Mufradat-ul-Quran - Ibrahim : 3
اِ۟لَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَى الْاٰخِرَةِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًا١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍۭ بَعِیْدٍ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَسْتَحِبُّوْنَ : پسند کرتے ہیں الْحَيٰوةَ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا عَلَي الْاٰخِرَةِ : آخرت پر وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے ہیں عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَيَبْغُوْنَھَا : اور اس میں ڈھونڈتے ہیں عِوَجًا : کجی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍۢ : گمراہی بَعِيْدٍ : دور
جو آخرت کی نسبت دنیا کو پسند کرتے اور (لوگوں) خدا کے راستے سے روکتے اور اس میں کجی چاہتے ہیں۔ یہ لوگ پرلے سرے کی گمراہی میں ہیں۔
الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ ۝ استحباب وحقیقة الاستحباب : أن يتحرّى الإنسان في الشیء أن يحبّه، واقتضی تعدیته ب ( علی) معنی الإيثار، وعلی هذا قوله تعالی: وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت/ 17] میں ایسا معنی تلاش کرنے کے ہیں جس کی بناء پر اس سے محبت کی جائے مگر یہ ان علی ( صلہ ) کی وجہ سے اس میں ایثار اور ترجیح کے معنی پیدا ہوگئے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت/ 17] کے معنی بھی یہ ہیں کہ انہوں نے اندھا پن کو ہدایت پہ ترجیح دی ۔ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ عوج الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال : عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، ( ع و ج ) العوج ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے : ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔
Top