Mufradat-ul-Quran - An-Noor : 16
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا١ۖۗ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ
وَلَوْلَآ : اور کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا قُلْتُمْ : تم نے کہا مَّا يَكُوْنُ : نہیں ہے لَنَآ : ہمارے لیے اَنْ نَّتَكَلَّمَ : کہ ہم کہیں بِھٰذَا : ایسی بات سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے ھٰذَا : یہ بُهْتَانٌ : بہتان عَظِيْمٌ : بڑا
اور جب تم نے اسے سنا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں شایان نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں (پروردگار) تو پاک ہے یہ تو (بہت) بڑا بہتان ہے
وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِھٰذَا۝ 0ۤۖ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِيْمٌ۝ 16 سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ تکلم ومُكالَمَةُ اللہ تعالیٰ العبد علی ضربین : أحدهما : في الدّنيا . والثاني : في الآخرة . فما في الدّنيا فعلی ما نبّه عليه بقوله : ما کان لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ الآية [ الشوری/ 51] ، وما في الآخرة ثواب للمؤمنین وکرامة لهم تخفی علینا كيفيّته، ونبّه أنه يحرم ذلک علی الکافرین بقوله : إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ [ آل عمران/ 77] . وقوله : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] جمع الکلمة، وقیل : إنهم کانوا يبدّلون الألفاظ ويغيّرونها، وقیل : إنه کان من جهة المعنی، وهو حمله علی غير ما قصد به واقتضاه، وهذا أمثل القولین، فإنّ اللفظ إذا تداولته الألسنة واشتهر يصعب تبدیله، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ لَوْلا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينا آيَةٌ [ البقرة/ 118] أي : لولا يكلّمنا اللہ مواجهة، وذلک نحو قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ إلى قوله : أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] «1» . بندے سے اللہ تعالیٰ کا ہم کلام ہونا دو قسم پر ہے یعنی یا دنیا میں اور یا آخرت میں ۔ چناچہ آیت ما کان لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُالآية [ الشوری/ 51] اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں ہے کہ خدا اس سے بات کرے مگر الہمام کے ذریعہ سے ۔۔۔۔۔ میں دنیا میں ہم کلام ہونے کا بیان ہے اور آخرت میں ثواب و کرامت کے طور پر صرف مومنین ہے ہم کلام ہوگا جس کی کیفیت ہم سے مخفی ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ [ آل عمران/ 77] کے آخر میں لاکہہ کر تنبیہ کی ہے کہ کفار اس نعمت عظمٰی سے محروم رہیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] کہ کلمات کو ان کے مقام سے بدل دیتے ہیں ۔ میں کلم کلمتہ کی جمع ہے ۔ اس آیت کی تاویل میں اختلاف ہے بعض نے کہا ہے کہ وہ الفاظ میں تبدل و تغیر کرتے تھے اور بعض نے تحریف معنوی مراد لی ہے یعنی آیت کو اس کے مقتضٰی کے خلاف معنی پر حمل کرنا یہ دوسرا قول قوی تر معلوم ہوتا ہے کیونکہ الفاظ کے مشہور اور متدادل ہونے کے بعد ان میں تبدیلی کرنا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ لَوْلا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينا آيَةٌ [ البقرة/ 118] اور جو لوگ کچھ نہیں جانتے ( یعنی مشرک ہیں ) وہ کہتے ہیں ۔ کہ خدا ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے بالمشابہ گفتگو کیوں نہیں کرتا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ إلى قوله : أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ( اے محمد ﷺ ) اہل کتاب بتم سے درخواست کرتے ہیں ۔ ہمیں خدا کو ظاہر ( یعنی آنکھوں سے دکھا دو ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ بهت قال اللہ عزّ وجل : فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة/ 258] ، أي : دهش وتحيّر، وقد بَهَتَهُ. قال عزّ وجل : هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور/ 16] أي : كذب يبهت سامعه لفظاعته . قال تعالی: وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة/ 12] ، كناية عن الزنا «2» ، وقیل : بل ذلک لکل فعل مستبشع يتعاطینه بالید والرّجل من تناول ما لا يجوز والمشي إلى ما يقبح، ويقال : جاء بالبَهِيتَةِ ، أي : بالکذب . ( ب ھ ت ) بھت ( س ) حیران وششدرہ جانا نا سے مبہوث کردیا : قرآن میں ہے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة/ 258] یہ سن کر کافر حیران رہ گیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور/ 16] یہ تو ( بہت ) بڑا بہتان ہے ۔ میں بہتان کے معنی ایسے الزام کے ہیں جسے سن کر انسان ششد ر و حیرانوی جائے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة/ 12] نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی ۔ میں بہتان زنا سے کنایہ ہے ۔ بعض نے کہا ہے نہیں بلکہ اس سے ہر وہ عمل شنیع مراد ہے جسے ہا اور پاؤں سے سر انجام دیا جائے ۔ مثلا ہاتھ سے کسی نادا چیز کو پکڑنا یا کسی عمل شنیع کا ارتکاب کرنے کے لئے اس کی طرف چل کر جانا اس نے جھوٹ بولا ۔
Top