Mualim-ul-Irfan - Al-Hadid : 28
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۚۙ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِرَسُوْلِهٖ : اس کے رسول پر يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ : دے گا تم کو دوہرا حصہ مِنْ رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت میں سے وَيَجْعَلْ لَّكُمْ : اور بخشے گا تم کو۔ بنا دے گا تمہارے لیے نُوْرًا : ایک نور تَمْشُوْنَ بِهٖ : تم چلو گے ساتھ اس کے وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ : اور بخش دے گا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : غفور رحیم ہے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور ایمان لائو اس کے رسول پر۔ دے گا وہ تم کو دو حصے اپنی رحمت سے اور بنائے گا تمہارے لئے روشنی چلو گے تم اس کے ساتھ اور معاف کرے گا تم کو ۔ اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے
ربط آیات : اس سورة مبارکہ میں دین کے تمام بنیادی مسائل کا ذکر ہوا ہے خصوصاً انفاق فی سبیل اللہ پر زیادہ توجہ دی گئی ہے مسئلہ توحید ، اللہ کی صفات ، ایمان تخلیق کائنات اس کی حکمت ، نزول کتاب رسالت کا ذکر اور پھر آگے دوسرے جہاں میں نکلنے والے نتائج کا تذکرہ ہے۔ پھر منافقوں کی مذمت اور ایمان والوں کو تنبیہ کی گئی ہے خدا کے راستے میں مال صرف کرنے والوں کے اجروثواب کی بات کی گئی ہے۔ دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی زندگی کی طلب کا ذکر ہے۔ بخل کرنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ پھر رسولوں کی بعثت کی حکمت ، نزول کتاب ، قیام میزان عدل کا ذکر ہے۔ لوہے کی تخلیق کی حکمت اور فلسفہ بیان کیا گیا ہے اور دین حق کے قیام کے لئے اس کے استعمال کی ترغیب دی گئی ہے انبیاء (علیہم السلام) میں سے حضرت نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) کا ذکر ہے اور ان کی اولاد میں نبوت کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھنے کا بیان ہے۔ آخر میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے پیروکاروں کے دلوں میں نرمی اور شفقت کا ذکر ہے اور رہبانیت کی تردید کی گئی ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے متبعین عیسیٰ پر رہبانیت مقرر نہیں کی بلکہ انہوں نے یہ چیز از خود رضائے الٰہی کی تلاش کے لئے نکالی مگر اس کی حفاظت نہ کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان میں ایماندار تھوڑے ہی رہے اور ان کی اکثریت نافرمانی میں مبتلا رہی۔ دوہرا ایمان دگنا حصہ : سورۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے اور نہ لانے والوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ ، اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو وامنوا برسولہ اور ایمان لائو اس کے رسول پر۔ ان ایمان والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے اپنے دور میں سابقہ انبیاء حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور انہوں نے حضور ﷺ کا زمانہ بھی پایا۔ اور رسول سے مراد حضور خاتم النبیین ﷺ ہیں۔ چناچہ سابقہ ادوار کے یہودیوں اور عیسائیوں سے کہا جارہا ہے کہ تم اپنے سابقہ انبیاء پر تو ایمان لاچکے ہو ، اب اللہ کے اس آخری نبی پر بھی ایمان لائو ، کیونکہ اللہ کے تمام نبیوں پر ایمان ضروری ہے ، اور کسی ایک نبی کا انکار سارے انبیاء کے انکار کے مترادف ہے فرمایا اگر تم اس آخری نبی پر ایمان لے آئو گے یوتکم کفلین من رحمنہ تو اللہ تمہیں اپنی رحمت سے دو حصے عطا کرے گا۔ ایک حصہ پہلے نبی کی نبوت پر ایمان لانے کے بدلے میں اور دوسرا حصہ حضور ﷺ کی رسالت کو تسلیم کرنے کے عوض میں ہوگا۔ بنی اسرائیل یا دیگر سابقہ امتوں کے لوگ اسی نقطہ پر آکر گمراہ ہوئے۔ یہود اور نصاریٰ حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے مانتے تھے کہ اللہ کا آخری نبی آنے والا ہے اور اقرار کرتے تھے کہ جب وہ آئے گا تو ہم اس پر ایمان لائیں گے ، اور اس کے ساتھ دیں گے جس کی وجہ سے میں نافرمانوں پر غلبہ حاصل ہوگا ، بلکہ جب ان کی کافروں سے جنگ ہوتی تو یستفتحون…………کفروا (البقرہ 89) تو وہ آخری نبی کی برکت سے کافروں پر فتح حاصل ہونے کی دعائیں کرتے۔ وہ خود مشرکوں سے کہتے تھے کہ جب اللہ کے آخری نبی تشریف لائیں گے تو ہم ان کا ساتھ دیں گے اور تم مغلوب ہوجائو گے۔ مگر ہوا یہ کہ فلما……………………الکفرین (البقرہ 89) جب اللہ کا وہ نبی آگیا اور انہوں نے آپ کو پہچان بھی لیا تو پھر انکار کردیا جس کی وجہ سے یہودونصاریٰ دونوں گروہوں پر خدا کی لعنت ہے۔ البتہ جو قلیل لوگ نبی آخرالزمان پر ایمان لے آئے وہ اس لعنت سے بچ کر ایمانداروں میں شامل ہوگئے۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اے سابقہ امتوں کے لوگو ! اللہ کے اس آخری نبی پر بھی ایمان لے آئو کیونکہ آپ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا ، اور اگر ایسا کرلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا حصہ عطا فرمائے گا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص سابقہ امتوں میں سے اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا ، اور پھر اس نے میرا زمانہ پایا اور مجھ پر ایمان لایا تو اس کو دہرا اجر ملے گا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملے گا۔ پہلا شخص وہی رجل من امن اھل الکتب بنبیہ و بمحمد ﷺ جو اہل کتاب میں سے اپنے نبی پر ایمان لایا اور حضور ﷺ پر بھی ایمان لایا۔ دوسرا شخص وہ ایماندار غلام ہے جو اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہے۔ اور اپنے مجازی آقا کا حق بھی ، یعنی اس کی پوری ڈیوٹی ادا کرتا ہے…… تیسرا آدمی وہ ہے کہ جس کے پاس زر خرید لونڈی ہے یا اسے مال غنیمت کے طور پر یا کسی اور جائز ذریعہ سے حاصل ہوئی ہے اس کو اس لونڈی سے بغیر نکاح استفادہ کا حق حاصل ہے۔ اس شخص نے اس لونڈی کو اچھی تعلیم دی ، ادب سکھایا ، پھر اس کو آزاد کردیا اور اس سے نکاح کرلیا ان تین شخصوں کے متعلق فرمایا کہ ان کو اللہ کے ہاں دوہرا اجر ملے گا۔ بعض لوگ قربانی کے جانور پر سواری کرنے کو معیوب خیال کرتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایسا کرنا معیوب نہیں۔ بلکہ ضرورت کے وقت اس پر سواری جائز ہے۔ روشنی کی فراہمی : فرمایا کسی پہلے نبی پر ایمان لانے والے اور پھر آخری رسول پر ایمان لانے والا شخص ایک تو دوہرے اجر کا مستحق ہوگا ، اور دوسری بات یہ ہے کہ ویجعل لکم نورا تمشون بہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے روشنی فراہم کرے گا جس کو لے کر تم چلو گے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص کفر اور شرک کے اندھیروں سے نکل کر ایمان لاتا ہے وہ گویا ایسی روشنی میں آتا ہے جس کو لے کر وہ انسان سوسائٹی میں چلتا پھرتا ہے اور اس کو کہیں تاریکی نظر نہیں آتی۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہ ایسی روشنی ہوگی کہ جس کے ذریعے تم خدا تعالیٰ کی ذات کو پہچاننے لگو گے یعنی خدا تم کو اپنی ذات وصفات کا علم عطا کرے گا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ایمان کی بدولت تمہارے دل میں کشف جیسی کوئی چیز روشن کردے۔ جس کے ذریعے مشکل اوقات میں تمہاری پریشانی دور ہوجائے ، تاہم عام تفسیر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ایسا علم مقرر کردے گا کہ تم تاریکی سے نکل آئو گے اور ہر طرف تمہیں علم کی روشنی نظر آنے لگے گی۔ اس علم کی روشنی کو لے کر تم عام انسانوں میں چلو پھرو گے اور تمہیں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ اور تمہاری تمام مشکلات حل ہوتی چلی جائیں گی۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے من عمل بما علم علمہ اللہ علم ما لم یعلم ، جو شخص اس چیز پر عمل کرتا ہے جس کو جانتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسی چیزوں کا علم بھی عطا کردے گا جن کو وہ نہیں جانتا۔ اس کے لئے تمام نادیدہ اور نادانستہ چیزیں آسان ہوجائیں گی۔ غرضیکہ یہ وہ نور ہے جو آخری نبی پر ایمان لانے کی بدولت حاصل ہوگا۔ اس کے علاوہ ویغفرلکم اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بھی معاف کردے گا۔ یہ ایک عام اصول ہے کہ ایمان لانے پر سابقہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ فرمایا واللہ غفور رحیم ، اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا اور ازحد مہربان ہے۔ انعامات الٰہیہ کی توجیہہ : اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے لئے دوہرے اجر ، نور اور مغفرت کا ذکر کرنے کے بعد اس کی توجیہہ یہ بیان فرمائی ہے لئلا یعلم اھل الکتب الا یقدرون علی شیء من فضل اللہ ، تاکہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل میں سے کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے۔ مفسرین کرام اس حصہ آیت کی تفسیر دو طریقے سے کرتے ہیں۔ شاہ عبدالقادر (رح) اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں لئلا میں لا نفیہ ہے اور مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب یہ خیال نہ کریں کہ اللہ کے فضل میں سے ان کے لئے کوئی موقع نہیں ہے اور یہ صرف دوسروں کے لئے ہے۔ نہیں بلکہ اللہ نے ان کے لئے مکمل گنجائش رکھی ہے۔ اگر وہ پہلے نبی کے بعد نبی آخرالزمان پر بھی ایمان لے آئیں گے تو وہ نہ صرف اللہ کے فضل کے مستحق ہوں گے ، بلکہ ان کو دوہرا اجر ملے گا۔ مگر اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ لئلا کا لام زائد ہے اور صرف تاکید کے لئے آیا ہے۔ اس کی مثالیں قرآن میں مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ مثلاً سورة المعارج میں ہے فلا اقسم…………والمغرب (آیت 40) پختہ قسم ہے مشرقوں اور مغربوں کے رب کی۔ یہ لام نافیہ نہیں بلکہ تاکید کے لئے آیا ہے۔ اسی طرح لا اقسم……القیمۃ (القیمۃ 1) قسم ہے قیامت کے دن کی یہ لا بھی زائد ہے فلاو………یومنون (النساء 65) میں بھی یہی صورت ہے اور لا نفی کا معنی نہیں دیتا۔ اور اس طرح آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے تاکہ اہل کتاب ضرور جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل پر کچھ قدرت نہیں رکھتے۔ اور پھر فرمایا وان الفضل بید اللہ اور بیشک فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یوتیہ من یشآء ، وہ جس کو چاہے عطا کردیتا ہے۔ اہل کتاب اگر فضل خداوندی کو محض اپنے لئے مخصوص کرتے ہیں تو انہیں جان لینا چاہیے کہ فضل تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ، وہ جس کو چاہے عطا کردے ، اس میں اللہ کو کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل اہل کتاب ضد اور عناد کی وجہ سے اپنے آپ کو اقوام عالم پر برتر سمجھتے تھے۔ ان میں پے درپے انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کی وجہ سے وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہوچکے تھے کہ اللہ کا آخری نبی بنی اسحاق میں سے ہوگا۔ مگر جب آخری نبی بنی اسماعیل میں سے آگیا تو وہ حسد کی آگ میں جل گئے اور اللہ کے آخری نبی اور رسول کی رسالت کا ہی انکار کردیا۔ اسی بنا پر سورة المائدہ میں ہے لتجدن …………………………اشرکوا (آیت 82) اہل کتاب میں یہودیوں کو مسلمانوں کے ساتھ بدترین عداوت ہے اور مشرکوں کو بھی حالانکہ مشرک تو جاہل ہوتے ہیں اور اہل کتاب اہل علم ہونے کے باوجود سخت ترین عداوت رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ اللہ کا آخری نبی ان کی قوم سے آتا ، مگر اللہ نے فرمایا اھم…………ربک (الزخرف 32) کیا تیرے پروردگار کی رحمت کے تقسیم کنندگان یہ ہیں کہ جس کو چاہا اس پر مہربانی کردیں ۔ نہیں بلکہ اللہ کا فضل تو اس کے اپنے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ نے نبی اسرائیل میں ہزاروں نبی مبعوث فرمائے ، یہ اس کی مشیت تھی اور اب آخر میں اس نے اپنے فضل میں سے بنی اسماعیل کو حصہ دے دیا ہے تو اہل کتاب کو اعتراض نہیں ہنا چاہیے ، کیونکہ یہ چیز ان کے ہاتھ تو نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے تقسیم کرتے پھریں۔ نبوت کا انتخاب اللہ تعالیٰ اپنی منشاء کے مطابق کرتا ہے۔ یہودونصاریٰ کی مثال : حدیث میں یہودونصاریٰ کی مثال اس طرح بیان کی گئی ہے کہ کوئی شخص کسی مزدور کو صبح سے لے کر دوپہر تک کسی کام پر لگاتا ہے اور اس کے لئے وہ مزدوری کی رقم کا تعین بھی کردیتا ہے۔ کام کا اختتام پر وہ اجرت ادا کردیتا ہے۔ یہ یہودیوں کا مثال ہے کہ انہوں نے دوپہر تک کام کیا تو ان کو اس کی اجرت مل گئی۔ پھر اللہ نے دوپہر سے عصر تک کے لیے نصاریٰ کو کام پر لگایا اور اتنے عرصہ کے لئے ان سے بھی مزدور طے کرلی۔ انہوں نے بھی مقررہ وقت میں کام کیا اجرت پائی۔ پھر اللہ نے عصر سے مغرب تک کے لئے لیے مزدور مقرر کیا جس کو ڈبل مزدوردینے کا وعدہ کیا۔ یہ مسلمانوں کا دور ہے جن کو مقررہ عرصہ کے لئے کام کرنے کی ڈبل مزدوری مل گئی۔ اب یہود ونصاریٰ دونوں گروہ اس بات پر حسد کررہے ہیں کہ مسلمانوں کو ٹھوڑے وقت میں کام کرنے کی دگنی مزدوری کیوں مل گئی۔ تو اللہ نے اس سلسلہ میں اہل کتاب کا باور کرایا ہے کہ جتنے عرصہ کے لئے تم سے جو مزوری مقرر کی گئی وہ تم کو ادا کردی گئی یعنی جو کچھ تمہارے ساتھ ٹھہرایا تھا وہ پورا کردیا اور تمہارے حق میں کسی قسم کی کمی ہیں کی گئی ، اور نہ ہی تم پر کوئی زیادتی کی گئی ہے۔ باقی رہ گیا آخری وقت کی مزدوری کا معاملہ تو یہ میرا فضل ہے ، میں جس کو چاہوں دے دوں ، اس میں تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ جب تمہاری مزدوری میں کوئی کمی نہیں کی گئی تو پھر تم دوسرے کی ڈبل اجرت پر کیوں حسد کرتے ہو ؟ مقصد یہ ہے کہ اللہ نے اپنا آخری نبی اور رسول بنی اسماعیل میں بھیج کر ان کو زیادہ فضیلت بخش دی ہے جس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ، یہ اللہ کا فضل ہے ، وہ جس کو چاہے عطا کردے واللہ ذوالفضل العظیم اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل والا ہے، اس کی مہربانی اور عنایت کا حد شمار نہیں ، وہ جس کو جتناچا ہے عطا کردے ، وہ قادر مطلق ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
Top