Mualim-ul-Irfan - An-Naba : 31
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًاۙ
اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی لوگوں کے لئے مَفَازًا : کامیابی ہے
۔ بیشک متقی لوگوں کے لیے کا میابی ہے
(تذشتہ سے پیوستہ ) اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کا حال بیان فرمایا ہے ۔ اور یہ کہ ان یوم الفصل کان میقاتا فیصلے کا ایک دن مقرر ہے ۔ وہ لازما آنے والا ہے ۔ اس دن ہر شخص کو اپنے اعمال کے اعتبار سے جدا کیا جائے گا ۔ نیک وبد اپنے اپنے گروہوں میں علیحدہ علیحدہ ہوں گے ، نیکوکار ، اللہ کی تو حید کو ماننے والے الگ ہوں گے مکذبین اور قیامت پر یقین نہ رکھنے والے الگ ہوں گے مکذبین کا جو حشر قیامت کو ہونے والا ہے ۔ اس کا بیان بھی گذشتہ درس میں ہوچکا ہے ۔ اب اس درس میں متقین کے حالات بیان ہوگے ۔ الغرض اس سورة میں قیامت کا حال کاشتکار کی ذہنیت کے مطابق بیان کیا گیا ہے ، جس طرح کسان زمین کاشت کرنے کے بعد فصل کی کٹائی کا منتظر رہتا ہے اس طرح اللہ نے انسان کو زمین میں قائم کیا ۔ اب قیامت کے مقررہ دن کو اس کا محاسبہ ہوگا ۔ (متقین کیلے انعامات) قرآن پاک کا ایک عام اسلوب بیان ہے کہ جہاں گنہگاروں کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے ساتھ نیکوکاروں کا بھی بیان ہے ۔ جہاں جہنمیوں کی سزاکو بیان کیا ، وہاں جنتیوں کے انعامات کا بھی ذکر کیا گذشتہ سورة میں مکذبین کے متعلق فرمایا ، ویل یومئذ للمکذبین وہاں متقین کے متعلق فرمایا ان المتقین فی ظلل یعنی متقین نعمت کے باغوں چشموں اور سایوں میں ہوں گے۔ اس سورة میں بھی مکذبین کا حال بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے ۔ ان للمتقین مفازا بیشک متقی لوگوں کے لیے کامیابی ہے۔ مفازا فوز سے ہے جس کا معنی مراد کو پہنچنا یعنی کا میابی حاصل کرنا ہے۔ اب کامیابی کیا ہے۔ ہماری دنیوی زندگی کے لحاظ سے لوازمات زندگی کے حصول کا نام کامیابی ہے ۔ انسان کے ذہن میں کا میا بی کا نقشہ اس قسم کا آسکتا ہے کہ جسمانی طور پر تندرستی ہو۔ روحانی طور پر راحت آرام و سکون ہو ۔ اہل وعیا ل ، مال و دولت خوراک لباس غرض کہ ضروریات کی تمام اشیاء میسر ہوں ، یہی کامیابی ہے ۔ کسی قسم کا رنج وغم نہ کوئی جسمانی تکلیف ہو ، اور نہ روحانی تکلیف ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدافرما کر جنت میں داخل کیا تو فرمایا الا تجوع فیھا ولا تعری تمہیں نہ یہاں بھوک کا خطرہ ہوگا نہ پیاس کا۔ لباس نصیب ہوگا د ھوپ اور گرمی کا احساس نہ ہوگا ۔ بہترین محل بھی نصیب ہوگا ۔ یہی کا میابی ہے۔ بہشت میں پہنچنے والے ہر انسان کی کا میابی کا جو تصور قرآن پاک نے پیش کیا ہے ۔ وہ اس قسم کا ہے جس طرح اس دنیا میں کوئی بادشاہ ہوتا ہے ۔ حکومت مال و دولت محلات نو کرچاکر یہ تمام چیزیں ایک بادشاہ کو حاصل ہوتی ہیں۔ وہ ایک خود مختار حکمران ہوتا ہے ۔ جو نظام حکومت چلاتا ہے ۔ اسی طرح حضور ﷺ نے ایک عام جنتی کے متعلق فرمایا (ب 1) کہ اس کے ایک ہزار خادم ہوں گے ، جو اس کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے کمربستہ ہوں گے ۔ بعض روایات (ب 1 ترمذی ص 368) میں اسی 80000 ہزار خدام کا ذکر بھی آتا ہے ۔ عالیشان محل میسر ہوگا ۔ باغات ہوں گے اور پھر پہننے کے لیے ولباسھم فیھا حریر “ ریشم کا لباس میسر ہوگا۔ باریک موٹا ، سفید رنگین جس قسم کا کپڑاچا ہے گا ، اسے حاصل ہوگا۔ زیب وزینت کی اشیاء میں سے سونے کے کنگنوں کا ذکر آتا ہے کہ جنتیوں کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ دوسری جگہ لئولئوا “ کا ذکر ہے کہ گلے میں پہننے کے لیے بیش قمیت موتیوں کے ہار ہوں گے ۔ سورة اعراف میں اس طرح بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے دنیا میں بھی زینت کا سامان مباح فرمایا ہے ۔ مگر قیامت کو تو خالصۃ یوم القیمۃ خالص انہیں کو نصیب ہوگا ۔ برخلاف اس کے کفار زینت کے لواز مات سے محروم ہوں گے ۔ ان کے لیے دکھوں اور تکا لیف کے انبار ہوں گے اور درد ناک عذاب ہوگا۔ (تقویٰ کا مفہوم) متقی سے مراد وہ شخص ہے جو کفر وشرک سے اجتناب کرتا ہے ۔ معاصی سے بچتا ہے۔ اور دنیوی زندگی نہایت احتیاط کے ساتھ بسر کرتا ہے ۔ لفظ تقوی کے متعلق حضرت عمر ؓ اور حضرت ابی بن کعب ؓ کا مکالمہ موجودہ (ب 2 تفسیر ابن کثیرص 40 ج 1) ہے ۔ حضرت عمر ؓ نے دریافت کیا کہ تقوی کس کو کہتے ہیں تو حضرت ابی بن کعب ؓ نے جواب میں کہا اما سلکت طریقا ذاشوک کیا آپ کو کبھی ایسے راستے پر چلنے کا اتفاق نہیں ہوا جو خاردار ہو ؟ جس پر کانٹے بچھے ہوئے ہوں ۔ حضرت عمر ؓ نے کہا ، بارہا ایسا ہوا ہے میں ایسے راستوں سے گذرا ہوں حضرت ابی ؓ نے پھر پوچھا تو ایسے راستے پر آپ نے کیا کیا ۔ انہوں نے کہا شمدت واجتھدت میں اپنے دامن کو سمیٹ لیا ۔ اور بڑی احتیاط کے ساتھ وہاں سے گذرا۔ کہ کہیں میرے کپڑے کانٹوں میں الجھ جائیں ۔ تو ابی بن کعب ؓ کہنے لگے فذلک التقوی ہوئے ہیں۔ اب برائیوں سے بچ کر نکل جانا ہی تقویٰ ہے ۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک (ب 3 ترمذی ص 367 مسلم بخاری ص 960 ج 2) ہے حفت الجنۃُ بلمکارہ وحفت النار بالشھوت یعنی جنت کو مشکلات کی باڑ کے ساتھ گھیر لیا گیا ہے۔ اور دوزخ کو شہوات کی باڑ سے جو شخص ان شہوات سے بچ کر نکل گیا ، وہی متقی ہے اور جو ان شہوات میں الجھ گیا وہ پھنس گیا۔ متقی عقیدے اور عمل دونوں کے اعتبار سے ہوتا ہے ۔ تقوی ایک ایسی صفت ہے جو مومن کے لیے لازم ہے اسی لیے قرآن پاک میں جگہ جگہ حکم ہے ” یایھا الذین امنواتقوا اللہ اے ایمان والو ! اپنے اندرتقوی کی صفت پیدا کرو ۔ دل میں خوف خدا پیدا کرو ۔ کہیں فرمایا ۔ ھدی للمتقین “ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ” واتقون یاولی الا لباب “ اے عقل والو ! تقوی اختیار کرو ۔ روزہ کے بیان میں فرمایا کہ روزے تم پر اس لیے فرض کئے گئے ہیں ۔ لعلکم تتقون “ تا کہ تم متقی بن جاؤ ۔ اور اس کا فائد ہ یہ ہوگا کہ شرعی احکام کو آسانی کے ساتھ انجام دے سکوگے ۔ حضور نبی کریم صلی علیہ وسلم کے ایک صحابی سفر پر جا رہے تھے ۔ عرض کیا حضور ! زودنی مجھے کچھ توشہ عطافرمائیے ۔ توشہ سے مراد وہ نصیحت ہے جو سفر میں کام آئے حضور ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا (ب 1 ترمذی ص 497) زودک اللہ التقوی اللہ تعالیٰ تقوی کا توشہ عطا فرمائے اور جہاں تو جائے بہتری کا پائے اس کے لیے آپ نے یہ دعا فرمائی ۔ الغرض متقین وہ لوگ ہیں جو شرک کفر اور معاصی سے بچتے ہیں ۔ مشرک اور منافق کبھی متقی نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح کبیرہ گناہ کرنے والا جب تک تائب نہ ہو ، متقی نہیں ہو سکتا ۔ تقوی کی برکت سے مومن کے لیے شریعت پر کاربند ہونا آسان ہوجاتا ہے۔
Top