Mufradat-ul-Quran - Al-Kahf : 77
فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَهْلَ قَرْیَةِ اِ۟سْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِیْهَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ١ؕ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا
فَانْطَلَقَا : پھر وہ دونوں چلے حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَآ اَتَيَآ : جب وہ دونوں آئے اَهْلَ قَرْيَةِ : ایک گاؤں والوں کے پاس اسْتَطْعَمَآ : دونوں نے کھانا مانگا اَهْلَهَا : اس کے باشندے فَاَبَوْا اَنْ : تو انہوں نے انکار کردیا کہ يُّضَيِّفُوْهُمَا : وہ ان کی ضیافت کریں فَوَجَدَا : پھر انہوں نے پائی (دیکھی) فِيْهَا جِدَارًا : اس میں (وہاں) ایک دیوار يُّرِيْدُ : وہ چاہتی تھی اَنْ يَّنْقَضَّ : کہ وہ گرپڑے فَاَقَامَهٗ : تو اس نے اسے سیدھا کردیا قَالَ : اس نے کہا لَوْ شِئْتَ : اگر تم چاہتے لَتَّخَذْتَ : لے لیتے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : اجرت
پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے، اور ان سے کھانا طلب کیا، مگر انہوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کردیا۔ پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو (جھک کر) گرا چاہتی تھی، خضرنے اس کو سیدھا کردیا (موسیٰ نے کہا) اگر آپ چاہتے تو (اس کام) کا معاوضہ لیتے (تاکہ) کھانے کا کام چلتا
فَانْطَلَقَا ۝ 0۪ حَتّٰٓي اِذَآ اَتَيَآ اَہْلَ قَرْيَـۃِۨ اسْـتَطْعَمَآ اَہْلَہَا فَاَبَوْا اَنْ يُّضَيِّفُوْہُمَا فَوَجَدَا فِـيْہَا جِدَارًا يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ ۝ 0ۭ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْہِ اَجْرًا۝ 77 طلق أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق/ 1] ، الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة/ 229] ، وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة/ 228] ، فهذا عامّ في الرّجعيّة وغیر الرّجعيّة، وقوله : وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة/ 228] ، خاصّ في الرّجعيّة، وقوله : فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ [ البقرة/ 230] ، أي : بعد البین، فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة/ 230] ، يعني الزّوج الثّاني . وَانْطَلَقَ فلانٌ: إذا مرّ متخلّفا، وقال تعالی: فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ [ القلم/ 23] ، انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات/ 29] ، وقیل للحلال : طَلْقٌ ، أي : مُطْلَقٌ لا حَظْرَ عليه، وعدا الفرس طَلْقاً أو طَلْقَيْنِ اعتبارا بتخلية سبیله . والمُطْلَقُ في الأحكام : ما لا يقع منه استثناء «2» ، وطَلَقَ يَدَهُ ، وأَطْلَقَهَا عبارةٌ عن الجود، وطَلْقُ الوجهِ ، وطَلِيقُ الوجهِ : إذا لم يكن کالحا، وطَلَّقَ السّليمُ : خَلَّاهُ الوجعُ ، قال الشاعر : 302- تُطَلِّقُهُ طوراً وطورا تراجع«3» ولیلة طَلْقَةٌ: لتخلية الإبل للماء، وقد أَطْلَقَهَا . ( ط ل ق ) ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق/ 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة/ 229] طلاق صرف دو بار ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة/ 228] اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے کے رہیں ۔ میں طلاق کا لفظ عام ہے جو رجعی اور غیر رجعی دونوں کو شامل ہے ۔ لیکن آیت کریمہ : ۔ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة/ 228] اور ان کے خاوند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ میں واپس لے لینے کا زیادہ حقدار ہونے کا حکم رجعی طلاق کے ساتھ مخصوص ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ [ البقرة/ 230] پھر اگر شوہر ( دو طلاقوں کے بعد تیسری ) طلاق عورت کو دے دے تو ۔۔۔۔ اس پہلے شوہر پر حلال نہ ہوگی ۔ میں من بعد کے یہ معنی ہیں کہ اگر بینونت یعنی عدت گزرجانے کے بعد تیسری طلاق دے ۔ تو اس کے لئے حلال نہ ہوگی تا و قتیلہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة/ 230] میں طلقھا کے معنی یہ ہیں کہ اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے وہ پہلے خاوند کے نکاح میں آنا چاہیئے کے تو ان کے دوبارہ نکاح کرلینے میں کچھ گناہ نہیں ہے ۔ انطلق فلان کے معنی چل پڑنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ ، [ القلم/ 23] تو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے : ۔ انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات/ 29] جس چیز کو تم جھٹلا یا کرتے تھے اب اسکی طرف چلو ۔ اور حلال چیز کو طلق کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے کھالینے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی ۔ عد الفرس طلقا اوطلقین گھوڑے نے آزادی سے ایک دو دوڑیں لگائیں اور فقہ کی اصطلاحی میں مطلق اس حکم کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی جزئی مخصوص نہ کی گئی ہو ۔ طلق یدہ واطلقھا اس نے اپنا ہاتھ کھول دیا ۔ طلق الوجہ اوطلیق الوجہ خندہ رو ۔ ہنس مکھ ، طلق السلیم ( مجہول ) مار گزیدہ کا صحت یاب ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) تطلقہ طورا وطور الرجع کہ وہ کبھی در د سے آرام پالیتا ہے اور کبھی وہ دور دوبارہ لوٹ آتا ہے لیلۃ طلحۃ وہ رات جس میں اونٹوں کو پانی پر وارد ہونے کے لئے آزاد دیا جائے کہ وہ گھاس کھاتے ہوئے اپنی مرضی سے چلے جائیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ الطلق الابل یعنی اس نے پانی پر وار ہونے کے لئے اونٹوں کو آزاد چھوڑدیا ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا [ الأحزاب/ 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا [ المائدة/ 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام : «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ. ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی ﷺ امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت ﷺ نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة/ 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔ أبى الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا . قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة/ 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه/ 116] ( اب ی ) الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ { وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ } [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ { وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔{ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ } [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا {إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى } [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے ضيف والضَّيْفُ : من مال إليك نازلا بك، وصارت الضِّيَافَةُ متعارفة في القری، وأصل الضَّيْفِ مصدرٌ ، ولذلک استوی فيه الواحد والجمع في عامّة کلامهم، وقد يجمع فيقال : أَضْيَافٌ ، وضُيُوفٌ ، وضِيفَانٌ. قال تعالی: ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر/ 51] ( ض ی) الضیف الضیف ۔ اصل میں اسے کہتے ہیں کو تمہارے پاس ٹھہرنے کے لئے تمہاری طرف مائل ہو مگر عرف میں ضیافت مہمان نوازی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اصل میں چونکہ یہ مصدر ہے اس لئے عام طور پر واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی اس کی جمع اضیاف وضیوف وضیفاف بھی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر/ 51] بھلا تمہارے اس ابراھیم کے مہمانوں کی خبر پہنچتی ہے ۔ جدر الجِدَار : الحائط، إلا أنّ الحائط يقال اعتبارا بالإحاطة بالمکان، والجدار يقال اعتبارا بالنتوّ والارتفاع، وجمعه جُدُر . قال تعالی: وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [ الكهف/ 82] ، وقال : جِداراً يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقامَهُ [ الكهف/ 77] ، وقال تعالی: أَوْ مِنْ وَراءِ جُدُرٍ [ الحشر/ 14] ، وفي الحدیث : «حتی يبلغ الماء الجدر» «2» ، وجَدَرْتُ الجدار : رفعته، واعتبر منه معنی النتوّ فقیل : جَدَرَ الشجر : إذا خرج ورقه كأنه حمّص، وسمي النبات الناتئ من الأرض جَدَراً ، الواحد : جَدَرَة، وأَجْدَرت الأرض : أخرجت ذلك، وجُدِرَ «3» الصبي وجُدِّرَ : إذا خرج جدريّه تشبيها بجدر الشجر . وقیل : الجُدَرِيُّ والجُدَرَةُ : سلعة تظهر في الجسد، وجمعها أَجْدَار، وشاة جَدْرَاء «4» والجَيْدَر : القصیر . اشتق ذلک من الجدار، وزید فيه حرف علی سبیل التهكم حسبما بينّاه في «أصول الاشتقاق» . والجَدِيرُ : المنتهى لانتهاء الأمر إليه انتهاء الشیء إلى الجدار، وقد جَدُرَ بکذا فهو جَدِير، وما أَجْدَرَهُ بکذا وأَجْدِرْ به . ( ج د ر ) الجدار کے معنی حائط ( دیوار ) ہی کے ہیں ۔ لیکن اس اعتبار سے کہ وہ زمین سے اونچی اور بلند ہوتی ہے اسے جدار کہا جاتا بنے اور اس اعتبار سے کہ احاطہ کئے ہوئے ہوتی ہے اسے حائط کہا جاتا ہے جدار کی جمع جدر آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [ الكهف/ 82] اور وہ جو دیوار تھی سو دو یتیم لڑکوں کی تھی ۔ جِداراً يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقامَهُ [ الكهف/ 77] ایک دیوار دیکھی جو ) جھک کر ) گرا چاہتی تھی خضر نے اس کو سیدھا کردیا ۔ أَوْ مِنْ وَراءِ جُدُرٍ [ الحشر/ 14] یا دیواروں کی اوٹ میں ۔ حدیث میں ہے جب تک کہ پانی دیواروں تک پہنچ جائے ۔ دیوار کو وانچا کردیا ۔ اور اس میں معنی ارتفاع کے اعتبار سے جدر الشجرۃ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں چنے کے دانے کی طرح درخت کے کونپل نکل آئے اسی طرح اس طرح وہ روئید گی جو زمین پر ظاہر ہو ۔ اسے جدر کہا جاتا ہے اس کا واحد جدرۃ ہے اور اجدرات الارج کے معنی ہیں زمین سبزہ زار ہوگئی ۔ جدر ( ن) الصبی وجد ر بچے کو چیچک نکل آئی ۔ یہ محاورہ درخت کے کونپل کیساتھ تشبیھا بولا جاتا ہے بعض نے کہا کہ الجدری والجدرۃ کے معنی غددویا آبلہ کے ہیں جو جسم پر ظاہر ہوتا ہے اس کی جمع اجدار ہے شاۃ جدار گو سپند آبلہ روہ ۔ الجیدر کوتاہ قدیہ بھی جدار سے مشتق ہے لیکن بطور تحکم اس میں یا زائدہ کردی گئی ہے حقارت کو ظاہر کرنے کے لئے اس میں یا بڑھا دی گئی ہے ۔ جیسا کہ ہم اپنی کتاب اصول الا شنقاق میں بیان کرچکے ہیں ۔ الجدیر ( ہنرا وار ) اس کے معنی منتہی کے ہیں ۔ کیونکہ اس تک کسی امر کی انتہا ہوتی ہے جیسا کہ دیوار تک پہنچ کر کوئی چیز کے لائق ہونے کے ہیں اس سے صیغہ صفت جدیر آتا ہے مااجدر ہ واجدربۃ ( صیغہ تعجب ) وہ اسکے لئے کس قدر زیبا ہے رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ نقض النَّقْضُ : انْتِثَارُ العَقْدِ مِنَ البِنَاءِ والحَبْلِ ، والعِقْدِ ، وهو ضِدُّ الإِبْرَامِ ، يقال : نَقَضْتُ البِنَاءَ والحَبْلَ والعِقْدَ ، وقد انْتَقَضَ انْتِقَاضاً ، والنِّقْضُ المَنْقُوضُ ، وذلک في الشِّعْر أكثرُ ، والنَّقْضُ كَذَلِكَ ، وذلک في البِنَاء أكثرُ «2» ، ومنه قيل للبعیر المهزول : نِقْضٌ ، ومُنْتَقِض الأَرْضِ من الكَمْأَةِ نِقْضٌ ، ومن نَقْضِ الحَبْل والعِقْد استُعِيرَ نَقْضُ العَهْدِ. قال تعالی: الَّذِينَ عاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ [ الأنفال/ 56] ، الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة/ 27] ، ( ن ق ض ) النقض یہ ابرام کی ضد ہے اور اس کے معنی کسی چیز کا شیزازہ بکھیرنے کے ہیں جیسے نقضت البناء عمارت کو ڈھانا الحبل رسی کے بل اتارنا العقد گرہ کھولنا النقج والنقض یہ دونوں بمعنی منقوض آتے ہیں لیکن بکسر النون زیادہ تر عمارت کے لئے آتا ہے اور بفتح النون کا عام استعمال اشعار کے متعلق ہوتا ہے اسی سے دبلے اونٹ اور زمین کی پرت کو جو کھمبی وغیرہ کے نکلنے سے پھٹ جاتی ہے نقض کہا جاتا ہے پھر نقض الحبل والعقد سے استعارہ کے طور پر عہد شکنی کے لئے بھی نقض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة/ 27] جو خدا کے اقرار کو ۔۔۔۔ توڑ دیتے ہیں ۔ اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو نہ توڑو ۔ وَلا تَنْقُضُوا الْأَيْمانَ بَعْدَ تَوْكِيدِها[ النحل/ 91] أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔
Top