Mufradat-ul-Quran - Hud : 22
لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ
لَا جَرَمَ : شک نہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں هُمُ : وہ الْاَخْسَرُوْنَ : سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے
بلاشبہ یہ لوگ آخرت میں سب سب زیادہ نقصان پانیوالے ہیں۔
لَا جَرَمَ اَنَّہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ ہُمُ الْاَخْسَرُوْنَ۝ 22 جرم ( لاجرم) وقیل : جَرَمَ وجَرِمَ بمعنی، لکن خصّ بهذا الموضع «جرم» كما خصّ عمر بالقسم، وإن کان عمر وعمر «7» بمعنی، ومعناه : ليس بجرم أنّ لهم النار، تنبيها أنهم اکتسبوها بما ارتکبوه إشارة إلى قوله تعالی: وَمَنْ أَساءَ فَعَلَيْها [ الجاثية/ 15] . وقد قيل في ذلك أقوال، أكثرها ليس بمرتضی عند التحقیق «1» . وعلی ذلک قوله عزّ وجل : فَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ [ النحل/ 22] ، لا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يُسِرُّونَ وَما يُعْلِنُونَ [ النحل/ 23] ، وقال تعالی: لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] ( ج ر م ) الجرم ( ض) لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے لااصل میں محذوف پر داخل ہوا ہے جیسا کہ میں لا آتا ہے اور جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( بتقادب ) (89) لاوابیک ابنۃ العامری اور جرم فعل ماضی ہے جس کے معنی اکسبیا جنی ٰ کے ہیں اس کے بعد ان لھم النار ( جملہ ) موضع مفعول میں ہے اور معنی یہ ہیں کہ اس نے اپنے لئے ( دوزخ کی آگ ) حاصل کی ۔ بعض نے کہا ہے جرم اور جرم کے ایک ہی معنی ہیں لیکن لا کے ساتھ جرم آتا ہے جیسا کہ قسم کے ساتھ عمرو کا لفظ مختض ہے اگرچہ عمر و عمر کے معنی ایک ہی ہیں اور معنی یہ ہے کہ ان کے لئے آگ کا ہونا کسی کا جرم نہیں ہوگا بلکہ یہ ان کے عملوں کی سزا ہوگی اور انہوں نے خود ہی اسے اپنے لئے حاصل کیا ہوگا جیسا کہ آیت وَمَنْ أَساءَ فَعَلَيْها [ الجاثية/ 15] اور جو برے کام کرے گا ۔ تو ان کا ضرو اسی کو ہوگا ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس کی تفسیر میں اور بھی بہت سے اقوال منقول ہیں ۔ لیکن ان میں سے اکثر تحقیق کی رو سے صحیح نہیں ہیں اور اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا :۔ فَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ [ النحل/ 22] لا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يُسِرُّونَ وَما يُعْلِنُونَ [ النحل/ 23] تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کررہے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں خدا ضرور اس کو جانتا ہے ۔ لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] کچھ شک نہیں کہ یہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طرمضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
Top