Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 52
وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ١ؕ مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ مَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ : اور لَا تَطْرُدِ : دور نہ کریں آپ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَدْعُوْنَ : پکارتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَدٰوةِ : صبح وَالْعَشِيِّ : اور شام يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَجْهَهٗ : اس کا رخ (رضا) مَا : نہیں عَلَيْكَ : آپ پر مِنْ : سے حِسَابِهِمْ : ان کا حساب مِّنْ شَيْءٍ : کچھ وَّ : اور مَا : نہیں مِنْ : سے حِسَابِكَ : آپ کا حساب عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ شَيْءٍ : کچھ فَتَطْرُدَهُمْ : کہ تم انہیں دور کردو گے فَتَكُوْنَ : تو ہوجاؤ مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور نہ دھکیلیں آپ ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام ‘ وہ چاہتے ہیں اس کی رضا ‘ آپ پر ان کا حساب نہیں ہے اور نہیں ہے ……آپ کے حساب میں سے ان پر کچھ۔ پس آپ ان کو دھکیل دیں تو ہوجائیں گے آپ ناانصافوں میں سے
ربط آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے منصب نبوت و رسالت کو بیان فرمایا اور اپنی مرضی کی نشانیاں طلب کرنے والے لوگوں کا رد کیا۔ فرمایا اللہ تعالیٰ قادر ہے وہ ہر نشانی ظاہر کرسکتا ہے مگر ایسا بیہودہ مطالبہ کرنے والے ہی بےسمجھ ہیں۔ جو لوگ مطلوبہ نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا انتقام بھی بڑا سخت ہے وہ نافرمان قوم کو فوراً سزا میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نبی تو مبشر اور منذر ہوتے ہیں ‘ معجزات ظاہر کرنا ان کے فرائض میں داخل نہیں ہوتا۔ پھر اللہ نے سید المرسلین ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگوں کے سامنے واضح کردیں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے نہیں ہیں ‘ نہ میں غیب دان ہوں اور نہ میں فرستہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں۔ میں تو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔ مجھ پر جو وحی نازل ہوتی ہے میں اسی کا اتباع کرتا ہوں۔ جب حضور ﷺ نے خود اپنے متعلق ان امور کی نفی فرما دی تو پھر دوسرے شخص کو یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ وہ خزانوں کا مالک ہو یا غیب کی باتیں جانتا ہو۔ غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ کی صفات مختصر میں ہے ۔ اس کے علاوہ مشرکین حضور ﷺ کے انسانی تعلقات پر بھی اعتراض کرتے تھے کہ یہ کھاتا پیتا ہے ‘ اس کے بیوی بچے ہیں۔ بازار سے سودا سلف لاتا ہے تو حضور نے فرمایا کہ میں کوئی فرشتہ تو نہیں ہوں جو ان چیزوں سے مبرا ہوں میں تو انسان ہوں اور باقی انسانوں کی طرح تمام لوازمات بشریہ مجھ میں بھی پائے جاتے ہیں اور یہ چیز منصب نبوت و رسالت کے ہرگز منافی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے ہی انبیاء کو منتخب کرتا ہے ‘ ان کو اعلیٰ اخلاق عطا کرتا ہے اور پھر انہیں دوسروں کے لئے نمونہ بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء معصوم ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کی گارنٹی حاصل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے کوئی برائی سرزد نہیں ہونے دیتا۔ وہ پاک ہوتے ہیں اور وحی الٰہی کا پورے طریقے سے اتباع کرتے ہیں۔ امیر و غریب کا فرق مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ مکہ کے آسودہ حال مشرکین حضور ﷺ پر یہ اعتراض بھی کرتے تھے کہ آپ کے اردگرد غریب اور کمتر حیثیت کے لوگ جمع رہتے ہیں ‘ اس لئے ہم آپ کی مجلس میں شریک نہیں ہوتے۔ ان کے مطابق ایسی مجلس میں جانا ان کی توہین کے مترادف تھا ‘ لہٰذا ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم آپ کی بات سننے کے لئے اس وقت آپ کے پاس آسکتے ہیں جب آپ صہیب ؓ ‘ عمار ؓ ‘ اور عبداللہ بن مسعود ؓ جیسے نادار لوگوں کو اپنی مجلس سے اٹھا دیا کریں۔ بڑے چھوٹے ‘ امیر غریب اور آقا غلام کی تفریق صرف مشرکین عرب میں ہی نہیں بلکہ پہلے انبیاء کے زمانہ میں بھی موجود تھی۔ چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بھی آپ سے یہی کہتے تھے کہ آپ کا اتباع کرنے والے اراذلنا بادی الرای ہم میں سے رذیل لوگ ہیں۔ حقیر اور معمولی حیثیت کے مالک ہیں اور ان کی رائے کی بھی کوئی حیثیت نہیں ‘ لہٰذا ہم ا ن کی ہم نشینی اختیار نہیں کرسکتے۔ ہم تو ان لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھنے کو تیار ہیں جو صاحب حیثیت ہوں ‘ اپنی قوم کے سردار ہوں ‘ جن کے پاس نوکر چاکر ہوں ‘ بڑی بڑی بلڈنگوں کے مالک ہوں ‘ تمہارے پیچھے لگنے والے تو سرسری رائے کے لوگ ہیں ‘ ہم ان کے ساتھ کیسے اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں ‘ اسی طژرح ہود (علیہ السلام) اور صالح (علیہ السلام) کی قوموں نے بھی اپنے انبیاء کو یہی جواب دیا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات تو زبان زدعام ہیں۔ فرعون اسقدر مغرور تھا کہ وہ خود موسیٰ (علیہ السلام) کو حقیر جانتا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں نمرود بھی اسی باطل زعم میں مبتلا تھا۔ بہرحال حضور ﷺ کے اپنے زمانہ میں اور اس سے پہلے بھی ہر دور میں امراء نے اپنے آپ کو اعلیٰ وارفع مخلوق سمجھ کر چھوٹے درجے کے لوگوں سے میل ملاپ ترک کر رکھا تھا۔ بہرحال مشرین مکہ کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا جب ہم آپ کے پاس آئیں تو ان چھوٹے لوگوں کو مجلس سے اٹھا دیا کریں۔ اہل اللہ کی قدردانی مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ایمان لانے پر بہت حریص تھے ‘ اس لئے کسی وقت آپ کے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ اپنے تو اپنے ہی ہیں اگر دوسرے لوگوں کو تبلیغ کرنے کی خاطر ان کو تھوڑی دیر کے لئے مجلس سے علیحدہ بھی کردیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ بڑے بڑے روئسا ایمان لے آئیں اور ان کے پیچھے اور بھی بہت سے لوگ آجائیں اور اس طرح دین کو تقویت حاصل ہوجائے ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو ایسا کرنے کی اجازت نہ دی اور فرمایا ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغداوہ والعشی۔ آپ ان لوگوں کو نہ دھکیلیں یعنی اپنے آپ سے دور نہ کریں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ان کا مکمل ایمان ہے اور وہ نہایت خلوص کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ اور ان کا مطمع نظر یہ ہوتا ہے یریدون وجھہ کہ وہ اپنے رب کے چہرے کے طالب ہوتے ہیں یعنی اس کی رضا چاہتے ہیں ‘ صبح شام پکارنے سے ان کی یہی مراد ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے وجہہ کو ظاہر پر محمول کیا ہے اور اس طرح مطلب یہ بنتا ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دیدار کے طالب ہیں جو کہ سب سے اعلیٰ درجے کی بات ہے لہٰذا آپ ایسے لوگوں کو اپنی مجلس سے محروم نہ کریں۔ طرد کا معنی ہانک دینا یا دھکیل دینا ہوتا ہے اور طراد لڑائی کو بھی کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے مدمقابل ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں۔ عربی شاعر کہتا ہے قالوا الطراد فقلنا تلک عادتنا او تنزلون فانا معشرنزل ۔ دشمنوں نے کہا ہم تو طراد یعنی جنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم نے کہا یہ تو ہماری عادت ہے۔ اگر نیچے اتر کر مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو ہم بھی تلوار چلانا جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو فرمایا کہ آپ اپنے سچے ساتھیوں کو دور ہٹانے کا نہ سوچیں کیونکہ ماعلیک من حسابھم من شئی آپ پر ان کے حساب کے متعلق کوئی ذمہ داری نہیں ہے ان کا حساب تو خود اللہ تعالیٰ لے گا کہ یہ لوگ اس کے ہاں کس حیثیت اور مرتبے کے لوگ ہیں فرمایا وما من حسابک علیھم من شئی اور نہ آپ کا حساب ان سے لیا جائے گا۔ ہر نفس کو اپنا حساب خود پیش کرنا ہوگا۔ یہ کسی دوسرے کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ خود فیصلہ کرے گا کہ کون کس قدر کامل الایمان ہے۔ لہٰذا آپ ان کو علیحدہ نہ کریں فتطردد ھم اور آپ نے ایسا کیا۔ ان ایمانداروں کو ہٹا دیا۔ فتکون من الظلمین تو یقینا آپ نا انصافوں میں سے ہوں گے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرما دیا۔ کہ بڑے لوگ ایمان لائیں یا نہ لائیں آپ ان کم تر لوگوں کو اپنی مجلس سے محروم نہ کریں۔ مال و منصب سے محبت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے کہ حب مال اور حب منصب دو ایسی بیماریاں ہیں جو ایمان قبول کرنے میں ہمیشہ مانع رہی ہیں۔ جب جاہ و منصب اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی پر ایمان لا کر اپنی چودھراہٹ کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ جو لوگ اپنی خود ساختہ بڑائی کو قربان کر کے مساوات کی سطح پر نہیں آنا چاہتے ہیں ‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہم سے کم تر حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا ہمارے ساتھ کیسے اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں۔ اس طرح بڑے اور چھوٹے میں فرق کیا رہ گیا۔ اسی طرح مال و دولت کی محبت بھی انسان کو خودغرضی کے راستے پر ڈال دیتی ہے۔ چناچہ مال و دولت کی حد سے زیادہ محبت کو شریعت میں ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ سورة فجر میں موجود ہے۔ ” تحبون المال حبا جما “ تم جی بھر کر مال سے مہبت کرتے ہو۔ یہ محبت تمہیں تباہ کر کے چھوڑے گی۔ مساکین سے محبت حضور ﷺ کو غرباء و مساکین سے بڑی محبت تھی۔ آپ نے کبھی ان کو خود سے علیحدہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان کے درمیان رہنے کو پسند فرمایا چناچہ آپ دعا کیا کرتے تھے۔ اللھم احینی مسکینا و امتنی مسکینا واحشرنی فی زمرۃ المسکین اے اللہ ! مجھے زندہ رکھ تو مساکین کے درمیان اور جب موت دے تو بھی مسکینی کی حالت میں اور میرا حشر بھی انہی کے ساتھ کر۔ آپ نے یہ بھی دعا کی وارزقنی حب المسکین اے اللہ مجھے مسکینوں کی محبت عطا کر۔ غرباء و مساکین اہل اللہ کے متعلق سورة کہف میں بھی ایسے ہی الفاظ آتے ہیں ۔ واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغداوۃ والعشی یریدون وجھہ “ جو لوگ صّہ و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں آپ ان کے ساتھ صبر کرتے رہیں۔ ” ولا تعد عینک عنھم “ اور آپ ان سے صرف نظر نہ کریں بلکہ ان پر شفقت کی نگاہ رکھیں۔ حضور ﷺ نے اسلام کی دعوت پر ہر قل قیصر روم کو بھی خط لکھا تھا۔ جب یہ خط قیصر کے پیش ہوا تو اس نے حکم دیا کہ اگر عرب کا کوئی شخص مل جائے تو حاضر کیا جائے۔ ان دنوں غزہ میں ابوسفیان کی قیادت میں قریش مکہ کا ایک تجارتی قافلہ مقیم تھا۔ چناچہ ابوسفیان کو ہر قل کے سامنے پیش کیا گیا۔ اور ہر قل نے ان سے حضور ﷺ ے متعلق مختلف سوال کئے۔ جن میں ایک سوال یہ تھا کہ جس مدعی نبوت کا خط مجھے پہنچا ہے اس کے اولین متبعین کمزور لوگ ہیں یا بااثر شخصیتیں۔ تو ابوسفیان نے کہا کہ نادار اور کمزور لوگ ہیں۔ اس پر ہر قل پکار اٹھا کہ ابتداء میں نبیوں کے پیروکار ہمیشہ ضعیف لوگ ہی ہوتے ہیں۔ بڑے لوگ اس وقت ایمان لاتے ہیں جب ان کے لئے کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا ‘ ہر قل کا یہ مقولہ سابقہ کتب کی تعلیم سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہاں پر یہ بات سمھجا دی ہے کہ مال و دولت یا جاہ و منصب پر اترانا غلط بات ہے۔ اصل میں مدار عزت ایمان ہے نہ کہ جاہ و حشمت ‘ اللہ کے ہاں باعزت وہ شخص ہے جو زیادہ متقی ہے ‘ جس کے اخلاق اچھے ہیں ۔ نیکی اور پرہیزگاری جس کا شیوہ ہے ۔ اور یہ صفات ان غرباء و مساکین میں پائی جاتی ہیں۔ مگر مالدار اور چوہدری قسم کے لوگ ان کو حقیر سمجھ رہے ہیں۔ فرمایا اگر آپ ان کو اپنے سے دور کردیں گے تو نا انصافوں میں شامل ہوجائیں گے۔ غربت و امارت بریعہ آزمائش ہے فرمایا و کذلک فتنا بعضم ببعض اور اسی طرح ہم نے آزمایا ہے بعض کو بعض سے۔ یعنی بعض آدمیوں کو ہم نے مال و دولت یا جاہ و حکومت دے کر آزمایا کہ یہ اپنے ماتحتوں یا کم تر لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں ان کو حقیر سمجھ کر حقارت آمیز سلوک کرتے ہیں یا ان کا احترام کرتے ہیں اور خوشدلی سے پیش آتے ہیں۔ اسی طرح مساکین کو عسرت میں مبتلا کر کے آزمایا ہے۔ سورة فرقان میں موجود ہے۔ ” وجعلنا بعضکم لبعض فتنتہ “۔ ہم نے تمہارے بعض کو بعض کے لئے ازمائش بنایا ہے ‘ اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ” التصبرون “ کیا تم صبر کرتے ہو ؟ مقصد یہ کہ غرباء کو غربت میں مبتلا کر کے آزمایا ہے کہ آیا یہ امراء کی امارت دیکھنے کے باوجود صبر کرتے ہیں ؟ ” وکان ربک بصیرا تیرا رب تو ہر چیز کو دیکھ رہا ہے ۔ وہ امیر کو دولت دیکر آزماتا ہے کہ یہ مساکین کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے اور غریب کو غربت دیکر آزماتا ہے کہ یہ کس حد تک صبر کرتا ہے مگر مقام افسوس ہے کہ اس آزمائش میں دونوں طبقے ناکام رہے ہیں ‘ نہ تو دولت مند غرباء کا خیال رکھتے ہیں اور نہ مساکین صبر سے کام لیتے ہیں۔ روس میں 7191 ء کا انقلاب اسی امیر غریب کے سوال پر ہی آیا تھا جس کی بھینٹ تین کروڑ آدمی چڑھ گئے۔ امراء نے غرباء پر مظالم توڑے ‘ ان کے حقوق ادا نہیں کئے ‘ نتیجہ یہ ہوا کہ غریبوں نے تحریک چلائی۔ دونوں گروہ بےدین تھے ‘ غریبوں نے امیروں کو مردار کتوں کی طرح گھسیٹا۔ یہ غریبوں کو حقیر سمجھنے کا شاخسانہ تھا ‘ نہ امیروں نے حقوق ادا کئے ‘ نہ غریبوں نے صبر کیا جس کا نتیجہ کشت و خون کی صورت میں نکلا۔ شیخ سعدی (رح) نے گلستان میں ایک ایسا عمدہ فقرہ کہا ہے جس کے متعلق لوگوں نے کہا کہ ہماری ساری کتابوں کے بدلے یہ ایک فقرہ ہمیں دے دیں۔ کہتے ہیں۔ ” خواہندہ مغربی درصف بزازان حلب میگفت اے خداوند نعمت اگر شمارا انصاف بود و مارا قناعت رسم سوال از جہاں برخاستے “ ملک کے مغرب میں ایک محتاج نے بزازوں کی صف میں کھڑے ہو کر کہا ‘ اے دولت کے مالکو ! اگر تم میں انصاف اور ہم میں قناعت ہوتی تو دنیا میں کوئی بھی سوال نہ کرتا یعنی سولا کی رسم ہی برخواست ہوجاتی۔ ہم دونوں مجرم ہیں۔ تم میں سخاوت نہیں ہے اور ہم قناعت سے محروم ہیں۔ دولت کے ہوتے ہوئے تم مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے اور ہم صبر سے عاری ہوچکے ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا مصائب کا شکار بنی ہوئی ہے۔ اسلامی نظام معیشت یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔ اسلام نے اس دولت کو لعنت کے برابر کہا ہے جس میں سے غریبوں کو حقوق نہ ادا کئے جائیں ‘ ایسی دولت مندی باعث وبا ل ہے۔ ہاں اگر کوئی اپنے مال سے تمام فرضی ‘ واجبی حقوق ادا کرتا ہے تو پھر یہ دولت جائز ہے اگر حلت و حرمت کا امتیاز ختم ہوچکا ہے تو پھر یہ سرمایہ داری ہے۔ اس کا حامی سرمایہ پرست ہے۔ اور دوسری طرف نفرت اور عداوت کا جذبہ پایا جاتا ہے کہ سرمایہ داروں کے پاس سرمایہ کیوں ہے خواہ اس نے جائز ذرائع سے ہی کیوں نہ حاصل کیا ہو اور وہ تمام حقوق بھی کیوں نہ ادا کرتا ہو مگر محض صاحب مال و دولت ہونا ہی گردن زدنی سمجھ لیا گیا ہے یہ بھی غلط ہے یہ لوگ صرف سرمایہ داری کے خلاف ہوتے ہیں بلکہ آگے چل کر مذہب کے بھی خلاف ہوجاتے ہیں کہتے ہیں کہ سرمایہ داروں نے لوگوں کو الو بنانے کے لئے مذہب کی آڑ لے رکھی ہے سوشلسٹ ملکوں میں یہی کچھ ہوا ہے پہلے سرمایہ داروں کے خلاف آواز اٹھائی اور پھر آہستہ آہستہ مذہب کو ہی خیر باد کردیا۔ ان کی بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ اکثر و بیشتر اقتدار پسندوں ‘ سرمایہ داروں اور ملوک نے مذہب کو غلط استعمال کیا ہے۔ البتہ کچھ اللہ والے ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایسا نہیں کیا اور نگ زیب عالمگیر (رح) بھی تو بادشاہ تھے ‘ سلطان ناصرالدین التمش (رح) بھی اسی سرزمین پر مسند اقتدار پر رہا ہے ‘ اس کے پاس کابل سے برما تک کی حکومت تھی مگر دل میں خوف خدا رکھتے تھے ‘ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) جیسے بلند پایہ لوگ بھی تو ہوئے ہیں جن پر اقتدار کا نشہ غالب نہیں آیا اور جنہوں نے مستحقین کے حققوق ادا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ لیکن یہ مذہب کا غلط استعمال تھا جس کی وجہ سے ملحدوں کو مذہب کے خلاف پراپیگنڈہ کرانے کا موقع ملا۔ غرضیکہ یہ دونوں گروہ لعنتی ہیں۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو اعتدال کا راستہ دکھاتا ہے۔ اگر ملک میں صرف حلال و حرام کی پابندی پوری طرح نافذ کردی جائے تو لوگوں کو سکون حاصل ہوجائے۔ جو مال حرام ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کا مصرف بھی حرام اور من مانے طریقے پر کیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ دولت حاصل کیسے کی اور اسے خرچ کس چیز پر کر رہے ہو۔ فضول خرچی قطعاً حرام اور تباہی کا باعث ہے۔ ا س لئے سرمایہ داری اور اشتراکی نظام معیشت دونوں ملعون ہیں۔ صرف اسلام کا نظام ہی درست ہے جو دولتمندی کی حوصلہ افزائی اس وقت کرتا جب وہ جائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہو۔ اور اس میں سے تمام حقوق ادا کئے گئے ہوں۔ اگر جائز ناجائز کی تمیز روا نہیں رکھی تو یہی سرمایہ داری ہے جو ملعون ہے۔ غریبوں پر طعن فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے دولت مندوں کو دولت دے کر آزمایا ہے۔ لیقولوا تا کہ وہ غرور میں آ کر کہیں اھولاء من اللہ علیھم من بیننا کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اللہ نے ان پر احسان کیا ہی۔ کیا یہی مفلوک الحال لوگ جنت کے مالک ہیں جن کے پاس نہ رہنے کو مکان ‘ نہ کھانے کو خوراک اور نہ پہننے کو کپڑا ہے ؟ غریبوں کی ہنسی اڑاتے تھے کہ دیکھو یہ حوروں کے خاوند جا رہے ہیں وہ مال و دولت پر مغرور تھے لہٰذا غریبوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک روا رکھتے تھے۔ ادھر غرباء و مساکین کی طرف اشارہ فرمایا الیس اللہ باعلم بالشکرین کیا اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو نہیں جانتا ؟ بیشک وہ جانتا ہے کہ ایک شخص غریب اور نادار ہونے کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور دوسری طرف بڑا سرمایہ دار اور جاگیردار ہے مگر پھر بھی شکر ادا نہیں کرتا بلکہ اس کی حرص بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ وہ مالک الملک ہر ایک کے ظاہر اور باطن حال اور اس کی نیت اور ارادے سے واقف ہے۔ غرباء کے لئے رحمت کی دعا اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو خطاب فرمایا کہ آپ اہل ایمان مساکین کو اپنے آپ سے علیحدہ نہ کریں بلکہ واذاجاء ک الذین یومنون بایتنا جب ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے یہ لوگ آپ کے پاس آئیں۔ فقل سلام علیکم ان سے کہیں کہ تم پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت کے مقام تک پہنچائے ان کے حق میں رحمت کی دعا کریں۔ کیونکہ کتب ربکم علی نفسہ الرحمتہ تمہارے پروردگار نے اپنے ذمے رحمت کو لکھ لیا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ نے عرش پر لکھ رکھا تھا ان رحمتی سبقت غضبی بیشک میری رحمت میرے گصے سے سبقت کرنے والی ہے۔ میرا غصہ اسی پر وارد ہوتا ہے جو بالکل ہی سرکش ہوجائے ‘ وگرنہ میری رحمت عام ہے۔ پھر فرمایا میری رحمت عام اس قدر وسی ہے کہ انہ من عمل منکم سواء بجھالتہ جو کوئی تم میں سے نادانی کی وجہ سے کوئی برائی کا کام کر بیٹھے۔ ظاہر ہے کہ برا کام ہمیشہ جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص صاحب عقل و علم بھی ہے تو برا کام اسی وقت کرے گا جب اس پر جہالت کا پردہ پڑجاتا ہے فرمایا جو کوئی جہالت کی بناء پر کوئی غلط کام کرتا ہے ‘ ثم تاب من بعدہ پھر اس کے بعد توبہ کرلی واصلح اور اصلاح بھی کرلی ‘ اپنے آپ کو سنوار لیا ‘ حقوق و فرائض ر کاربند ہوگیا ‘ آئندہ برائی سے باز رہنے کا عزم کرلیا۔ تو فرمایا فانہ غفور رحیم تو اللہ تعالیٰ بہت ہی بخشنے والا اور ازحد مہربان ہے۔ وہ خطائوں کو معاف بھی کردیتا ہے۔ فرمایا وکذلک نفصل الایت اسی طرح ہم آیتوں کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔ توحید کے دلائل اور منصب رسالت کی تفصیل وغیرہ سب کچھ وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں ولتستبین سبیل المجرمین تا کہ مجرموں کا راستہ بالکل واضح ہوجائے۔ جب اہل ایمان کے راستے کی سمجھ آجائے گی تو اس کا مخالف ہر راستہ مجرموں کا راستہ ہوگا اور یہ راستہ کفر ‘ شرک اور بدعات کا راستہ ہے ‘ حب مال و جاہ کا راستہ ہے ‘ غرباء کو حقیر جاننے اور انسانیت کے خلاف کرنے والا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اس راستے کو واضح کردیا ہے ‘ اب اس سے بچنا ہر شخص ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے۔
Top