Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 152
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا سَيَنَالُهُمْ : عنقریب انہیں پہنچے گا غَضَبٌ : غضب مِّنْ رَّبِّهِمْ : ان کے رب کا وَذِلَّةٌ : اور ذلت فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم سزا دیتے ہیں الْمُفْتَرِيْنَ : بہتان باندھنے والے
بیشک وہ لوگ جنہوں نے بنا لیا بچھڑے کو معبود یقینا پہنچے گا ان کو غضب ان کے رب کی طرف سے اور ذلت دنیا کی زندگی میں او اسی طریقے سے ہم سزا دیتے ہیں افتراء کرنے والوں کو
سورة الاعراف پر ایک نظر یہ سورة الاعراف ہے اس کی ابتداء میں قرآن کریم کی طرف دعوت دی گئی اس کے بعد آدم (علیہ السلام) اور خلافت ارضی کا ذکر ہے پھر اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کی تاریخ بیان فرمائی ہے اس ضمن میں انبیاء کی دعوت ، طریقہ تبلیغ ، ان کی قوموں کا جواب اور پھر ان کا انجام بھی بیان فرمایا ہے گزشتہ چند رکوعات سے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) کا تذکرہ ہورہا ہے اللہ نے دو انبیاء کی بعثت کا ذکر فرمایا وہ خدا کا پیغام لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس گئے قوم سخت بدسلوکی سے پیش آئی اور اللہ کے نبیوں کو طرح طرح کی تکالیف دیں اور آخر کار فرعون اور اس کی قوم کی سزا کا وقت بھی آگیا اللہ کی گرفت آئی اور خود فرعون اور اس کے لشکری بحیرہ قلزم میں غرق ہوگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم بنی اسرائیل دریا کو عبور کرکے صحرائے سینا میں پہنچ گئے جب انہیں فرعون کے مظالم سے نجات حاصل ہوگئی اور وہ آزاد فضا میں سانس لینے لگے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے خود مطالبہ کیا کہ ان کے لیے قانون کی کتاب ہونی چاہیے جس پر وہ عمل کرسکیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی تو حکم ہوا کہ وہ طور پر آکر چالیس دن اعتکاف بیٹھو اس دوران عبادت ریاضت میں مشغول رہو تو اس کے بعد کتاب عطا کی جائے گی حسب الحکم موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنا جانشین بنایا اور خود طور پر تشریف لے گئے۔ اسرائیلیوں کے پاس وہ زیورات موجود تھے جو انہوں نے مصر سے چلتے وقت فرعونیوں سے عاریتہً حاصل کیے تھے سامری نے وہ زیورات حاصل کیے انہیں ڈھال کر سونے کا بچھڑا بنایا اور پھر اس کے منہ میں جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے قدموں کی مٹی ڈالی تو بچھڑا بولنے لگا سامری نے بتایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو خواہ مخواہ طور پر گئے ہیں خدا تو یہ ہے چناچہ اسرائیلیوں کی ایک معتدبہ تعداد نے بچھڑے کو معبود بنالیا اور اس کی پوجا کرنے لگے ادھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی خبر دے دی کہ آپ کی قوم فتنے میں مبتلا ہوچکی ہے چناچہ جب آپ واپس آئے تو اپنی نہ آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ بچھڑے کے گرد جمع ہو کر اس کی پوجا کر رہے ہیں آپ کو سخت غصہ آیا اور اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو سر کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا کہ تیری موجودگی میں قوم کیسے گمراہ ہوگئی انہوں نے بھائی کو قصوروار سمجھا مگر ہارون (علیہ السلام) نے وضاحت کی کہ اس معاملہ میں ان کا کچھ قصور نہیں قوم ہی ان کے قتل کے درپے ہوگئی تھی آپ نے یہ بھی کہا کہ میں نے ان کو خوب اچھی طرح سے سمجھایا تھا مگر انہوں نے میری بات نہ مانی بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کا عذر قبول کرکے اللہ تعالیٰ سے اس کوتاہی کی معافی مانگی کہ مولا کریم مجھے اور میرے بھائی کو معاف کردے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کرے کہ تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ ابھی مزید چل رہا ہے اس کے بعد حضور خاتم النبیین ﷺ کا تذکرہ اور اسلام کی دعوت عامہ کا ذکر ہے پھر آخر میں قرآن حکیم کے متعلق ذکر ہے غرضیکہ اس سورة مبارک میں کئی اہم مضامین بیان ہوئے ہیں۔ انسان کی انتہائی پستی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) تو اللہ کے پاک نبی تھے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے لغزش کی معافی بھی طلب کرلی اب اللہ تعالیٰ نے باقی قوم کا حال بیان فرمایا ہے جو بچھڑے کی پوجا میں ملوث ہوگئی تھی ارشاد ہوتا ہے ان الذین اتخذو العجل بیشک وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کو معبود بنایا انسان کی ذہنی پستی ملاحظہ کریں کہ سونے سے بنے ہوئے بچھڑے میں ذرا سا کرشمہ دیکھا تو فوراً اس کی پوجا شروع کردی انسان جب ماننے پر آجاتا ہے تو حقیر سے حقیر چیز کو الٰہ بنا لیتا ہے دیکھ لیں ناگ پنھپمی والے ہندو سانپ کی پوجا کرتے ہیں گائے کی پوجا کرنے والے کتنے لوگ موجود ہیں نہ صرف گائے بلکہ اس کے گوبر اور پیشاب کو بھی پوتر (پاک) تصور کرتے ہیں کوئی چیز برتن وغیرہ ناپاک ہوجائے تو اسے گائے کے پیشاب سے پاک کرتے ہیں مگر یہی حضرت انسان جب انکار کرنے پر آتا ہے تو اللہ وحدہٗ لاشریک کی توحید کا انکار کردیتا ہے اس کی بھیجی ہوئی کتابوں کو تسلیم نہیں کرتا حتیٰ کہ اس کے مقدس پیغمبروں کو پتھر مار کر ہلاک کردیتا ہے یہ انسان کی ذہنی پستی کی انتہا ہے۔ دنیا میں ذلت فرمایا جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنالیا سینا لھم غضب من ربھم عنقریب انہیں ان کے رب کی طرف سے غضب پہنچے گا اللہ کے نبی ان میں موجود ہیں اور سمجھا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کو قبول کرلو اور بچھڑے کی پوجا چھوڑ دو ورنہ عذاب میں مبتلا ہوجائو گے یہاں پر غضب سے مراد عذاب ہے فرمایا ایک تو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخرت میں عذاب ہوگا وذلۃ فی الحیوۃ الدنیا اور دوسرے انہیں دنیا کی زندگی میں بھی ذلت و رسوائی کو اٹھانا پڑے گی جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ بچھڑے کے پجاریوں کی توبہ اس شرط کے ساتھ قبول ہوئی تھی کہ نہ پوجنے والے پوجنے والوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں چناچہ ایسا ہی ہوا ان کے اس قتل کو ہی ذلت شمار کیا گیا ہے جو انہیں اسی دنیا میں حاصل ہوئی جو لوگ اس طریقے سے قتل ہوگئے اللہ نے اس کی توبہ قبول فرمالی اور وہ آخرت کے مواخذہ سے بچ گئے اور جنہوں نے اس طریقے سے توبہ نہ کی ان کے متعلق فرمایا کہ وہ عنقریب آخرت کے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اور پھر سزا کے ذکر کے ساتھ اللہ نے یہ بھی فرمایا وکذلک نجزی المفترین ہم افتراء باندھنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ظاہر ہے کہ جس نے شرک کا ارتکاب کیا اس نے گویا اللہ پر افتراء باندھا اور اس قسم کے مفتریوں کے لیے سزا بھی ایسی ہی مقرر ہے۔ مرتد کی سزا مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس جملے سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ مرتد کے لیے موت کی سزا مقرر ہے بچھڑے کے پجاری جلی شرک میں مبتلا ہوگئے انہوں نے عاقل بالغ ہو کر دین حق کو چھوڑ کر کفر اختیار کرلیا تھا لہٰذا اللہ نے ان کے لیے قتل کیے جانے کی سزا مقرر کی حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ارشاد گرامی بھی ہے من بدل دینہ فاقتلوہ جس نے اپنا دین تبدیل کرلیا اس کو قتل کردو البتہ سزائے موت پر عملدرآمد سے پہلے استتابہ ضروری ہے اگر اس کے ذہن میں دین اسلام کے متعلق کوئی شک و شبہ پیدا ہوگیا ہے جس کی بنا پر مرتد ہوا تو پھر اس کے شکوک رفع کرنے کا بندوبست کیا جائے گا اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اس کام کے لیے علماء کرام کی خدمات حاصل کی جائیں اور متذکرہ شخص کی ہر طرح سے تسلی کی جائے اگر پھر بھی وہ اپنے دین پر واپس نہیں آتا تو اس کی سزائے موت پر عملدرآمد کردیاجائے گا ایسا شخص باغی تصور ہوتا ہے اور باغی کی سزا آج کی دنیا میں بھی یہی ہے روسی قانون میں باغی کی سزا واضح طور پر موت ہے بیریا پچیس سال تک پولیس کمشنری کے عہدے پر فائز رہا مگر بعد میں غداری کا مقدمہ بنا اور اسے سزائے موت ہوئی ارتداد دین کے ساتھ کھلی بغاوت ہے لہٰذا ایسا شخص واجب القتل ہے۔ توبہ کی قبولیت اللہ تعالیٰ نے جہاں بڑے بڑے جرائم کے لیے سخت سزائیں رکی ہیں وہاں اس کی رحمت بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے اور بغاوت سے نادم ہونے والے کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ارشاد ہے والذین عملوالسیات وہ لوگ جنہوں نے برے کام کیے ثم تابو من بعدھا وامنو پھر اس کے بعد انہوں نے توبہ کرلی اور ایمان لائے فرمایا ان ربک من بعدھا لغفور رحیم بیشک تیرا پروردگار اس کے بعد البتہ بہت بخشش کرنے والا اور مہربان ہے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اس بات کی وضاحت فرما دی ہے کہ جرم کتنا بھی سنگین ہو حتیٰ کہ کفر اور شرک کے ارتکاب کے بعد بھی اگر کوئی شخص تائب ہوجائے اور مرنے سے پہلے پہلے اللہ کے حضور گڑ گڑا کر معافی مانگ لے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے سورة بقرہ میں تابوا کے ساتھ واصلحوا کا لفظ بھی آتا ہے یعنی انہوں نے معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح بھی کرلی گویا ایسی سچی توبہ کی کہ پھر اس جرم کے کبھی قریب نہیں آیا تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔ البتہ ایک بات یاد رہے کہ حقوق العباد توبہ سے بھی معاف نہیں ہوتے ار کسی کا حق غضب کیا ہے کسی کو ایذا پہنچائی ہے تو جب تک متعلقہ شخص معاف نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ بھی ایسے جرم کو نہیں بخشے گا حقوق اللہ تو توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں مگر حقوق العباد کے لیے اس کے پاس جانا ہوگا جس کا حق ضائع ہوا ہے اگر اس دنیا میں کسی کا غضب شدہ حق واپس نہیں کیا تو آخرت میں لازماً ادا کرنا پڑے گا مگر وہاں مال تو نہیں ہوگا لہٰذا اس حق کے بدلے میں نیکیاں دینا ہوں گی اور اگر کسی غاصب کے پاس نیکیاں بھی نہ ہوں گی تو حقدار کی برائیاں غاصب کے سر پر ڈال دی جائیں گی مقصد یہ کہ حقوق العباد کا مواخذہ لازمی ہے لہٰذا اس کی تلافی اسی دنیا میں کردینی چاہیے۔ تختیوں کی شکستگی گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ قوم کو شرک میں مبتلا دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) کو سخت غصہ آیا اور آپ نے تورات کی تختیاں بھی ہاتھ سے پھینک دیں اور اپنے بھائی کی سرزنش کی جب ہارون (علیہ السلام) نے معذرت کی تو پھر آپ نے اپنے لیے اور اپنے بھائی کے لیے اللہ رب العزت سے معافی کی درخواست کی اب اسی بات کو آگے چلایا گیا ہے ولما سکت عن موسیٰ الغضب جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ تھم گیا اخذ الا لواح تو آپ نے تورات کی تختیاں اٹھا لیں مسنداحمد ، طبرانی اور مستدرک حاکم میں یہ روایت موجود ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے غصے میں آکر تختیاں زمین پر ڈال دی تھیں تو اس وقت ان میں سے کوئی تختی ٹوٹ بھی گئی تھی مگر بالکل چورا چور نہیں ہوئی تھی کہ اس کے مندرجات پڑھے ہی نہ جاسکیں بعض اوقات اس قسم کی چیز اگر دو ٹکڑے بھی ہوجاء یتو ان ٹکڑوں کو جوڑ کر اس پر لکھی ہوئی عبارت پڑھی جاسکتی ہے تورات میں تختی کے بالکل چورا چورا ہوانے کا ذکر ہے جو کہ درست نہیں اس آیت سے بھی واضح ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے پھینکی ہوئی وہ تختیاں دوبارہ اٹھالیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی تختی بالکل ناکارہ نہیں ہوگئی تھی ہوسکتا ہے کہ معمولی شکستگی آئی ہو ، کانچ کی طرح ٹوٹ کر بالکل ریزہ ریزہ نہیں ہوئی تھی۔ ہدایت کی ضرورت اب آگے اللہ تعالیٰ نے تختیوں کے متن کے متعلق فرمایا ہے وفی تسخ تھا ھدیً و رحمۃ اور ان تختیوں پر جو چیز لکھی ہوئی تھی وہ ہدایت اور رحمت تھی گزشتہ سے پیوستہ رکوع میں یہ بھی گزر چکا ہے وکتبنا لہ فی الالواج من کل شی ئٍ موعظۃ و تفصیلاً لکل شی ئٍ یعنی ان تختیوں میں ہم نے ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی تھی تمام ضروری باتیں جن کی قوم کو ضرورت تھی وہ اس میں لکھ دی گئی تھیں فرمایا اس میں ایک چیز تو ہدایت تھی سورة مائدہ میں موجود ہے ہم نے تورات نازل کی فیھا ھدیً و نورا جس میں ہدایت اور روشنی تھی اسی طرح قرآن پاک کے متعلق