Ashraf-ul-Hawashi - Al-Furqaan : 77
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ١ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں مَا يَعْبَؤُا : پرواہ نہیں رکھتا بِكُمْ : تمہاری رَبِّيْ : میرا رب لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ : نہ پکارو تم فَقَدْ كَذَّبْتُمْ : تو جھٹلا دیا تم نے فَسَوْفَ : پس عنقریب يَكُوْنُ : ہوگی لِزَامًا : لازمی
کہہ دو کہ اگر تم (خدا کو) نہیں پکارتے تو میرا پروردگار بھی تمہاری کچھ پروا نہیں کرتا تم نے تکذیب کی ہے تو اسکی سزا (تمہارے لئے) لازم ہوگی
قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاۗؤُكُمْ۝ 0ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا۝ 77ۧ عبأ ما عَبَأْتُ به، أي : لم أبال به، وأصله من العَبْءِ ، أي : الثّقل، كأنه قال : ما أرى له وزنا وقدرا . قال تعالی: قُلْ ما يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي[ الفرقان/ 77] ، وقیل أصله من : عَبَأْتُ الطّيبَ ، كأنه قيل : ما يبقيكم لولا دعاؤكم، وقیل : عَبَأْتُ الجیشُ ، وعَبَّأْتُهُ : هيّئته، وعَبْأَةُ الجاهليّةِ : ما هي مدّخرة في أنفسهم من حميّتهم المذکورة في قوله : فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجاهِلِيَّةِ [ الفتح/ 26] ( ع ب آ) ماعبات بہ ۔ مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں اصل میں العب کے معنی ثقل اور بوجھ کے ہیں لہذا ماعبات بہ کے معنی ہوں گے میرے نزدیک اس کا کوئی وزن نہیں یا میری نگاہ میں اس کی کچھ بھی قدروقیمت نہیں قرآن پاک میں ہے : قُلْ ما يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي[ الفرقان/ 77] کہہ دو کہ میرے پروردگار گی نگاہوں میں تمہاری کچھ بھی قدر و قیمت نہیں ۔ بعض کے نزدیک آیت کریمہ میں یعبوآ کا لفظ عبات الطیب کے محاورہ ہے مشتق ہے جس کے معنی ہیں میں نے خوشبو کو باقی رکھا ، پس آیت کے معنی یہ ہیں ۔ اگر تم اللہ کو پکارتے نہ ہوتے تو اللہ تمہیں باقی نہ چھوڑتا۔ ، ، عبات الجیش عباتہ میں نے لشکر کو تیار کیا عباۃ الجاھلیۃ زمانہ جاہلیت کی نخوت جوان کے دلوں میں رچ چکی تھی اور جسے قرآن نے آیت : فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجاهِلِيَّةِ [ الفتح/ 26] ان کے دلوں میں زمانہ جاہلیت کی سی حمیت ہی۔ میں زمانہ جاہلیت کی سی حمیت سے تعبیر کیا ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے لزم لُزُومُ الشیء : طول مكثه، ومنه يقال : لَزِمَهُيَلْزَمُهُ لُزُوماً ، والْإِلْزَامُ ضربان : إلزام بالتّسخیر من اللہ تعالی، أو من الإنسان، وإلزام بالحکم والأمر . نحو قوله : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود/ 28] ( ل ز م ) لزمہ یلزمہ لزوما کے معنی کسی چیز کا عرصہ دراز تک ایک جگہ پر ٹھہرے رہنا کے ہیں ۔ اور الزام ( افعال ) دوقسم پر ہے ایک تو الزام بالتسخیر ہے اسکی نسبت اللہ تعالیٰ اور انسان دونوں کی طرف ہوسکتی ہے اور دوسرے الزام بالحکم والامر یعنی کسی چیز کو حکما واجب کردینا جیسے فرمایا : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود/ 28] تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں ۔ اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہورہے ہو ۔
Top