بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
یہ لوگ کس چیز کے متعلق سوال کرتے ہیں
(قیامت ایک بڑی خبر) جب قرآن پاک نازل ہونا شروع ہوا۔ تو حضور ﷺ نے مشرکین مکہ کو دعوت الی التوحید والا یمان دی اس دعوت ایمانی میں قیامت کا بھی ذکر تھا ۔ تو کفارنے طرح کی بیہودہ باتیں کرنی شروع کردیں ۔ اور وقوع قیامت کے عقید ہ پر اعتراضات کئے ۔ کوئی کہتا تھا متی ھذا الوعد یعنی یہ وعد ہ کب پورا ہوگا ۔ قیامت کب آئے گی ۔ دوسراکہتا مد ظن الساعۃ قائمۃ میراگمان نہیں ہے کہ قیامت آئے گی ۔ کوئی کہتا ھذا اساطیر الا ولین یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہا نیاں ہیں ۔ کوئی قیامت نہیں ہے ۔ اور پھر اس پر دلیل قائم کرتےء اذاضللنا فی الا رضء انا لفی خلق جدید یعنی جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے ۔ تو دوبارہ کیسے اٹھائے جائیں گے۔ یہ تو عقل و شعور کے خلاف ہے ھیہات ھیہات لما تو عدون یہ عقل سے بعید ہے کہ انسان مرکر دوبارہ زندہ ہو۔ ارشاد ہوتا ہے عم یتساءلون یہ لوگ کس چیز کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔ عن النباالعظیم کیا بڑی خبر کے متعلق دریافت کرتے ہیں ۔ نبا کے معنی خبر کے ہیں ۔ نبی کا مادہ بھی نبا سے ہی ہے کہ نبی اللہ کی جانب سے خبردیتا ہے یہاں پر بڑی خبر قیامت کو کہا گیا ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا قل ھو نبوء عظیم وانتم عنہ معرضون وہ بہت بڑی خبر ہے مگر تم اس سے اعراض کرنے والے ہو۔ اس کا انکار کرتے ہو۔ بڑی خبری اس لیے کہ وہ اپنے وقوع ، حالات اور نو عیت کے اعتبار سے بڑی خبر ہے۔ قیامت کا واقع ہونا ہر (رح) لحاظ سے ایک بڑی خبر ہے ۔ چناچہ اگلی سورة میں اسے طامۃ الکبری کے نام سے مو سوم کیا گیا ہے۔ گویا کائنا ت میں یہ سب سے بڑا ہنگامہ ہوگا ، جو اینٹ سے اینٹ بجادے گا اور ہر چیز کو درہم برہم کر دے گا حدیث شریف میں آتا ہے (ب 1 ترمذی ص 473 مستدرک حاکم ص 343 ج 2) ھود ۔ الواقعۃ ، والمرسلت ، وعم یتساءلون واذالشمس کورت یعنی مجھے سورة ہود ، واقعہ نبا اذالشمس کورت اور مرسلت نے بوڑھا کردیا ہے ۔ ان سورتوں میں قیامت کی ہولنا کیوں کو بیان کیا گیا ہے ۔ جو میری صحت پر اثر انداز ہوئی ہیں ۔ الغرض وقوع قیامت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک بڑی خبر ہے ۔ اسی لیے اسے نبا العظیم کہا گیا ہے۔
Top