Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 8
وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ اِ۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَالْوَزْنُ : اور وزن يَوْمَئِذِ : اس دن الْحَقُّ : حق فَمَنْ : تو جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : میزان (نیکیوں کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
(اعمال کا) وزن کیا جانا اس دن برحق ہے۔ پس جس شخص کے اعمال نامے بھاری ہوں گے ، پس یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے
ربط آیات سورۃ اعراف کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اتباع کا حکم دیا ہے جو چیز اللہ تعالیٰ نے تمہاری بہتری کے لیے وحی کے ذریعے نازل کی ہے صرف اسی کا اتباع کرو اور اس ک علاوہ کسی دوسرے پروگرام کی پیروی نہ کرو کہ یہ تمہارے لیے خسارے کا باعث ہوگا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو دین حق آگے پہنچانے کے لیے ہم تو جرات دلائی اور فرمایا کہ آپ کے دل میں کسی قسم کی گھٹن یا تنگی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی اس معاملہ میں کسی شک و تردد میں پڑنا چاہیے۔ اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر کئی انبیا کا ذکر کیا ہے ان کیک طریق پر روشنی ڈالی ہے اور پھر ان کے راستے میں آنے والی مشکلات اور ان پر قابو پانے کا تذکرہ بھی کیا ہے اسی سورة میں اللہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت عامہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے قل یا یھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً اے لوگو ! میں تم سب کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی الٰہی کے پروگرام کے مخالفینن کی ناکامی کا تذکرہ کیا ہے کہ کس طرح انہیں عذاب میں مبتلا کیا گیا گزشتہ درس میں وکم من قریۃ اھلکنھا گزر چکا ہے فرمایا منکرین کو بسا اوقات اس دنیا میں بھی سزا مل جاتی ہے اگرچہ یہ لازمی نہیں مگر اللہ تعالیٰ عاصیوں کو چھوڑتا نہیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں فلا یترک عاصیاً اللہ کسی گنہگار سے صرف نظر نہیں کرتا بلکہ کسی نہ کسی شکل میں اسی دنیا میں مبتلائے عذاب کردیتا ہے پھر جب اس دنیا کی زندگی اختتام کو پہنچتتی ہے تو محاسبے کا حتمی عمل شروع ہوجاتا ہے بہرحال بعض لوگوں کو اس دنیا میں بھی سزا مل جاتی ہے اور بعض بچ رہتے ہیں مگر آخرت میں محاسبے کے عمل سے سب کو لازماً گزرنا ہوگا۔ مضامین قرآن مکی سورتوں میں زیادہ تر توحید ، رسالت ، معاد اور قرآن کی صداقت کے مضامین بیان ہوئے ہیں ان کے علاوہ بعض متفرق مضامین بھی ہیں مگر نسبتاً کم تعداد میں البتہ مدنی سورتوں میں جزوی مسائل زیادہ بیان کیے گئے ہیں سورة الاعرا اف بھی چونکہ مکی سورة ہے لہٰذا اس میں بھی عقائد اور حقائق پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس میں توحید ، رسالت اور معاد کا خصوصی بیان ہے عقائد کے سلسلے میں جزائے عمل پر ایمان لانا نہایت ہی اہم ہے کیونکہ اس دنیا میں اچھے اور برے اعمال کا دارومدار اسی یقین پر ہے کہ ایک دن قیامت برپا ہوگی اور سب کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنا ہے جس طرح انسان کا اپنا وجود ناقابل انکار حقیقت ہے اسی طرح جزائے عمل کا واقع ہونا بھی قطعی اور اٹل ہے جو شخص اس حقیقت کا انکار کرے گا وہ گمراہی میں مبتلا ہو کر دائمی ناکامی کا منہ دیکھے گا۔ اعمال کا وزن آج کی آیت میں جزائے عمل کے ضمن میں اعمال کے وزن کا بیان ہے قرآن پاک کے دیگر مقامات پر بھی اس مضون کو بیان کیا گیا ہے احادیث میں جہاں ایمان کے متعلق سوال ہے وہاں جواب یہ ہے کہ ان تو من باللہ… یہ کہ تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس کی کتابوں اور رسولوں پر ایمان لائے ، مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر تمہارا یقین ہونا چاہیے اور تقدیر پر بھی ایمان ہونا چاہیے اس روایت میں ان تو من بالمیزان کے الفاظ بھی ہیں کہ تمہارا میزان پر بھی ایمان لانا ضروری ہے تو یہاں پر بھی یہی بات ذکر کی گئی ہے ولوزن یومیذن الحق حشر کے دن اعمال کا تولا جانا برحق ہے۔ البتہ اعمال کے وزن کے متعلق یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی اعمال تو عرضی چیز ہے ان کی شکل و صورت اور وجود تو ہوتا نہیں جیسے کسی نے نماز پڑھی یا روزہ رکھا ، درود پاک پڑھا ، ذکر و اذکار کیا ، یہ ایسے اعمال ہیں جو انسان اپنے اعضا کے ساتھ انجام دیتا ہے تو ان کا وزن کیسے ہوگا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اعمال کی شکل و صورت اور وجود اور پھر ان کا وزن احادیث سے ثابت ہے اس زمانے میں سائنس نے بعض ایسی اشیا کا وزن بھی ثابت کردیا جو بظاہر بےوزن چیزیں معلوم ہوتی ہیں ، بلکہ ان کا خارجی وجود ہی نہیں ہے۔ مثلاً ہوا کا دبائو یا وزن بیرومیٹر کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے۔ انسانی جسم کی حرارت کو مانپے کے لیے تھرما میٹر موجود ہے اسی طرح خون کا دبائو (Blood Pressure) معلوم کرنے کے آلات بھی موجود ہیں اور اگر پھر بھی اعمال کے وزن کی کیفیت کسی کے ذہن میں نہ آسکے تو جن کاغذات پر اعمال نامے لکھے ہوں گے وہ کاغذ تو لے جاسکتے ہیں اس کا ذکر بھی حدیث شریف میں موجود ہے۔ بہرحال اعمال کے وزن کے متعلق اسی طرح ایمان ہونا چاہیے جس طرح باقی چزیوں پر ایمان ضروری ہے۔ اعمال کی شکل و صورت امام شاہ ولی اللہ محدیث دہلوی (رح) نے بات دوسرے طریقے پر بھی سمجھائی ہے کہ اس ناسوتی جہان میں جو اعراض اور معانی ہیں وہ عالم مثال میں وجود رکھتے ہیں حدیث شریف میں موجود ہے کہ سورة بقرہ اور سورة آل عمران قیامت کے دن سائبان کی شکل میں ظاہر ہوں گی اور ان کے درمیان سے روشنی چمک رہی ہوگی۔ یہ ایسے ہی ہوں گی جس طرح بادل کا سایہ یا پرندوں کا جھنڈ ہوت ہے گویا ان کی ایک شکل صورت ہوگی اور ظاہر ہے کہ پھر وزن بھی ہوگا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ قبر میں عقائد سے متعلق سوال و جواب ہوں گے۔ وہاں پوچھا جائے گا ومن نبیک اور تیرا نبی کون ہے ما کنت نقول فی ھذالرجل اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایسے مشکل وقت میں بعض لوگوں کے سامنے ایک نہایت حسین و جمیل نوجوان ظاہر ہوگا اس کا چہرہ متغیر ہوگا مگر اس سے خوشبو آرہی ہوگی۔ صاحب قبر اس سے دریافت کرے گا کہ تم کون شخص ہو ، وہ جواب دے گا انا عملک الصالح میں تیرا نیک عمل ہوں۔ تیری تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس شکل و صورت میں تشکل کرکے بھیجا ہے اسی طرح قرآن کریم کے متعلق بھی آتا ہے کہ قرآن کریم بھی نہایت خوبصورت شکل میں آئے گا مومن آدمی پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ کہے گا میں وہی قرآن پاک ہوں جسے تم رات کو پڑھا کرتے تھے اور جس کے حکم سے دن کو پیاسے رہتے تھے یعنی روزہ رکھتے تھے۔ حدیث شریف میں آتا ہے والحمدللہ تملا المیزان جب کوئی مومن آدمی الحمد للہ کہتا ہے تو یہ کلمہ میزان کو بھردیتا ہے بہرحال یہ معنوی چیزیں بھی جس رکھتی ہیں جو عالم مثال میں ظاہر ہوں گی اور انہیں تو لاجاسکے گا البتہ اعمال کا وزن اللہ تعالیٰ اس واسطے نہیں کریں گے کہ وہ ان سے بیخبر ہے بلکہ وہ تو ان کی حقیقت سے ازل سے واقف ہے اللہ تعالیٰ کے علم سے کوئی چیز مخفی نہیں ” واللہ بکل شی ئٍ محیط “ اس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے وہ عالم الغیب والشہادۃ ہے۔ تاہم اعمال کا وزن انسانی ذہن کے مطابق کیا جائے گا تاکہ کوئی آدمی عذر نہ کرسکے اور اسے اپنے اچھے اور برے اعمال کی حقیقت معلوم ہوجائے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انسانی اعمال کی حفاظت کے لیے کئی انتظام کیے ہیں۔ فرشتے ہر شخص کے اعمال نوٹ کرتے ہیں۔ یہ اللہ کے پیدا کردہ کائنات اور اس کی طبیعت اور مزاج میں بھی اعمال محفوظ ہیں بلکہ خود انسان کے اپنے حافظے میں بھی محفوظ رہتے ہیں۔ سورة انبیا میں ہے ” ونضع الموازین القسط لیوم القمۃ فلا نظلم نفس شیئا “ قیامت کے دن انصاف کے ترازو رکھ دیے جائیں گے اور کسی شخص سے زیادتی نہیں کی جائے گی بلکہ پورا پورا حساب کیا جائے گا۔ بہرحال اعمال کا تولا جانا برحق ہے اور جزا یا سزا کا فیصلہ انہی اعمال کی بنا پر ہوگا۔ ایمان ذریعہ ثقل اعمال میں ثقل اور پاکیزگی ایمان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ انسان کا ایمان جس قدر درست ہوگا اور اعمال میں اخلاص ہوگا ، اسی قدر ان کا وزن بڑھ جائے گا اس کے برخلاف ریا کاری کی وجہ سے عمل کا وزن ہلکا ہوجاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اخلص فی دینک یکفیک قلیل من العمل اپنے دین میں اخلاص پیدا کرلو تو تھوڑا عمل تمہیں کفایت کرجائے گا۔ ترمذی شریف اور بعض دوسری کتابوں میں یہ مشہور حدیث ہے جسے آپ سنتے رہتے ہیں کہ قیامت والے دن ایک شخص پیش ہوگا جسے اعمال 99 رجسٹروں پر مشتمل ہوں گے اور ہر رجسٹرحد نگاہ تک لمبا چوڑا ہوگا یہ رجسٹر برائیوں سے پر ہوں گے۔ ہاں باری تعالیٰ یہ سب میرے ہی اعمال ہیں۔ یہ سارے برے اعمال میں نے ہی کیے ہیں پھر اللہ تعالیٰ ایک چھوٹا سا پرچہ (بطاقۃ) حاضر کرنے کا حکم دے گا بندہ عرض کرے گا مولا کریم ! میرے ان بڑے بڑے سیاہ رجسٹروں کے مقابلے میں اس چھوٹے سے پرزے کی کیا حیثیت ہے اللہ فرمائے گا اپنے میزان کے وقت حاضر ہو ، تیرا رب کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔ اس کاغذ پر کلمہ توحید لا الہ الا اللہ تحریر ہوگا جب وہ پلڑے میں ڈالا جائے گا تو 99 رجسٹروں سے بھی وزنی نکلے گا جس سے وہ بندہ بڑا متعجب ہوگا محدثین کرام فرماتے ہیں کہ یہ ایسے شخص کا معاملہ ہے جو ساری عمر کفر ، شرک اور بدعات میں رہا۔ مگر آخری وقت خلوص دل کے ساتھ کلمہ پڑھ لیا اس کے بدع اسے مزید نیکیاں کرنے کا موقع ہی نہیں ملا لہٰذا یہی کلمہ اس کے لیے کفایت کرے گا۔ حدیث شریف میں ایک دوسرے شخص کا واقعہ بھی آتا ہے کفر و اسلام کی جنگ جاری ہے اس دوران ایک کافر شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے حضور ! اگر میں مسلمان ہوجائوں تو کیا مجھے جنت مل جائے گی فرمایا ہاں ۔ چناچہ اس شخص نے کلمہ پڑھ لیا اور جہاد میں شریک ہوگیا۔ پھر وہ لڑتے لڑتے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوگیا حالانکہ ابھی تک نہ اس نے کوئی نماز پڑھی تھی نہ روزہ رکھا تھا اور نہ کوئی دوسرا عمل کیا تھا۔ حضور ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا عمل قلیلا واجرکثیرا اس شخص نے عمل تو تھوڑا کیا مگر اسے اجر بہت زیادہ مل گیا۔ ایسے ہی لوگوں کے چھوٹے چھوٹے اعمال بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گے اور وزن میں بھاری ہوجائیں گے۔ درود شریف کی برکت ابن ابی دنیا ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ قیامت کے دن حضرت ادم (علیہ السلام) دوسبز کپڑے پہنے ایک مقام پر بیٹھے ہوں گے لوگ ان کے سامنے سے گزر رہے ہوں گے بعض کامیابی کی منزل کی طرف جا رہے ہوں گے اور بعض ناکامی کی جانب۔ اتنے میں ایک شخص کو گرفتار کرکے جہنم کی طرف لے جایا جارہا ہوگا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) پوچھیں گے تم کو کدھر لے جایا جارہا ہے عرض کرے گا حضور ! میں نبی آخرالزمان کی امت کی آدمی ہوں ، میرے پاس کوئی نیک نہیں ، سب برائیوں کے انبار ہیں لہٰذا مجھے دوزخ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ آدم (علیہ السلام) پریشان ہو کرحضور ﷺ کی آواز دیں گے اے محمد ! یہ آپ کی امت ک آدمی ہے اس کی فکر کریں اس پر حضور ﷺ فرشتوں سے کہیں گے اے پروردگار کے قاصدو ! اس کو چھوڑ دو ، یہ میری امت کا آدمی ہے فرشتے عرض کریں گے نن غلاظ شداد لانعضی ما امر اللہ ہم بڑے سخت گیر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے چناچہ اس شخص کو جہنم کی طرف لے جائیں گے پھر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلم اپنی داڑھی مبارک کو ہاتھ میں پکڑ کر خدا کی بار گاہ میں التجا کریں گے اور اس کے لیے دعا کریں گے تو اللہ کا حکم ہوگا کہ اس شخص کو روک دو ۔ پھر حضور ﷺ اپنے پاس سے ناخن کے برابر ایک چھوٹا سا پرزہ نکالیں گے اس کا وزن کیا جائے گا تو وہ ساری برائیوں سے زیادہ وزنی نکلے گا ارشاد ہوگا سعد سعد یہ شخص نیک بخت ہوگیا اور اسے جنت کا حکم ہوجائے گا وہ شخص بڑا حیران ہوگا اور فرشتوں سے پوچھے گا کہ یہ کون شخص ہے جس نے مجھے عزت دلائی تو حضور ﷺ فرمائیں گے میں تیرا نبی ہوں اور تو میری امت کا آدمی ہے یہ پرزہ وہ درود شریف ہے جو تو نے کسی اخلاص کے ساتھ پڑھا تھا۔ آج وہی مقبول ہو کر تیری برائیوں پر غالب آگیا ہے حضور فرمائیں گے کہ تیرا یہ عمل ضرورت کے وقت تمہارے پاس پہنچ گیا ہے درود شریف کی اتنی اہمیت ہے اور یہ اتنا اعلیٰ عمل ہے بلکہ اخلاص و محبت کے ساتھ درود شریف پڑھنا افضل العبادات میں ہے بشرطیکہ یہ خلوص و محبت کے ساتھ برمحل پڑھا جائے ، محض شورو شر ، فتنہ پروری ، بےمحل اور غلط طریقے سے پڑھا جانے والا درود قابل قبول نہیں ہوگا۔ اس کے لیے پورے آداب کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ بھاری اور ہلکے اعمال ارشاد ہوتا ہے اعمال کا وزن برحق ہے فمن ثقلت موازینہ پس جس کے اعمالنامے بھاری ہوں گے فاُلیک ھم المفلحون وہ فلاح پاجائیں گے کامیاب ہوجائیں گے حظیرۃ القدس ، علیین اور جنت میں پہنچ جائیں گے۔ ومن خفت موازینہ اور جس کے اعمال نامے ہلکے ہلکے ہوں گے فاُولیک الذین خسرہ انفسھم یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالا۔ فکر اور عقیدہ درست نہیں کیا۔ اعمال صحیح طریقے سے انجام نہیں دیے موقع اور محل کے مطابق نہیں کیے اور ان میں اخلاص کا فقدان تھا لہٰذا یہ ہلکے نکلیں گے ظاہر ہے کہ جو کام خلاف سنت ہوگا وہ بیکار محض ہے۔ عمل وہی مقبول ہے جو حضور ﷺ کے طریقے کے مطابق ہوگا اور وزن بھی اسی کا زیادہ ہوگا۔ اپنی خواہش اور خلاف سنت انجام دیے جانے والا عمل مردود ہوگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو عمل ہمارے طریقے کے مطابق نہیں ہوگا وہ اگرچہ عمل درست ہو مگر رد ہوجائے گا۔ فرمایا جن لوگوں کے اعمال نامے ہلکے ہوں گے انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا بما کانو بایتنا یظلمون اس واسطے کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے کسی نے انکار کیا۔ کسی نے مانتے ہوئے بھی اس کے مطابق عمل نہ کیا اور کسی نے مطلب غلط بیان کیا یہ سب درجہ بدرجہ ظلم کرنے کے مترادف ہوگا دنیا میں کتنے بےراہ رد فرقے پیدا ہوچکے ہیں کوئی پر دیزی ہے ، کوئی چکڑالوی ہے ، کوئی منکر حدیث ہے ، یہ سب آیات الٰہی کے ساتھ زیادتی کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ تمکین فی الارض آگے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری بات بطور احسان یاد دلائی ہے اے بنی نوع انسان ! ولقد مکنکم فی الارض ہم نے تمہیں زمین میں جگہ دی ہے مکنا کا معنی قبضہ دے دیا ہے جما دیا ہے تمہیں زمین میں تسلط دے دیا ہے جس طرح چاہو اسے استعمال کرو چناچہ کوئی نہریں کھودتے ہیں کوئی کانیں نکالتے ہیں کوئی عمارات بناتے ہیں زمین کو ایسی پوزیشن میں بنایا ہے کہ وہ تمہاری خدمت کے لیے ہمہ تن تیار رہتی ہے اس میں ہل چلائو ، اناج پیدا کرو ، طرح طرح کی سبزیاں اور پھل حاصل کرو ، تمہیں زمین پر کنٹرول دے دیا گیا ہے یہ تمکین فی الارض ہے اور اللہ کا بہت بڑا احسان ہے فرمایا دوسری چیز یہ ہے وجعلنا لکم فیھا معایش اور اس میں تمہارے لیے معیشت کے سامان پیدا کردیئے ہیں زمین سے متعلقہ مختلف قسم کے روزی کے وسائل مہیا کردیئے ہیں تاکہ تم کمائو اور کھلائو پیو ، مگر افسوس کا مقام ہے کہ لوگوں کو ننانوے فیصد اکثریت انہی دو چیزوں کا غلط استعمال کرتی ہے زمین پر جاہ و اقتدار کو بھی غلط استعمال کرتے ہیں اور مال و دولت کو بھی ضائع کرتے ہیں حالانکہ یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں کسی ملک ادارے یا گھر پر اقتدار دیا ہ کے تو اس کو