Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 75
مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ وَ اُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌ١ؕ كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ
مَا : نہیں الْمَسِيْحُ : مسیح ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم اِلَّا : مگر رَسُوْلٌ : رسول قَدْ خَلَتْ : گزر چکے مِنْ قَبْلِهِ : اس سے پہلے الرُّسُلُ : رسول وَاُمُّهٗ : اور اس کی ماں صِدِّيْقَةٌ : صدیقہ (سچی۔ ولی) كَانَا يَاْكُلٰنِ : وہ دونوں کھاتے تھے الطَّعَامَ : کھانا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسے نُبَيِّنُ : ہم بیان کرتے ہیں لَهُمُ : ان کے لیے الْاٰيٰتِ : آیات (دلائل) ثُمَّ : پھر انْظُرْ : دیکھو اَنّٰى : کہاں (کیسے يُؤْفَكُوْنَ : اوندھے جارہے ہیں
نہیں ہیں مسیح ابن مریم مگر اللہ کے رسول تحقیق گزر چکے ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول اور ان کی ماں صدیقہ (بہت راستباز خاتون) ہے۔ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے ، دیکھو ! ہم ان کے لئے کس طرح دلائل بیان کرتے ہیں۔ پھر دیکھو ! یہ لوگ کدھر الٹے چلے جا رہے ہیں۔
ربط آیات گزشتہ کئی دروس سے اہل کتاب کے عقائد باطلہ کی تردید ہو رہی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ نقض عہد کی وج ہ سے یہ معلون ٹھہرے۔ انہوں نے اللہ کی کتابوں میں تحریف کی۔ ان کی اکثریت نافرمانوں کی تھی مگر ان میں بعض باصلاحیت لوگ بھی موجود تھے۔ وہ حق بات کو قبول کر کے ایمان کا راستہ اختیار کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نصاری کے مختلف فرقوں کے عقائد بطلہ کا رد فرمایا اور حضور خاتم النبین ﷺ اور آپ کے رفقاء کو یہ بات سمجھا دی کہ وہ اہل کتاب کی مخالفت سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ وہ لوگ پکے کافر ہوئے جنہوں نے کہا ” ان اللہ ھو المسیح ابن مریم یعنی مسیح (علیہ السلام) بعینہ خدا ہیں۔ یہ بات تو عقل کے بھی خلاف ہے اور نقل کے بھی خلاہے بلکہ خود مسیح (علیہ السلام) کی تعلیمات کے بھی مناف ہے۔ آپ کی تبلیغ کا ذکر تو ہوچکا ہے کہ انہوں نے کہا اے بنی اسرائیل ” اعبدواللہ “ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا ، اس پر جنت حرام ہوگئی اور اس کا ٹھکانا دوزخ میں ہوگا اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار بھی نہیں ہوگا۔ فرمایا یہ اتحادی عقیدہ رکھنے والے بھی کافر ہیں اور وہ بھی کافر ہیں جنہوں نے کہا ” ان اللہ ثالث ثلثۃ “ یعنی اللہ تین میں سے تیسرا ہے یہ عقیدہ تثلیث بھی کفریہ عقیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف ایک وحدئہ لاشریک ہے۔ فرمایا اب بھی موقع ہے کہ یہ لوگ توبہ کرلیں اور سابقہ گناہوں کی معاف طلب کرلیں تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا ، بصورت دیگر درد ناک عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ مسیح (علیہ السلام) بحیثیت رسول اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے نہایت مختصر الفاظ میں نصاریٰ کے اس عقیدے کا رد فرمایا ہے جس کے مطابق وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو متصرف فی الامور اور خود مختار مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں ایسے دلائل کی طرف اشارہ کیا جنہیں دنیا کا کوئی صاحب شعور آدمی رد نہیں کرسکتا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے ما المسیح ابن مریم الا رسول نہیں ہیں مسیح ابن مریم مگر اللہ کے کے رسول۔ یہ ما اور الا یعنی نفی اور اثبات کے درمیان بات کی گئی ہے اور مطلب یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہونے کے سوا کچھ نہیں ہیں نہ وہ خدا ہیں نہ اوتار اور نہ خدا کے بیٹے اور نہ متصرف ۔ اللہ کے فرستادہ ہونے کے علاوہ ان کی اور کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ رسول کا لفظ واضح کر رہا ہے کہ اس کو بھیجنے والی کوئی دوسری ہستی ہے جو بلاشبہ بھیجے جانے والے سے اعلیٰ وارفع ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہے جس نے مسیح (علیہ السلام) کو اپنا پیغام پہنچانے کے لئے مبعوث فرمایا ، لہٰذا وہ خود خدا کیسے ہو سکتا ہے۔ مسیح ابن مریم کے الفاظ بھی بتا رہے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت مریم کے بیٹے ہیں۔ جو پیدائش کے لئے ماں کا محتاج ہے اور اس کے پیٹ … پیدا ہوا ہے ، خود الہ کیسے ہوا۔ اب مسیح کے نام پر بھی غور کیجیے۔ یہ مرکب ہے روح اور جسم کا ، اور جو خود مرکب ہو یعنی روح اور جسم کا محتاج ہو ، اس پر الومیت صادق نہیں آتی کیونکہ الہ تو ہو سکتا ہے جو ہر چیز سے بےنیاز ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو بلکہ ہر چیز اس کی محتاج ہو ۔ گزشتہ سورة میں بل رفعہ اللہ الیہ کا تذکرہ بھی ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کا روح مع الجسم اپنی طرف اٹھا لیا۔ اس سے بھی آپ کا مرکب ہونا ثابت ہوتا ہے جو صفت الوہیت کے منافی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ اسلام کو بپا کے توسط کے بغیر پیدا کیا۔ مگر ماں کا توسط تو موجود ہے مسیح (علیہ السلام) مریم کے بیٹے ہیں اور اللہ کے رسول ہیں ، اس کے فرستادہ ہیں وہ نہ خود خدا ہیں اور نہ تینوں میں تیسرا ہیں۔ نصاریٰ کا حلولی اور اوتاری دونوں عقائد باطل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ انسانیت کی اصلاح اور فلاح کے لئے اس نے ہمیشہ اپنے رسول بھیجے ہیں ، وہ نہ خود آیا ہے اور نہ اس کا کوئی اوتار نازل ہوا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر سمیح (علیہ السلام) تک ودخلت من قبلہ الرسل اس سے پہلے رسول ہی گزرے ہیں۔ اور رسول انسان ہوتے ہیں کیونکہ انہیں انسانوں کی طرف مبعوث کیا جاتا ہے۔ مسیح (علیہ السلام) کے بعد صرف ایک رسول کی ضرورت تھی جس کے متعلق حضرت مسیح (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو رفع الی السما تک بشارت سناتے رہے و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمر احمد (سورۃ صف میرے بعد ایک رسول آنے والے ہیں جس کا نام احمد ہوگا۔ انجیل میں احمد کا متبادل لفظ فارقلیط گزشتہ صدی تک موجود رہا ہے مگر اب انہوں نے کتاب اللہ میں تحریف کر کے اس کی جگہ مددگار کا لفظ دیا ہے۔ کیونکہ فار قلیط کے لفظ سے حضور ﷺ کی آمد کی بشارت ظاہر ہوتی تھی اور نصاریٰ آپ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ بہرحال فرمایا کہ مسیح (علیہ السلام) سے پہلے بھی اللہ کے رسول آتے رہے ہیں جو سب اللہ کے بندے اور انسان تھے الا رجالاً نوحی الیھم اور پھر یہ بھی ہے کہ یہ رسول سارے کے سارے مرد تھے اور من اھل القری “ متمدن بستیوں سے آتے ہیں ، دیہاتی لوگوں میں سے رسول نہیں آئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اعلیٰ اور متمدن انسانوں میں سے رسول کا انتخاب فرمات ارہا ہے تو فرمایا کہ مسیح (علیہ السلام) سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں ، آپ نہ تو خدا ہیں نہ خدا زادے اور نہ تینوں میں سے تیسرے ، وہ تو مریم کے بیٹے اور اللہ کے رسول ہیں ، وہ الہ ہرگز نہیں ہیں۔ ممنات الوہیت کسی ذات میں صفت الوہیت ماننے سے پہلے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آیا وہ ہستی ان صفات پر پورا اترتی ہے جو سابقہ کتب اور اہل خرد کے نزد مسلم ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ الہ وہ ہوتا ہے جو واجب الوجود ہو یعنی جس کا وجود خود بخود ہو ، کسی دوسری ذات کا پیدا کردہ نہ ہو۔ مکر مسیح (علیہ السلام) میں یہ صفت نہیں پائی جاتی۔ ان کا وجود تو پیدا شدہ اور مربوب ہے ، وہ نہ خالق ہیں اور نہ رب ، لہٰذا وہ الہ نہیں ہو سکتے۔ الہ کی ایک صفت قادر مطلق ہونا بھی ہے۔ الہ وہ ہو سکتا ہے جسے بہ چیز پر تصرف حاصل ہو ، مگر مسیح (علیہ السلام) میں یہ صفت بھی مفقود ہے وہ تو اللہ کے عاجز بندے ہیں …… انجیل میں موجود ہے کہ مسیح علیہ السالم اپنی عاجزی کی وجہ سے تختہ دار پر چڑھے اور جو عاجز ہو وہ الہ نہیں ہو سکتا۔ انجیل میں مسیح (علیہ السلام) کا یہ قول بھی موجود ہے کہ بیٹا یعنی مسیح اپنے آپ کچھ نہیں کرسکتا یہ بھی آپ کے عجز پر دلالت کرتا ہے اور صفت الوہیت کے منافی ہے حقیقی معبود کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ علیم کل ہو کوئی چیز اس سے مخفی نہ ہو۔ قیامت کے وقت کے متعلق انجیل میں مسیح (علیہ السلام) کا فرمان موجود ہے کہ قیامت کی گھڑی کے متعلق نہ فرشتے جاتے ہیں اور نہ بیٹا یعنی خود مسیح اس کا علم صرف باپ یعنی خدا تعالیٰ کو ہے اور کسی کو نہیں اس طرح مسیح (علیہ السلام) کے علیم کل ہونے کی بھی نفی ہوگئی۔ الٰہ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ غیر محدود اور غیر مرنی ہوگا۔ نہ تو اس کا احاطہ ہو سکتا ہے اور نہ وہ ان آکھوں سے نفر آتا ہے مگر ، مسیح (علیہ السلام) چلتے پھرتے دکھائی دیتے تھے اور درمیانے قد کے محدود انسان تھے ، لہٰذا وہ ان صفات کے حامل تبی نہ تھے اس لئے بھی انہیں الوہیت سے متصف نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ الہ وہ ہے جس میں معبودیت کی صفت پائی جائے مگر مسیح (علیہ السلام) تو عابد ہیں معبود نہیں۔ جیسا کہ گزشتہ دروس میں گزر چکا ہے ان کی تو اپنی تعلیم یہ تھی۔ عبد واللہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی لہٰذا آب الہ نہیں تسلیم کئے جاسکتے ہیں۔ حضرت مریم صدیقہ ہیں یہودی حضرت مریم پر بدکاری کا الزام لگاتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت کی خود گواہی دی اور فرمایا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اللہ کے رسول تھے فامہ صدیقۃ اور آپ کی والدہ صدیقہ یعنی راست باز تھیں اسلامی اصطلاح میں انبیاء (علیہم السلام) کے بعد صدیقین کا درجہ ہے اور اس سے مراد خدا کی عبادت گزار ، اس کا ذکر کرنے والی ، پاکیزہ اخلاق ، برائی سے دور رہنے والی ، ہر لحاظ سے سچائی پر کاربند ، اطاعت گزار اور عقیدے اور عمل میں راست باز ہے۔ جب حضرت مریم حضرت مسیح (علیہ السلام) کو گود میں اٹھا کر آئیں تو یہودیوں نے فوراً ان پر الزام لگایا لقد جئت شیئاً فریاً “ (مریم ، لویہ بدکاری کا بچہ لے کر آئی ہے ، تیرے والدین تو ایسے نہیں تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مریم راست باز خاتون تھیں۔ ضروریات زندگی کا احتیاج حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے ذکر کے بعد آگے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں حیثیت کی مزید وضاحت فرمائی ہے کانا یاکلن الطعام وہ دونوں (ماں بیٹا) کھانا کھاتے تھے ، مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح اور ان کی والدہ کوئی عجیب و غریب مخلوق نہیں تھے بلکہ عام انسانوں کی طرح وہ بھی کھانے کے محتاج تھے ، انہیں بھی بھوک پیاس لگتی تھی اور الہ وہ ہو سکتا ہے جو ان چیزوں سے پاک ہو۔ امام رازق فرماتے ہیں کہ جو شخص بھوک پیاس کے ازالے کے لئے کھانے پینے کا محتاج ہو۔ پائوں رکھنے کے لئے زمین کا محتاج ہو جسے جسم و روح کا تعلق قائم رکھنے کے لئے سانس کا احتیاج ہو اور جسے بول و براز کی حاجت لاحق ہو۔ وہ بھلا الہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ایسے ٹھوس دلائل بیان فرمائے ہیں کہ کوئی شخص ان کی تردید نہیں کرسکتا یہاں کھانا کھانے کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کے احتیاج کو واضح فرما دیا بلکہ یہ دلیل تو اللہ تعالیٰ نے تمام ابنیاء کے حق میں دی ” وما جعلنھم جسداً لا یاکلون الطعام “ اللہ تعالیٰ کے کسی نبی کا جسم ایسا نہیں بنایا جو کھانے کا محتاج نہو کسی نبی کا وجود ازلی ابدی بھی نہیں ہے۔ ازلی ابدی اور تمام ضروریات سے مبرا اور منزہ ذات تو صرف اللہ تعالیٰ کی ہے فرشتے اگرچہ کھانا نہیں کھاتے مگر بقائے حیات کے وہ بھی محتاج ہیں وہ چلنے پھرنے کے محتاج ہیں اور صرف امر الٰہی سے ہی چلتے پھرتے ہیں اور حکم الٰہی کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس طرح وہ رفع درجات کے محتاج ہیں اور انعام و اکرام کے بھی خواہشمند ہوتے ہیں۔ غرضیکہ جبرائیل ، میکائیل ، اسرافیل ، عزرائیل (علیہم السلام) اور تمام فرشتے اور اللہ تعالیٰ کی باقی تمام مخلوق کسی نہ کسی چیز کی محتاج ہے حتی کہ ہر ذی جان چیز سانس تک لینے کی محتاج ہے انبیاء اولیا اور بزرگ سب اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے اور اسی کے عابد ہیں۔ معبود صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے علاوہ نہ کوئی علیم کل ہے۔ نہ قدر مطلق ہے اور نہ واجب الوجود ، سب کے سب مرئی یعنی دکھائی دینے والے اور محدود ہیں۔ لامحدود اور غیر مرئی صرف ذات خداوندی ہے۔ لہٰذا معبود بھی وہی ہے اس کے علاوہ بشمول مسیح (علیہ السلام) کوئی الہ نہیں ہے مسیح (علیہ السلام) اس کے سوا نہیں کہ وہ اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں۔ بنی نوع انسان میں یہ سب سے بڑا شرف ہے مگر وہ الہ بہرحال نہیں ہیں۔ دعوت غور و فکر یہ دلائل بیان کرنے کے بعد اللہ جل جلالہ نے فرمایا انظر کیف نبی ن لھم الایت دیکھو ! ہم کس طرح واضح دلائب بیان کرتے ہیں ہر ہر لفظ میں توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کی دلیل موجود ہے۔ تثلیث اور اتحادی عقیدے کی تردید ہے اگر اور کوئی دلیل بھی سمجھ میں نہ آئے تو اتنی بات تو بالکل سیدھی سادھی ہے کہ جو کھانے پینے کا محتاج ہے وہ الہ نہیں ہو سکتا۔ انسان تمام ضروریات زندگی کا محتاج ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ایک انسان ہیں …وہ معبود نہیں ہو سکتے۔ فرمایا ثم انظر انی یوفکون ۔ پھر دیکھو ! یہ کدھر الٹے پھرے جا رہے ہیں۔ یہ اسی اتحادی اور تثلیث کے گندے عقیدے پر مصر ہیں۔ انہوں نے خالق اور مخلوق کو ایک کردیا ہے۔ اسی گمراہ میں مبتلا ہو ک رکفر اور شرک کا ارتکاب کر رہے ہیں اتنے واضح دلائل آنے کے باوجود یہ اس باطل عقیدے کو ترک کرنے کے لئے تایر نہیں ہیں۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے تصرف میں شرک کرنے کا خصوصی رد فرمایا ہے۔
Top