اللہ نے فرمایا انزلنا الیک توراً مبیناً ہم نے قرآن کی شکل میں آپ کی طرف واضح روشنی نازل کی ہے اللہ نے تورات ، انجیل اور قرآن پاک کو بھی نور فرمایا ہ کے مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ بینات اور ہدایت میں قدرے فرق ہے بینات ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو معمولی توجہ سے بھی انسان کی سمجھ میں آجاتی ہیں مثلاً توحید ، صبر ، ذکر ، شکر ، خدا تعالیٰ کی عبادت وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں اور ہدایت وہ چیز ہے جو خودبخود معمولی طریقے سے ذہن نشین ہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے استاد سے سیکھنا پڑتا ہے جیسے تعظیم شعائر اللہ اور دیگر باریک باتیں اس جہان میں انسان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہدایت ہے اور اس کا اولین ذریعہ وحی الٰہی ہے اللہ تعالیٰ نے ایسی ہی ہدایت کے حصول کے لیے تلقین فرمائی ہے فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون اگر کسی چیز کو تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے دریافت کرلیا کرو وہ تمہیں سمجھا دیں گے ہدایت کا سلسلہ اسی طرح چلتا ہے کہ اللہ کا نبی وحی الٰہی کے ذریعے حاصل کرکے امت تک پہنچاتا ہے اور امت کے اہل علم آگے آنے والی نسلوں تک پہنچاتے ہیں اور اس طرح یہ چیز نسل درنسل منتقل ہوتی رہتی ہے ہدایت اتنی ضروری چیز ہے جسے ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں طلب کرتے ہیں اھدنا الصراط المستقیم اے مولا کریم ! ہمیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت نصیب فرما معلوم ہوا کہ عبادات ہوں یا معاملاتخ سیاسیات ہوں یا معاشیات یا اخلاقیات ہر معاملے میں انسان ہدایت کا محتاج ہے اپنے اپنے دور میں زبور ، تورات اور انجیل ذریعہ ہدایت تھی اسی لیے فرمایا کہ تورات میں ہدایت تھی حدیث شریف میں آتا ہے کہ کلکم ضال الا من ھدیتہ تم میں سے ہر شخص بھٹکا ہوا ہے مگر جسے اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرما دے لہٰذا ہدایت ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہیے۔ رحمت الٰہی کا نزول جب کوئی شخص ہدایت الٰہی حاصل کرکے اس کے اصولوں کے مطابق عمل کرتا ہے تو پھر اس کے نتیجے میں رحمت کا نزول ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے شخص کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اللہ کی مہربانی اس کے شامل حال ہوجاتی ہے بہرحال فرمایا کہ تورات کی تختیوں میں جو چیز لکھی ہوئی تھی وہ ہدایت اور رحمت تھی مگر کن لوگوں کے لیے ؟ للذین ھم لربھم یرھبون ان کے لیے جو اپنے رب تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ظاہر ہے کہ ہدایت پر وہی شخص عمل پیرا ہوسکتا ہے جس میں خوف خدا ہوگا جو شخص اس چیز سے عاری ہے وہ ہدایت پر عمل نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کے حق میں رحمت الٰہی کا نزول ہوگا سورة بقرہ کی ابتدا میں ” ھدیً للمتقین “ کا یہی مطلب ہے قرآن پاک سراپا ہدایت ہے مگر متقین کے لیے جن لوگوں میں تقویٰ اور خوف خدا ہوگا اس ہدایت ربانی سے وہی فائدہ اٹھا سکیں گے جو اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرے گا اسے کیا فائدہ پہنچے گا ؟ تو یہاں پر تورات کے متعلق بھی فرمایا کہ اس میں ہدایت اور رحمت لکھی ہوئی ہے مگر اس سے وہی لوگ مستفید ہوسکیں گے جن کے دل میں خوف خدا جاگزیں ہوگا۔ قرآن پاک کی واضح ہدایت ہے مگر اس سے اعراض کرنے والے اس سے محروم ہیں جو اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرے گا وہ سمجھے گا کیسے اور اس پر عمل کیسے کرے گا ؟ اور ہدایت سے محرومی کی یہی وجہ ہے اللہ نے فرمایا ہے کہ قرآن پاک منافقوں کے لیے نجاست میں اضافہ کرتا ہے وہ لوگ یا تو شک میں مبتلا ہوتے ہیں یا بالکل انکار ہی کردیتے ہیں لہٰذا عمل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ ان کے عقیدے کی نجاست میں اضافہ ہوجاتا ہے بہرحال فرمایا کہ تورات میں ہدایت اور رحمت ہے مگر رب تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے۔
Top