Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 169
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَا١ۚ وَ اِنْ یَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ یَاْخُذُوْهُ١ؕ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَ دَرَسُوْا مَا فِیْهِ١ؕ وَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
فَخَلَفَ : پیچھے آئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد خَلْفٌ : ناخلف وَّرِثُوا : وہ وارث ہوئے الْكِتٰبَ : کتاب يَاْخُذُوْنَ : وہ لیتے ہیں عَرَضَ : متاع (اسباب) هٰذَا الْاَدْنٰى : ادنی زندگی وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں سَيُغْفَرُ لَنَا : اب ہمیں بخشدیا جائے گا وَاِنْ : اور اگر يَّاْتِهِمْ : آئے ان کے پاس عَرَضٌ : مال و اسباب مِّثْلُهٗ : اس جیسا يَاْخُذُوْهُ : اس کو لے لیں اَلَمْ يُؤْخَذْ : کیا نہیں لیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر (ان سے مِّيْثَاقُ : عہد الْكِتٰبِ : کتاب اَنْ : کہ لَّا يَقُوْلُوْا : وہ نہ کہیں عَلَي : پر (بارہ میں) اللّٰهِ : اللہ اِلَّا : مگر الْحَقَّ : سچ وَدَرَسُوْا : اور انہوں نے پڑھا مَا فِيْهِ : جو اس میں وَالدَّارُ : اور گھر الْاٰخِرَةُ : آخرت خَيْرٌ : بہتر لِّلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو يَتَّقُوْنَ : پرہیزگار اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا تم سمجھتے نہیں
پھر آئے ان کے پیچھے نالائق جو وارث ہوئے ، کتاب کے لیتے ہیں اس حقیر دنیا کا سامان اور کہتے ہیں کہ ہمیں معاف کردیا جائے گا اور اگر آئیں ان کے پاس اسباب (سامان) اس جیسے تو اس کو لے لیتے ہیں۔ کیا ان سے پختہ عہد نہیں لیا گیا تھا کتاب میں کہ نہ کہیں اللہ پر کوئی بات مگر جو سچ ہو اور پڑھا انہوں نے جو کچھ اس میں لکھا تھا اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لئے جو ڈرتے ہیں۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے
یہودیوں کی دائمی ذلت مچھلی کے شکار والا واقعہ مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً سات سو سال پہلے پیش آیا اس وقت سے لے کر یہودیوں پر مسلسل ذلت مسلط رہی ہے اور یہ قرب قیامت تک اسی طرح رہے گی یہ لوگ کبھی بخت نصر کی غلامی میں رہے اور کبھی رومیوں اور کلدانیوں کے تسلط میں پستے رہے اور ان کے مظالم برداشت کرتے رہے پھر حضور ﷺ کے زمانے میں بنو قینقاع ، بنو نفیر اور بنو قریظہ کے یہودیوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف بڑی سازشیں کیں جس کی وجہ سے یہاں کے یہودی کچھ مارے گئے اور کچھ جلاوطن ہوئے جب یہودیوں کا گڑھ خیبر فتح ہوگیا تو انہوں نے اپنی نصف پیداوار کے عوض وہیں آباد رہنے کی درخواست کی حضور ﷺ نے اس شرط کے ساتھ اجازت دے دی کہ ہم جب چاہیں گے تمہیں یہاں سے بےدخل کردیں گے چناچہ آپ کی خصوصی وصیتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ میرے بعد تمام یہودیوں کو جزیرہ نما عرب سے نکال دینا اس سرزمین پر کوئی غیر مذہب جزیہ دے کر بھی نہیں رہ سکے گا مرکز اسلام میں صرف مسلمان ہی رہیں گے چناچہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں یہودیوں کو ملک بدر کردیا گیا۔ یہودی آج تک پوری دنیا میں محکوم ہی رہے ہیں دوسری جنگ عظیم میں ساٹھ ہزار یہودیوں کو سخت ترین سزائیں دے کر ہلاک کیا گیا ہٹلر کیلئے ثابت ہوگیا تھا کہ یہ بڑے سازشی لوگ ہیں ان کے پیٹوں میں ہوا بھرکر تڑپا تڑپا کر مارا گیا حتیٰ کہ ساری دنیا میں ان کے حق میں جذبہ ترحم پیدا ہوگیا یہ مفضوب قوم ہے دنیا میں کہیں بھی ان کی آزاد حکومت نہ کہیں پہلے رہی ہیں اور نہ آئندہ ہوگی ہاں یہ لوگ ذلت سے اسی صورت میں بچ سکتے ہیں الا بحبل من اللہ وحبیل من الناس (آل عمران) کہ یا تو اللہ کی رسی کو پکڑلیں یعنی ایمان لے آئیں یا لوگوں کی رسی کو تھام لیں آج انہوں نے امریکہ کی رسی کو پکڑا ہوا ہے اور اسی کے سہارے پر زندہ ہیں اگر امریکہ آج ان کے سر پر سے ہاتھ اٹھا لے تو یہ دو دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے اسرائیلی ریاست کا قیام دراصل ان کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخفی تدبیر ہے یہی وہ علاقہ ہے جہاں قرب قیامت میں مسیح (علیہ السلام) تمام یہودیوں اور ان کے سرغنہ دجال کو قتل کریں گے تل ابیب سے چھتیس میل دور لدکا مقام ہے جہاں پر دجال قتل ہوگا روایات میں آتا ہے کہ اس وقت کسی یہودی کو کہیں پناہ نہیں ملے گی حتیٰ کہ پتھر اور درخت بھی بول کر کہیں گے کہ اے مسلمان ! میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے اس کا کام تمام کردو اس لحاظ سے ان کی موجودہ اسرائیلی سلطنت ان کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کا ایک ذریعہ بن گئی ہے تاکہ مقررہ وقت پر ان کا خاتمہ کیا جاسکے بہرحال یہودی ایک ذلیل قوم ہیں اور قرب قیامت تک ذلت ان پر مسلط رہے گی چناچہ گزشتہ اڑھائی ہزار سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے یہ لوگ دولت مند ضرور ہیں موجودہ بینکاری کا نظام انہی کی ایجاد ہے یہ دولت پر سانپ بن کر تو بیٹھ سکتے ہیں مگر ان کے مقدر میں جو ذلت اور رسوائی آچکی ہے اس سے کبھی نہیں نکل سکیں گے۔ حتیٰ کہ مسیح (علیہ السلام) کے زمانے میں سب کو قتل کردیاجائے گا لوگ کہتے ہیں کہ اب ان کی اسرائیلی ریاست قائم ہوچکی ہے اس کے متعلق میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ یہ تو روس ، برطانیہ ، امریکہ ، فرانس اور جرمنی کی فوجی چھائونی ہے اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے اب اس پر مکمل طور پر امریکہ کا تسلط ہے یہ تو بڑی طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے اسرائیل کو کھڑا کررکھا ہے اور نہ اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے پھر کوئی وقت آئے گا جب یہ یہاں بھی ذلیل و خوار ہوں گے۔ اللہ کی گرفت اور بخشش تو فرمایا اس بات کو دھیان میں لائو جب کہ تہمارے پروردگار نے خبردار کردیا کہ وہ یہودیوں پر قیامت تک کے لیے ایسے لوگ مسلط کردے گا جو ان کو بہت بری سزا دیتے رہیں گے فرمایا ان ربک لسریع العقاب بیشک تیرا رب جلد سزا دینے والا ہے بعض اوقات مجرموں کو فوراً سزا دے دیتا ہے جیسا کہ پیچھے مثالیں گزر چکی ہیں جونہی کسی نے حد سے تجاوز کیا کسی کو زلزلے نے آپکڑا کسی پر چیخ مسلط کی گئی اور کسی کی شکلیں تبدیل کردی گئیں اور ساتھ ساتھ رب العزت کی صفت پر بھی ہے وانہ لغفور رحیم کہ وہ بہت بخشش کرنے والا اور ازحد مہربان بھی ہے وہ گنہگاروں کو مہلت بھی دیتا ہے انہیں سنبھلنے کا موقع دیتا ہے مگر جب وہ برائی سے باز نہیں آتے تو پکڑ لیتا ہے۔ تو مشو مغرور برحلم خدا دیر گیرو سخت گیرو مرترا (رومی (رح) خدا تعالیٰ کی بردباری پر کسی کو مغرور نہیں ہونا چاہیے کبھی وہ دیر سے پکڑتا ہے مگر سخت سخت گرفت کرتا ہے غرضیکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت عام ہے کہ لوگ گناہ بھی کرتے رہتے ہیں اور زمین پر چلتے پھرتے بھی نظر آتے ہیں قرآن پاک میں موجود ہے کہ اگر خدا گناہوں کی وجہ سے پکڑنا چاہتا تو سب کو فوراً پکڑ لیتا اور ہر غلط کار انسان اور جانور کو نیست و نابود کردیتا مگر وہ صفت عفور کی وجہ سے مہلت ضرور دیتا ہے اور مجرموں کو سزا دیے بغیر چھوڑتا نہیں وہ جلد یا بدیر پکڑے جاتے ہیں۔ فرقہ بندی کی سزا فرمایا وقطعنھم فی الارض امماً اور ہم نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ان کو زمین میں مختلف فرقوں میں بنی اسرائیل میں بہتر مذہبی فرقے بن گئے جو آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں یہود و نصاریٰ میں یہ فرقے پہلے بھی موجود تھے اور آج بھی ہیں عقیدے ، اعمال اور بدعات کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ فرقے بنے ہوئے ہیں جو کہ سزا ہی کی ایک صورت ہےحضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں منقسم ہوئے تو میری امت کے لوگ تہتر فرقوں میں بٹ جائیں گے ان میں سے صرف ایک کے سوا باقی سارے جہنمی ہوں گے اور ناجی فرقہ وہی ہوگا ما انا علیہ و اصحابی جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر گامزن ہوگا فرمایا لتتبعن سنن من کان قبلکم تم بھی پہلے لوگوں کے نقش قدم پر ہی چلو گے اور لڑائی جھگڑے ، جنگ و قتال ، پارٹی بازی ، فرقہ بندی تمہارے اندر بھی آجائے گی اور یہ سزا ہوگی اتفاق و اتحاد خدا تعالیٰ کی رحمت ہے اس نے اجتماعیت کا حکم دیا ہے جب سے مسلمانوں میں فرقہ بندی کی وبا آئی ہے ذلت ان کا مقدر بن گئی ہے گزشتہ آٹھ سو سال سے مسلمان غلامی کی سزا میں مبتلا ہیں تاتاریوں کے فتنے کے بعد دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کے قدم جم نہیں سکے دن بدن مصائب میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ یہ سب فرقہ بندی کی سزا ہے اگر یہود و تورات کے احکام کی خلاف ورزی کرکے ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتے ہیں فرقہ بندی کی لعنت میں گرفتار ہو کر مغضوب و مقہور قرار دیے جاسکتے ہیں تو ہماری امت کے لوگ بھی قرآن پاک کے احکام کو پس پشت ڈال کر اس سزا سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ خدا کا قانون تو سب کے لیے یکساں ہے اللہ تعالیٰ فاسق اور ظالم کو معاف نہیں کرتا امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب برے لوگوں کی تکریم کی جارہی ہو اور اچھے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو تو امن کیسے ہوسکتا ہے ؟ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب اکرم الرجل مخافۃ شرہ کسی کی عزت اس کے شر کے خوف کی وجہ سے ہوگی کہ اگر اس کو سلام نہ کیا اس کی چاپلوسی نہ کی تو نقصان پہنچائے گا یہ علاقے کا باثر آدمی ہے کہیں غنڈے پیچھے نہ لگادے یا جائیداد پر قبضہ نہ کرلے اس کی عزت محض اس خوف کی وجہ سے کی جائے گی حالانکہ وہ فاسق وفاجر ہے نہ نماز کی پرواہ ہے نہ روزے کی اور دین اسلام کی کچھ خبر ہے امن تو اس صورت میں قائم ہوسکتا ہے جب اچھے آدمی کی عزت ہو اور برے آدمی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ جب حضرت عثمان غنی ؓ کے مکان کا محاصرہ کرلیا گیا تو آپ نے اپنے مخالفین کے ساتھ سختی کرنے کی اجازت نہیں دی اپنے ساتھیوں کو تلوار اٹھانے سے منع کردیا بلکہ آپ کی دعا یہ تھی الھم اجمع امۃ محمد ﷺ اے مولا کریم ! امت محمد یہ کو اکٹھا کردے ان میں اتفاق و اتحاد کا جذبہ پیدا فرما کہیں یہ تفریق کا شکار نہ ہوجائیں اکٹھا ہونا خدا تعالیٰ کی رحمت ہے جب کہ گروہوں میں بٹ جانا عذاب الٰہی ہے اپنے گردوپیش میں نظر اٹھا کر دیکھ لیں کوئی سیاسی پارٹی ہو یا مذہبی فرقہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے لیے قطعاً تیار نہیں ہوتے سارے فساد کی جڑ خود یہ پارٹیاں ہیں جو دوسروں کو زیر کرنے کے لیے اذانوں کا سہارا تو لیتے ہیں مگر اپنی اصلاح کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے ہر جماعت کو صرف اور صرف اقتدار کی ہوس ہے ہر وقت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے نظر آتے ہیں آج تک اسلام کے لیے کیا گیا ہے ؟ جب بھی ہوا احکام الٰہی سے اعراض ہی ہوا ہے انہوں نے غیر مسلم اقوام کے نظریات تو سلیم کیے ہیں مگر دین کو اپنا نظریہ حیات کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اب دن رات جمہوریت کے گیت گائے جا رہے ہیں حالانکہ یہ بھی مغرب کا لعنتی نظام ہے جس طرح ڈکٹیٹر شپ لعنت ہے اسی طرح مغربی جمہوریت بھی فتنہ ہے بھائی ! اگر دنیا میں امن وامان چاہت ہو تو اسلام کی طرف آئو اس کا پیش کردہ نظام اپنائو تمہارے دکھوں کا مداوا نہ کسی سوشلزم میں ہے اور نہ کیپٹلزم میں ہے اگر نجات چاہتے ہو تو اسلام کا سیاسی ، معاشرتی اور معاشی نظام اپنالو اور واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً پر عمل پیرا ہوجائو اگر اس اصول کو ترک کردو گے تو یہودیوں کی طرح فرقہ بندی کی لعنت میں گرفتار ہو کر عذاب الٰہی میں مبتلا ہوگے۔ حق پرست لوگ فرمایا ہم نے یہودیوں کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا مختلف فرقوں میں بٹ گئے مگر وہ سب کے سب ایک جیسے نہیں منھم اصلحون ان میں کچھ نیک لوگ بھی ہیں اگرچہ اکثریت گنہگاروں کی ہے مگر لوگوں کی ایک قلیل تعداد قیامت تک نیکی کی طرف بھی مائل رہے گی ہندوئوں ، عیسائیوں اور ہر قوم میں کچھ نہ کچھ اچھے لوگ بھی موجود رہے ہیں جو قرآن پاک کے پروگرام کو تسلیم کرتے رہے ہیں حضور کے زمانہ مبارک میں یہودی عالم عبداللہ بن سلام ؓ پہلے ہی دن اسلام لے آئے ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں برطانوی بیرسٹرکویلم نے مسلمانوں کو وضو کرتے دیکھا تو کایا پلٹ گئی کہنے لگا مسلمانوں کی ہر چیز معیاری ہے اس نے نہ صرف خود اسلام قبول کیا بلکہ اپنے خاندان کے چالیس دیگر افراد کو بھی حلقہ بگوش اسلام کیا ان کا اسلامی نام عبداللہ رکھا گیا غرضیک لیسوا سواء کے مصداق کسی قوم میں سارے کے سارے برے لوگ نہیں ہوتے بلکہ بعض حق پرست بھی ہوتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد کتنی ہی قلیل ہو سلیم الفطرت ہر دور میں ہوئے ہیں جنہوں نے فوراً اسلام قبول کیا حضرت مولانا احمد علی لاہوری (رح) اور حضرت مولانا عبیدہ اللہ سندھی (رح) کتنی بڑی شخصیتیاں ہوئی ہیں اللہ نے اسلام کی دولت عطا کی اور پھر اسلام کی خدمت کی توفیق بھی عطا فرمائی ڈاکٹر اقبال کہا کرتے تھے کہ جو کام پنجاب کے بڑے بڑے سید اور قریشی خاندان انجام نہ دے سکے وہ کام اللہ نے بوٹا سنگھ کو عبیداللہ بناکر لے لیا فرمایا کہ یہودیوں میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں ومنھم دوں ذلک مگر اکثریت دوسری طرف ہی ہے دوسرے مقام پر فرمایا اکثرھم فسقون ان کی اکثریت نافرمان ہی ہے۔ فرمایا وبلونھم بالحسنت والسیات ہم نے آزمایا ان کو خوبیوں سے اور برائیوں سے کبھی صحت ، تندرتی ، اولاد اور مال و دولت دے کر آزمایا اور کبھی بیماری ، تنگدستی اور غلامی میں مبتلا کرکے آزمایا اور اس کا مقصد یہ تھا لعلھم یرجعون تاکہ یہ لوگ حق کی طرف واپس لوٹ آئیں اللہ نے ہر طریقے سے آزمایا اور دیکھا کہ کیا یہ راحت میں شکر اور تکلیف میں صبر کرتے ہیں یا نہیں مگر ان کی اکثریت ناشکرگزار ہی نکلی اللہ نے فرمایا کہ میں قیامت تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کروں گا جو ان کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا رکھیں گے۔ ربط آیات گزشتہ کئی دروس سے یہودیوں کا حال بیان کی جارہا ہے حضرت یوشع علیہ اللام کے زمانے کا واقعہ بیان ہوا آپ نے یہودیوں کو جہاد کے لیے تیار کیا اور بستی پر حملے کا حکم دیا ساتھ یہ بھی کہا کہ بستی میں عاجزی اور انکساری کے ساتھ داخل ہونا اور منہ سے کوئی غلط بات نہ کہنا یہودیوں نے دونوں احکام کی خلاف ورزی کی عاجزی کی بجائے غرور تکبر کے ساتھ داخل ہوئے اور منہ سے استغفار کرنے کے بجائے گندم کا مطالبہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب آیا قوم پر طاعون کی وبا مسلط ہوئی اور ہزاروں آدمی ہلاک ہوگئے پھر حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانے میں مچھلی کے شکار والا واقعہ پیش آیا یہودیوں کو حکم تھا کہ ہفتہ کے دن صرف عبادت کرنا ہے شکار یا اور کوئی کام نہیں کرنا ان لوگوں نے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کی اور حیلے بہانے سے ہفتے کے دن مچھلی کا شکار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تما ممجرمین بندروں کی شکل میں تبدیل ہوگئے اور پھر تین دن تک زندہ رہنے کے بعد ہلاک ہوگئے اللہ نہ یہ بھی فرمایا کہ یہودیوں پر اس وقت سے ذلت مسلط کردی گئی تھی پھر آگے فرمایا کہ ہم نے انہیں مختلف فرقوں میں تقسیم کردیا کچھ ان میں سے نیک بھی ہیں اور کچھ اس کے علاوہ بھی فرمایا ہم نے انہیں بھلائی اور برائی ہر طریقے سے آزمایا تاکہ راہ راست پر آجائیں۔ دنیا کا حقیرمال پہلے زمانے کے یہودیوں کے مختلف حالات بیان کرنے کے بعد اللہ نے بعد میں آنے والوں کا حال اس طرح بیان فرماتا ہے مخلف من بعدھم خلف پھر آئے ان کے بعد نالائق لوگ عربی زبان میں خلف کا معنی پیچھے آتا ہے اور خلف یا خلف کا اطلاق نالائق پر ہوتا ہے اور اگر لام کی فتح کے ساتھ خلف ہو تو اس کا معنی لائق ہوگا بہرحال یہاں پر یہ لفظ نالائق جانشین کے معانی میں آیا ہے جس طرح اردو میں سپوت اچھے بیٹے کو اور کپوت نالائق بیٹے کو کہتے ہیں اسی طرح عربی میں خلف لائق کے لیے اور خلف نالائق کے لیے آتا ہے تو فرمایا کہ بعد میں نالائق لوگ ورتوا الکتب جو کتاب کے وارث بنے ، کتاب سے مراد تورات ہے گویا بعد میں آنے والے حاملین تورات نالائق لوگ تھے اور ان کا حال یہ تھا یاخذون عرض ھذا الادنی کہ وہ اس دنیا کا حقیر مال لیتے تھے ادنیٰ کا لفظ قریب اور حقیر دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے عرض کا معنی ناپائیداد ہے ، اور اس کے مقابل میں جوہر آتا ہے جس کا معنی پائیدار اور ٹھوس چیز ہوتا ہے دنیا کا مال و متاع چو کہ عارضی اور ناپائیدار ہوتا ہ کے اس لیے یہاں پر عرض کا معنی سامان کیا گیا ہے کہ یہ جلدی فنا ہوجانے والا ہے وسری جگہ ارشاد ہے ماعندکم ینفد جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے وما عنداللہ باق اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ پائیدار اور باقی رہنے والا ہے آخرت کے متعلق بھی فرمایا والاخرۃ خیر والبقی (سورۃ اعلیٰ ) یعنی آخرت بہتر بھی ہے اور دیرپا بھی یہ دنیا فانی اور عارضی ہے یہاں کی کسی چیز میں استقلال نہیں ہرچیز میں جلد ہی تغیر و تبدل پیدا ہوجاتا ہے البتہ اگر کوئی ایمان اور اعمال صالحہ کی دولت حاصل کرلے تو اس کا اثر دیرپا ہوگا۔ معافی کا خودساختہ زعم فرمایا پھر ان کے بعد تورات کے وارث نالائق لوگ ہوئے جنہوں نے اس کتاب کے بدلے دنیا کا حقیر مال حاصل کیا کتاب الٰہی کے احکام میں تحریف کی اور لوگوں سے رشوت لے کر ان کو غلط فتوے دیے مگر جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ایسا کرکے تم گنہگار ہو رہے ہو اور خدا تعالیٰ کی گرفت میں آجائو گے ویقولون سیغفرلنا تو کہتے ہیں کہ ہمیں معاف کردیاجائے گا نحن ابوء اللہ واحبا وہ (المائدہ) ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں وہ ہم سے مواخذہ نہیں کرے گا اور ہم کچھ بھی کرتے رہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور معاف کردے گا حضور ﷺ کے زمانے کے یہودی بھی کہتے تھے لیس علینا فی الامین سبیل (آل عمران) ان اعرابیوں کا مال کھا لینے میں ہم پر کوئی حرج نہیں ، گویا یہ ہمارے لیے بالکل جائز ہے یہ لوگ اس قسم کے باطل زعم میں مبتلا تھے انہوں نے تورات میں میں مقرر کی گئی سزائوں کو بھی تبدیل کردیا چناچہ زنا اور چوری کی سزائوں کو دیدہ دانستہ بدل دیا ان کے قاضیوں اور مفتیوں نے رشوت لے کر غلط فیصلے اور غلط فتوے جاری کیے دنیا کا حقیہ سامان اکٹھا کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم پر ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ہم تو بخشے ہوئے لوگ ہیں۔ حضور خاتم النبیین ﷺ کا ارشاد ہے الکیس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت یعنی عقلمند اور دانا انسان وہ ہے جو اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے اور مرنے کے بعد کی زندگی کے لیے کچھ سامان پیدا کرتا ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ عاجز انسان وہ ہے من اتبع نفسہ ہواہ وتمنیٰ علی اللہ جو خواہش کے پیچھے چلتا ہے اور اللہ سے بڑی بڑی آرزوئیں رکھتا ہے کہتا ہے کہ ہم تو بخشے ہوئے ہیں ہمیں فلاں بزرگ بچالیں گے یا فلاں نبی کی سفارش کام آجائے گی لہٰذا ہم دوزخ میں نہیں جائیں گے ایسے شخص کو حضور ﷺ نے کمزور اور عاجز فرمایا۔ خدا تعالیٰ پر افتراء ارشاد ہوتا ہے وان یاتھم عرض مثللہ باخذوہ اور اگر دنیا کا سامان ان کے سامنے بار بار آئے تو اسے لے لیتے ہیں اور فلسفہ یہ بنا رکھا ہے کہ ہم اللہ کے پیارے میں ہم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا فرمایا الم یوخذ علیھم میثاق الکتب کیا ان سے کتاب میں پختہ عہد نہیں لیا گیا ان لا یقولو علی اللہ الا الحق کہ وہ اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہیں کہیں گے یعنی اللہ کی طرف صرف سچی بات منسوب کریں گے اور کوئی غلط بات کہہ کر اسے اللہ کی بات نہیں بتائیں گے یہ لوگ اکثر مسائل کو بدل دیتے تھے رشوت لے کر غلط فتویٰ جاری کرتے تھے اور کہتے یہ تھے کہ اللہ کا یہی حکم ہے حالانکہ وہ اللہ کا حکم نہیں ہوتا تھا اسی بات کے متعلق فرمایا کہ ان سے یہ پختہ عہد لیا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کوئی افتراء نہیں باندھیں گے یعنی اس کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہیں کریں گے مگر پھر بھی یہ لوگ اپنے عہد پر قائم نہ رہے اور کتاب میں تحریف کے مرتکب ہوئے اور لوگوں کو غلط ملط مسائل بتائے فرمایا یہ عہد ایسا نہیں جو ان کی نظروں سے کسی وقت بھی اوجھل ہوا ہو بلکہ ودرسوا مافیہ انہوں نے خود اسے پڑھا جو کچھ اس میں لکھا تھا اور اس کے باوجود وہ اس پختہ عہد کی پاسداری نہ کرسکے اور دنیا کے اس حقیر مال کو آخرت پر ترجیح دی مگر اللہ نے فرمایا کہ یہ نادان نہیں جانتے کہ والدارالاخرۃ خیر للذین یتقون اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اس کی نافرمانی ، کفر ، شرک اور معصیت سے بچتے ہیں فرمایا افلا تعقلون کیا تم اتنی بھی سمجھ نہیں رکھتے کہ اس عارضی دنیا کا مفاد بہتر ہے یا آخرت کی دائمی زندگی کا مفاد قابل ترجیح ہے تم کس دھوکے میں پڑے ہوئے ہو کہ دنیا کے سامان کے بدلے دین اور ایمان جیسی قیمتی متاع کو ضائع کر رہے ہو چاہیے تو یہ تھا کہ آخرت میں راحت کے لیے سامان پیدا کیا جاتا مگر تم اس دنیا کا مال اکٹھا کر رہے ہو جو اسی دنیا تک کام دے گا اور پھر آخرت میں کچھ میسر نہ ہوگا۔ اجر کے مستحقین آگے ارشاد ہوتا ہے یاد رکھو ! والذین یمسکون بالکتب اور جو لوگ اس کتاب الٰہی کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں واقامواصلوٰۃ اور نماز قائم کرتے ہیں انا لا نضیع اجرالمصلحین ہم اصلاح کرنے والوں اور نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے یعنی ہم ایسے لوگوں کو ضرور بہتر اجر عطا کریں گے یہاں پر اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کا ذکر فرمایا ہے کہ جو یہ دو کام کرتے ہیں وہ اجر کے مستحق ہیں اور اللہ تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائیں گے دوسرے لفظوں میں اس کا معنی یہ ہے کہ جو لوگ ان کاموں سے اعراض کریں گے وہ سزا کے مستحق ہوں گے چناچہ آگے آرہا ہے کہ بعد میں آنے والے نالائقوں نے اللہ کی کتاب کو مضبوط پکڑنے کی بجائے اسے بیچ ڈالا اور اس کے بدلے دنیا کا حقیر مال حاصل کیا غلط فتویٰ جاری کیے کتاب الٰہی کی غلط تاویلیں کیں اس کے احکام کو چھپایا اور ایسا کرنے کے لیے رشوت حاصل کی اس کے علاوہ انہوں نے نمازوں کی پرواہ بھی نہ کی بلکہ انہیں ضائع کیا تو ایسے لوگ اللہ کے غضب کا نشانہ ہی بن سکتے ہیں۔ تمسک بالکتاب تمسک بالکتاب کا مطلب یہ ہے کہ اسے پڑھا جائے سمجھا جائے اور پھر اس کے احکام پر عمل کیا جائے برخلاف اس کے یہودی اپنی کتاب تورات کو محض ادب و آداب تک ہی محدود رکھتے تھے۔ زبانی کلامی اس کو اللہ کا کلام بھی سمجھتے تھے اس کو غلاف میں بند کرکے اونچی جگہ پر رکھتے تھے اس کا بوسہ بھی لیتے تھے مگر جب عمل کرنے کا وقت آتا تھا تو پھر خود ساختہ مسائل پر عمل کرتے تھے اور احکام الٰہی کو پشت کے پیچھے ڈال دیتے تھے اب یہ بیماری ہماری امت میں بھی آچکی ہے ہمارے ہاں بھی قرآن پاک محض زبانی ادب اور ریشمی غلاف تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے اول تو پڑھتے ہی نہیں اگر ناظرہ پڑھتے بھی ہیں تو محض ثواب کے لیے اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے مسئلہ دریافت کرنا ہو تو مولوی صاحب کے پاس چلے جاتے ہیں جو سائل کے مناسب حال مسئلہ بنا دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی خدمت بھی کردی جاتی ہے اگر خدانخواستہ قرآن پاک ہاتھ سے گر جائے تو فوراً اس کا ہدیہ ادا کرتے ہیں مگر اس کے احکام کو کوئی نہیں پوچھتا آخر اتنی متبرک کتاب محض قسم اٹھانے کے لیے رہ گئی ہے عمل تو سو فیصد ہی اس کے خلاف ہے اس کے پاکیزہ اصولوں کو پامال کیا جاتا ہے جبتک عقیدہ ، عمل اور اخلاق اس کے مطابق نہیں ہوگا تمسک بالکتاب نہیں ہوگا۔ اقامت صلوٰۃ نماز ام العبادات المقربۃ ہے یہ اللہ کا قرب دلانے والی عبادت کی بنیاد ہے نماز سے مومن کو ہزاروں فوائد حاصل ہوتے ہیں وقت کی پابندی ، نظم و ضبط ، پاکیزگی ، مساوات ، اجتماعیت ، توحید ، ایمان وغیرہ بیشمار دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جو شخص نماز کی حیثیت کو سمجھے گا اور اسے قائم کرے گا وہ یقیناً مصلح ہوگا اور اللہ کے ہاں اجر کا مستحق ہوگا۔ فرمایا جو کوئی کتاب کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں ہم ان کا اجر ضائع نہیں کریں گے یہ بات تو یہود کی مذمت کے سلسلے میں بیان فرمائی ہے مگر یہ ہمارے لیے بھی یکساں قانون ہے جو کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑے گا اسے ضرور اجر ملے گا۔ پہاڑ کا معلق ہونا بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور بات بھی یاد کرائی واذ نتقنا الجبل فوقھم اس واقعہ کو دھیان میں لائو جب ہم نے اکھاڑ پہاڑ کو ان کے اوپر کا نہ ظلۃ گویا کہ وہ سائبان تھا پہاڑ کو زمین سے اکھاڑ کر بنی اسرائیل کے سروں پر معق کردیا جیسے سائبان کھڑا کردیا جاتا ہے وظنوا انہ واقع بھم ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ ان پر گرنے والا ہے اللہ نے اس حالت میں بنی اسرائیل سے فرمایا خذوا اتینکم بقوۃ پکڑ لو جو کچھ ہم نے دیا ہے مضبوطی کے ساتھ واذکروا مافیہ اور یاد کرو جو کچھ اس میں لکھا ہوا ہے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سروں پر پہاڑی معلق کرکے ان سے عہد لینا زبردستی ہے حالانکہ فی الحقیقت ایسا نہیں ہے یہودیوں نے اللہ سے بار بار عہد کیا اور ہر بار اسے توڑنے رہے بالآخر اللہ نے انہیں خوف دلانے کے لیے پہاڑ کو سروں پر معلق کردیا تاکہ آئندہ عہد کہ نہ توڑیں اور انہیں ڈر ہو کہ اگر پھر عہد شکنی کی تو یہ وبال دوبارہ آسکتا ہے بعض کہتے ہیں کہ پہاڑ کو بنی اسرائیل کے سروں کے اوپر نہیں اٹھایا گیا تھا بلکہ ان لوگوں کو کسی جھکے ہوئے پہاڑ کے دامن میں کھڑا کیا گیا تھا یہ بات درست نہیں ہے نتق کا معنی اکھاڑنا ہوتا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے اکھاڑ کر اوپر معلق کردیا گیا محض کسی پہاڑ کے دامن میں کھڑا کرنے سے وہ خوف پیدا نہیں ہوسکتا جو پہاڑ کو اکھاڑ کر اوپر معلق کرنے سے ہوتا ہے۔ قانون پر عملدرآمد یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا ذکر کیا ہے ایک یہ کہ کتاب الٰہی کو مضبوط سے پکڑو اور دوسرا یہ کہ اس کے نوشتہ کو یاد کرو کسی چیز کی یادداشت پڑھتے پڑھاتے اور اس کی تشہیر سے قائم رہتی ہے اسی لیے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ کتاب الٰہی کی یاد آوری کے لیے اس کی تشریح و تشہیر بھی ضروری ہے فرماتے ہیں کہ اسلامی حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اس کے کارندے اسلامی قوانین پر خود بھی عمل پیرا ہوں اور رعایا کو بھی اس کی تعلیم دیں اسلامی قوانین کی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی کوئی شخص خود اپنے بچوں کی تعلیم کو ضروری سمجھتا ہے پہلے اسلامی قوانین کی نشرو اشاعت کرو ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کی تشہیر کرو اور اس کے بعد لوگوں سے توقع رکھو کہ وہ اس پر عملدرآمد کریں ہر آدمی کو علم ہونا چاہیے کہ زندگی کے ہر معاملہ میں اسلام کی سرطح رہنمائی کرتا ہے معاملہ تجارت کا ہو یا زراعت کا ، سیاست ہو یا معیشت ، صلح ہو یا جنگ ، قومی مسئلہ ہو یا بین الاقوامی ہر شخص کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا دین ہمیں کیا سکھاتا ہے جب اسلامی قوانین کی اچھی طرح تشہیر ہوجائے تو پھر اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی شروع ہوتی ہے اب قانون شکنی کرنے والے بھی دو قسم کے لوگ ہوسکتے ہیں اگر کوئی شخص انفرادی طور پر قانون کے خلاف کرتا ہے تو وہ تعزیز کا مستحق ہے کہ وہ ایمان لانے کے باوجود خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے اور اگر جماعت سے باہر کا کوئی آدمی قانون کو توڑتا ہے تو وہ مفسد اور باغی ہے اس کے ساتھ جنگ کرنا ہوگی بہرحال قانون پر عملدرآمد کے لیے اس کی وسیع پیمانے پر تشہیر بھی ضروری ہے تاکہ ہر مسلمان جان لے کہ اس کے حقوق و فرائض کیا ہیں اس کو یاد کرنے کا یہی مطلب ہے۔ فرمایا ، اللہ نے ان سے عہد لیا کہ جو کچھ ہم دیں اسے مضبوط سے پکڑ لیو اور اس کو یاد کرو لعلکم تتقون تاکہ تم بچ جائو ، مگر اللہ کی کتاب کو پڑھتے پڑھاتے رہو گے اس پر عمل پیرا رہو گے تو دنیا میں برائی سے بچ جائو گے اور آخرت میں عذاب سے مامون ہوجائو گے۔
Top