Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 68
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖ١ؕ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذَا : اور جب رَاَيْتَ : تو دیکھے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ يَخُوْضُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَاَعْرِضْ : تو کنارا کرلے عَنْهُمْ : ان سے حَتّٰي : یہانتک کہ يَخُوْضُوْا : وہ مشغول ہو فِيْ : میں حَدِيْثٍ : کوئی بات غَيْرِهٖ : اس کے علاوہ وَاِمَّا : اور اگر يُنْسِيَنَّكَ : بھلا دے تجھے الشَّيْطٰنُ : شیطان فَلَا تَقْعُدْ : تو نہ بیٹھ بَعْدَ : بعد الذِّكْرٰي : یاد آنا مَعَ : ساتھ (پاس) الْقَوْمِ : قوم (لوگ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جب دیکھیں آپ ان لوگوں کو جو عیب جوئی کرتے ہیں ہماری آیتوں میں ‘ پس آپ اعراض کریں ان سے یہاں تک کہ وہ گھس جائیں کسی اور بات میں اور اگر بھلا دے آپ کو شیطان ‘ پس آپ نہ بیٹھیں یاد آجانے کے بعد ظلم کرنے والی قوم کے ساتھ
ربط آیات پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید فرمائی اور پھر اپنی صفات مختصہ کا ذکر کیا کہ وہ علیم کل ‘ عالم الغیب ‘ قاہر ‘ قادر مطلق اور ہر چیز کا خالق ہے ۔ اللہ نے فرمایا کہ دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے اپنی آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تا کہ یہ لوگ سمجھ جائیں ‘ فرمایا اس کے باوجود کذب بہ قومک آپ کی قوم نے اس قرآن پاک کو جھٹلا دیا ‘ حالانکہ وہ برحق حی۔ پھر فرمایا کہ آپ کہہ دیں میں کوئی تم پر نگہبان تو نہیں ہوں ‘ مجھے کچھ علم نہیں کہ خدا تعالیٰ کی گرفت کب آتی ہے یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے ہر خبر کے لئے ایک وقت مقرر ہے جس پر وہ ظاہر ہوجاتی ہے اور تمہیں عنقریب پتہ چل جائے گا کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے اور اللہ کی وحدانیت کو چھوڑ کر شرک کو اختیار کرنے سے کتنا بڑا وبال آتا ہے۔ آیات الٰہی سے تمسخر اب آج کی آیات میں آیات الٰہی سے تمسخر کرنے اور ان کو مشغلہ بنانیوالوں کی مذمت بیان کی گئی ہے اور ان سے اعراض کرنے کا حکم دیا گیا ہے ‘ البتہ تبلیغ دین کا کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور پھر ایسے لوگوں کو ملنے والے عذاب کا تذکرہ بھی ہے تو ارشاد ہوتا ہے ۔ واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا اور جب آپ دیکھیں ان لوگوں کو جو اللہ کی آیتوں کے ساتھ تمسخر کرتے ہیں ‘ ان کو مشغلہ بناتے ہیں ان کی عیب جوئی کرتے ہیں یا ان پر طعن کرتے ہیں ‘ خوضکا لغوی معنی گھس جانا ہے اور یہاں باطل میں گھس جانا مراد ہے۔ گویا جو لوگ آیات الٰہی کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں ‘ وہ باطل کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ مشرکین اور اہل کتاب کلام الٰہی سے مذاق کرتے تھے ‘ قرآنی احکام کا تمسخر اڑاتے تھے۔ یہاں پر خطاب تو پیغمبر (علیہ السلام) سے ہے مگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ حکم امت کے ہر فرد کے لئے یکساں قابل عمل ہے۔ تو فرمایا جب لوگ قرآن کی آیات سے استہزاء کرنے لگیں تو پھر آپ کے لئے یہ حکم ہے فاعرض عنھم آپ ان لوگوں سے اعراض کریں یعنی ان سے کنارہ کشی اختیار کرلیں ‘ ان کی مجالس میں شریک نہ ہوں حتیٰ یخوضو فی حدیث غیرہ یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مشغول ہوجائیں۔ مقصد یہ کہ اگر ان کا موضوع گفتگو خوض فی الایات نہ ہو بلکہ کوئی اور بات چیت ہو تو پھر آپ کو ان کی مجلس میں بیٹھنے کی اجازت ہے۔ یہ حکم نزول قرآن کے زمانہ میں بھی تھا اور آج بھی ہر مسلمان کے لئے نافذ العمل ہے اس کا خلاف ‘ احکام الٰہی کی خلاف ورزی تصور ہوگا۔ امام ابوبکر حصاص (رح) فرماتے ہیں کہ جس مجلس میں آیات الٰہی کی توہین ہو رہی ہو ‘ حدیث مبارک کے ساتھ مذاق ہوتا ہو یا احکام دین کا تمسخر اڑایا جاتا ہو وہاں کسی مسلمان کو بیٹھنا روا نہیں بلکہ وہاں سے فوراً علیحدہ ہوجانا چاہئے۔ مبتدعین کی مجالس کا بھی یہی حکم ہے ۔ جہاں بدعات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔ آیات الٰہی کے معانی کو توڑ موڑ کر پیش کیا جاتا ہو ‘ وہاں کسی راسخ العقیدہ مسلمان کا ٹھہرنا درست نہیں بلکہ ایسی مجالس سے کنارہ کش کرنا ہی بہتر ہے۔ منافقین کا رویہ بھی اسی قسم کا ہوتا ہے۔ وہ بھی نجی مجلسوں میں آیات الٰہی کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ پیغمبر اسلام پر تنقید کرتے ہیں مگر جب ان کا تعاقب کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو محض دل لگی کر رہے تھے ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ نے فرمایا ” قل ابا اللہ وایتہ “ آپ کہہ دیں کیا اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کے ساتھ دل لگی کرتے ہو ؟ یہ تو بہت ہی بری بات ہے۔ بہرحلا اہل ایمان کو ہر اس مجلس سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس میں قرآن پاک ‘ حضور کے ارشادات مبارکہ اور شریعت حقہ کی کسی بات سے ٹھٹا تمسخر کیا جاتا ہو یا کسی قسم کی نکتہ چینی کی جاتی ہو۔ دوسری جگہ بھی موجود ہے اللہ نے فرمایا جب یہ لوگ باطل باتوں میں مشغول شعائر دین پر نکتہ چینی اور عیب جوئی کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں اگر آپ ان کی مجلس میں شامل ہوں گے ۔ ” انکم اذا مثلھم “ تو آپ بھی انہی جیسے ہوجائیں گے۔ اسی لئے تمام بزرگان دین ایسے واعظین کی مجلس میں بیٹھنے سے منع کرتے ہیں جو موضوع حدیثیں بیان کرتے ہوں اور اللہ کے نبی کی طرف غلط باتیں منسوب کرتے ہوں ۔ فرماتے ہیں کہ تم تو اسے نیکی کا کام سمجھ کر شامل ہوگئے۔ مگر حقیقت میں اس سے نقصان ہوگا کیونکہ وہاں سے جو چیز اخذ ہوگی وہ دین کی بات نہیں ہوگی بلکہ شرک اور بدعت ہوگی اور یہی چیز سم قاتل ہے اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے تمام افراد امت کو ایسی مجالس میں جانے سے منع فرمایا ہے۔ اچھی مجالس کی تلاش علامہ اقبال مرحوم نے ہمیشہ شکوہ کیا کہ اچھی مجلس نہیں ملتی اچھے آدمی ناپید ہیں اور اچھی سوسائٹی میسر نہیں ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جب تک اچھی سوسائٹی بہت سی باتیں ہیں۔ اچھی مجلس خدا تعالیٰ کا انعام ہے۔ اچھا واعظ ‘ اچھا انسان ‘ اچھا پیر ‘ اچھا لیڈر ‘ مل جانا بڑی غنیمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے متعلق فرمایا ہے۔ ” فادخلی فی عبدی وادکلی جنتی (الفجر) پہلے میرے بندوں میں شریک ہو جائو اور پھر میرے بہشت میں داخل ہو جائو۔ یہاں پر سوسائٹی کو مقدم رکھا گیا ہے۔ اچھی سوسائٹی جنت میں داخلے کا ایک ذریعہ ہے مگر موجودہ دور میں ایسی مجلس کہاں میسر ہے ؟ اب تو جدھر دیکھو کھیل تماشا ‘ طعن تشینع ‘ عریانی ‘ عیاشی اور فحاشی والی سوسائٹی ہی ملے گی ‘ ہر مجلس میں فلموں اور ٹیلیویژن کی باتیں یا کھیل کود کے تذکرے ہوتے ہیں۔ اچھی سوسائٹی کہاں نصیب ہوگی ؟ بہرحال بری سوسائٹی سے اجتناب اور اچھی سوسائٹی کی تلاش کامیابی کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دین کے دشمنوں کے ساتھ لڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ” طعنوا فی دینکم وہ تمہارے دین کے معاملے میں طعن کرتے ہیں۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا ’ قتاتلوا ائمتہ الکفر “ کفر کے پیشوائوں سے جنگ کرو جب تک ان کی سرکوبی نہیں ہوگی۔ وہ اپنی مذموم حرکات سے باز نہیں آئین گے لہٰذا ان کی مجالس میں جانی سے بھی منع فرما دیا۔ شیطان کا بھلاوا آگے اللہ نے ایک اور امکانی صورت حال کا تذکرہ فرمایا ہے۔ وہ اما ینسینک الشیطن اگر تمہیں شیطان بھلا دے۔ یعنی اگر آپ بھول کر دین پر طعن وتشنیع کرنے والی مجلس میں شامل ہوجائیں یا کسی لا علمی کی بناء پر وہاں جا بیٹھیں تو فرمایا فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین تو یاد آجانے کے بعد اس ظالم قوم کے پاس نہ بیٹھیں بلکہ ایسی مجلس سے فوراً علیحدگی اختیار کرلیں۔ دینا یہاں پر بھول جانے یا بھلا دینے کا ذکر ہے۔ درحقیقت کسی چیز کا بھلا اللہ تعالیٰ کی منشاء کے بغیر تو نہیں ہوتا۔ مگر یہاں پر اسے شیطان کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا ہے کہ وہ ایسی باتوں سے خوش ہوتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) نے یہ بات بھی سمجھائی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ نماز میں نکیر کا پھوٹ پڑنا یا کوئی دیگر عارضہ لاحق ہوجانا دراصل اللہ کی طرف سے ہوتا ہے مگر اسے بھی شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ وہ ہر ایسے کام پر خوش ہوتا ہے جس میں دین کا نقصان ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے سفر کے واقعہ میں بھی آتا ہے کہ جب آپ اور آپ کے ساتھی یوشع منزل مقصود سے بہت آگے نکل گئے تو وہاں خادم نے کہا کہ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا تھا جو سمندر میں چلی گئی ” وما انسنیہ الا الشیطن (کہف) اور یہ بھول شیطان ہی کی کارستانی تھی۔ یہاں بھی بھول کر شیطان کی طرف منسوب کیا کیونکہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور یوشع کے لمبے سفر اور تکالیف کی وجہ سے خوش ہو رہا تھا۔ بہرحال اس مقام پر فرمایا کہ اگر تمہیں شیطان بھلا دے اور تم بری مجلس میں شریک ہو جائو تو پھر یاد آنے پر فوراً علیحدہ ہوجائیں وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ تبلیغ دین کا فریضہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ذکر ہی سے مراد نصیحت ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ایسی مجلس میں موجود ہوں تو وہاں ان لوگوں کو نصیحت کرنے کی حد تک ٹھہر سکتے ہیں۔ جب آپ اس فریضہ سے سبکدوش ہوجائیں تو پھر وہاں بالکل نہ رکیں بلکہ علیحدگی اختیار کرلیں۔ اور جب آپ ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جائیں گے۔ وما علی الذین یتقون من حسابھم من شئی “ تو کفار و مشرکین کے حساب میں سے متقین پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ ان کی برائی کا حساب آپ سے تو نہیں لیا جائے گا ‘ وہ اپنی کارکردگی کے خود ذمہ دار ہیں۔ آپ کا فرض یہی ہے کہ ان کو نصیحت کریں اور برائی سے روکنے کی کوشش کریں ‘ آپ کے لئے یہی بہتر ہے۔ ولکن ذکری لعلھم یتقون ان کو نصیہت کریں تا کہ وہ بچ جائیں ‘ ہو سکتا ہے کہ آپ کی تبلیغ سے کوئی سعادت مند آدمی برائی سے باز آجائے۔ بہرحال مبلغین کے لئے یہ دستور العمل دیا گیا ہے کہ آپ مایوس نہ ہوں بلکہ تبلیغ دین کا کام جاری رکھیں ‘ کئی مانے یا نہ مانے آپ اپنا کام جاری رکھیں۔ سورة اعلیٰ میں فرمایا ہے ” فذکر ان نفعت الذکری “ آپ ان کو نصیحت کریں ‘ شاید یہ نصیحت سود مند ثابت ہو۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر نفع نہ دینے والی بات مخدوف ہے۔ اور پورا مطلب یہ ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں خواہ ان کو فائدہ ہو یا نہ ہو۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ مسلمان کو ہمیشہ پرامید رہنا چاہئے اور خیر خواہی کی بات کرتے رہنا چاہئے۔ دین نام ہی خیر خواہی کا ہے۔ لوگ کتنے بھی غلط کار اور ہٹ دھرم ہوں ‘ تبلیغ کا کام جاری رہنا چاہئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نبی کمال درجے کے اطاعت گزار ہوتے ہیں اور وہ تبلیغ دین کا کام پورے خلوص کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ اس کے باوجود قیامت کے دن حال یہ ہوگا کہ کی نبی کے پیچھے صرف ایک ہی امتی ہوگا اور بعض پیغمبر ایسے بھی ہوں گے جن کے ساتھ کوئی بھی امتی نہیں ہوگا۔ تاہم اس میں نبی کا کوئی قصور نہیں ہے ‘ کیونکہ اس نے حق تبلیغ ادا کردیا ‘ اب کوئی مانتا ہے یا نہیں مانتا ‘ یہ نبی کی ذمہ داری نہیں ہے مقصد یہ ہے کہ جب نبی کی بات کا بھی بعض اوقات اثر نہیں ہوتا تو ہم گنہگار کس کھاتے میں ہیں۔ اگر لوگ نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنا کام کرتے رہنا چاہئے۔ ہمارے لئے یہی لائحہ عمل ہے۔ دین اور کھیل تماشا پھر فرمایا وذرالذین اتخذوا دینھم لع باولھوا آپ ان لوگوں کو چھوڑ دیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے جو لوگ اللہ کے سچے دین سے ٹھٹا کرتے ہیں۔ فرشتوں سے تمسخر کرتے ہیں ‘ معجزات کے منکر ہیں ‘ احکام الٰہی کا مذاق اڑاتے ہیں آپ ان سے علیحدہ ہوجائیں۔ یہ ایسے ناہنجار لوگ ہیں جو اللہ کے عذاب سے بےخوف ہوچکے ہیں ‘ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیں ‘ یہ خود ہی اپنی کرتوتوں کا مزہ چکھ لیں گے ‘ ہمفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس جملے کا یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ اپ ان لوگوں کو چھوڑ دیں جنہوں نے کھیل تماشے کو ہی اپنا دین بنا لیا ہے۔ اس وقت دنیا کی کئی اقوام ایسی ہیں جن کے دین کی حیثیت کھیل تماشا ہی رہ گئی ہے۔ عیسائی اپنا مذہبی تہوار کرسمس ڈے کس طرح مناتے ہیں ؟ اربوں روپے کی شراب نوشی ہوتی ہے ‘ جواء کھیلا جاتا ہے ‘ زنا ہوتا ہے اور طرح طرح کے لہو لعب اختیار کئے جاتے ہیں ‘ کیا مقدس دن منانے کا یہی طریقہ ہے ؟ کیا عیسیٰ علیہالسلام نے اپنا دن ایسے ہی منانے کا حکم دیا تھا ‘ دراصل ان لوگوں نے دین کو کھیل تماشا بنا لیا۔ جشن نور روز بھی اپنے جلو میں اسی قسم کی قباحتیں لاتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لئے ایک عید کا دن مقرر کیا ہے تا کہ اس دن لوگ اس کا ذکر کریں ‘ اس کی عبادت میں مشغول ہوں اور سچی خوشی کا اظہار کریں مگر یار لوگوں نے اسے کھیل تماشا بنا لیا۔ ہمارے ہاں بھی جشن میلاد کھیل تماشا ہی بن کر رہ گیا ہے۔ جس طرح عیسائی کرسمس ڈے مناتے ہیں ‘ اسی طرح مسلمانوں نے عید میلاد منانا شروع کردیا ہے۔ ساز و سرود کی محفلیں جمائی جاتی ہیں ناچ گانے ہوتے ہیں جھنڈیاں لگتی ہیں ۔ مکہ اور مدینے کے ماڈل بنا کر رکھے جاتے ہیں۔ جس طرح ہندو وسہرہ اور دیوالی مناتے تھے ‘ راون کے بڑے بڑے بت بنا کر رکھتے تھے اور پھر انہیں آگ لگاتے تھے ‘ چراغاں کرتے تھے ‘ شور و شر اور ڈھول ڈھمکا ہوتا تھا ‘ بالکل وہی خرافات مسلمان بھی کر رہے ہیں۔ جس طرح انہوں نے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ‘ اسی طرح مسلمان بھی ان کے پیچھے چل رحی ہیں۔ تو فرمایا آپ چھوڑ دیں ان کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے۔ دھوکے کی زندگی پھر فرمایا کہ ان کا حال یہ ہے وعزتھم الحیوفۃ الدنای ان کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اسی طرح خوشحال رہیں گے اور کھیل تماشے ہوتے رہیں گے۔ وہ محاسبے کے عمل کو بھول چکے ہیں اور اسی دنیا کی زندگی پر فریفتہ ہیں۔ ” زین لھم الشیطن اعمالھم “ (انفال) شیطان نے ان کے اعمال کو مزین کر کے دکھایا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کفر ‘ شرک اور بدعات اور انجام دے رہے ہیں ‘ بالکل ٹھیک کر رہے ہیں لہٰذا وہ اسی دھوکے میں مبتلا ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہی سیدھا راستہ ہے فرمایا وذکربہ آپ اس قرآن پاک کے ذریعے ان کو نصیحت کرتے رہیں بہ کی ضمیر قران کی طرف جاتی ہے بلکہ اللہ نے قرآن کو تذکرہ بھی فرمایا ہے کہ یہ نصیحت اور یاد دہانی ہے اس کی تعلیمات کے ذریعے یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ یہ دنیا فانی ہے ‘ اس کی زینت میں الجھ کر نہ رہ جانا بلکہ آخرت کی دائمی زندگی کے لئے سامان کرنا چاہئے۔ اللہ نے انسان کو کھیل کود کے لئے پیدا نہیں کیا تھا بلکہ ” وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون “ تخلیق انس و جن کا مقصد اس مالک الملک کی عبادت کرنا ہے۔ فرمایا اس قرآن پاک کے ذریعے آپ نصیحت کریں ان تبسل نفس بما کسبت تا کہ کوئی نفس اپنی غلط کارکردگی کی وجہ سے گرفتار نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ جو کوئی نصیحت نہیں پکرے گا ‘ وہ اپنے کئے دھرے میں پکڑا جائیگا۔ سورة مدثر میں آتا ہے ” کل نفس ‘ بما کسبت رمینۃ “ ہر شخص اپنے اعمال کی وجہ سے جکڑا ہوا ہے وہ احکام الٰہی سے سرکشی کر کے بھاگ نہیں سکتا۔ بالآخر پکڑا جائے گا ۔ تو یہاں بھی فرمایا کہ ہر شخص اپنے افعال کی وجہ سے گرفتار ہے۔ ابسال کے مختلف معانی آتے ہیں۔ مثلاً منع کرنا ‘ روک دینا ‘ گرفتار کرنا وغیرہ۔ شیر کو اسد باسل اس لئے کہتے ہیں کہ وہ شکار کو روک لیتا ہے اور وہ بھاگ نہیں سکتا اسی طرح رجل باسل اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مدمقابل کو قابو کرلیتا ہے اور چھوڑتا نہیں۔ بہرحال فرمایا کہ آپ ان کو نصیحت کرتے ہیں تا کہ یہ اپنے کردہ گناہوں کی پاداش میں گرفتار نہ ہوجائیں اور جو نفس اپنے جرائم کی سزا میں گرفتار ہوجائے گا۔ لیس لھا من دون اللہ ولی ولا شفیع اس کے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی کارساز ہوگا اور نہ کوئی سفارش کرنے والا دنیا میں لوگ جھوٹی سچی کئی قسم کی طرفداریاں پیدا کرلیتے ہیں مگر قیامت والے دن کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا اور مجرمین اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ فدیہ کی عدم قبولیت فرمایا وان تعدل کل عدل اگر کوئی گرفتار مصیبت شخص اپنی رہائی کے لئے فدیہ دینا چاہے ‘ ہر قسم کا فدیہ لا یوخذمنھا تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ دوسرے مقام پر آتا ہے کہ اگر بالفرض کسی کے پاس پوری زمین کے برابر خزانہ ہو اور وہ اپنی جان کے بدلے میں دینا چاہے گا تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ وہاں نہ کوئی حمایتی کام آئے گا ‘ نہ جتھا اور نہ کوئی سفارش ‘ وہاں تو نیکی اور ایمان ہی کام آنے والی چیزیں ہیں جنہیں وہ ٹھٹا و تمسخر میں گنوا چکے ہوں گے ‘ لہٰذا ان کے بچائو کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی ‘ ان سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ مجرمین کے لئے عذاب فرمایا اولئک الذین ابسلوا بما کسبوا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں گرفتار کیا گیا ہے ان کی کمائی کے بدلے ‘ جنہوں نے اس دنیا میں کفر ‘ شرک اور بدعات کو اکٹھا کیا ‘ آخرت میں ان کی تواضع اس طرح ہوگی کہ لھم شراب من حمیم ان کے پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی ہوگا۔ سورۃ محمد میں ہے ” سقوا ماء حمیما فقطع امعاء ھم “ گرم پانی کا گھونٹ منہ میں ڈالیں گے تو وہ آنتوں کو کاٹ کر نیچے پھینک دیگا۔ وہ پانی پگھلے ہوئے فولاد سے بھی زیادہ گرم ہوگا۔ دوزخ کی آگ دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ گرم ہوگی۔ وہ عذاب الیم اور طرح طرح کا دردناک عذاب دیا جائے گا۔ اس دنیا میں کی گئی تمام برائیاں خوفناک شکلوں میں متشکل ہو کر ان کے لئے عذاب بن جائیں گی۔ مثلاً بخل سانپ کی شکل بن کر ڈسے گا ‘ بداخلاقی درندوں کی شکل اختیار کر کے حملہ آور ہوگی اور کفر اور شرک جہنم کی آگ بن کر لپیٹے گا۔ کیونکہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ جگہ جگہ فرمایا ہے والکفرون ھم الظلمون “ کفر کرنے والے ہی ظالم ہیں جو مختلف سزائوں میں مبتلا ہوں گے۔ فرمایا ان کے لئے عذاب الیم ہوگا بما کانوا یکفرون اس وجہ سے کہ یہ لوگ دنیا میں کفر کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دین میں طعن کرنے والوں کے برے انجام سے آگاہ کردیا اور نصیحت والی بات بھی سمجھا دی۔
Top