Mualim-ul-Irfan - Al-Hashr : 10
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ جَآءُوْ : وہ آئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : ہمیں بخشدے وَلِاِخْوَانِنَا : اور ہمارے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے سَبَقُوْنَا : ہم سے سبقت کی بِالْاِيْمَانِ : ایمان میں وَلَا تَجْعَلْ : اور نہ ہونے دے فِيْ قُلُوْبِنَا : ہمارے دلوں میں غِلًّا : کوئی کینہ لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کیلئے جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو رَءُوْفٌ : شفقت کرنیوالا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور ان لوگوں کے لئے جو آئے ان کے بعد وہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! بخش دے ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے داخل ہوئے ایمان میں۔ اور نہ رکھ ہمارے دلوں میں کھوٹ ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے۔ اے ہمارے پروردگار ! بیشک تو شفقت کرنے والا مہربان ہے
ربط آیات : اس سورة مبارکہ میں اللہ نے بنی نضیر کے یہودیوں پر مسلمانوں کے غلبے کا ذکر کیا اور پھر اس ضمن میں مال فے کے احکام اور اس کی تقسیم کا اصول بیان فرمایا اللہ نے اس مال کے مستحقین کے طور پر فرمایا کہ اس کے حقدار اللہ اور اس کے رسول اور اس کے قرابتدار ہیں۔ پھر یہ مال یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ درمیان میں اللہ نے اسلام کے نظام معیشت کا یہ اصول بھی ذکر کردیا کہ مال و دولت محض دولتمندوں کے درمیان ہی گردش نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اس کا بہائو نیچے کی طرف کمزورطبقات تک ہونا چاہیے۔ پھر اللہ نے نادار مہاجرین کو حقدار ٹھہرایا جو اپنے گھر بار اور سازو سامان چھوڑ کر اللہ کے دین کی خاطر ہجرت کر آئے۔ پھر ان انصار مدینہ کا ذکر کیا جنہوں نے مہاجرین کی بڑھ چڑھ کر میزبانی کی اور انہیں ضروریات زندگی کی تمام چیزیں پیش کردیں۔ اللہ نے ان کے اوصاف بھی بیان فرمائے کہ وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور انہیں ملنے والی اشیاء پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی یا حسد کا مادہ نہیں رکھتے۔ فرمایا یہ ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اور بخل سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ بخل کی بیماری سے بچ جانے والے لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ انصار اور مہاجرین کے گروہوں کا تفصیلی تذکرے کرنے کے بعد اب اللہ نے تیسرے گروہ کا ذکر کیا ہے جو ان دو گروہوں کے بعد میں آنے والے ہیں اور اس کے ساتھ ان کی دعائوں کا ذکر کیا ہے جو وہ اپنے سے پہلے والے بھائیوں کے حق میں کرتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے والذین جآء و من بعدھم اور وہ لوگ بھی مال فے کے حقدار ہیں جو مہاجرین اور انصار کے بعد آئے۔ مفسرین کا اس بارے میں قدرے اختلاف ہے کہ بعد میں آنے والوں سے کون سے لوگ مراد ہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے ابتداء میں ہی ہجرت کرلی وہ مہاجرین کہلائے۔ اسی طرح جن انصارنے اولین مہاجرین کو سہارا دیا وہ انصار کہلائے ، مگر جنہوں نے کچھ عرصہ بعد ہجرت کی اور مدینے کے جو لوگ بعد میں ایمان لائے ، یہ دونوں گروہ من بعدھم ، میں آتے ہیں۔ تاہم صحیح بات یہ ہے کہ من بعدھم میں صرف خیرالقرون کے لوگ ہی شامل نہیں بلکہ ان کے بعد قیامت تک آنے والی پوری امت کے لوگ شامل ہیں۔ اس میں وہ طبقہ بھی شامل ہے جو فتح مکہ کے بعد ایمان لایا۔ پھر اس کے بعد تابعین ، تبع تابعین اور ان کے بعد آنے والے تمام امتی شامل ہیں اور اللہ نے ساری امت کے مستحقین کے لئے مال فے میں حصہ رکھا ہے چناچہ جب عراق اور دیگر ممالک پر اسلام کا غلبہ ہوا تو حضرت عمر ؓ نے وہاں کی زمینوں کو تقسیم نہیں کیا بلکہ بیت المال کے ساتھ وابستہ رکھا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ بھی ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اسی طرح خیبر کی کچھ زمینیں تو تقسیم کردی گئی تھیں۔ مگر کچھ بیت المال میں داخل تصور ہوتی تھیں۔ مقصد یہی تھا کہ اگر ان کو تقسیم کردیا تو یہی لوگ یا ان کے وارث فائد اٹھائیں گے اور اگر یہ مشترکہ ملکیت میں رہیں تو آمدہ نسلیں بھی ان سے مستفید ہوسکیں گی۔ متاخرین کی متقدمین کے لئے دعائیں : پھر ان کے بعد میں آنے والوں کی اللہ نے یہ صفت بیان کی ہے کہ یہ لوگ خواہ ان کا تعلق قیامت تک کسی زمانے سے ہو ، یہ اپنے سے پہلوں کے لئے اس طرح دعائیں کرتے ہیں۔ یقولون ربنا اغفرلنا کہتے ہیں کہ ہمارے پروردگار ہماری غلطیوں کو معاف فرمادے۔ ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان ، اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جنہوں نے ہم سے پہلے ایمان میں سبقت کی۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے جو ایماندار بھائی ہم سے پہلے گزرے ہیں۔ ان کے گناہوں ، کوتاہیوں اور لغزشوں سے بھی درگزر فرما۔ ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین امنوا۔ اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لئے کھوٹ نہ رکھ جو ایمان لاچکے ہیں۔ ایک مسلمان کی ہمیشہ یہ دعا ہونی چاہیے کہ اس کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے بارے میں کینہ ، بغض ، عناد یا عداوت نہ ہو ، شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت سب مسلمانوں کے لئے ہے جو اگلوں کا حق مانیں اور انہی کے پیچھے چلیں اور ان سے بیر نہ رکھیں اور نہ ہی ان سے دشمنی اور عداوت رکھیں۔ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ جو شخص صحابہ کرام ؓ سے بغض رکھتا ہے اور ان کی بدگوئی کرتا ہے ، اس کے لئے مال فے میں کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس مال میں حصہ ان لوگوں کے لئے ہے جو سابقین کے حق میں بخشش کی دعائیں کرتے ہیں نہ کہ ان کو گالیاں دیتے ہیں۔ بعد میں آنے والے وہی اس مال کے حقدار ہوسکتے ہیں جو اگلوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ متاخرین کو اس بات کا سختی سے پابند کیا گیا ہے کہ وہ سابقین اور صحابہ کرام ؓ کے بارے میں کوئی منفی لب کشائی نہ کریں ، نہ ان کی عیب جوئی کریں اور نہ بدگوئی کریں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ متاخرین متقدمین کے لئے بخشش کی دعائیں مانگتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ متقدمین کے آپس میں ……اختلاف اور لڑائی جھگڑے بھی ہوں گے۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کے درمیان صفین نامی جنگ ہوئی۔ صحابہ کرام ؓ کے درمیان ایک جنگ جنگ جمل کے نام سے بھی مشہور ہے اس کے باوجود متاخرین پابند ہیں کہ وہ متقدمین کے لئے دعائیں کریں۔ فرماتے ہیں کہ ہم سے ان کے اختلاف کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ بلکہ اختلافات اور تنازعات کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ ہم ان کے لئے بخشش کی دعائیں کریں۔ البتہ اگر ہم ان سابقین سے عداوت رکھیں گے تو لعنت کے مستحق ہوں گے اور مجرم ٹھہریں گے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) دوسری کتابوں کے حوالے اسے اپنی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں کہ کسی نے امام زین العابدین (رح) کے سامنے حضرت عثمان ؓ پر تنقید کی تو آپ نے پوچھا کیا تم مہاجرین میں سے ہو ؟ اس نے کہا نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا ، کیا تم انصار میں سے ہو ؟ اس شخص نے پھر نفی میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ تم سابقین کے بارے میں بدگوئی کرتے ہو لہٰذا تم اس تیسرے طبقے میں بھی نہیں آئے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ وہ لوگ جو ان کے بعد آئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں معاف کردے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم سے سبقت حاصل کرچکے ہیں۔ بھلا تم بدگوئی کرنے والے اس طبقے میں کیسے شامل ہوسکتے ہو ، یہاں سے فوراً چلے جائو۔ امام زین العابدین (رح) سے ایک لمبی دعا بھی منقول ہے جس کی ابتداء ان الفاظ سے ہوتی ہے اللھم صل علی اصحب محمد اے اللہ ! اپنے نبی کے صحابہ ؓ پر رحمت نازل فرما۔ پھر آگے دعا میں ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو حضور ﷺ پر ایمان لائے ، آپ کی رفاقت کی ، ہر قسم کی تکالیف برداشت کیں اور آپ کی جماعت کو بڑھایا۔ ان لوگوں نے خاندان ، قوم ، زن و فرزند کو چھوڑا اور دین کی تائید کی۔ خود اپنے عزیز و اقارب سے جنگ کی حتی کہ باپ بیٹا آمنے سامنے آنے سے بھی نہ چوکے۔ عرض کیا ، اے پروردگار ! ان پر رحمت نازل فرما اور ان کے علاوہ والتابعین لھم باحسان ، ان پر بھی رحمت نازل فرما جو نیکی کے ساتھ ان کا اتباع کرنے والے ہیں۔ غرضیکہ امام صاحب (رح) نے اپنی دعا کے اندر ہی اصحاب رسول کی تعریف فرمائی۔ لہٰذا ان بزرگان پاک باز کے خلاف لب کشائی کی ہرگز اجازت نہیں۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ کی ہمیشہ تعریف ہی کرنی چاہیے اور ان کے متعلق ؓ ہی کہنا چاہیے یعنی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا۔ اگر کوئی اصحاب رسول کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو ائمہ کرام فرماتے ہیں کہ ایسا شخص مال فے میں اپنا استحقاق کھو بیٹھتا ہے۔ الغرض ! فرمایا کہ مہاجرین اور انصار کے بعد آنے والے لوگ سابقین کے لئے بخشش کی دعائیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پروردگار ! ہمارے دل میں ان کے لئے کھوٹ نہ رکھ۔ امام ابوحنیفہ ؓ کے استاد امام شعبی (رح) نے دیکھا کہ بعض رافضی حضور ﷺ کے صحابہ ؓ کو برا بھلا کہتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ تو یہودیوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہودیوں سے پوچھا جائے کہ تمہاری جماعت کے بہترین لوگ کون ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی پوری امت میں بہترین لوگ ہیں۔ اسی طرح جب عیسائیوں سے دریافت کیا جائے کہ تمہاری جماعت کے بہترین لوگ کون ہیں ، تو وہ کہتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کے حواری بہترین لوگ ہیں۔ جن کو آپ کی رفاقت نصیب ہوئی اور انہوں نے آپ کی مدد کی۔ فرماتے ہیں کہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اگر رافضی سے یہی سوال کیا جائے تو وہ اصحاب رسول کو بدترین لوگ بتائے گا۔ اس کے زعم کے مطابق چار خلفائے راشدین ؓ میں سے تین خلفاء نعوذ باللہ ایمان سے ہی عاری تھے۔ رافضی ان کو منافق قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اصحاب ثلاثہ اہل بیت بےبغض رکھتے تھے۔ اس کے برخلاف حضور ﷺ کا فرمان یہ ہے۔ کہ کسی مسلمان کے خلاف بلاوجہ دل میں کھوٹ نہیں رکھنا چاہیے چہ جائیکہ اصحاب محمد ﷺ کے خلاف لب کشائی کی جائے گی جن کا درجہ تو پوری امت کے لوگوں سے بلند ہے۔ حضرت انس ؓ کو ہدایت : حضرت انس ؓ سے رایت ہے کہ حضور ﷺ نے مجھے خطاب کرکے فرمایا یا بنی اے بیٹے ! اگر تمہاری صبح اور شام ایسی گزرے کہ تمہارے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کھوٹ نہ ہو تو اس کاربند رہو کیونکہ یہ میرا طریقہ ہے۔ اور جو میرا طریقہ اختیار کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا خاص طور پر صحابہ کرام ؓ امت کا بہترین طبقہ ہیں۔ جن کے متعلق اللہ نے اپنی رضا کا اعلان فرمادیا ہے دیکھو قرآن میں جگہ جگہ موجود ہے رضی اللہ عنھم ورضواعنہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ ان بزرگان نے دین کے قیام ، جماعت کے استحکام اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت و اطاعت میں ہر چیز قربان کردی ، لہٰذا ان کے متعلق دل میں کھوٹ رکھنا منافقت ہی ہوسکتی ہے۔ حرف آخر : بہرحال اللہ نے تیسرے طبقے کا حال اس طرح بیان فرمایا ہے کہ انصارو مہاجر کے بعد آنے والے تمام طبقات دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! بخش دے ہم کو ہماری غلطیاں اور کوتاہیاں ، اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی معاف کردے جو ہم سے ایمان میں سبقت کرچکے ہیں اور پھر تیری بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں۔ اے پروردگار ! ہمارے دلوں میں ان بھائیوں کے لئے کھوٹ ، نفرت ، یا عداوت نہ رکھ۔ ربنا انک رء وف رحیم اے ہمارے پروردگار بیشک تو بہت ہی شفقت کرنے والا اور ازحد مہربان ہے۔ جس طرح تو نہایت ہی شفقی اور مہربان ہے اسی طرح ہمارے دلوں میں سابقین کے لئے شفقت اور رحمت کر رکھ دے ، ان کے لئے عداوت اور نفرت کو دور کردے ہم ان کا ذکر خیر اور ان کے لئے دعا ہی کریں اور ان کی تعریف ہی بیان کریں ۔ احادیث کی تمام کتب میں فضائل صحابہ ؓ اور فضائل امت کے ابواب موجود ہیں۔ ان بزرگوں کے متعلق زبان سے اچھی بات ہی نکالنی چاہیے۔ اور ان پر نکتہ چینی ، عیب جوئی یا بدگوئی نہیں کرنی چاہیے۔ غرضیکہ اللہ نے بعد میں آنے والوں کا دستور العمل بیان کردیا ہے۔
Top