صحیح طور پر استعمال کرو اپنے زیر دستوں کی خدمت کرو نہ کہ ان کو تنگ کرو اسی طرح مال بھی جائز اور صحیح طریقے سے خرچ کرو ، مستحقین کی اعانت کرو ، جہاد فی سبیل اللہ ، تبلیغ دین اور محتاجوں کی اعانت پر خرچ کرو ، عیاشی ، فحاشی ، کھیل تماشے اور شادی اور مرگ کی غلط رسومات پر خرچ نہ کرو آج دیکھ لیں روپیہ کن کاموں پر صرف ہورہا ہے کوئی اکا دکا اللہ کا بندہ ہوگاجس کا مال جائز طریقے پر خرچ ہوتا ہے وگرنہ غالب اکثریت رسم و رواج اور جھوٹے نام و نمود کی غلام بن چکی ہے۔ اقامت دین اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ضرورت اقامت دین کی ہے آج دنیا کی کل پانچ ارب کی آبادی میں سے چار ارب مخلوق ایمان کی پیاسی ہے مگر ان تک ایمان پہنچانے والا کوئی نہیں نہ کوئی خرچ کرتا ہے اور نہ محنت کرتا ہے اتنا بڑا کام ان دو چیزوں کے بغیر کیسے ہوسکتا ہے اگر مسلمانوں کے مال و دولت کا رخ ایمان کے ملاشیوں کی آبیاری کی طرف ہوجائے تو یہ مال کا بڑا اعلیٰ وارفع مصرف ہے اللہ تعالیٰ نے یہ مال ذاتی عیش و عشرت اور رسومات باطلہ کے فروغ کے لیے نہیں دیا بلکہ اعلائے کلمۃ الحق کے لیے عنایت کیا ہے غیر مسلم اقوام میں تبلیغ دین کی سخت ضرورت ہے جس کے لیے مال اور وقت درکار ہے تبلیغی جماعت والے جو کچھ کر رہے ہیں یہ تو کل ضرورت کا ایک فیصد بھی نہیں ہے اگرچہ یہ بھی غنیمت ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ باقی 99 فیصدی کام کون کرے گا ؟ آپ ذرا حساب لگاکر دیکھیں کہ کل دولت کا کتنے فیصد اقامت دین کے لیے خرچ ہورہا ہے جواب صفر آئے گا یہ دین تو بالکل برحق ہے اور اللہ تعالیٰ اسے قائم بھی رکھے گا مگر ہم اپنی ذمہ داری کس حد تک پوری کر رہے ہیں کچھ غریب غربا لوگ اور علمائے حق ہر دور میں موجود رہے ہیں جو حتی الامکان کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے مگر اس معاملہ میں اجتماعیت بالکل ختم ہوکررہ گئی ہے پوری دنیا کے مسلمان روبہ زوال میں اور ذلت کے کام انجام دے رہے ہیں مسلمان حکمران بھی عیش و عشرت میں پڑے ہوئے ہیں یا جنگ و جدل میں مصروف ہیں دین کی تقویت کے لیے کیا کر رہے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے جاہ و مال دونوں چیزیں عطا فرمائیں ذرا بتائو تو سہی ان کو دین کے لیے کس حد تک استعمال کیا جارہا ہے۔ فرمایا ہم نے تمہیں دو عظیم نعمتیں عطا فرمائیں یعنی زمین میں اقتدار بھی دیا اور مال و دولت بھی دیا مگر قلیلاً ماتشکرون تم بہت کم ہی شکریہ ادا کرتے ہو ان نعمتوں کا شکریہ اس طرح ادا ہوگا کہ ان کا مصرف صحیح طریقے سے کیا جائے اس کا بہترین مصرف وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کا منتشاء ہے یعنی ” لیظھرہ علی الذین کلہ “ (الفتح) دین کی سربلندی اور سرفرازی کے لیے دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے تاکہ کوئی دوسرا دین یا ازم اس کے سامنے سر نہ اٹھا سکے فرمایا ان نعمتوں کو اکثر لوگ غلط ہی استعمال کرتے ہیں اور شکریہ ادا نہیں کرتے مگر اس کے لیے لازماً باز پرس ہوگی اس کے بعد اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مسئلہ اور اس ضمن میں بہت سے دیگر حقائق سمجھائے ہیں۔
Top