاسبے کا عمل شروع ہوگا۔ ویسے عام قانون بھی یہی ہے ادعوھم لا بآء ھم تاکہ لوگوں کو باپوں کی نسبت سے پکارو ، فلاں ابن فلاں۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مسیح ابن مریم کہہ کر ان کی الوہیت کی نفی فرما دی ہے۔ انعامات الٰہی فرمایا اے عیسیٰ ابن مریم اذکرو نعمتی علیک وعلی والد تک میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیں۔ یہ بھی فرمایا ان ھو عبد انعمنا علیہ مسیح (علیہ السلام) خدا کے بندے اور رسول ہیں ان پر ہم نے اپنے احسانات کئے۔ سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ان کو اپنا منتخب بندہ یعنی رسول بنایا۔ معجزانہ طور پر بغیر باپ کے پیدا کرنا بھی اللہ کا احسان ہے۔ آپ کو بچپن میں ہی نبوت عطا کی گئی ، دیگر معجزات دیئے گئے اور پھر سب سے آخر میں دشمنان جان کے ہاتھوں سے محفوظ رکھا گیا ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسانات ہیں۔ فرمایا تیری والدہ پر یہ احسان کیا کہ اسے برگزیدہ بنایا اور بغیر خاوند کے بچہ عطا کیا۔ لوگوں کی تذلیل و توہین سے محفوظ رکھا ، اس کی عزت اور عصمت کو وحی کے ذریعے کتابوں میں نازل فرمایا۔ تیری والدہ پر یہ بھی احسان کیا کہ اس کی پرورش غیر معمولی طریقے سے ہوئی۔ بےموسم پھل اور خوردو نوش کی دیگر چیزیں غیر معمولی طریقے سے مہیا کیں ، یہ سب کچھ قرآن پاک میں موجود ہے۔ آگے عیسیٰ (علیہ السلام) پر کئے گئے احسانتا کی مزید تفصیل بیان فرمائی۔ اذایذتک بروح القدس جب میں نے تیری تائید پاک روح کے ساتھ کی۔ روح القدس کا عام معنی جبرائیل (علیہ السلام) کیا جاتا ہے۔ اللہ نے اسے تائید کے لئے مقرر کیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے لئے بھی جبرئایل ہی نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماری تھی۔ بشیا سویاً جبرائیل ہی بن کر آئے تھے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہر موقع پر جبرائیل (علیہ السلام) کی تائید حاصل رہی۔ البتہ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی روح القدس کی تائید سے مراد ملاء اعلیٰ کی مسلسل توجہ اور دعا لیتے ہیں۔ ملاء اعلیٰ کے فرئاض میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بعض اچھی چیزوں کی اچھائی پر اتفاق کرتے ہیں اور اچھے کام انجام دینے والوں کے حق میں دعائیں کرتے ہیں۔ اسی طرح برے کاموں کو بھی اپنے پیش نظر رکھتے ہیں اور ان کے مرتکبین کے لئے بد دعا کرتے ہیں تو شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ملا د اعلیٰ کی دعا یا بدعا کو روح القدس کی تائید سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بچپن اور ادھیڑ عمر میں کلام فرمایا۔ اے مسیح (علیہ السلام) تکلم الناس فی المھد وکھلا آپ لوگوں سے کالم کرتے تھے۔ گہوارے میں اور ادھیڑ عمر میں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن کے کلام کا ذکر تو سورة مریم میں موجود ہے۔ قال انی عبداللہ اتنی الکتب وجعلین نبیاً آپ نے پیدائش کے پہلے دن ہی اعلان کردیا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں ، مجھے کتاب دی گئی ہے اور نبی بنایا گیا ہے۔ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا معجزہ تھا جو ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوا ۔ وگرنہ چند گھنٹے عمر کا بچہ کیسے کلام کرسکتا ہے۔ تاہم معجزانہ طور پر کلام کرنے والے دنیا میں چند اور بچے بھی ہوئے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بچپن میں قوت گویائی عطا فرمائی۔ مسیح (علیہ السلام) بھی انہیں میں شامل ہیں۔ ادھیڑ عمر میں کلام کرنے سے متعلق اشکال پیدا ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) تو ابھی ادھیڑ عمر کو پہنچے بھی نہیں تھے کہ عین شباب کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا۔ بعض فرماتے ہیں کہ ادھیڑ عمر تیس سال بعد شروع ہوجاتی ہے جب کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا رفع الی السماء 33 سال کی عمر میں ہوا۔ لہٰذا ادھیڑ عمر کا کلام بھی ثابت ہوتا ہے۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ادھیڑ عمر چالیس سال کے بعد شروع ہوتی ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی اٹھا لیا گیا۔ لہٰذا ادھیڑ عمر میں ان کا کلام ثابت نہیں ہوتا ، البتہ یہ آپ کے دوبارہ نزول کی طرف اشارہ ہے کہ جب آپ دوبارہ زمین پر آئیں گے تو نکاح بھی کریں گے ، بچے بھی ہوں گے اور اس دوران آپ ادھیڑ عمر کو بھی پہنچیں گے اور اس عمر میں آپ کا کلام دوبارہ نزول کے بعد ہوگا۔ بہرحال مفسرین فرماتے ہیں کہ جس طرح آپ ادھیڑ عمر میں نبوت و رسالت کا کلام کرتے تھے اسی طرح اللہ نے گہوارے میں بھی اعلان نبوت فرما دیا۔ لہٰذا یہاں پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں زمانوں کا اکٹھا ذکر کیا ہے۔ کتاب و حکمت کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اے عیسیٰ (علیہ السلام) میرا یہ انعام بھی یاد کرو۔ واذ علمتک الکتب والحکمۃ جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دی مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ کتاب سے مراد لکھنا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے بغیر استاد کے عیسیٰ (علیہ السلام) کو تحریر کرنا سکھایا اور بعض فرماتے ہیں کہ کتاب سے مراد تمام کتب سماویہ ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کردیا اور ان کتابوں میں قرآن پاک بھی آتا ہے۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوگا تو وہ قرآن کی تعلیم کسی استاذ سے حاصل نہیں کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ خود انہیں سکھا دے گا اور حکمت سے مراد حضور ﷺ کی سنت ہے۔ دوبارہ نزول پر عیسیٰ (علیہ السلام) حضور نبی کریم ﷺ کے نائب کی حیثیت سے آپ کی سنت اور قرآن پاک کے مطابق فیصلے کریں گے اور قرآن کے علاوہ سنت کا علم بھی اللہ تعالیٰ براہ راست عیسیٰ (علیہ السلام) کو سکھائیں گے بہرحال بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ کتاب سے مراد مطلقاً لکھنا ہے اور حکمت سے مراد دانشمندی کی باتیں ہیں۔ ان دونوں چیزوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر احسان کے طور پر کیا ہے۔ فرمایا تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دی والتورئۃ والا نجیل اور تورات اور انجیل کی تعلیم بھی دی۔ تورات تو عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ تاہم آپ کا فرمان ہے کہ میں تورات کے بعض احکام منسوخ کرتا ہوں اور تورات کی بعض حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتا ہوں۔ مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تورات کا مکمل علم عطا فرمایا تھا۔ جہاں تک انجیل کا تعلق ہے ، وہ تو خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی۔ اس کی اصل زبان آراہی سریانی یا عبرانی تھی مگر اب وہ اصل انجیل موجود نہیں ، البتہ اس کے تراجم دنیا کی ہر زبان میں دستیاب ہیں۔ انجیل میں تغیر و تبدیل کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ ایک کاتب کو ایک سو بیس انجیلوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اب بھی پانچ مشہور انجیلیں تو دنیا میں موجود ہیں۔ اگرچہ ان میں اصل انجیل کے کچھ احکام بھی موجود ہیں تاہم اس کا اکثر حصہ تحریف و تغیر کا شکار ہوچکا ہے۔ انجیل معنی بشارت تورات کا معنی قانون ہے جب کہ انجیل کا معنی بشارت ہے۔ اسی طرح زبور کا معنی صحیفہ اور قرآن کا معنی پڑھی جانے والی کتاب ہے انجیل اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی اور اس کا نام بشارت اس لحاظ سے ہے کہ آپ کے فرائض میں داخل تھا کہ آپ بنی اسرائیل کو دین اور شریعت کی تعلیم دیں۔ نیز جاں بھی جائیں نبی آخر الزمان (علیہ السلام) کی بشارت لوگوں کو سنائیں ، چناچہ سورة صف میں آپ کا اعلان موجود ہے ” ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “ میں اپنے بعد آنے والے عظیم ال شان رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہوگا۔ انجیل میں اسے فار قلیط کے لفظ سے تعبیر کیا گیا اور سریانی زبان میں اس کا معنی ستو وہ جاں ہے جو کہ احمد کا ہم معنی لفظ ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ سینٹ پال کی اولاد عیسائیوں نے انجیل سے فار قلیط کا لفظ بھی تبدیل کردیا تاکہ آخری رسول اور آخری امت کے متعلق انجیل میں موجود پیش گوئیوں کو چھپایا جاسکے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر کئے گئے بعض احسانات کا تذکرہ کیا ہے۔ آگے آپ کے بعض معجزات کا تذکرہ آ رہا ہے ، وہ بھی اللہ کا انعام ہے۔ اس کے بعد اگلے رکوع میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال و جواب کا ذکر آئیگا۔
Top